سلمان خان کے باڈی گارڈ کا افسوس ناک انجام

سلمان خان اور کمال خان کے فرار ہونے کے بعد یہ رویندر پٹیل ہی تھا جس نے پولیس کو حادثے سے آگاہ کیا

سلمان خان اس وقت شراب کے نشے میں دھت گاڑی چلا رہے تھے،رویندر پٹیل،فوٹو : فائل

ممبئی کی ایک سیشن کورٹ نے گزشتہ دنوں سلمان خان کو فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے افراد پر گاڑی چڑھانے کے مقدمے میں پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی،2002ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں نور اللہ خان نامی شخص ہلاک اور چار افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ ممبئی ہائی کورٹ نے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت مکمل ہونے تک سلمان خان کی سزا معطل کر دی ہے۔

بھارت اور پاکستان میں رائج تھکا دینے والے طویل عدالتی عمل اور کمزور نظام کی وجہ سے طاقت ور لوگوں کو سزا ملنا محال ہے، یہاںسزا کی چکی میں وہی پستا ہے جو کمزور یا بے گناہ ہو۔ ہمارے جیسے ملکوں میں معاشرہ بھی طاقت ور جرائم پیشہ افراد کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے، جبکہ کمزور لوگوں کو ان کی ایمانداری کی ''سزا'' ملتی ہے۔ کچھ ایسا ہی سلوک ہندوستانی معاشرے نے سلمان خان کے باڈی گارڈ رویندر پٹیل کے ساتھ بھی کیا۔

مشکل وقت میں اس کا ساتھ دینے کے بجائے پولیس اور میڈیا نے اسے نظر انداز کر دیا، حتیٰ کہ اس کے خاندان نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ معروف ہندوستانی ویب سائٹ تہلکہ ڈاٹ کام نے کار حادثے کے بعد رویندر پٹیل کی کسمپرسی کی زندگی اور بے بسی کی موت پر ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع ساتارا (Satara) سے تعلق رکھنے والا نوجوان رویندر پٹیل ممبئی پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوا تھا۔ بعدازاں اسے کمانڈو کی تربیت دے کر اسپیشل آپریشن اسکواڈ (SOS) میں شامل کر دیا گیا، یہ اسکواڈ وی آئی پی شخصیات کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ سلمان خان نے انڈر ورلڈ سے دھمکیاں ملنے پر پولیس کو شکایت درج کرائی تھی، جس پر ممبئی پولیس نے رویندر پٹیل کو ان کا غیر مسلح باڈی گارڈ تعینات کر دیا۔

کارحادثے کے واقعے کے بعد ایک فرض شناس اور قانون پر عمل پیرا پولیس آفیسر کی طرح رویندر پٹیل نے عدالت کے کٹہرے میں گواہی دی کہ سلمان خان اس وقت شراب کے نشے میں دھت گاڑی چلا رہے تھے۔ کہا جاتا ہے یہ بیان واپس لینے کے لیے پٹیل پر بہت دبائو ڈالا گیا۔ مسلسل پانچ پیشیوں میں غیر حاضری پر پٹیل کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں اسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے ساتھ رکھا گیا۔ اس کو پولیس کی ملازمت سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ مبینہ طور پر اسے جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔


اس واقعے کے پانچ برسوں کے بعد 2007ء میں، رویندر پٹیل ممبئی کی سڑکوں پر بھکاری بنا مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دو سال سے تپ دق کے مرض میں مبتلا تھا۔ بیماری کی وجہ سے وہ اکتوبر 2007ء میں چل بسا۔ اس کی موت سے تقریباً دو ماہ قبل سلمان خان نے 'بینگ ہیومن' (Being Human) کے نام سے صحت اور تعلیم کے لیے اپنی فلاحی تنظیم قائم کی تھی۔



سلمان خان کے عدالتی بیان کے مطابق حادثے کے وقت ان کا ڈرائیور اشوک سنگھ ڈرائیونگ کر رہا تھا، جبکہ رویندر پٹیل کی گواہی اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔ اس کے مطابق،''حادثہ اس لیے پیش آیا کہ ملزم (سلمان خان) تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا اوروہ شراب کے نشے میں دھت بھی تھا، اس لیے وہ ایک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی پر اپنا کنٹرول نہ رکھ سکا۔'' رویندر پٹیل نے اپنے عدالتی بیان میں کہا: ''حادثے کے بعد مشتعل لوگوں کا ایک ہجوم ہماری گاڑی کے گرد جمع ہو گیا۔ میں نے لوگوں کو اپنا شناختی کارڈ دکھایا اور تعارف کرایا کہ میں پولیس کا آدمی ہوں، جس سے وہ پرسکون ہوگئے۔ ملزم (سلمان خان) اورکمال موقع سے فرار ہو گئے۔ میں نے گاڑی کے قریب جا کر دیکھا کہ ایک شخص بری طرح زخمی تھا،جبکہ چاردوسرے افراد بھی گاڑی کے نیچے کچلے گئے تھے۔''

سلمان خان اور کمال خان کے فرار ہونے کے بعد یہ رویندر پٹیل ہی تھا جس نے پولیس کو حادثے سے آگاہ کیا اور اس واقعے کے خلاف رپورٹ درج کرائی،یہ تورہی رویندر پٹیل کی افسوس ناک کہانی۔ اب کار حادثے میں زخمی ہونے والے محمد عبداللہ شیخ کے جذبات بھی سن لیں جو کہتے ہیں کہ ''ہم نے سلمان خان کے بارے میں بہت سی اچھی باتیں سن رکھی تھیں کہ وہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں،میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کسی دن ہمارے پاس بھی آئیں گے، ہمارے مسائل سنیں گے اور ہماری مدد کریں گے۔ لیکن یہ ایک خواب ہی رہا۔ میرا ماننا ہے کہ اس کے لوگوں کی مدد کرنے کی سب کہانیاں من گھڑت ہیں۔ پہلے پہل میں چاہتا تھا کہ بیکری میں کام کرنے والے کارکنوں کی زندگی تباہ کرنے پرسلمان خان کو سزا ہونی چاہیے لیکن آہستہ آہستہ میں نے حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا،وہ بہت بڑا آدمی ہے۔ ہم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔''

ممبئی کی سیشن عدالت نے،جس نے سلمان خان کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی، اپنے 240 صفحات پر مشتمل فیصلے میں سلمان خان کے طرز عمل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ فیصلے میں لکھا ہے: ''اگر ملزم (سلمان خان) کے مطابق وہ حادثے میں ملوث نہیں ہے، تب وہ یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن کر سکتا تھا کہ ذمہ دار ڈرائیور کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ سلمان خان نے موقع پر پولیس کے پہنچنے کا انتظار بھی نہیں کیا، بلکہ وہ گھر چلا گیا اور صبج کے ساڑھے دس بجے تک اپنے آپ کو چھپائے رکھا۔''

سلمان خان کے نامناسب رویئے کا ذکر کرتے ہوئے جج نے فیصلے میں لکھا ہے: ''اگر فی الواقع سلمان خان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی تھی، تب وہ حادثے کے فوراً بعد تھانے جا کر واقعے کی تفصیل پولیس کو لکھوا سکتا تھا۔ یہ بات بھی خاص طور پر اہم ہے کہ ملزم زخمیوں کی مدد کے لیے نہ تو ہسپتال گیا تاکہ انہیں طبی امداد پہنچائے اورنہ ہی جائے حادثہ پرپولیس کو ساتھ لے کرواپس آیا۔''
Load Next Story