بیٹیوں کی ماں ہونا جرم نہیں
ہاجرا بی بی پورادن مختلف گھروں میں صفائی ستھرائی،برتن اجالنے،کپڑوں کی دھلائی اورکھانا پکانے جیسے کاموں میں گزارتی تھیں
ماں کا رشتہ ازل سے ہی ایک بلند اور معتبر مرتبے پر رہا ہے۔۔۔ کسی بھی ریا کاری کے شبے سے بھی پاک، سراپا خلوص ہی خلوص۔۔۔ اپنی شفقت کے بدلے میں اپنی اولاد کو شادمان اور کامران دیکھنے والا اَن مول ناتا ماں، کہنے کو تو ایک تین حرفی لفظ ہے، مگر اس تین حرفی لفظ میں محبت کا ایک جہان، قربانی و ایثار کی داستان، خدمت اور دعاؤں کا ایک آسمان آباد ہوتا ہے۔
مائوں کا دن آتا ہے۔۔۔ اور دنیا کا رواج ہے کہ اس دن ماں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ مگر کیا ماں کا رتبہ اس طرح بھی تقسیم ہو سکتا ہے کہ اگر وہ بیٹے کی ماں ہے تو معتبر ہے اور اگر وہ بیٹیوں والی ہے، تو اس کا مرتبہ کم تر ہے!
ایسی ہی ایک ماں ہے، جو کچی آبادی کی رہایشی ہے۔ ہاجراں بی بی (فرضی نام) جس کی زندگی میں سوائے محنت مشقت اور دکھ کے اور کچھ نہیں۔۔۔ اسے خود بھی یاد نہیں کہ اس کا اصل نام کیا تھا، کیوں کہ سب ہی اسے ماسی کہہ کر ہی پکارتے تھے۔
ہاجراں بی بی کا دن ایک گھر سے دوسرے گھر آمدو رفت میں تمام ہوتا۔ پورادن وہ مختلف گھروں میں صفائی ستھرائی، برتن اجالنے، کپڑوں کی دھلائی اور کھانا پکانے جیسے کاموں میں گزارتی۔ یہ کام اسے روزانہ ہی درپیش ہوتے اور وہ بڑی ایمان داری اور جاں فشانی سے انہیں انجام دیتی۔ شام ڈھلے تھکن سے چور گھر لوٹتی، تو ایک نیا امتحان منتظر ہوتا، گھر کی ہنڈیا روٹی کے ساتھ ساتھ ساس کے طعنے اور شوہر کی بد زبانی اس کا مقدر بنتی، کیوں کہ وہ بیٹیوں کی ماں تھی۔
اپنی سات بیٹیوں، شوہر اور ساس کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جُتے رہنے کے صلے میں اسے گھر میں سکون تو درکنار الٹا نشئی شوہر کی مارپیٹ ہی ملتی۔ ہاجراں بی بی کا ''قصور'' صرف اتنا تھا کہ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھی۔۔۔ جہالت میں ڈوبے سماج میں ایسی ماؤں کا بھی کوئی شمار نہیں، جو اس جرم میں پائمال ہو رہی ہیں کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوا۔
یہ سماج کی ایسی مائیں ہیں، جو ماں جیسے عظیم درجے پر فائز ہو کر بھی، اسی رتبے کی بنا پر استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بیٹی کو کم تر سمجھنے کی ریت ہم میں سے اب تک ختم نہ ہو سکی۔۔۔ تب ہی تو اچھے سے اچھے گھرانوںمیں بھی بیٹی کی ماں کو وہ درجہ نہیں ملتا، جو بیٹے کی ماں بننے پر ملتا ہے، حالاں کہ لوگ تقدیر پر کتنا پختہ ایمان رکھتے ہوں گے۔۔۔ اپنے رب پر بھروسا رکھنے والے عبادت گزار ہوں گے، مگر جانے کیوں بیٹی کی ماں کو طعنے دینے سے باز نہیں آتے۔
یہاں بھی حالت ایسی ہی تھی۔۔۔ کسم پرسی کے حالات میں ہاجراں بی بی کے شوہر کو جانے کس جائیداد کے وارث کی ضرورت تھی۔ وہ اس ماں پر یوں ظلم کرتا گویا بیٹے یا بیٹی کی پیدایش اس کے اختیار میں ہے۔
