ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سوال

ہمارے یہاں یہ رواج نسبتاً کم ہے اور جہاں یہ سہولت موجود ہے وہاں بھی اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔

Amjadislam@gmail.com

دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور عوام دوست معاشروں میں ایک مشترک بات یہ بھی ہے کہ ان کی یونیورسٹیاں مختلف النوع علمی موضوعات پر تحقیق کے فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں اور پھر اس تحقیق سے متعلق کتابوں کو خود اپنی نگرانی میں شائع کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہر یونیورسٹی کے ساتھ آپ کو اس کا اپنا ایک اشاعتی ادارہ اور پرنٹنگ پریس بھی ملے گا جس کی شائع کردہ کتابیں دنیا بھر میں علم کے فروغ اور اس یونیورسٹی کے تعارف کا ذریعہ بنتی ہیں۔

ہمارے یہاں یہ رواج نسبتاً کم ہے اور جہاں یہ سہولت موجود ہے وہاں بھی اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ حالیہ چند برسوں میں پنجاب یونیورسٹی پریس نے البتہ اس خلا کو بھرنے کی بہت حد تک ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی UMT کے قائم کردہ پریس کی پہلی دو کتابوں کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا۔ اتفاق سے ان دونوں کتابوں کا تعلق فکشن سے ہے جو اس اعتبار سے لائق تحسین ہے کہ فی الوقت ہم نے تعلیم کا مقصد صرف سائنس، آئی ٹی اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک ہی محدود کر رکھا ہے۔

جن کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم سہی مگر ادب اور سوشل سائنسز کی تعلیم کے بغیر آدمی روبوٹ تو شائد بن جائے پورا انسان نہیں بن سکتا۔ پہلی کتاب نعیم بیگ صاحب کا ناول Kogon Plan ہے جو موجودہ دہشت گردی کے پس منظر میں لکھا گیا ایک ناول ہے اور دوسری کتاب برادر عزیز اور مشہور ڈرامہ نگار عبدالقادر جونیجو کا تحریر کردہ ناول The Dead River ہے جس کا موضوع دریائے سندھ کے اطراف میں موجود تہذیب کی شکست و ریخت ہے۔ اتفاق سے دونوں کی زبان انگریزی ہے جو اس اعتبار سے اہم ہے کہ فی زمانہ ادب کے حوالے سے دنیا پاکستانی زبانوں میں لکھے جانے والے اعلیٰ اور منتخب ادب سے بھی بہت حد تک نا آشنا ہے کہ ہمارے یہاں غیر ملکی زبانوں میں ترجمے کی روایت بے حد کمزور اور بے ترتیب ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ستر کی دہائی میں شروع ہونے والے اینٹی رشیا افغان جہاد اور اس کے تسلسل میں رونما ہونے والے واقعات اور ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کے بارے میں صحافتی تجزیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ڈراموں، فلموں، موسیقی اور مصوری میں بھی اس صورت حال، اس کے عوامل اور اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نعیم بیگ کے Kogon Plan سے قبل محسن حامد اور محمد حنیف نے انگریزی اور ظفر محمود، اشرف شاد اور مستنصر حسین تارڑ نے اردو میں اس حوالے سے قابل ذکر ناول لکھے ہیں جب کہ ان کے علاوہ بھی ناول اور افسانے کی اصناف میں اس صورتحال پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

نعیم بیگ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس ناول میں ہمارے خطے کے بارے میں تشکیل دیے جانے والے عالمی منصوبوں، جاسوسی ناول کے انداز، ملکی مفادات کی محافظ ایجنسیوں کے کردار اور مذہبی حوالوں سے برسر عمل جماعتوں کی کارفرمائیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔

تقریب سے UMT کے نمائندے، مستنصر حسین تارڑ، سلیمہ ہاشمی، اصغر ندیم سید اور راقم الحروف کے علاوہ صدر مجلس چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان قاسم بگھیو نے بھی خطاب کیا اور سب نے دونوں کتابوں پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میرے نزدیک سب سے زیادہ اہم اور فکر انگیز گفتگو کوگن پلان کے منصف نعیم بیگ کی ہی رہی کہ انھوں نے اس بظاہر ''مقامی'' مسئلے کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہونے والے مغربی طاقتوں کے ان فیصلوں سے جوڑ کر ایک خطرناک عالمی پلان کا نشاندہی کی جس میں طے کیا گیا تھا کہ آئندہ اگر کوئی جنگ ہو گی تو میدان جنگ تیسری دنیا ہو گی۔


