ایک دکھیاریجس کی اولاد نے اسے ماں ماننے سے انکارکردیا
شعیب کہتی ہیں کہ اس عرصے میں انہوں نے پہلی بار کسی کو یوں اپنی ماں کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے دیکھا،بانی اولڈ ہوم
اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے!
قلملے کر جب بھی کسی دکھ یا کسی جدوجہد کو رقم کرنے نکلتا ہوں۔۔۔ اور اپنے تئیں کچھ تلخ حقیقتوں کو قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔ تو کبھی کبھی یہ احساس کسی ندامت کی طرح آ لیتا ہے۔۔۔ کہ پھر نکل چلے بس اپنے اخبار کا پیٹ بھرنے۔۔۔ بس صفحے کے صفحے سیاہ کرنے ہیں پھر کسی کی باتوں سے۔۔۔
نہیں۔۔۔! یہ کوئی رسم تو نہیں ہے، جو محض خانہ پری کے لیے کی جائے، یہ ایک ایسی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے، جو مکمل سماجی احساس لیے ہوئے ہے۔ آج پھر ہمارے ہی سماج کی ایک ماں کی کتھا۔۔۔ جو اپنی اولاد کے پاس جانے کے لیے بلک رہی ہے۔۔۔ منت سماجت کرتی ہے، ہاتھ جوڑتی ہے۔ اس کی باتیں محض باتیں تو نہیں، کہ پڑھیں اور پھر بھلا ڈالیں۔۔۔ یہ کڑوی حقیقت ہے۔۔۔ نوحہ ہے احساس سے عاری ہونے والی آدمیت کا۔۔۔ تنبیہہ ہے، ماں کو بھولی ہوئی اولاد کے لیے۔۔۔ فکر ہے۔
تار تار ہوتی اس مشرقیت اور اس خاندانی نظام کی۔۔۔ اور ایک امید ہے انتظار کی سولی پر لٹکی اس ماں کی، کہ شاید راہ تکتی اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اپنی اولاد کی دید کے صدقے کچھ تراوٹ حاصل کر لیں۔۔۔ اور اس کی مامتا ٹھنڈی ہو۔۔۔ آج کے دن کا مقصد بھی یہ ہونا چاہیے کہ سب اپنی مائوں کی قدر کریں۔۔۔ اور اپنے اردگرد بے قدروں کو بھی جھنجھوڑیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔
''میری بیٹی کا فون آیا ہے؟''
''اُسے کہنا کہ مجھے آکے لے جائے۔۔۔!''
''میں یہاں تڑپ رہی ہوں۔۔۔ اُس نے مجھے ایک بار بھی فون نہیں کیا۔۔۔ ''
''بیٹا۔۔۔اُس سے کہو، مجھے آ کے لے جائیں!''
''بڑی مہربانی ہو گی بیٹے، مجھے گھر پہنچا دوگے تو۔۔۔''
''مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔ بس مجھے میرے گھر لے چلو۔۔۔''
''تم بھی ساتھ چلنا اور قائل کرنا کہ تم نے اپنی ماں کو چھوڑا ہوا ہے۔۔۔!''
یہ ایک ایسی ماں کی گریہ و زاری ہے۔۔۔ جس نے پانچ بچوں کو جنم دیا۔۔۔ اس کے وہی لخت جگر جنہیں تب نہ کھانے کی ہوش تھی اور نہ پینے کی۔۔۔ اچھے کا پتا تھا نہ برے کی تمیز۔۔۔ اُس وقت ان کی ہر تکلیف کو خود پر جھیلنے والی ماں نے ان کی بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ ان کی پرورش کی۔۔۔ پھر سب بچے بڑے ہو گئے۔۔۔ پڑھ لکھ گئے۔۔۔ بیاہے گئے، اور پھر خود بال بچے والے ہو گئے۔۔۔
اولاد خود والدین کے مرتبے پر فائز ہو تو توقع رکھی جاتی ہے اب اسے اپنے والدین کے درست مقام کا احساس ہوگا۔۔۔ ان کی قدرومنزلت میں مزید اضافہ ہوگا، مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔۔۔ بدنصیب ماں ''ف'' اکیلی رہ گئی اور آج کراچی میں ''بنت فاطمہ اولڈ ہوم'' میں اپنی اولاد کے لیے ریت پر پڑی کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہے۔
