اونٹنیوں کا دودھ

اونٹنیوں کا سڑکوں پر موجود ہونا اور دودھ کا بکنا فطرت کی جانب پلٹنے کی کوشش ہے۔


ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اونٹنیوں کا سڑکوں پر آنا اور اس کے دودھ کا بکنا فطرت کی جانب پلٹنے کی کوشش ہے۔ فوٹو: فائل

SEOUL: انسانوں میں سے کچھ انسانوں نے کہا کہ معاشرہ جدت کی جانب گامزن ہے۔ لوگ نت نئی چیزوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ اس لیے اِنھیں نئی چیزوں میں مگن رہنے دیا جائے۔ پیچھے کی طرف لوٹنا دقیانوسیت مانا اور سمجھا جارہا ہے۔ کیا انسان مشینی دور کا ہو کر رہ جائے گا۔



ایک استاد نے اپنے طالب علموں سے پوچھا؛ ''دنیا میں پھیلی ہوئی بیماریوں کا اور زمین کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟'' طالب علموں کے جواب مختلف تھے لیکن ایک جواب غور طلب تھا۔ انسان نے اپنی آسائش کے لیے نظام زندگی کے جب کُل پرزوں کو چھیڑنا شروع کیا تو نت نئی بیماریوں نے جنم لیا۔ زمین حادثات کا سبب بنی۔
لیکن...!

ہمارا موضوع یہ نہیں ہے۔ ایک چیز ہم گزشتہ دو سے تین ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں۔ شہر میں جا بجا اونٹنیاں کھڑی ہیں۔ جہاں اونٹنی کا دودھ بیچا جارہا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ کہیں یہ چار سو روپے کلو کے حساب سے تو کہیں یہ دو سو روپے کلو کے حساب سے بیچا جارہا ہے۔

https://twitter.com/abumiftah/status/94524173145223168

اونٹنی کا دودھ شہر کے مختلف مقامات پر پہلے بھی بیچا جاتا رہا ہے لیکن وہ دکان کی حد تک تھا۔ اب اونٹنیاں سڑکوں پر آگئی ہیں۔ آج سے کئی برس قبل مکہ اور مدینے کی وادیوں کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو وہاں اونٹنی کے دودھ کا ذکر ملتا ہے۔ آتے آتے ایک خاص زمانے کے بعد معاشرے میں جدت آگئی۔ اونٹ تو معاشرے سے غائب ہوگئے۔ برصغیر میں بھی اُونٹ کے دودھ پینے کا رواج تھا۔ لیکن جدت کی لپیٹ میں وہ بھی آگیا۔ اب اچانک اونٹنیوں کا نکل آنا کیا باور کراتا ہے؟ بے فکر رہیے میں اب آپ کو ان وہمی لوگوں کی طرح ڈرانے کا ہر گز ارادہ نہیں رکھتا۔ جو 2012ء میں دنیا کے ختم ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ جنھیں ہر بڑی آنکھوں والا شخص 'دجال' لگتا ہے۔ جنھیں بادلوں میں اور پتھروں پر اللہ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ بے فکر رہیے ایسی کوئی بات بھی آپ سے نہیں کی جائے گی۔ دراصل یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد خیال آتا ہے کہ انسان کو فطرت سے دلچسپی ہے ۔۔۔ اسے گاوں کا بہتا ہوا پانی اور سرسبز جنگلات اب بھی اچھے لگتے ہیں۔

میرا گاوں سوات بحرین ہے۔ مجھے جو لطف وہاں جا کر ملتا ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی یہاں نہیں آتا ۔۔۔ قدرت کی اس صناعی پر لوگ اکثر ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ گائے کا دودھ، مکھن اور تازہ دریا کی مچھلی۔ آپ یقین کیجیے بہترین اور منہگے ترین ریستوران کا کھانا بھی اس کے آگے ہیچ ہے۔



وہاں فطرت انسان کے بہت قریب ہے۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا کو خود میں جذب کرنا دنیا و مافیھا سے بہتر لگتا ہے۔ اسی لیے اونٹنیوں کا سڑکوں پر آنا اور ا س کے دودھ کا بکنا فطرت کی جانب پلٹنے کی کوشش ہے۔ فطرت اپنے اندر کشش تو بہرحال رکھتی ہے۔ اس لیے ذاتی طور پر مجھے یہ بہت اچھا لگا ۔۔۔ ہاں جو لوگ جدت جدت کا نعرہ لگاتے ہیں ان کی طبیعت پر یقیناً یہ گراں گزرا ہوگا۔ لیکن ہماری بلا سے ۔۔۔ گزرتا رہے۔
[poll id="410"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں