کیوبا اور امریکا کے بدلتے تعلقاتکیا برسوں بعد برف پگھل رہی ہے
کیوبا اورامریکا دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت اوردیگراعلیٰ حکام بھی عالمی پلیٹ فارم پرایک دوسرے کولعن طعن کرتے رہے ہیں
TAUNSA:
کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، سیاسی راستے پر چلنے والوں کے لیے راہ میں اتنے موڑ آتے ہیں کہ کبھی کبھی تو خود اُن کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ جو وہ سوچ بھی نہیں رہے تھے وہ ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے۔
علاقائی سیاست ہو، قومی یا بین الاقوامی سیاسی میدان، کوئی دشمن نہ ہمیشہ کے لیے دشمن رہتا ہے اور نہ کبھی کوئی دوست یا حلیف ہر وقت کسی کے ساتھ ساتھ چل سکتا ہے۔ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن آج کا دوست بننا عام بات ہے، جس کا مشاہدہ قومی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر بھی ایسی صورت حال وقوع پذیر ہوجاتی ہے۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے، کل تک جو لوگ ہتھیار اٹھائے ایک دوسرے کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہوں اور اگلے ہی دن وہ پھول لے کر ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں تو ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ کیوبا اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے عالمی منظرنامہ کشیدہ صورت حال، مخالفانہ بیان بازی، الزامات کی بوچھاڑ، دھمکیوں اور ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھنے کے دعووں کی تکرار کا عینی شاہد ہے۔
کئی دہائیوں تک کیوبا اور امریکا کو ایک دوسرے کا جانی دشمن کہا جاتا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت اور دیگر اعلیٰ حکام بھی عالمی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے رہے ہیں، لیکن رواں سال عالمی سیاست کے منظرنامے میں ایک ناقابل یقین مگر خوش گوار تصویر دکھائی دی، جب کیوبا کے صدر راؤل کاسترو اور امریکی صدر اوباما نے ایک تقریب میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کی باتیں ہوئیں۔
پناما شہر میں یہ ایک حیرت انگیز مگر بہت تاریخی موقع تھا، جب امریکی صدر اوباما اور امریکا کا بڑا مخالف سمجھے جانے والے ملک کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تو دنیا بھر کے مبصرین کو لگا جیسے تقریباً 50 سال بعد سربراہوں نے صرف ہاتھ ہی نہیں ملایا بل کہ دونوں ملکوں کے دل بھی مل گئے ہوں۔
مختلف معاملات پر اختلافات، ایک دوسرے کی مخالفت، عالمی سطح پر رونما ہونے والے کچھ واقعات پر پیدا ہونے والی کشیدگی نے کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے بہت دور کردیا تھا۔ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات ہی ختم نہیں ہوئے بل کہ دونوں حکومتیں عالمی سطح پر بھی ایک دوسرے سے بات تک کرنے کی روادار نہیں رہیں۔ مخالفانہ بیان بازی، کشیدگی اور حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے سے دور رہنے کی پالیسیوں نے امریکا اور کیوبا کو ایک دوسرے سے ذہنی طور پر بہت دور کردیا تھا، لیکن پھر صورت حال تبدیل ہوگئی۔
اوباما اور کاسترو کی اس ملاقات کو دنیا بھر کے میڈیا نے زبردست کوریج دی کیوںکہ ایک لحاظ سے یہ سب کے لیے ان ہونی تھی۔ 1959 میں اُس وقت کے نائب امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) اور اُس وقت کے کیوبا کے وزیراعظم فیڈل کاسترو کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد یہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی ملاقات تھی۔