اپنی بچیوں کی خاطر ہاجراں سب کچھ سہے جاتی تھی۔ شام کو واپسی پر اسے مختلف گھروں سے بچی کچھی کھانے پینے کی چیزیں مل جاتیں، تو وہ بڑے شوق سے اپنی بچیوں کے لیے لے جاتی تھی۔۔۔ پھر قدرت کو شاید اس ظلم کی ماری ماں پر رحم آیا کہ اس کے ہاں سات بیٹیوں کے بعد بیٹے کی ولادت ہوئی۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیٹے کی ماں بننے کے بعد اب اس کی حیثیت بڑھ جاتی، مگر یوں معلوم ہوتا تھا کہ بیٹے کی ماں سے پہلے اسے سات بیٹیوں کی ماں ہونے کی ''سزا'' معاف نہ کی گئی۔
زندگی یوں ہی آگے بڑھتی رہی۔۔۔ ایک دن ہاجراں نے کام کی ناغہ کی تو جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی، انہوں نے فوراً اس کی غیر حاضری کو محسوس کیا، کیوں کہ وہ گھر کے کاموں کے لیے اس پر اتنا انحصار جو کرنے لگے تھے کہ اس کے بغیر اب ان کا گزارہ نہ ہوتا تھا۔ جب تین دن تک ہاجراں بی بی کا پتا نہ چلا تب کچھ خواتین اس کے گھر کی طرف گئیں، تو پتا چلا کہ سات بیٹیوں کی اس ماں نے اولاد کی خاطر خود کو دائو پر لگا دیا ہے۔
وہ جھلس چکی تھی۔۔۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب میں اس کی بڑی بیٹی نے بتایا کہ ہاجراں بی بی گھروں سے لائے ہوئے کھانے میں سے ایک پڑیا اپنی چھوٹی بیٹی کو دے رہی تھی۔۔۔ مگر اس کے شوہر نے اس سے وہ چھین لیا، نا سمجھ بچی جب رونے لگی، تو ہاجراں بی بی نے شوہر کو وہ کھانے کی پڑیا واپس کرنے کو کہا، جس پر وہ بپھر گیا اور اس بچی کو بری طرح مار پیٹنے لگا۔۔۔ اور تب ماں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور اس نے زور آزمائی کر کے بچی کو چھڑالیا۔
شوہر کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ اس نے طیش میں آکر ہاجراں بی بی کو ساتوں بیٹیوں سمیت ایک کچے کمرے میں بند کیا اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی اور خود بیٹے اور اپنی ماں کو لے کر باہر نکل گیا۔ آگ میں گھِری ہوئی ماں بیٹیوں کی چیخ پکار سن کر اہل محلہ مدد کو آئے۔ دھوئیں بھرے گھر سے ماں بیٹیوں کو باہر نکالا۔۔۔ بے حال ہاجراں بی بی اپنے زخموں سے کراہ رہی تھی کہ دفعتاً اسے احساس ہوا کہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی حوّا اندر رہ گئی ہے۔
بس پھر کیا تھا ہاجراں نے آئو دیکھا نہ تائو، دیوانہ وار اس جلتے ہوئے کچے گھر کی جانب دوڑ پڑی۔۔۔ حوّا آگ سے تو محفوظ تھی، لیکن دھویں کی وجہ سے بے ہوش تھی، حاجراں اسے اپنے کلیجے سے لگائے باہر نکل رہی تھی کہ اچانک چھت کا شہتیر ٹوٹ کر گر پڑا اور چھت کا جلتا ہوا چھپر اس پر آ گرا۔ ہاجراں بی بی کا چہرہ اور پشت بری طرح جھلس گئی۔
مگر اس کی آغوش نے بیٹی حوّا پر آنچ بھی نہ آنے دی۔ طویل طبی امداد کے بعد حاجراں بی بی ٹھیک ہو گئی اور اب پھر اپنی بیٹیوں کی خاطر دوبارہ اسی طرح مشقت کی چکی پیس رہی ہے، جیسے پہلے پیس رہی تھی۔ حقوق نسواں کی ایک انجمن نے اس کے شوہر اور ساس پر مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے، جب کہ وہ دونوں مفرور ہیں۔ بیٹیوں کی ماں ہاجراں اب کہنے کو شوہر کے جبر سے محفوظ ہے، مگر اپنے بچھڑنے والے بیٹے کی یاد میں بے کل ہو جاتی ہے کہ جانے وہ اپنے باپ کے ساتھ کہاں اور کس حال میں ہوگا!