''ف'' کا ایک جوان بیٹا دہشت گردی کی نذر ہوا۔۔۔ اور اس بوڑھی ماں پر قیامت سی ٹوٹ پڑی۔۔۔ کچھ عرصے بعد شوہر بھی داغ مفارقت دے گئے، تو گویا اس کی دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔۔۔ ''ف'' بتاتی ہیں کہ میں بیٹی کے گھر میں پڑی ہوئی روتی رہتی تھی، جس سے سب لوگ بہت تنگ ہوتے۔ بالخصوص بیٹی کی نندیں بہت زیادہ برا مناتی تھیں۔ بیٹی کہتی کہ ہنسا بولا کیجیے، اب جس کا جوان بیٹا مر جائے، وہ کس کلیجے سے ہنسے بولے۔
ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔۔۔ بیٹی اپنی ملازمت میں مصروف رہتی۔۔۔ ایک دن بیٹی نے کہا کہ آپ کو ایک جگہ لے جاتے ہیں، وہاں جانے سے آپ کا ماحول تبدیل ہو گا، طبیعت بہل جائے گی۔ وہاں آپ کا خیال رکھا جائے گے۔۔۔ آپ ہنسیں بولیں گی۔ مرتی کیا نہ کرتی ''ف'' بیٹی کے ساتھ ہو لی۔۔۔ آخر ایک ماں تھی، اور ماں کو تو اپنی اولاد پر بہت مان ہوا کرتا ہے، کہ یہ اس کی اپنی اولاد ہے۔۔۔
سگی بیٹی نے ستم یہ بھی کیا کہ ماں کو یہ کہہ دیا کہ میں وہاں آپ کو اپنی خالہ ظاہر کروں گی، اگر یہ بتایا کہ آپ میری ماں ہیں، تو وہ رکھیں گے نہیں۔ چوں کہ ''فاطمہ اولڈ ایج ہوم'' کی سربراہ مسز فرزانہ شعیب بوڑھی مائوں کو چھوڑنے والی اولاد کو سمجھاتی ہیں اور پھر وہ شرمندہ ہو کر انہیں واپس لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس بدنصیب بیٹی نے اپنی سگی ماں کو خود سے الگ کرنے کے لیے اسے ماں ماننے انکار کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کی۔۔۔ یہاں آکر کہا کہ خالہ کی اولاد انہیں پوچھتی نہیں۔۔۔ جب احساس دلایا کہ خالہ بھی تو ماں کی طرح ہوتی ہیں، تو عذر کیا کہ میں تو سسرال میں رہتی ہوں۔
اس لیے کافی مسئلے مسائل ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد جب ''ف'' نے اپنی بیٹی کا نام لے کر رونا شروع کیا، تب جا کر یہ عُقدہ کھلا کہ دراصل ان کی بیٹی غلط بیانی کر کے انہیں یہاں چھوڑ گئی ہے۔ اس دوران ''ف'' کی بہن کا دبئی سے فون آیا، تو انہوں نے تصدیق کی کہ انہیں یہاں چھوڑ کر جانے والی ''ف'' کی بھانجی نہیں سگی بیٹی ہی ہے! اس کے بعد جب ایک بار بیٹی کا فون آیا، تو اس نے ''ف'' کو خالہ کہنے پر ہی اصرار کیا، جب اسے بتایا کہ تمہاری خالہ کا دبئی سے فون آیا تھا، انہوں نے سب بتا دیا ہے کہ یہ تمہاری ماں ہیں۔
تب جا کر اس نے مانا اور ماں کو نہ رکھنے کے لیے ''مجبوریوں'' کا عذر کیا کہ حالات اچھے نہیں۔۔۔ حالاں کہ بیٹی کا پہناوا اور حلیہ اپنے آپ بتا رہا تھا کہ اس کی نام نہاد مجبوری میں کس قدر ''سچائی'' ہے۔ویسے بھی کسی اولاد کے سامنے دنیا کی ایسی کون سی مجبوریاں ہو سکتی ہیں کہ وہ ماں جیسے رشتے سے انکار ہی کر دے!