دونوں ملکوں کے حکم رانوں نے برسوں کی کشیدگی اور تعلقات میں موجود کڑواہٹ کو محسوس کرکے یہ چاہا کہ آہستہ آہستہ اس کڑواہٹ کو اچھے تعلقات کی مٹھاس سے بدلا جائے، کیوںکہ عالمی سطح پر تنہا رہنا نہ کیوبا کے حق میں ہے نہ ہی مسلسل کشیدہ تعلقات رکھ کر امریکا کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اچھے تعلقات گذشتہ دسمبر میں اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہوانا اور واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے سفارت خانے ایک بار پھر کھل جائیں۔ اس مثبت رویے کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا۔
کیوبا اور امریکا کے تعلقات کبھی بہت اچھے نہیں رہے، برسوں کی کشیدگی، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی پالیسیوں نے دونوں ملکوں کو صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں بل کہ ذہنی طور پر بھی بہت دور کردیا ہے۔ طویل عرصے تک کیوبا کے حکم راں رہنے والے فیڈل کاسترو کے دور میں بھی یہ کشیدگی کم نہیں ہوئی، بل کہ اُس میں اضافہ ہوتا ہی دیکھا گیا۔
سپر پاور ہونے کے ناتے امریکی حکم رانوں نے بھی کبھی سنجیدگی سے یہ کوشش نہیں کی کہ وہ کیوبا سے تعلقات کو بہتر کرے، شاید انفرادی سطح پر کسی حکم راں یا حکومتی نمائندے نے مثبت انداز میں سوچا ہو، لیکن مجموعی طور پر وائٹ ہاؤس کے درودیوار نے کبھی کیوبا کے لیے کوئی اچھی بات اپنے مکینوں سے نہیں سُنی۔ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوانا اور واشنگٹن میں سوئٹزرلینڈ کے زیرانتظام موجود دفاتر ہیں۔
جہاں سے سفارتی سطح پر دونوں ممالک کا رابطہ رہتا ہے۔ 1959 میں کیوبا میں انقلاب کے بعد سے تو دونوں ملکوں کے حکم رانوں کے درمیان ملاقاتیں ناممکن ہوگئی تھیں۔1961 میں کیوبا اور سابق سوویت یونین کی بڑھتی قربت کا نتیجہ ہوانا میں امریکی سفارت خانے کے بند ہونے کی شکل میں سامنے آٰیا۔ اس کے علاوہ عالمی تقاریب میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری، تناؤ اور ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کے رویے سب کے سامنے ہیں۔
امریکا نے مخالفانہ تعلقات کی وجہ سے طویل عرصے تک کیوبا پر معاشی، اقتصادی اور مالی پابندیاں بھی لگائیں جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھی۔
گذشتہ سال دسمبر میں امریکی صدر اوباما اور کیوبا میں اُن کے ہم منصب راؤل کاسترو نے کشیدہ تعلقات کو بتدریج معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق اس اعلان کے بعد کئی ماہ تک کینیڈا اور ویٹیکن سٹی میں دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کے حوالے سے خفیہ مشاورت اور سفارت کاری کا عمل بھی جاری رہا، جس میں پوپ فرانسس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس بات کی بھی کوششیں کی گئیں اور کی جارہی ہیں کہ آئندہ دنوں میں اگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانی ہے تو امریکا اس حوالے سے کچھ موثر اقدامات کرے گا جن میں کیوبا پر عاید معاشی پابندیوں کا خاتمہ اور ہوانا میں امریکی سفارت خانے کا قیام قابل ذکر ہیں۔
1960 میں سخت کشیدگی کے بعد جب امریکا نے کیوبا پر معاشی پابندیاں عاید کیں تو دونوں ملکوں کے تعلقات تلخ سے تلخ ترین ہوتے چلے گئے۔ ان کشیدہ تعلقات کے دوران وقوع پذیر ہونے والے کچھ اہم واقعات یہ ہیں۔کیوبا میں موجود امریکا کے تمام کاروباری اثاثوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے متعلقہ کمپنیوں یا اداروں کو زرتلافی بھی نہیں دیا گیا۔
