زمبابوے ٹیم کا دورۂ پاکستانانٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں پہلا قدم
6 برس سے ملک میں کرکٹ نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں، اب زمبابوے ہی سہی کوئی ٹیم آ رہی ہے تو اسٹیڈیم بھر دینا چاہیے
یہ پیسہ بھی عجب چیز ہے،اسی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کے دورے پر گئی اور اب زمبابوین سائیڈ یہاں آ رہی ہے، ایک فیصلے سے ہماری کرکٹ رسوائیوں کی انتہا پر پہنچ گئی اور دوسرے سے ملکی سونے میدان آباد ہو رہے ہیں۔
گرین کیپس نے ٹائیگرز کے خلاف دوسرا ٹیسٹ جیت لیا مگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو پی سی بی کو چند کروڑ روپے دے کر بنگلہ دیشی کرکٹ اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی، تینوں ون ڈے میچز ہرا کر سیریز میں کلین سوئپ، واحد ٹوئنٹی 20 میں فتح اور ہارا ہوا پہلا ٹیسٹ ڈرا کرنے سے میزبان پلیئرز کو جو اعتماد ملا وہ انھیں عروج پر لے جائے گا، دوسری جانب پاکستانی کرکٹ سے لوگ مزید بددل ہو گئے۔
بنگلہ دیش سے وائٹ واش کسی کو ہضم نہیں ہوا، ٹیسٹ کی فتح اس زخم کو مندمل نہیں کر پائے گی، درحقیقت ہماری کرکٹ مزید کئی برس پیچھے چلی گئی، افسوس کہ حکمرانوں نے کوئی نوٹس نہ لیا، شہریار خان نے تینوں میچز ہارنے پر بھی اظہر علی کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابے ملا دیئے، انھیں کچھ تو سوچنا چاہیے تھا،کم از کم یہی کہہ دیتے کہ وہ نیا کپتان ہے آہستہ آہستہ سیکھے گا، یہ کہنا کہ اظہر فائٹر اور بہترین قائد ہے نہایت افسوسناک بات تھی۔
اپنے عجیب و غریب فیصلے کو درست ثابت کرنے کیلیے وہ آگے کیا منطق پیش کریں گے، یہ سوچ کر ہی پریشانی ہوتی ہے، ابھی بنگلہ دیش نے ہماری ٹیم کا یہ حال کیا، اپنے گھر بلا کر سری لنکنز نجانے کیا سلوک کریں گے؟ شاید تب بھی بورڈ چین کی بانسری بجا رہا ہو گا۔ گذشتہ دنوں چیئرمین بورڈ سے جب بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ '' ٹیم بری طرح ہار رہی ہے آپ بہتری کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں'' تو وہ الٹا مجھ سے کہنے لگے کہ ''آپ سینئر صحافی ہیں اورکرکٹ کی بہت سمجھ ہے۔
بتائیں ہم کیا کریں؟ دراصل سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے، نیا ٹیلنٹ نہیں مل رہا'' ان کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بھی صورتحال پر سخت مایوس ہیں مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں، اسی طرح سابق کپتان جاوید میانداد سے جب بات ہوئی تو وہ سخت دلبرداشتہ نظر آئے، عبدالقادر بھی ملکی کرکٹ کی یہ حالت دیکھ کر کڑھ رہے ہیں، مگر یہ سب بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے، جو ارباب اختیار ہیں انھیں کسی بات کی پروا نہیں وہ اب میرپور میں ٹیسٹ جیتنے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہوں گے۔
افسوس کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم بنگلہ دیش کو ہرانے پر ورلڈکپ جیتنے جیسا جشن مناتے ہیں، وہ بچے جنھیں ہم ہاتھ پکڑ کر کرکٹ میں لائے اب وہی ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں، اب بھی وقت ہے پی سی بی کچھ عملی اقدامات کرے، سب سے پہلے کوچ وقار یونس سے چھٹکارہ پانا ہوگا۔
انھوں نے ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا ہے،پہلے بھی کہہ چکا کہ ان کا کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا، وہ آسٹریلوی شہری ہیں اور سب کچھ تباہ کر کے اپنے وطن چلے جائیں گے، وہ پاکستان کی محبت میں یہاں نہیں آئے بلکہ جب مشکوک ماضی کے سبب آسٹریلیا نے اپنے سیٹ اپ میں شامل نہ کیا تو انھیں پرانے ملک کی یاد ستائی، وہ 14 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں اور پرفارمنس صفر ہے۔