''ف'' کی پیدایش ہندوستانی ریاست رام پور کی ہے، شوہر کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔۔۔ جو یہاں ایک مشہور طبی دواخانے میں ملازم رہے۔۔۔ پھر کچھ وجوہات کی بنا پر 12 برس لاہور میں بھی گزارے۔۔۔ اس دوران وہ کراچی میں شوہر کے غم میں ہلکان ہوتی رہیں۔۔۔
کچھ عمر کا تقاضا اور کچھ صدموں کی بہتات، کہ اب ''ف'' کی یادداشت بھی کچھ بھٹک سی جاتی ہے۔ اپنے پانچ بچوں میں کبھی تین بیٹے اور دو بیٹیاں شمار کرتی ہیں، تو کبھی دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا کویت اور ایک بیٹی لندن میں ہے۔۔۔ ''ف'' بتاتی ہیں کہ ان کا بڑا نواسا 16 برس کا ہے، جب کہ بڑے پوتے کی عمر 12 سال کے قریب ہو گی۔
چھوٹے پوتے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب اس کے گھرمیں تھی تو وہ میرے قریب رہتا تھا۔۔۔ میری انگلی پکڑ کر چلتا تھا۔ میں اپنے بچوں کے لیے تڑپتی ہوں۔ اُن سے بات کر کے بہت سکون ملتا ہے، میں چاہتی ہوںکہ وہ آئیں، مجھ سے ملیں، میرے پاس بیٹھیں، اپنے بچوں کا حال بتائیں۔
نصف گھنٹے کی ملاقات میں ''ف'' نے گھر واپسی کی خواہش سے ہی بات شروع کی اور اسی پر گفتگو تمام کی۔۔۔ ہر آہٹ پر ہی شاید انہیں اپنی اولاد کی چاپ سنائی دیتی ہے۔۔۔ ہمیں دیکھتے ہی گویا ہوئیں 'آپ مجھے لینے آئے ہیں نا۔۔۔میں ابھی یہی دعا مانگ رہی تھی، آپ آئے تو میں سمجھی کہ بیٹی کا فون آگیا۔۔۔' دوران گفتگو کم سے کم سات، آٹھ بار انہوں نے گھر واپس لے جانے کا ذکر کیا۔
کبھی امید اور خواہش کے انداز میں، کبھی دست شفقت رکھتے ہوئے۔۔۔ کبھی جھولی پھیلا کر دعائیں دیتے ہوئے۔۔۔ تو کبھی کسی بے بس و لاچار مظلوم کی طرح ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہ کسی طرح مجھے میری بیٹی کے گھر لے چلو۔۔۔ تو کبھی کسی پہلو چین نہ پانے والی ''ف'' کسی معصوم بچے کی طرح امید و بیم کے انداز میں استفسار کرتیں ''آپ مجھے میرے گھر لے جائیں گے نا۔۔۔؟''
اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ''ف'' کہتی ہیں کہ ماں باپ کس مان سے اولاد کو پالتے پوستے ہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ بڑھاپے میں اپنے ماں باپ کو جہاں جی چاہے لے جا کر پھینک آئو۔ ''ف'' کی ہر اولاد ہی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہے، مگر بد نصیب ایسی کہ کوئی ایک بھی اپنی ماں کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
مامتا درحقیقت کس جذبے کو کہتے ہیں، ''ف'' سے مل کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بیٹی جو اسے ماں کہنے سے منکر ہوئی اور دو مہینوں میں کبھی فون پر بھی بات کرنا گوارا نہیں کی۔ وہ ماں ایک لمحے کو اس کی نافرمانی اور چھوڑے جانے پر سراپا احتجاج اور نوحہ کناں ہوتی ہے۔۔۔ تو اگلے ہی لمحے اپنے دل میں اس امید کا دیپ بھی روشن کرتی ہے، کہ تم اسے فون تو کرو اور کہو تو سہی، وہ لینے آجائے گی مجھے۔۔۔ تم گھر لے تو چلو، اب وہ رکھ لے گی مجھے اور اتنے دن بعد جائوں گی، تو اب وہ میرا خیال بھی رکھے گی۔
جب ان سے پوچھا کہ اگر بیٹی نے اپنے پاس ہی رکھنا ہوتا، تو وہ آپ کو چھوڑ کر ہی کیوں جاتی؟ بیٹی کے اس جرم کے لیے بھی یہ ماں صفائیاں دینے لگتی ہے کہ ''اسے یہ خبر نہیں تھی کہ یہاں میں روتی رہوں گی، وہ تو مجھے یہاں آرام اور ماحول کی تبدیلی کے لیے چھوڑ کر گئی تھی۔''
''میں نے اپنی ماں کا بہت خیال رکھا''