اس اقدام کے جواب میں امریکا نے ہوانا سے اپنے سفارتی تعلقات بالکل ختم کردیے اور اُس پر معاشی پابندیاں لگادیں۔1961 میں واشنگٹن سے کشیدگی کے بعد کیوبا کے حکم راں فیڈل کاسترو نے سابق سوویت یونین (روس) کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 1961 اور 1963 کے عرصے کے دوران امریکی سی آئی اے نے فیڈل کاسترو کو راستے سے ہٹانے کی کئی بار کوششیں کیں لیکن امریکی حکام ناکام رہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ کیوبا پر امریکی پابندیوں کی شدت بڑھتی گئی یہاں تک 1990 کے ابتدائی برسوں میں معاشی سطح پر امریکا نے کیوبا کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
1994 میں دونوں ملکوں کے مابین مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ طے پایا۔1996 میں جب کیوبا نے امریکی طیاروں کو گرانے کی کوشش کی تو صورت حال پھر شدید تناؤ کا شکار ہوگئی اور واشنگٹن نے کیوبا پر عاید پابندیوں کو مستقل کردیا۔ تاہم 1998 میں کیوبا میں رہنے والے امریکیوں کی جانب سے اپنے گھروں کو بھیجی جانے والی رقوم کے حوالے سے کچھ پابندیاں نرم کی گئیں۔
2001میں امریکی شہر میامی کی ایک عدالت نے کیوبا کے 5 شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں طویل قید کی سزائیں سنائیں۔ اسی سال طوفان سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کے لیے کیوبا کی درخواست پر امریکا نے خوراک اور دیگر امداد اشیاء کی کھیپ ہوانا بھجوائی۔ یہ تقریباً 40 سال بعد امریکا کی جانب سے کیوبا کو بھیجی گئی پہلی امدادی کھیپ تھی۔
مئی 2002 میں امریکا نے کیوبا پر مہلک کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام عاید کیا اور اُسے اپنی بنائی گئی دہشت گردوں کی فہرست (axis of evils) میں شامل کردیا۔ اسی سال سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے کیوبا کا خیر سگالی کا دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کیوبا پر مہلک ہتھیاروں کی تیاری کے الزامات بڑے تواتر کے ساتھ لگارہا تھا۔ 2006 میں جب طویل عرصے تک کیوبا پر حکم رانی کرنے والے فیڈل کاسترو نے عنان اقتدار اپنے بھائی راؤل کاسترو کو سونپی تو امریکی صدر بش نے کیوبا کے عوام پر زور دیا کہ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے آگے بڑھیں۔
اسی سال کے اواخر میں امریکی کانگریس کے ایک بڑے وفد نے کیوبا کا دورہ کیا جس سے لگنے لگا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان جاری محاذآرائی اور کشیدہ فضا کے بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے ہیں۔فروری 2008 میں راؤل کاسترو نے باقاعدہ طور پر کیوبا کے صدر کی ذمے داریاں سنبھال لیں، نومبر 2008 میں امریکی عوام نے اوباما کو صدر منتخب کیا۔ اپریل 2009 میں امریکی صدر اوباما نے کیوبا پر عائد کچھ پابندیاں ہٹادیں۔ اور پھر 2015میں وہ منظر بھی دنیا نے دیکھا کہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ملکوں کے سربراہ دوستانہ مصافحہ سے ایک دوسرے کو دوستی اور امن کا پیغام دے رہے تھے۔
اب کچھ ذکر کیوبا کے موجودہ کا ہوجائے۔
صدر رال کاسترو اپنی فوج کے کمانڈر انچیف بھی رہ چکے ہیں، قائم مقام صدر بن کر بھی انھوں نے کچھ عرصے کام کیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ مختلف اہم ذمے داریوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور انھیں عالمی سیاست کا کافی تجربہ ہے جب کہ وہ اچھی طرح اپنے ملک کے حالات سے بھی آگاہ ہیں۔ مختلف انٹرویوز میں راؤل کاسترو نے امریکا سے بہتر تعلقات اور دونوں ملکوں کے عوام میں خوش گوار رابطوں کے فروغ کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دوستانہ تعلقات سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔
ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے ، ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل حل نہ کرسکیں لیکن ہمیں موجودہ مسائل میں سے کچھ مسائل کو حل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ راؤل سے قبل اُن کے بھائی فیڈل کاسترو طویل عرصے تک کیوبا کے ایسے حکم راں رہے جن سے عوام بھی خوش تھے۔ فیڈل کاسترو 1959 سے 1976 تک وزیر اعظم جب کہ 1976 سے 2008 تک صدر رہے۔ اب دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہورہے ہیں تو عالمی سطح پر اس صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیا جارہا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے مختلف آراء اور تجزیے بھی سامنے آرہے ہیں۔
کشیدگی کے ماحول میں قوموں کی ترقی ہوسکتی ہے، لیکن اُس کی رفتار اتنی تیز نہیں ہوتی، کیوبا اگر سپرپاور امریکا کے ساتھ جاری مخالفانہ صورت حال کو خوش گوار تعلقات سے تبدیل کرنا چاہتا ہے اور امریکا بھی ایک عالمی طاقت ہونے کے ناتے اپنی کچھ باتوں سے پیچھے ہٹ جانے کو تیار ہے تو یہ دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے انتہائی خوشی کی بات ہونی چاہیے۔ تعلقات میں بہتری آئے گی تو کیوبا میں معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔
امریکی پابندیاں ہٹنے سے عالمی سرمایہ کاری کے مواقع کیوبا کو میسر آئیں گے اور کیوبا کے باشندوں کو بھی عالمی منظر نامے میں تنہائی کے خول سے باہر آنے میں مدد ملے گی۔
سرمایہ کاری ہوگی اور مختلف منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا تو کیوبا کے عوام کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے، جن سے اُن کی ظاہری حالت بھی بہتر ہوگی اور امریکا کی جانب سے اچھے تعلقات کی جانب پیش قدمی واشنگٹن کے دیگر اتحادیوں کو بھی کیوبا میں کام کرنے کی جانب راغب کرے گی۔ یہ سب ممکن ہے، لیک دونوں جانب سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے صرف بیانات کافی نہیں ہوں گے بل کہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، سیاسی راستے پر چلنے والوں کے لیے راہ میں اتنے موڑ آتے ہیں کہ کبھی کبھی تو خود اُن کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ جو وہ سوچ بھی نہیں رہے تھے وہ ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے۔
علاقائی سیاست ہو، قومی یا بین الاقوامی سیاسی میدان، کوئی دشمن نہ ہمیشہ کے لیے دشمن رہتا ہے اور نہ کبھی کوئی دوست یا حلیف ہر وقت کسی کے ساتھ ساتھ چل سکتا ہے۔ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن آج کا دوست بننا عام بات ہے، جس کا مشاہدہ قومی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر بھی ایسی صورت حال وقوع پذیر ہوجاتی ہے۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے، کل تک جو لوگ ہتھیار اٹھائے ایک دوسرے کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہوں اور اگلے ہی دن وہ پھول لے کر ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں تو ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ کیوبا اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے عالمی منظرنامہ کشیدہ صورت حال، مخالفانہ بیان بازی، الزامات کی بوچھاڑ، دھمکیوں اور ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھنے کے دعووں کی تکرار کا عینی شاہد ہے۔
کئی دہائیوں تک کیوبا اور امریکا کو ایک دوسرے کا جانی دشمن کہا جاتا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت اور دیگر اعلیٰ حکام بھی عالمی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے رہے ہیں، لیکن رواں سال عالمی سیاست کے منظرنامے میں ایک ناقابل یقین مگر خوش گوار تصویر دکھائی دی، جب کیوبا کے صدر راؤل کاسترو اور امریکی صدر اوباما نے ایک تقریب میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کی باتیں ہوئیں۔