اب اگر اس انکشاف کی روشنی میں گزشتہ ستر برس کی عالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے (واضح رہے کہ 9 مئی 2015ء دوسری جنگ عظیم یورپی طاقتوں کی فتح کی 70 ویں سالگرہ کا دن ہے) تو کوریا، ویت نام، لاطینی امریکا، ایران، عراق، افغانستان، لیبیا، مصر، شام اور یمن میں ہونے والی تمام جنگیں ہمیں اسی منصوبے کا تسلسل نظر آتی ہیں۔

نعیم بیگ کی گفتگو کا آخری جملہ خاص طور پر بہت اہم اور فکر انگیز تھا جو ان کے اس ناول کا مرکزی نکتہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ Kogon Plan لکھا تو فکشن کی Form میں گیا ہے مگر اس میں اٹھایا جانے والا سوال سو فیصد حقیقی ہے اور وہ یہ کہ یہ ملک یعنی ہمارا پاکستان ہمارے پاس بار بار کیا لینے کے لیے آتا ہے؟ یعنی اصل بات اس صورت حال کے پس پردہ موجود وہ سوال اور تقاضہ ہے جس کے جواب میں ہمارا آنے والا کل سانس لے گا اور جس کے سائے میں ہماری اگلی نسلوں نے اپنی زندگیاں گزارنی ہیں۔

عبدالقادر جونیجو اپنی علالت کے باعث اس محفل میں شریک نہ ہو سکے لیکن ان کی شخصیت اور اس حالیہ ناول کے بارے میں خاصی تفصیل سے بات ہوئی کہ تقریباً تمام ہی مقررین ان کے دیرینہ دوستوں اور ساتھی فنکاروں میں سے تھے۔ جن احباب نے ان کے ٹی وی ڈرامے بالخصوص ''دیواریں، چھوٹی سی دنیا اور سیڑھیاں'' دیکھ رکھے ہیں وہ اس بات سے یقینا باخبر ہیں کہ سندھ کی قدیم تاریخ اور موجودہ زندہ اور بعض صورتوں میں دم توڑتی ہوئی تہذیب ان کے محبوب اور مخصوص موضوعات ہیں۔

تاریخ، بشریات اور تہذیبی اقدار پر ان کی نظر بہت گہری ہے اور سونے پر سہاگے کا کام ان کے وسیع مطالعے اور فکشن نگاری کی فطری صلاحیت نے کیا ہے کہ ان کے پاس بھی قصہ گوئی کا وہی مخصوص فن ہے جس کی بنیاد پر شہزاد نے ایک ہزار ایک راتوں تک اپنے ممکنہ قاتل کی نیند اڑائے رکھی تھی۔ اس ناول کا موضوع دریائے سندھ کے اردگرد کی وہ بکھرتی ہوئی تہذیب ہے جس کی جڑیں تاریخ میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ شائد اس لیے اس کا نام بھی The dead River رکھا گیا ہے۔ دنیا کے تمام قدیم اور بڑے تہذیبی مراکز کا تعلق کسی نہ کسی دریا سے جا ملتا ہے کہ اگلے وقتوں میں پانی کی رعایت سے دریاؤں کے کنارے ہی سب سے زیادہ آباد ہوا کرتے تھے۔

دیکھا جائے تو جونیجو کا ناول جہاں ہمیں تاریخ کی گلیوں میں لے جاتا ہے وہاں نعیم بیگ کا کوگن پلان ہمارے حال اور مستقبل کی تصویر کشی کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن ایک سطح پر یہ دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں بن جاتے ہیں کہ ماضی حال اور مستقبل کی یہ تقسیم تو ہم انسانوں نے اپنی آسانی کے لیے بنا رکھی ہے۔ شائد اسی لیے غالب نے کہا تھا کہ؎

ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
Load Next Story