ان کے متکبرانہ اور سپراسٹار جیسے رویے سے پلیئرز بھی تنگ ہیں، سرفراز احمد کے ورلڈکپ والے معاملات سے انھوں نے کوئی سبق نہ لیا اور انھیں بنگلہ دیش کیخلاف ون ڈے سے بھی باہر بٹھا دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انا کی تسکین کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں،اب ان کی واپسی کا وقت آ چکا ہے، اس سے قبل کہ مزید تباہی آئے بورڈ کو کوئی قدم اٹھا لینا چاہیے۔ اسی طرح سلیکشن کے معاملات میں بھی اب بہتری لانی چاہیے۔
نوجوان پلیئرز ضرور ٹیم میں لائیں مگر ان کے ساتھ سینئرز بھی رکھیں تب ہی درست توازن بن پائے گا، عمر اکمل و احمد شہزاد کو ایک موقع اور دینا چاہیے،اس وقت قومی کرکٹ جتنا نیچے چلی گئی اسے واپس عروج پر آنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پی سی بی درست اقدامات کرے،فی الحال تو ایک اچھی خبر زمبابوین ٹیم کا دورئہ پاکستان ہے،3مارچ 2009کو ملکی کرکٹ پر جو زخم لگے وہ اب آہستہ آہستہ بھرنے لگے ہیں، کینیا کی ٹیم یہاں میچز کھیل کر گئی اور اب زمبابوے آنے کے لیے تیار ہے۔
اسے بہت بڑی کامیابی تو نہیں کہہ سکتے مگر طویل سفر کی جانب پہلا قدم ضرور ہے،سری لنکن ٹیم پر حملے سے پہلے بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یا انگلینڈ جیسی ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں اب بھی اگلے چند برس تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے، البتہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کو قائل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ زمبابوین ٹیم یہاں کامیاب سیریز کھیل کر واپس جائے،اس دورے کو یقینی بنانے میں ڈالرز کا اہم کردار رہا، بیچارے زمبابوے کے کرکٹرز معاوضوں کو ترس رہے ہیں۔
جتنا پاکستانی ٹیم کو ایک دن کا الاؤنس ملتا ہے انھیں پورے ورلڈکپ کھیلنے کی اتنی رقم ملی، اسی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر برینڈن ٹیلر انگلینڈ چلے گئے اور وہاں کاؤنٹی کرکٹ میں کیریئر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر ہر کوئی ان جیسا خوش قسمت نہ ہی باصلاحیت ہے جس کے لیے مواقع منتظر ہوں، اسی لیے جب پی سی بی نے زمبابوے کو بھاری رقم دینے کی پیشکش کی تو وہ تیار ہو گیا، کھلاڑی بھی دگنے معاوضوں اور بونس کی لالچ پر ٹور کے لیے آمادہ ہوئے، اب یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ انھیں فول پروف سیکیورٹی فراہم کرے۔
کیونکہ ایک چھوٹا سا واقعہ بھی یہاں کینیا جیسی ٹیم کے آنے کا امکان بھی مزید کئی برس کے لیے ختم کر دے گا، پی سی بی کی بھی اس میں بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی معاملات پر نظر رکھے، افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھاگیا، سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت بھی ذاکر خان بورڈ میں موجود اور معاملات کی نگرانی کرنا ان کا کام تھا، مگر وہ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ بیچاری مہمان سائیڈ کے ساتھ مکمل سیکیورٹی نہیں ہے۔
البتہ دہشت گردوں کو اس کا اندازہ تھا، وہ اپنا کام کر گئے،اس کے باوجود ذاکر خان نہ ہی وسیم باری کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا، پولیس بھی ایسے واقعات میں دکھاؤے کے لیے 1،2اہلکاروں کو معطل کر دیتی ہے، مگر پی سی بی نے ایسا کچھ نہ کیا، باری تو اپنی باری پوری ہونے پر بورڈ سے چلے گئے، مگر آپ نے زمبابوین سیکیورٹی وفد کے ساتھ ایک صاحب کو شان سے چلتے ہوئے یقیناً ٹی وی پردیکھا ہوگا، وہ ذاکر خان ہی تھے۔