پناما شہر میں یہ ایک حیرت انگیز مگر بہت تاریخی موقع تھا، جب امریکی صدر اوباما اور امریکا کا بڑا مخالف سمجھے جانے والے ملک کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تو دنیا بھر کے مبصرین کو لگا جیسے تقریباً 50 سال بعد سربراہوں نے صرف ہاتھ ہی نہیں ملایا بل کہ دونوں ملکوں کے دل بھی مل گئے ہوں۔
مختلف معاملات پر اختلافات، ایک دوسرے کی مخالفت، عالمی سطح پر رونما ہونے والے کچھ واقعات پر پیدا ہونے والی کشیدگی نے کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے بہت دور کردیا تھا۔ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات ہی ختم نہیں ہوئے بل کہ دونوں حکومتیں عالمی سطح پر بھی ایک دوسرے سے بات تک کرنے کی روادار نہیں رہیں۔ مخالفانہ بیان بازی، کشیدگی اور حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے سے دور رہنے کی پالیسیوں نے امریکا اور کیوبا کو ایک دوسرے سے ذہنی طور پر بہت دور کردیا تھا، لیکن پھر صورت حال تبدیل ہوگئی۔
اوباما اور کاسترو کی اس ملاقات کو دنیا بھر کے میڈیا نے زبردست کوریج دی کیوںکہ ایک لحاظ سے یہ سب کے لیے ان ہونی تھی۔ 1959 میں اُس وقت کے نائب امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) اور اُس وقت کے کیوبا کے وزیراعظم فیڈل کاسترو کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد یہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی ملاقات تھی۔
دونوں ملکوں کے حکم رانوں نے برسوں کی کشیدگی اور تعلقات میں موجود کڑواہٹ کو محسوس کرکے یہ چاہا کہ آہستہ آہستہ اس کڑواہٹ کو اچھے تعلقات کی مٹھاس سے بدلا جائے، کیوںکہ عالمی سطح پر تنہا رہنا نہ کیوبا کے حق میں ہے نہ ہی مسلسل کشیدہ تعلقات رکھ کر امریکا کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اچھے تعلقات گذشتہ دسمبر میں اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہوانا اور واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے سفارت خانے ایک بار پھر کھل جائیں۔ اس مثبت رویے کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا۔
کیوبا اور امریکا کے تعلقات کبھی بہت اچھے نہیں رہے، برسوں کی کشیدگی، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی پالیسیوں نے دونوں ملکوں کو صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں بل کہ ذہنی طور پر بھی بہت دور کردیا ہے۔ طویل عرصے تک کیوبا کے حکم راں رہنے والے فیڈل کاسترو کے دور میں بھی یہ کشیدگی کم نہیں ہوئی، بل کہ اُس میں اضافہ ہوتا ہی دیکھا گیا۔
سپر پاور ہونے کے ناتے امریکی حکم رانوں نے بھی کبھی سنجیدگی سے یہ کوشش نہیں کی کہ وہ کیوبا سے تعلقات کو بہتر کرے، شاید انفرادی سطح پر کسی حکم راں یا حکومتی نمائندے نے مثبت انداز میں سوچا ہو، لیکن مجموعی طور پر وائٹ ہاؤس کے درودیوار نے کبھی کیوبا کے لیے کوئی اچھی بات اپنے مکینوں سے نہیں سُنی۔ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوانا اور واشنگٹن میں سوئٹزرلینڈ کے زیرانتظام موجود دفاتر ہیں۔
جہاں سے سفارتی سطح پر دونوں ممالک کا رابطہ رہتا ہے۔ 1959 میں کیوبا میں انقلاب کے بعد سے تو دونوں ملکوں کے حکم رانوں کے درمیان ملاقاتیں ناممکن ہوگئی تھیں۔1961 میں کیوبا اور سابق سوویت یونین کی بڑھتی قربت کا نتیجہ ہوانا میں امریکی سفارت خانے کے بند ہونے کی شکل میں سامنے آٰیا۔ اس کے علاوہ عالمی تقاریب میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری، تناؤ اور ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کے رویے سب کے سامنے ہیں۔