''ف'' سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ یہ تو بتائیے کہ آپ کی ماں آپ سے خوش تھیں؟ تو انہوں نے کہا میں نے اپنی ماں کا بہت خیال رکھا۔ ''ف'' تین بہن اور دوبھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ایک بھائی سعودی ہوائی کمپنی میں تھے۔ کہتی ہیں کہ والدہ بالکل میری جیسی تھیں، مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، وہ بالکل میرے ہاتھوں میں رہتی تھیں۔ میں اپنی ماں کا ہر حکم بجالاتی، ان کے سارے کام کرتی تھی۔
''کیا بیٹی میری میت ہی لے کر جائے گی؟''
''میں اپنی باقی عمر گھر میں گزارنا چاہتی ہوں، یہاں اولاد کے انتظار میں ختم ہو رہی ہوں۔۔۔ کیا بیٹی یہاں سے میری میت ہی لے کر جائے گی؟ میرا رواں رواں لرز رہا ہے۔۔۔ تم بھی تو کسی کی اولاد ہو گے بیٹا۔۔۔ اپنے ماں، باپ کی قدر کرنا اور لوگوں کو یہ بتانا کہ دیکھو ایک ماں کے ساتھ اس کی اولاد نے کیسا سلوک کیا ہے، تاکہ نافرمان اولادیں شرمندہ ہوں۔''
''یہاں ایک ماں ایسی بھی ہے''
بنت فاطمہ اولڈ ہوم کی بانی و سرپرست مسز فرزانہ شعیب نے بتایا کہ یہاں ایک ماں ایسی بھی ہیں، جس کے سات بچے ہیں۔ سب بیرون ملک مقیم ہیں، سوائے ایک بیٹے کے۔۔۔ وہ بیٹا معذور ہے اور کسی مزار پر رہتا ہے۔۔۔ اس ماں کے کسی بچے کے حصے میں کوئی جائیداد آئی اورکسی کے پاس کچھ، لیکن اس بیٹے کے حصے میں ماں آئی۔ اس کی ماں، ماں ہے۔
ہفتے میں دو، تین بار لازمی فون کرتا ہے اور ہر 10، 15 روز میں ماں سے ملنے بھی آتا ہے۔ ''امی جان، امی جان'' کرتا ہوا کتنی دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہتا ہے، ان کے ہاتھ، پائوں چومتا ہے۔ دوسری طرف کہاں اسی کے بہن، بھائی ہیں جو بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور اتنے مصروف ہیں کہ کبھی پلٹ کر اپنی ماں کی خبر بھی نہیں لیتے۔
پہلی بار کسی کو ماں سے انکار کرتے ہوئے دیکھا، مسز فرزانہ
بنت فاطمہ اولڈ ہوم کو قائم ہوئے نو برس بیت چکے ہیں۔ اولڈ ہوم کی بانی مسز فرزانہ شعیب کہتی ہیں کہ اس عرصے میں انہوں نے پہلی بار کسی کو یوں اپنی ماں کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے دیکھا۔ جب بھی کوئی کسی کو یہاں چھوڑنے آتا ہے، تو میں اس سے اس کا رشتہ ضرور پوچھتی ہوں۔ ''ف'' کی بیٹی نے انہیں اپنی خالہ قرار دیا اور کوئی اخراجات ادا نہیں کیے، بلکہ واضح طور پر کہا کہ آپ انہیں زکوٰۃ پر رکھ لیں۔ اس وقت ان کی حالت بہت خراب تھی۔ ہاتھ اور پیر کے ناخن بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے، کپڑے بھی بے حد گندے تھے۔
یہاں انہیں نہلایا دھلایا اور صاف کپڑے دیے گئے۔ جب ''ف'' کی بیٹی انہیں یہاں لائی، تب بھی ''ف'' انہیں بیٹی کہہ کر پکار رہی تھیں، جب ہم نے استفسار کیا کہ یہ تو آپ کو بیٹی کہہ رہی ہیں، تو اس نے کہا کہ خالہ 10 سال سے میرے پاس ہیں، اس لیے یہ بیٹی کہتی ہیں۔ ''ف'' کا فارم بھرتے ہوئے بھی ہم نے ''ف'' کے شوہر اور ان کی بیٹی کے باپ کی مماثلت پر سوال کیا، تب بھی وہ اپنے انکار پر قائم رہی۔ ہم نے کہا کہ جب ذرایع اِبلاغ کے لوگ آئیں گے، تو ہم انہیں پوشیدہ نہیں رکھیں گے۔
اس پربیٹی نے بے نیازی سے کہا کہ آپ جہاں چاہیں لے جائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بیٹی دو ماہ پہلے ''ف'' کو چھوڑ کر گئی پھر یہ تک دیکھنے نہ آئی کہ دیکھے تو سہی کہ اس کی ماں یہاں کیسے رہ رہی ہیں۔ انسان کو تو اپنے جانوروں سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ کیسے لوگ ہیں، جواپنی ماؤں کے ساتھ ایسا ظلم کرتے ہیں۔۔۔ ماں کے سامنے ہی ماں کو ماں ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ یہ ماں کا حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کا جگر گوشہ اس کے سامنے اس سے اپنے رشتے کی ڈور کاٹ رہا ہے۔
''ہم بے اولاد ہی اچھے!''