امید ہے کہ اب وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، ویسے چیئرمین شہریارخان کو بھی معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، زمبابوین وفد کی آمد کے وقت انھیں لاہور میں رہ کر صورتحال سے آگاہ رہنا چاہیے تھا مگر وہ بنگلہ دیش چلے گئے، وہاں عالم یہ تھا کہ بی سی بی کے صدر نظم الحسن تک ان کے استقبال کے لیے موجود نہ تھے، وہ غیرملکی دورے پر گئے ہوئے تھے، بیچارے شہریارخان نے کھلاڑیوں سے 5 منٹ کی رسمی ملاقات کی اور پھر اسٹیڈیم میں ٹیسٹ دیکھتے رہے جہاں ان کا کوئی ہم منصب موجود نہ تھا۔
ایسے میں بولڈ پر امپائر کے انداز میں آؤٹ کا اشارہ کرنا کیمرے کی آنکھ سے پاکستانی شائقین نے بھی دیکھا، انھیں اگر ٹیم کی سرزنش ہی کرنا تھی تو 4،5دن انتظار کر لیتے ویسے ہی اسے واپس تو آنا ہی تھا، اب ڈھاکا سے چیئرمین بھارت جانے والے ہیں، امید ہے کہ وہاں انھوں نے جگ موہن ڈالمیا سے ملاقات کا پیشگی وقت ضرور لیا ہوگا، شہریارخان جب سے بورڈ کے سربراہ بنے کئی غیرملکی دورے کر چکے ، انھیں چاہیے کہ زیادہ وقت ملک میں ہی رہ کر کرکٹ کے بگڑے معاملات سدھارنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی بہتری تو آئے۔ زمبابوے کا دورہ ایک سنہری موقع ہے، کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان سپر لیگ بھی کرا دینی چاہیے۔
ایک بات کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ ڈالرز دکھائیں تو بڑے بڑے پلیئرز آنے کو تیار ہو سکتے ہیں، ہوم سیریز کے بعد پاکستان سپرلیگ کو ہدف بنانا چاہیے، بورڈ کے پاس غیرملکی کرکٹرز کو قائل کرنے کا اچھا موقع ہو گا، وہ یہ کہہ سکیں گے کہ دیکھیں زمبابوین پلیئرز یہاں آرام سے کھیل کر گئے آپ بھی آئیں، رمیز راجہ، مصباح الحق اور شاہد آفریدی جیسے پلیئرز اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،7،8فرنچائز ٹیموں کی لیگ میں ہر ٹیم میں 2،3غیرملکی کرکٹرز رکھنا مشکل نہ ہو گا، بھاری معاوضے پر انھیں بلایا جا سکتا ہے، اس طرح ٹیمپو بن جائے گا اور بڑی ٹیموں کو بھی ٹور پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی۔
یو اے ای میں پی ایس ایل کرانے کا مالی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر اس سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں مدد نہیں ملے گی، اس کے لیے ضروری ہے کہ سب اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر کام سبحان احمد پر نہیں چھوڑا جاتا، وہ بیچارے پس منظر میں رہ کر بڑے بڑے معاملات سلجھا رہے ہوتے ہیں، دیگر افراد کو بھی ذمہ داری محسوس کرنا ہو گی، زمبابوے سے سیریز کے انتظامات میں ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی خاصا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
جی ایم آغا اکبر سائیڈ لائن ہو چکے، انھیں انا لے ڈوبی، وہ خود کو برتر سمجھتے ہوئے میڈیا کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے تھے جس کی وجہ سے حکام کو ایکشن لینا پڑا، ہمارے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر اپنے جونیئر کو انگلی پکڑاؤ تو وہ ہاتھ تھام لیتا ہے، ذرا سا اختیار ملے یا کام کرنے دیا جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ تو میں کرتا ہوں میرا سینئر تو فضول اس کرسی پر بیٹھا ہے، بس وہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے، آغا اکبر بھی یہی کر بیٹھے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، امجد بھٹی کو رضا راشد جیسے محنتی نوجوانوں کو آگے لانا چاہیے۔