امریکا نے مخالفانہ تعلقات کی وجہ سے طویل عرصے تک کیوبا پر معاشی، اقتصادی اور مالی پابندیاں بھی لگائیں جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھی۔
گذشتہ سال دسمبر میں امریکی صدر اوباما اور کیوبا میں اُن کے ہم منصب راؤل کاسترو نے کشیدہ تعلقات کو بتدریج معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق اس اعلان کے بعد کئی ماہ تک کینیڈا اور ویٹیکن سٹی میں دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کے حوالے سے خفیہ مشاورت اور سفارت کاری کا عمل بھی جاری رہا، جس میں پوپ فرانسس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس بات کی بھی کوششیں کی گئیں اور کی جارہی ہیں کہ آئندہ دنوں میں اگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانی ہے تو امریکا اس حوالے سے کچھ موثر اقدامات کرے گا جن میں کیوبا پر عاید معاشی پابندیوں کا خاتمہ اور ہوانا میں امریکی سفارت خانے کا قیام قابل ذکر ہیں۔
1960 میں سخت کشیدگی کے بعد جب امریکا نے کیوبا پر معاشی پابندیاں عاید کیں تو دونوں ملکوں کے تعلقات تلخ سے تلخ ترین ہوتے چلے گئے۔ ان کشیدہ تعلقات کے دوران وقوع پذیر ہونے والے کچھ اہم واقعات یہ ہیں۔کیوبا میں موجود امریکا کے تمام کاروباری اثاثوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے متعلقہ کمپنیوں یا اداروں کو زرتلافی بھی نہیں دیا گیا۔
اس اقدام کے جواب میں امریکا نے ہوانا سے اپنے سفارتی تعلقات بالکل ختم کردیے اور اُس پر معاشی پابندیاں لگادیں۔1961 میں واشنگٹن سے کشیدگی کے بعد کیوبا کے حکم راں فیڈل کاسترو نے سابق سوویت یونین (روس) کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 1961 اور 1963 کے عرصے کے دوران امریکی سی آئی اے نے فیڈل کاسترو کو راستے سے ہٹانے کی کئی بار کوششیں کیں لیکن امریکی حکام ناکام رہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ کیوبا پر امریکی پابندیوں کی شدت بڑھتی گئی یہاں تک 1990 کے ابتدائی برسوں میں معاشی سطح پر امریکا نے کیوبا کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
1994 میں دونوں ملکوں کے مابین مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ طے پایا۔1996 میں جب کیوبا نے امریکی طیاروں کو گرانے کی کوشش کی تو صورت حال پھر شدید تناؤ کا شکار ہوگئی اور واشنگٹن نے کیوبا پر عاید پابندیوں کو مستقل کردیا۔ تاہم 1998 میں کیوبا میں رہنے والے امریکیوں کی جانب سے اپنے گھروں کو بھیجی جانے والی رقوم کے حوالے سے کچھ پابندیاں نرم کی گئیں۔
2001میں امریکی شہر میامی کی ایک عدالت نے کیوبا کے 5 شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں طویل قید کی سزائیں سنائیں۔ اسی سال طوفان سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کے لیے کیوبا کی درخواست پر امریکا نے خوراک اور دیگر امداد اشیاء کی کھیپ ہوانا بھجوائی۔ یہ تقریباً 40 سال بعد امریکا کی جانب سے کیوبا کو بھیجی گئی پہلی امدادی کھیپ تھی۔
مئی 2002 میں امریکا نے کیوبا پر مہلک کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام عاید کیا اور اُسے اپنی بنائی گئی دہشت گردوں کی فہرست (axis of evils) میں شامل کردیا۔ اسی سال سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے کیوبا کا خیر سگالی کا دورہ کیا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کیوبا پر مہلک ہتھیاروں کی تیاری کے الزامات بڑے تواتر کے ساتھ لگارہا تھا۔ 2006 میں جب طویل عرصے تک کیوبا پر حکم رانی کرنے والے فیڈل کاسترو نے عنان اقتدار اپنے بھائی راؤل کاسترو کو سونپی تو امریکی صدر بش نے کیوبا کے عوام پر زور دیا کہ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے آگے بڑھیں۔