بنت فاطمہ اولڈ ہوم میں بہت سی اولاد کی ستائی ہوئی مائیں موجود ہیں، تو دوسری طرف بے سہارا اور بے اولاد خواتین بھی ہیں۔ بے اولاد خواتین جب سماج میں اولاد کے ہاتھوں زخموں سے چور خواتین کا حال دیکھتی ہیں، تو کہتی ہیں کہ اگر اولاد ایسی ہوتی ہے، تو پھر ہم بے اولاد ہی اچھے ہیں۔۔۔! کم سے کم اولاد کی بے وفائی اور نافرمانی کا دکھ تو نہیں ہے، یہ شکایت تو نہیں ہے کہ ہماری اولاد عین بڑھاپے میں ہمارا سہارا بننے کے بہ جائے ہمیں جیتے جی خود سے دور چھوڑ آئی۔
قلملے کر جب بھی کسی دکھ یا کسی جدوجہد کو رقم کرنے نکلتا ہوں۔۔۔ اور اپنے تئیں کچھ تلخ حقیقتوں کو قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔ تو کبھی کبھی یہ احساس کسی ندامت کی طرح آ لیتا ہے۔۔۔ کہ پھر نکل چلے بس اپنے اخبار کا پیٹ بھرنے۔۔۔ بس صفحے کے صفحے سیاہ کرنے ہیں پھر کسی کی باتوں سے۔۔۔
نہیں۔۔۔! یہ کوئی رسم تو نہیں ہے، جو محض خانہ پری کے لیے کی جائے، یہ ایک ایسی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے، جو مکمل سماجی احساس لیے ہوئے ہے۔ آج پھر ہمارے ہی سماج کی ایک ماں کی کتھا۔۔۔ جو اپنی اولاد کے پاس جانے کے لیے بلک رہی ہے۔۔۔ منت سماجت کرتی ہے، ہاتھ جوڑتی ہے۔ اس کی باتیں محض باتیں تو نہیں، کہ پڑھیں اور پھر بھلا ڈالیں۔۔۔ یہ کڑوی حقیقت ہے۔۔۔ نوحہ ہے احساس سے عاری ہونے والی آدمیت کا۔۔۔ تنبیہہ ہے، ماں کو بھولی ہوئی اولاد کے لیے۔۔۔ فکر ہے۔
تار تار ہوتی اس مشرقیت اور اس خاندانی نظام کی۔۔۔ اور ایک امید ہے انتظار کی سولی پر لٹکی اس ماں کی، کہ شاید راہ تکتی اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اپنی اولاد کی دید کے صدقے کچھ تراوٹ حاصل کر لیں۔۔۔ اور اس کی مامتا ٹھنڈی ہو۔۔۔ آج کے دن کا مقصد بھی یہ ہونا چاہیے کہ سب اپنی مائوں کی قدر کریں۔۔۔ اور اپنے اردگرد بے قدروں کو بھی جھنجھوڑیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔
''میری بیٹی کا فون آیا ہے؟''
''اُسے کہنا کہ مجھے آکے لے جائے۔۔۔!''
''میں یہاں تڑپ رہی ہوں۔۔۔ اُس نے مجھے ایک بار بھی فون نہیں کیا۔۔۔ ''
''بیٹا۔۔۔اُس سے کہو، مجھے آ کے لے جائیں!''
''بڑی مہربانی ہو گی بیٹے، مجھے گھر پہنچا دوگے تو۔۔۔''
''مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔ بس مجھے میرے گھر لے چلو۔۔۔''
''تم بھی ساتھ چلنا اور قائل کرنا کہ تم نے اپنی ماں کو چھوڑا ہوا ہے۔۔۔!''
یہ ایک ایسی ماں کی گریہ و زاری ہے۔۔۔ جس نے پانچ بچوں کو جنم دیا۔۔۔ اس کے وہی لخت جگر جنہیں تب نہ کھانے کی ہوش تھی اور نہ پینے کی۔۔۔ اچھے کا پتا تھا نہ برے کی تمیز۔۔۔ اُس وقت ان کی ہر تکلیف کو خود پر جھیلنے والی ماں نے ان کی بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ ان کی پرورش کی۔۔۔ پھر سب بچے بڑے ہو گئے۔۔۔ پڑھ لکھ گئے۔۔۔ بیاہے گئے، اور پھر خود بال بچے والے ہو گئے۔۔۔