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں آئی سی سی کا کردار شرمناک ہے،اس نے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا، اب جب پی سی بی اپنے طور پر سیریز کا انعقاد کر رہا ہے تو بھی کونسل کو یہ ہضم نہیں ہو رہا، جب زمبابوین کرکٹرز آ سکتے ہیں تو آئی سی سی کے امپائرز اور ریفری کیوں نہیں؟ اسے چاہیے تھا کہ میچ آفیشلز بھیج کر پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتی مگر اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی سی سی یہاں انٹرنیشنل میچز کا انعقاد نہیں چاہتی، یہ افسوسناک بات ہے۔
اسی طرح کرکٹرز کی انٹرنیشنل تنظیم بھی منفی کردار ادا کر رہی ہے اس کا بس نہیں چل رہا کہ زمبابوین کھلاڑیوں کو آستین سے پکڑ کر پاکستان جانے سے روک دے، یہ رویہ اچھا نہیں، آئی سی سی اور فیکا دونوں کا کام کرکٹ کا فروغ اور پلیئرز کے مفادات کا خیال رکھنا ہے، انھیں اس میں اپناکردار ادا کرنا چاہیے، حکومت پاکستان اگر فول پروف سیکیورٹی کا یقین دلا رہی ہے تو اس کی بات ماننی چاہیے، ایک واقعے کی وجہ سے کھیل سے محبت کرنے والے لاکھوں پاکستانی شائقین کو تاعمر ملک میں میچز دیکھنے سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔
زمبابوے سے میچز کے دوران ابتدا میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیم میں میچز کرائے جائیں مگر اس کی مخالفت سامنے آئی کہ ایسے تو سیریز کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا، لہذا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ شائقین کو بھی آنے دیا جائے گا، ہم 6 برس سے ملک میں کرکٹ نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں، اب زمبابوے ہی سہی کوئی ٹیم آ رہی ہے تو اسٹیڈیم بھر دینا چاہیے۔
بورڈ ٹکٹوں کے نرخ خاصے کم رکھنے کا سوچ رہا ہے، ایسے میں شائقین بڑی تعداد میں آئیں، ہر گیند پر کھلاڑیوں کو داد دیں تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ پاکستانی زندہ دل قوم ہیں، ہمیں اتنے عرصے کرکٹ سے محروم رکھ کر ناانصافی کی گئی، ہر کسی کو دوسرا چانس ملتا ہے ہمیں بھی مل گیا اب یہ سب کا فرض ہے کہ مل کر اس سے فائدہ اٹھائیں، اسی صورت سونے کرکٹ میدان ہمیشہ آباد رہیں گے۔
skhaliq@express.com.pk
گرین کیپس نے ٹائیگرز کے خلاف دوسرا ٹیسٹ جیت لیا مگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو پی سی بی کو چند کروڑ روپے دے کر بنگلہ دیشی کرکٹ اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی، تینوں ون ڈے میچز ہرا کر سیریز میں کلین سوئپ، واحد ٹوئنٹی 20 میں فتح اور ہارا ہوا پہلا ٹیسٹ ڈرا کرنے سے میزبان پلیئرز کو جو اعتماد ملا وہ انھیں عروج پر لے جائے گا، دوسری جانب پاکستانی کرکٹ سے لوگ مزید بددل ہو گئے۔
بنگلہ دیش سے وائٹ واش کسی کو ہضم نہیں ہوا، ٹیسٹ کی فتح اس زخم کو مندمل نہیں کر پائے گی، درحقیقت ہماری کرکٹ مزید کئی برس پیچھے چلی گئی، افسوس کہ حکمرانوں نے کوئی نوٹس نہ لیا، شہریار خان نے تینوں میچز ہارنے پر بھی اظہر علی کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابے ملا دیئے، انھیں کچھ تو سوچنا چاہیے تھا،کم از کم یہی کہہ دیتے کہ وہ نیا کپتان ہے آہستہ آہستہ سیکھے گا، یہ کہنا کہ اظہر فائٹر اور بہترین قائد ہے نہایت افسوسناک بات تھی۔
اپنے عجیب و غریب فیصلے کو درست ثابت کرنے کیلیے وہ آگے کیا منطق پیش کریں گے، یہ سوچ کر ہی پریشانی ہوتی ہے، ابھی بنگلہ دیش نے ہماری ٹیم کا یہ حال کیا، اپنے گھر بلا کر سری لنکنز نجانے کیا سلوک کریں گے؟ شاید تب بھی بورڈ چین کی بانسری بجا رہا ہو گا۔ گذشتہ دنوں چیئرمین بورڈ سے جب بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ '' ٹیم بری طرح ہار رہی ہے آپ بہتری کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں'' تو وہ الٹا مجھ سے کہنے لگے کہ ''آپ سینئر صحافی ہیں اورکرکٹ کی بہت سمجھ ہے۔