ہم نے کتنے ہی مائوں کے دن منائیں ہوں گے۔۔۔ مگر کبھی ماں کے درجے پر فائز ہونے والی اس عورت کے دکھ کو جانا، جو فقط بیٹے کی ماں نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کا ہر لمحہ عذاب میں گزار رہی ہیں۔ آج کے دن ہمیں ایسی ماؤں پر ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھانی ہوگی، جو اولاد نرینہ سے محرومی کی بنا پر راندۂ درگاہ ہیں۔
مائوں کا دن آتا ہے۔۔۔ اور دنیا کا رواج ہے کہ اس دن ماں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ مگر کیا ماں کا رتبہ اس طرح بھی تقسیم ہو سکتا ہے کہ اگر وہ بیٹے کی ماں ہے تو معتبر ہے اور اگر وہ بیٹیوں والی ہے، تو اس کا مرتبہ کم تر ہے!
ایسی ہی ایک ماں ہے، جو کچی آبادی کی رہایشی ہے۔ ہاجراں بی بی (فرضی نام) جس کی زندگی میں سوائے محنت مشقت اور دکھ کے اور کچھ نہیں۔۔۔ اسے خود بھی یاد نہیں کہ اس کا اصل نام کیا تھا، کیوں کہ سب ہی اسے ماسی کہہ کر ہی پکارتے تھے۔
ہاجراں بی بی کا دن ایک گھر سے دوسرے گھر آمدو رفت میں تمام ہوتا۔ پورادن وہ مختلف گھروں میں صفائی ستھرائی، برتن اجالنے، کپڑوں کی دھلائی اور کھانا پکانے جیسے کاموں میں گزارتی۔ یہ کام اسے روزانہ ہی درپیش ہوتے اور وہ بڑی ایمان داری اور جاں فشانی سے انہیں انجام دیتی۔ شام ڈھلے تھکن سے چور گھر لوٹتی، تو ایک نیا امتحان منتظر ہوتا، گھر کی ہنڈیا روٹی کے ساتھ ساتھ ساس کے طعنے اور شوہر کی بد زبانی اس کا مقدر بنتی، کیوں کہ وہ بیٹیوں کی ماں تھی۔
اپنی سات بیٹیوں، شوہر اور ساس کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جُتے رہنے کے صلے میں اسے گھر میں سکون تو درکنار الٹا نشئی شوہر کی مارپیٹ ہی ملتی۔ ہاجراں بی بی کا ''قصور'' صرف اتنا تھا کہ وہ اولاد نرینہ سے محروم تھی۔۔۔ جہالت میں ڈوبے سماج میں ایسی ماؤں کا بھی کوئی شمار نہیں، جو اس جرم میں پائمال ہو رہی ہیں کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوا۔
یہ سماج کی ایسی مائیں ہیں، جو ماں جیسے عظیم درجے پر فائز ہو کر بھی، اسی رتبے کی بنا پر استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بیٹی کو کم تر سمجھنے کی ریت ہم میں سے اب تک ختم نہ ہو سکی۔۔۔ تب ہی تو اچھے سے اچھے گھرانوںمیں بھی بیٹی کی ماں کو وہ درجہ نہیں ملتا، جو بیٹے کی ماں بننے پر ملتا ہے، حالاں کہ لوگ تقدیر پر کتنا پختہ ایمان رکھتے ہوں گے۔۔۔ اپنے رب پر بھروسا رکھنے والے عبادت گزار ہوں گے، مگر جانے کیوں بیٹی کی ماں کو طعنے دینے سے باز نہیں آتے۔
یہاں بھی حالت ایسی ہی تھی۔۔۔ کسم پرسی کے حالات میں ہاجراں بی بی کے شوہر کو جانے کس جائیداد کے وارث کی ضرورت تھی۔ وہ اس ماں پر یوں ظلم کرتا گویا بیٹے یا بیٹی کی پیدایش اس کے اختیار میں ہے۔
اپنی بچیوں کی خاطر ہاجراں سب کچھ سہے جاتی تھی۔ شام کو واپسی پر اسے مختلف گھروں سے بچی کچھی کھانے پینے کی چیزیں مل جاتیں، تو وہ بڑے شوق سے اپنی بچیوں کے لیے لے جاتی تھی۔۔۔ پھر قدرت کو شاید اس ظلم کی ماری ماں پر رحم آیا کہ اس کے ہاں سات بیٹیوں کے بعد بیٹے کی ولادت ہوئی۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیٹے کی ماں بننے کے بعد اب اس کی حیثیت بڑھ جاتی، مگر یوں معلوم ہوتا تھا کہ بیٹے کی ماں سے پہلے اسے سات بیٹیوں کی ماں ہونے کی ''سزا'' معاف نہ کی گئی۔