اسی سال کے اواخر میں امریکی کانگریس کے ایک بڑے وفد نے کیوبا کا دورہ کیا جس سے لگنے لگا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان جاری محاذآرائی اور کشیدہ فضا کے بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے ہیں۔فروری 2008 میں راؤل کاسترو نے باقاعدہ طور پر کیوبا کے صدر کی ذمے داریاں سنبھال لیں، نومبر 2008 میں امریکی عوام نے اوباما کو صدر منتخب کیا۔ اپریل 2009 میں امریکی صدر اوباما نے کیوبا پر عائد کچھ پابندیاں ہٹادیں۔ اور پھر 2015میں وہ منظر بھی دنیا نے دیکھا کہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ملکوں کے سربراہ دوستانہ مصافحہ سے ایک دوسرے کو دوستی اور امن کا پیغام دے رہے تھے۔
اب کچھ ذکر کیوبا کے موجودہ کا ہوجائے۔
صدر رال کاسترو اپنی فوج کے کمانڈر انچیف بھی رہ چکے ہیں، قائم مقام صدر بن کر بھی انھوں نے کچھ عرصے کام کیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ مختلف اہم ذمے داریوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور انھیں عالمی سیاست کا کافی تجربہ ہے جب کہ وہ اچھی طرح اپنے ملک کے حالات سے بھی آگاہ ہیں۔ مختلف انٹرویوز میں راؤل کاسترو نے امریکا سے بہتر تعلقات اور دونوں ملکوں کے عوام میں خوش گوار رابطوں کے فروغ کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دوستانہ تعلقات سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔
ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے ، ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل حل نہ کرسکیں لیکن ہمیں موجودہ مسائل میں سے کچھ مسائل کو حل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ راؤل سے قبل اُن کے بھائی فیڈل کاسترو طویل عرصے تک کیوبا کے ایسے حکم راں رہے جن سے عوام بھی خوش تھے۔ فیڈل کاسترو 1959 سے 1976 تک وزیر اعظم جب کہ 1976 سے 2008 تک صدر رہے۔ اب دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہورہے ہیں تو عالمی سطح پر اس صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیا جارہا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے مختلف آراء اور تجزیے بھی سامنے آرہے ہیں۔
کشیدگی کے ماحول میں قوموں کی ترقی ہوسکتی ہے، لیکن اُس کی رفتار اتنی تیز نہیں ہوتی، کیوبا اگر سپرپاور امریکا کے ساتھ جاری مخالفانہ صورت حال کو خوش گوار تعلقات سے تبدیل کرنا چاہتا ہے اور امریکا بھی ایک عالمی طاقت ہونے کے ناتے اپنی کچھ باتوں سے پیچھے ہٹ جانے کو تیار ہے تو یہ دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے انتہائی خوشی کی بات ہونی چاہیے۔ تعلقات میں بہتری آئے گی تو کیوبا میں معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔
امریکی پابندیاں ہٹنے سے عالمی سرمایہ کاری کے مواقع کیوبا کو میسر آئیں گے اور کیوبا کے باشندوں کو بھی عالمی منظر نامے میں تنہائی کے خول سے باہر آنے میں مدد ملے گی۔
سرمایہ کاری ہوگی اور مختلف منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا تو کیوبا کے عوام کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے، جن سے اُن کی ظاہری حالت بھی بہتر ہوگی اور امریکا کی جانب سے اچھے تعلقات کی جانب پیش قدمی واشنگٹن کے دیگر اتحادیوں کو بھی کیوبا میں کام کرنے کی جانب راغب کرے گی۔ یہ سب ممکن ہے، لیک دونوں جانب سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے صرف بیانات کافی نہیں ہوں گے بل کہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