اولاد خود والدین کے مرتبے پر فائز ہو تو توقع رکھی جاتی ہے اب اسے اپنے والدین کے درست مقام کا احساس ہوگا۔۔۔ ان کی قدرومنزلت میں مزید اضافہ ہوگا، مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔۔۔ بدنصیب ماں ''ف'' اکیلی رہ گئی اور آج کراچی میں ''بنت فاطمہ اولڈ ہوم'' میں اپنی اولاد کے لیے ریت پر پڑی کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہے۔
''ف'' کا ایک جوان بیٹا دہشت گردی کی نذر ہوا۔۔۔ اور اس بوڑھی ماں پر قیامت سی ٹوٹ پڑی۔۔۔ کچھ عرصے بعد شوہر بھی داغ مفارقت دے گئے، تو گویا اس کی دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔۔۔ ''ف'' بتاتی ہیں کہ میں بیٹی کے گھر میں پڑی ہوئی روتی رہتی تھی، جس سے سب لوگ بہت تنگ ہوتے۔ بالخصوص بیٹی کی نندیں بہت زیادہ برا مناتی تھیں۔ بیٹی کہتی کہ ہنسا بولا کیجیے، اب جس کا جوان بیٹا مر جائے، وہ کس کلیجے سے ہنسے بولے۔
ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔۔۔ بیٹی اپنی ملازمت میں مصروف رہتی۔۔۔ ایک دن بیٹی نے کہا کہ آپ کو ایک جگہ لے جاتے ہیں، وہاں جانے سے آپ کا ماحول تبدیل ہو گا، طبیعت بہل جائے گی۔ وہاں آپ کا خیال رکھا جائے گے۔۔۔ آپ ہنسیں بولیں گی۔ مرتی کیا نہ کرتی ''ف'' بیٹی کے ساتھ ہو لی۔۔۔ آخر ایک ماں تھی، اور ماں کو تو اپنی اولاد پر بہت مان ہوا کرتا ہے، کہ یہ اس کی اپنی اولاد ہے۔۔۔
سگی بیٹی نے ستم یہ بھی کیا کہ ماں کو یہ کہہ دیا کہ میں وہاں آپ کو اپنی خالہ ظاہر کروں گی، اگر یہ بتایا کہ آپ میری ماں ہیں، تو وہ رکھیں گے نہیں۔ چوں کہ ''فاطمہ اولڈ ایج ہوم'' کی سربراہ مسز فرزانہ شعیب بوڑھی مائوں کو چھوڑنے والی اولاد کو سمجھاتی ہیں اور پھر وہ شرمندہ ہو کر انہیں واپس لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس بدنصیب بیٹی نے اپنی سگی ماں کو خود سے الگ کرنے کے لیے اسے ماں ماننے انکار کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کی۔۔۔ یہاں آکر کہا کہ خالہ کی اولاد انہیں پوچھتی نہیں۔۔۔ جب احساس دلایا کہ خالہ بھی تو ماں کی طرح ہوتی ہیں، تو عذر کیا کہ میں تو سسرال میں رہتی ہوں۔
اس لیے کافی مسئلے مسائل ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد جب ''ف'' نے اپنی بیٹی کا نام لے کر رونا شروع کیا، تب جا کر یہ عُقدہ کھلا کہ دراصل ان کی بیٹی غلط بیانی کر کے انہیں یہاں چھوڑ گئی ہے۔ اس دوران ''ف'' کی بہن کا دبئی سے فون آیا، تو انہوں نے تصدیق کی کہ انہیں یہاں چھوڑ کر جانے والی ''ف'' کی بھانجی نہیں سگی بیٹی ہی ہے! اس کے بعد جب ایک بار بیٹی کا فون آیا، تو اس نے ''ف'' کو خالہ کہنے پر ہی اصرار کیا، جب اسے بتایا کہ تمہاری خالہ کا دبئی سے فون آیا تھا، انہوں نے سب بتا دیا ہے کہ یہ تمہاری ماں ہیں۔
تب جا کر اس نے مانا اور ماں کو نہ رکھنے کے لیے ''مجبوریوں'' کا عذر کیا کہ حالات اچھے نہیں۔۔۔ حالاں کہ بیٹی کا پہناوا اور حلیہ اپنے آپ بتا رہا تھا کہ اس کی نام نہاد مجبوری میں کس قدر ''سچائی'' ہے۔ویسے بھی کسی اولاد کے سامنے دنیا کی ایسی کون سی مجبوریاں ہو سکتی ہیں کہ وہ ماں جیسے رشتے سے انکار ہی کر دے!