بتائیں ہم کیا کریں؟ دراصل سسٹم ہی ٹھیک نہیں ہے، نیا ٹیلنٹ نہیں مل رہا'' ان کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بھی صورتحال پر سخت مایوس ہیں مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں، اسی طرح سابق کپتان جاوید میانداد سے جب بات ہوئی تو وہ سخت دلبرداشتہ نظر آئے، عبدالقادر بھی ملکی کرکٹ کی یہ حالت دیکھ کر کڑھ رہے ہیں، مگر یہ سب بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے، جو ارباب اختیار ہیں انھیں کسی بات کی پروا نہیں وہ اب میرپور میں ٹیسٹ جیتنے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہوں گے۔
افسوس کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم بنگلہ دیش کو ہرانے پر ورلڈکپ جیتنے جیسا جشن مناتے ہیں، وہ بچے جنھیں ہم ہاتھ پکڑ کر کرکٹ میں لائے اب وہی ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں، اب بھی وقت ہے پی سی بی کچھ عملی اقدامات کرے، سب سے پہلے کوچ وقار یونس سے چھٹکارہ پانا ہوگا۔
انھوں نے ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا ہے،پہلے بھی کہہ چکا کہ ان کا کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا، وہ آسٹریلوی شہری ہیں اور سب کچھ تباہ کر کے اپنے وطن چلے جائیں گے، وہ پاکستان کی محبت میں یہاں نہیں آئے بلکہ جب مشکوک ماضی کے سبب آسٹریلیا نے اپنے سیٹ اپ میں شامل نہ کیا تو انھیں پرانے ملک کی یاد ستائی، وہ 14 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں اور پرفارمنس صفر ہے۔
ان کے متکبرانہ اور سپراسٹار جیسے رویے سے پلیئرز بھی تنگ ہیں، سرفراز احمد کے ورلڈکپ والے معاملات سے انھوں نے کوئی سبق نہ لیا اور انھیں بنگلہ دیش کیخلاف ون ڈے سے بھی باہر بٹھا دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انا کی تسکین کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں،اب ان کی واپسی کا وقت آ چکا ہے، اس سے قبل کہ مزید تباہی آئے بورڈ کو کوئی قدم اٹھا لینا چاہیے۔ اسی طرح سلیکشن کے معاملات میں بھی اب بہتری لانی چاہیے۔
نوجوان پلیئرز ضرور ٹیم میں لائیں مگر ان کے ساتھ سینئرز بھی رکھیں تب ہی درست توازن بن پائے گا، عمر اکمل و احمد شہزاد کو ایک موقع اور دینا چاہیے،اس وقت قومی کرکٹ جتنا نیچے چلی گئی اسے واپس عروج پر آنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پی سی بی درست اقدامات کرے،فی الحال تو ایک اچھی خبر زمبابوین ٹیم کا دورئہ پاکستان ہے،3مارچ 2009کو ملکی کرکٹ پر جو زخم لگے وہ اب آہستہ آہستہ بھرنے لگے ہیں، کینیا کی ٹیم یہاں میچز کھیل کر گئی اور اب زمبابوے آنے کے لیے تیار ہے۔
اسے بہت بڑی کامیابی تو نہیں کہہ سکتے مگر طویل سفر کی جانب پہلا قدم ضرور ہے،سری لنکن ٹیم پر حملے سے پہلے بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یا انگلینڈ جیسی ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں اب بھی اگلے چند برس تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے، البتہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کو قائل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ زمبابوین ٹیم یہاں کامیاب سیریز کھیل کر واپس جائے،اس دورے کو یقینی بنانے میں ڈالرز کا اہم کردار رہا، بیچارے زمبابوے کے کرکٹرز معاوضوں کو ترس رہے ہیں۔