زندگی یوں ہی آگے بڑھتی رہی۔۔۔ ایک دن ہاجراں نے کام کی ناغہ کی تو جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی، انہوں نے فوراً اس کی غیر حاضری کو محسوس کیا، کیوں کہ وہ گھر کے کاموں کے لیے اس پر اتنا انحصار جو کرنے لگے تھے کہ اس کے بغیر اب ان کا گزارہ نہ ہوتا تھا۔ جب تین دن تک ہاجراں بی بی کا پتا نہ چلا تب کچھ خواتین اس کے گھر کی طرف گئیں، تو پتا چلا کہ سات بیٹیوں کی اس ماں نے اولاد کی خاطر خود کو دائو پر لگا دیا ہے۔
وہ جھلس چکی تھی۔۔۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب میں اس کی بڑی بیٹی نے بتایا کہ ہاجراں بی بی گھروں سے لائے ہوئے کھانے میں سے ایک پڑیا اپنی چھوٹی بیٹی کو دے رہی تھی۔۔۔ مگر اس کے شوہر نے اس سے وہ چھین لیا، نا سمجھ بچی جب رونے لگی، تو ہاجراں بی بی نے شوہر کو وہ کھانے کی پڑیا واپس کرنے کو کہا، جس پر وہ بپھر گیا اور اس بچی کو بری طرح مار پیٹنے لگا۔۔۔ اور تب ماں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور اس نے زور آزمائی کر کے بچی کو چھڑالیا۔
شوہر کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ اس نے طیش میں آکر ہاجراں بی بی کو ساتوں بیٹیوں سمیت ایک کچے کمرے میں بند کیا اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی اور خود بیٹے اور اپنی ماں کو لے کر باہر نکل گیا۔ آگ میں گھِری ہوئی ماں بیٹیوں کی چیخ پکار سن کر اہل محلہ مدد کو آئے۔ دھوئیں بھرے گھر سے ماں بیٹیوں کو باہر نکالا۔۔۔ بے حال ہاجراں بی بی اپنے زخموں سے کراہ رہی تھی کہ دفعتاً اسے احساس ہوا کہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی حوّا اندر رہ گئی ہے۔
بس پھر کیا تھا ہاجراں نے آئو دیکھا نہ تائو، دیوانہ وار اس جلتے ہوئے کچے گھر کی جانب دوڑ پڑی۔۔۔ حوّا آگ سے تو محفوظ تھی، لیکن دھویں کی وجہ سے بے ہوش تھی، حاجراں اسے اپنے کلیجے سے لگائے باہر نکل رہی تھی کہ اچانک چھت کا شہتیر ٹوٹ کر گر پڑا اور چھت کا جلتا ہوا چھپر اس پر آ گرا۔ ہاجراں بی بی کا چہرہ اور پشت بری طرح جھلس گئی۔
مگر اس کی آغوش نے بیٹی حوّا پر آنچ بھی نہ آنے دی۔ طویل طبی امداد کے بعد حاجراں بی بی ٹھیک ہو گئی اور اب پھر اپنی بیٹیوں کی خاطر دوبارہ اسی طرح مشقت کی چکی پیس رہی ہے، جیسے پہلے پیس رہی تھی۔ حقوق نسواں کی ایک انجمن نے اس کے شوہر اور ساس پر مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے، جب کہ وہ دونوں مفرور ہیں۔ بیٹیوں کی ماں ہاجراں اب کہنے کو شوہر کے جبر سے محفوظ ہے، مگر اپنے بچھڑنے والے بیٹے کی یاد میں بے کل ہو جاتی ہے کہ جانے وہ اپنے باپ کے ساتھ کہاں اور کس حال میں ہوگا!
ہم نے کتنے ہی مائوں کے دن منائیں ہوں گے۔۔۔ مگر کبھی ماں کے درجے پر فائز ہونے والی اس عورت کے دکھ کو جانا، جو فقط بیٹے کی ماں نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کا ہر لمحہ عذاب میں گزار رہی ہیں۔ آج کے دن ہمیں ایسی ماؤں پر ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھانی ہوگی، جو اولاد نرینہ سے محرومی کی بنا پر راندۂ درگاہ ہیں۔