''ف'' کی پیدایش ہندوستانی ریاست رام پور کی ہے، شوہر کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔۔۔ جو یہاں ایک مشہور طبی دواخانے میں ملازم رہے۔۔۔ پھر کچھ وجوہات کی بنا پر 12 برس لاہور میں بھی گزارے۔۔۔ اس دوران وہ کراچی میں شوہر کے غم میں ہلکان ہوتی رہیں۔۔۔
کچھ عمر کا تقاضا اور کچھ صدموں کی بہتات، کہ اب ''ف'' کی یادداشت بھی کچھ بھٹک سی جاتی ہے۔ اپنے پانچ بچوں میں کبھی تین بیٹے اور دو بیٹیاں شمار کرتی ہیں، تو کبھی دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا کویت اور ایک بیٹی لندن میں ہے۔۔۔ ''ف'' بتاتی ہیں کہ ان کا بڑا نواسا 16 برس کا ہے، جب کہ بڑے پوتے کی عمر 12 سال کے قریب ہو گی۔
چھوٹے پوتے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب اس کے گھرمیں تھی تو وہ میرے قریب رہتا تھا۔۔۔ میری انگلی پکڑ کر چلتا تھا۔ میں اپنے بچوں کے لیے تڑپتی ہوں۔ اُن سے بات کر کے بہت سکون ملتا ہے، میں چاہتی ہوںکہ وہ آئیں، مجھ سے ملیں، میرے پاس بیٹھیں، اپنے بچوں کا حال بتائیں۔
نصف گھنٹے کی ملاقات میں ''ف'' نے گھر واپسی کی خواہش سے ہی بات شروع کی اور اسی پر گفتگو تمام کی۔۔۔ ہر آہٹ پر ہی شاید انہیں اپنی اولاد کی چاپ سنائی دیتی ہے۔۔۔ ہمیں دیکھتے ہی گویا ہوئیں 'آپ مجھے لینے آئے ہیں نا۔۔۔میں ابھی یہی دعا مانگ رہی تھی، آپ آئے تو میں سمجھی کہ بیٹی کا فون آگیا۔۔۔' دوران گفتگو کم سے کم سات، آٹھ بار انہوں نے گھر واپس لے جانے کا ذکر کیا۔
کبھی امید اور خواہش کے انداز میں، کبھی دست شفقت رکھتے ہوئے۔۔۔ کبھی جھولی پھیلا کر دعائیں دیتے ہوئے۔۔۔ تو کبھی کسی بے بس و لاچار مظلوم کی طرح ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہ کسی طرح مجھے میری بیٹی کے گھر لے چلو۔۔۔ تو کبھی کسی پہلو چین نہ پانے والی ''ف'' کسی معصوم بچے کی طرح امید و بیم کے انداز میں استفسار کرتیں ''آپ مجھے میرے گھر لے جائیں گے نا۔۔۔؟''
اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ''ف'' کہتی ہیں کہ ماں باپ کس مان سے اولاد کو پالتے پوستے ہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ بڑھاپے میں اپنے ماں باپ کو جہاں جی چاہے لے جا کر پھینک آئو۔ ''ف'' کی ہر اولاد ہی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہے، مگر بد نصیب ایسی کہ کوئی ایک بھی اپنی ماں کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
مامتا درحقیقت کس جذبے کو کہتے ہیں، ''ف'' سے مل کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بیٹی جو اسے ماں کہنے سے منکر ہوئی اور دو مہینوں میں کبھی فون پر بھی بات کرنا گوارا نہیں کی۔ وہ ماں ایک لمحے کو اس کی نافرمانی اور چھوڑے جانے پر سراپا احتجاج اور نوحہ کناں ہوتی ہے۔۔۔ تو اگلے ہی لمحے اپنے دل میں اس امید کا دیپ بھی روشن کرتی ہے، کہ تم اسے فون تو کرو اور کہو تو سہی، وہ لینے آجائے گی مجھے۔۔۔ تم گھر لے تو چلو، اب وہ رکھ لے گی مجھے اور اتنے دن بعد جائوں گی، تو اب وہ میرا خیال بھی رکھے گی۔
جب ان سے پوچھا کہ اگر بیٹی نے اپنے پاس ہی رکھنا ہوتا، تو وہ آپ کو چھوڑ کر ہی کیوں جاتی؟ بیٹی کے اس جرم کے لیے بھی یہ ماں صفائیاں دینے لگتی ہے کہ ''اسے یہ خبر نہیں تھی کہ یہاں میں روتی رہوں گی، وہ تو مجھے یہاں آرام اور ماحول کی تبدیلی کے لیے چھوڑ کر گئی تھی۔''
''میں نے اپنی ماں کا بہت خیال رکھا''
''ف'' سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ یہ تو بتائیے کہ آپ کی ماں آپ سے خوش تھیں؟ تو انہوں نے کہا میں نے اپنی ماں کا بہت خیال رکھا۔ ''ف'' تین بہن اور دوبھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ایک بھائی سعودی ہوائی کمپنی میں تھے۔ کہتی ہیں کہ والدہ بالکل میری جیسی تھیں، مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، وہ بالکل میرے ہاتھوں میں رہتی تھیں۔ میں اپنی ماں کا ہر حکم بجالاتی، ان کے سارے کام کرتی تھی۔