جتنا پاکستانی ٹیم کو ایک دن کا الاؤنس ملتا ہے انھیں پورے ورلڈکپ کھیلنے کی اتنی رقم ملی، اسی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر برینڈن ٹیلر انگلینڈ چلے گئے اور وہاں کاؤنٹی کرکٹ میں کیریئر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، مگر ہر کوئی ان جیسا خوش قسمت نہ ہی باصلاحیت ہے جس کے لیے مواقع منتظر ہوں، اسی لیے جب پی سی بی نے زمبابوے کو بھاری رقم دینے کی پیشکش کی تو وہ تیار ہو گیا، کھلاڑی بھی دگنے معاوضوں اور بونس کی لالچ پر ٹور کے لیے آمادہ ہوئے، اب یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ انھیں فول پروف سیکیورٹی فراہم کرے۔
کیونکہ ایک چھوٹا سا واقعہ بھی یہاں کینیا جیسی ٹیم کے آنے کا امکان بھی مزید کئی برس کے لیے ختم کر دے گا، پی سی بی کی بھی اس میں بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی معاملات پر نظر رکھے، افسوس اس بات کا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھاگیا، سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت بھی ذاکر خان بورڈ میں موجود اور معاملات کی نگرانی کرنا ان کا کام تھا، مگر وہ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ بیچاری مہمان سائیڈ کے ساتھ مکمل سیکیورٹی نہیں ہے۔
البتہ دہشت گردوں کو اس کا اندازہ تھا، وہ اپنا کام کر گئے،اس کے باوجود ذاکر خان نہ ہی وسیم باری کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا، پولیس بھی ایسے واقعات میں دکھاؤے کے لیے 1،2اہلکاروں کو معطل کر دیتی ہے، مگر پی سی بی نے ایسا کچھ نہ کیا، باری تو اپنی باری پوری ہونے پر بورڈ سے چلے گئے، مگر آپ نے زمبابوین سیکیورٹی وفد کے ساتھ ایک صاحب کو شان سے چلتے ہوئے یقیناً ٹی وی پردیکھا ہوگا، وہ ذاکر خان ہی تھے۔
امید ہے کہ اب وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، ویسے چیئرمین شہریارخان کو بھی معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، زمبابوین وفد کی آمد کے وقت انھیں لاہور میں رہ کر صورتحال سے آگاہ رہنا چاہیے تھا مگر وہ بنگلہ دیش چلے گئے، وہاں عالم یہ تھا کہ بی سی بی کے صدر نظم الحسن تک ان کے استقبال کے لیے موجود نہ تھے، وہ غیرملکی دورے پر گئے ہوئے تھے، بیچارے شہریارخان نے کھلاڑیوں سے 5 منٹ کی رسمی ملاقات کی اور پھر اسٹیڈیم میں ٹیسٹ دیکھتے رہے جہاں ان کا کوئی ہم منصب موجود نہ تھا۔
ایسے میں بولڈ پر امپائر کے انداز میں آؤٹ کا اشارہ کرنا کیمرے کی آنکھ سے پاکستانی شائقین نے بھی دیکھا، انھیں اگر ٹیم کی سرزنش ہی کرنا تھی تو 4،5دن انتظار کر لیتے ویسے ہی اسے واپس تو آنا ہی تھا، اب ڈھاکا سے چیئرمین بھارت جانے والے ہیں، امید ہے کہ وہاں انھوں نے جگ موہن ڈالمیا سے ملاقات کا پیشگی وقت ضرور لیا ہوگا، شہریارخان جب سے بورڈ کے سربراہ بنے کئی غیرملکی دورے کر چکے ، انھیں چاہیے کہ زیادہ وقت ملک میں ہی رہ کر کرکٹ کے بگڑے معاملات سدھارنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی بہتری تو آئے۔ زمبابوے کا دورہ ایک سنہری موقع ہے، کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان سپر لیگ بھی کرا دینی چاہیے۔
ایک بات کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ ڈالرز دکھائیں تو بڑے بڑے پلیئرز آنے کو تیار ہو سکتے ہیں، ہوم سیریز کے بعد پاکستان سپرلیگ کو ہدف بنانا چاہیے، بورڈ کے پاس غیرملکی کرکٹرز کو قائل کرنے کا اچھا موقع ہو گا، وہ یہ کہہ سکیں گے کہ دیکھیں زمبابوین پلیئرز یہاں آرام سے کھیل کر گئے آپ بھی آئیں، رمیز راجہ، مصباح الحق اور شاہد آفریدی جیسے پلیئرز اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،7،8فرنچائز ٹیموں کی لیگ میں ہر ٹیم میں 2،3غیرملکی کرکٹرز رکھنا مشکل نہ ہو گا، بھاری معاوضے پر انھیں بلایا جا سکتا ہے، اس طرح ٹیمپو بن جائے گا اور بڑی ٹیموں کو بھی ٹور پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی۔
یو اے ای میں پی ایس ایل کرانے کا مالی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر اس سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں مدد نہیں ملے گی، اس کے لیے ضروری ہے کہ سب اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر کام سبحان احمد پر نہیں چھوڑا جاتا، وہ بیچارے پس منظر میں رہ کر بڑے بڑے معاملات سلجھا رہے ہوتے ہیں، دیگر افراد کو بھی ذمہ داری محسوس کرنا ہو گی، زمبابوے سے سیریز کے انتظامات میں ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی خاصا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
جی ایم آغا اکبر سائیڈ لائن ہو چکے، انھیں انا لے ڈوبی، وہ خود کو برتر سمجھتے ہوئے میڈیا کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے تھے جس کی وجہ سے حکام کو ایکشن لینا پڑا، ہمارے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر اپنے جونیئر کو انگلی پکڑاؤ تو وہ ہاتھ تھام لیتا ہے، ذرا سا اختیار ملے یا کام کرنے دیا جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ تو میں کرتا ہوں میرا سینئر تو فضول اس کرسی پر بیٹھا ہے، بس وہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے، آغا اکبر بھی یہی کر بیٹھے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، امجد بھٹی کو رضا راشد جیسے محنتی نوجوانوں کو آگے لانا چاہیے۔
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں آئی سی سی کا کردار شرمناک ہے،اس نے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا، اب جب پی سی بی اپنے طور پر سیریز کا انعقاد کر رہا ہے تو بھی کونسل کو یہ ہضم نہیں ہو رہا، جب زمبابوین کرکٹرز آ سکتے ہیں تو آئی سی سی کے امپائرز اور ریفری کیوں نہیں؟ اسے چاہیے تھا کہ میچ آفیشلز بھیج کر پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتی مگر اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی سی سی یہاں انٹرنیشنل میچز کا انعقاد نہیں چاہتی، یہ افسوسناک بات ہے۔
اسی طرح کرکٹرز کی انٹرنیشنل تنظیم بھی منفی کردار ادا کر رہی ہے اس کا بس نہیں چل رہا کہ زمبابوین کھلاڑیوں کو آستین سے پکڑ کر پاکستان جانے سے روک دے، یہ رویہ اچھا نہیں، آئی سی سی اور فیکا دونوں کا کام کرکٹ کا فروغ اور پلیئرز کے مفادات کا خیال رکھنا ہے، انھیں اس میں اپناکردار ادا کرنا چاہیے، حکومت پاکستان اگر فول پروف سیکیورٹی کا یقین دلا رہی ہے تو اس کی بات ماننی چاہیے، ایک واقعے کی وجہ سے کھیل سے محبت کرنے والے لاکھوں پاکستانی شائقین کو تاعمر ملک میں میچز دیکھنے سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔
زمبابوے سے میچز کے دوران ابتدا میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیم میں میچز کرائے جائیں مگر اس کی مخالفت سامنے آئی کہ ایسے تو سیریز کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا، لہذا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ شائقین کو بھی آنے دیا جائے گا، ہم 6 برس سے ملک میں کرکٹ نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں، اب زمبابوے ہی سہی کوئی ٹیم آ رہی ہے تو اسٹیڈیم بھر دینا چاہیے۔
بورڈ ٹکٹوں کے نرخ خاصے کم رکھنے کا سوچ رہا ہے، ایسے میں شائقین بڑی تعداد میں آئیں، ہر گیند پر کھلاڑیوں کو داد دیں تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ پاکستانی زندہ دل قوم ہیں، ہمیں اتنے عرصے کرکٹ سے محروم رکھ کر ناانصافی کی گئی، ہر کسی کو دوسرا چانس ملتا ہے ہمیں بھی مل گیا اب یہ سب کا فرض ہے کہ مل کر اس سے فائدہ اٹھائیں، اسی صورت سونے کرکٹ میدان ہمیشہ آباد رہیں گے۔
skhaliq@express.com.pk