''کیا بیٹی میری میت ہی لے کر جائے گی؟''
''میں اپنی باقی عمر گھر میں گزارنا چاہتی ہوں، یہاں اولاد کے انتظار میں ختم ہو رہی ہوں۔۔۔ کیا بیٹی یہاں سے میری میت ہی لے کر جائے گی؟ میرا رواں رواں لرز رہا ہے۔۔۔ تم بھی تو کسی کی اولاد ہو گے بیٹا۔۔۔ اپنے ماں، باپ کی قدر کرنا اور لوگوں کو یہ بتانا کہ دیکھو ایک ماں کے ساتھ اس کی اولاد نے کیسا سلوک کیا ہے، تاکہ نافرمان اولادیں شرمندہ ہوں۔''
''یہاں ایک ماں ایسی بھی ہے''
بنت فاطمہ اولڈ ہوم کی بانی و سرپرست مسز فرزانہ شعیب نے بتایا کہ یہاں ایک ماں ایسی بھی ہیں، جس کے سات بچے ہیں۔ سب بیرون ملک مقیم ہیں، سوائے ایک بیٹے کے۔۔۔ وہ بیٹا معذور ہے اور کسی مزار پر رہتا ہے۔۔۔ اس ماں کے کسی بچے کے حصے میں کوئی جائیداد آئی اورکسی کے پاس کچھ، لیکن اس بیٹے کے حصے میں ماں آئی۔ اس کی ماں، ماں ہے۔
ہفتے میں دو، تین بار لازمی فون کرتا ہے اور ہر 10، 15 روز میں ماں سے ملنے بھی آتا ہے۔ ''امی جان، امی جان'' کرتا ہوا کتنی دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہتا ہے، ان کے ہاتھ، پائوں چومتا ہے۔ دوسری طرف کہاں اسی کے بہن، بھائی ہیں جو بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور اتنے مصروف ہیں کہ کبھی پلٹ کر اپنی ماں کی خبر بھی نہیں لیتے۔
پہلی بار کسی کو ماں سے انکار کرتے ہوئے دیکھا، مسز فرزانہ
بنت فاطمہ اولڈ ہوم کو قائم ہوئے نو برس بیت چکے ہیں۔ اولڈ ہوم کی بانی مسز فرزانہ شعیب کہتی ہیں کہ اس عرصے میں انہوں نے پہلی بار کسی کو یوں اپنی ماں کے رشتے سے انکار کرتے ہوئے دیکھا۔ جب بھی کوئی کسی کو یہاں چھوڑنے آتا ہے، تو میں اس سے اس کا رشتہ ضرور پوچھتی ہوں۔ ''ف'' کی بیٹی نے انہیں اپنی خالہ قرار دیا اور کوئی اخراجات ادا نہیں کیے، بلکہ واضح طور پر کہا کہ آپ انہیں زکوٰۃ پر رکھ لیں۔ اس وقت ان کی حالت بہت خراب تھی۔ ہاتھ اور پیر کے ناخن بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے، کپڑے بھی بے حد گندے تھے۔
یہاں انہیں نہلایا دھلایا اور صاف کپڑے دیے گئے۔ جب ''ف'' کی بیٹی انہیں یہاں لائی، تب بھی ''ف'' انہیں بیٹی کہہ کر پکار رہی تھیں، جب ہم نے استفسار کیا کہ یہ تو آپ کو بیٹی کہہ رہی ہیں، تو اس نے کہا کہ خالہ 10 سال سے میرے پاس ہیں، اس لیے یہ بیٹی کہتی ہیں۔ ''ف'' کا فارم بھرتے ہوئے بھی ہم نے ''ف'' کے شوہر اور ان کی بیٹی کے باپ کی مماثلت پر سوال کیا، تب بھی وہ اپنے انکار پر قائم رہی۔ ہم نے کہا کہ جب ذرایع اِبلاغ کے لوگ آئیں گے، تو ہم انہیں پوشیدہ نہیں رکھیں گے۔
اس پربیٹی نے بے نیازی سے کہا کہ آپ جہاں چاہیں لے جائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بیٹی دو ماہ پہلے ''ف'' کو چھوڑ کر گئی پھر یہ تک دیکھنے نہ آئی کہ دیکھے تو سہی کہ اس کی ماں یہاں کیسے رہ رہی ہیں۔ انسان کو تو اپنے جانوروں سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ کیسے لوگ ہیں، جواپنی ماؤں کے ساتھ ایسا ظلم کرتے ہیں۔۔۔ ماں کے سامنے ہی ماں کو ماں ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ یہ ماں کا حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کا جگر گوشہ اس کے سامنے اس سے اپنے رشتے کی ڈور کاٹ رہا ہے۔
''ہم بے اولاد ہی اچھے!''
بنت فاطمہ اولڈ ہوم میں بہت سی اولاد کی ستائی ہوئی مائیں موجود ہیں، تو دوسری طرف بے سہارا اور بے اولاد خواتین بھی ہیں۔ بے اولاد خواتین جب سماج میں اولاد کے ہاتھوں زخموں سے چور خواتین کا حال دیکھتی ہیں، تو کہتی ہیں کہ اگر اولاد ایسی ہوتی ہے، تو پھر ہم بے اولاد ہی اچھے ہیں۔۔۔! کم سے کم اولاد کی بے وفائی اور نافرمانی کا دکھ تو نہیں ہے، یہ شکایت تو نہیں ہے کہ ہماری اولاد عین بڑھاپے میں ہمارا سہارا بننے کے بہ جائے ہمیں جیتے جی خود سے دور چھوڑ آئی۔