اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی
گھپ اندھیرے میں کس نے کہاں سے پھندا پھینکا اور کہاں کی راہ دکھائی یہ اسے پتہ ہی نہ چل سکا۔
سچ تو یہ ہے کہ اس نادرالوجود اونٹ کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں۔ کہتے ہیں جب اس اونٹ کا جنم ہوا تھا تو اس کے تمام اعضا صحیح سلامت تھے۔ یہ بڑی جلدی جوان ہوا، لیکن جوان ہوتے ہی اس کی خرمستیاں بڑھ گئیں۔ جس ماں نے اسے جنم دیا تھا یہ جلد ہی اس کی آغوش سے بھاگ کھڑا ہوا، کہ نئی دنیا اس کی منتظر تھی۔ لیکن بدقسمتی سے لڑکپن ہی میں اسے کچھ شوریدہ سروں اور نادیدہ قوتوں نے ہائی جیک کر لیا۔ ہاں ایک بات بتانا بھول ہی گئی کہ اس خوبصورت اونٹ کا ایک جڑواں بھائی بھی تھا۔
دونوں نے بچپن اور لڑکپن کی شرارتوں کے ساتھ جوانی میں قدم رکھا تھا۔ جو بھائی پانچ منٹ بڑا تھا اسے شکوہ تھا کہ ماں باپ چھوٹے بھائی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ یوں ان نادیدہ اور طالع آزما شہ سواروں نے چھوٹے اونٹ کو اپنے قبضے میں کر لیا اور بڑے کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔ اونٹ کا کینہ مشہور ہے۔ بڑے بھائی نے جب یہ سوتیلا پن دیکھا تو اس نے اپنی محرومیوں کا علاج یوں ڈھونڈا کہ اپنے قبیلے سمیت اجنبی ہو گیا۔ اور چین کی بنسری بجانے لگا۔
اب رہ گیا وہ بانکا چھبیلا، نٹ کھٹ، شریر اونٹ جس کو بڑے بھائی کی سرداری پسند نہیں تھی۔ آزادی پا کر بہت خوش ہوا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنی لمبی گردن لہرا لہرا کر درختوں کی ہری ہری شاخیں توڑتا پتے چباتا۔ اس کو جنم دینے والی ماں پریشان ہو کر سوچتی کہ کیا کروں؟ کیسے سمجھاؤں؟ ابھی وہ اسی غم میں تھی کہ نوجوان اونٹ کی گردن میں کئی پھندے آن گرے۔ کون سا پھندا کس کا تھا؟ یہ وہ نہ دیکھ سکا کیونکہ اس پہ سواری کرنے والوں نے پیچھے سے وار کیا تھا اور اس کی آنکھوں کو ڈھانپ دیا تھا۔
صرف سامنے کی طرف دو سوراخ اتنے ہی بڑے رکھے تھے جو سواروں کی مرضی کے مطابق تھے تا کہ وہ اتنا ہی دیکھ سکے جتنا قبضہ کرنے والے دکھانا چاہتے تھے۔ سو وہ خوبصورت اونٹ کا بچہ جس نے بڑے چاؤ سے جنم لیا تھا جلد ہی اپنی ناسمجھی اور حماقتوں کی بنا پر اپنے جنم دینے والوں کی گود سے رسی تڑا کر آزادی کی ترنگ میں اس اندھیرے گھنے جنگل میں جا نکلا جہاں قزاقوں نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ قزاق اپنے اپنے مطلب برآری کے بادشاہ تھے۔
گھپ اندھیرے میں کس نے کہاں سے پھندا پھینکا اور کہاں کی راہ دکھائی یہ اسے پتہ ہی نہ چل سکا۔ چلتے چلتے جب وہ ادھیڑ عمری کو پہنچا تو اسے اپنا بڑا بھائی بھی یاد آنے لگا جو اس کی طاقت تھا، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس پر سواری کرنے والے سوار قبروں میں جا سوئے تھے اور کچھ نئے سواروں نے اسے قید کر لیا تھا۔ اب اس میں اتنی توانائی نہیں تھی کہ اچھل کود کر کے اپنی رسی تڑاتا یا سوار کو زمین پہ گرا دیتا۔ اب تو اس کی ہر کل ٹیڑھی میڑھی اور بوسیدہ ہو چکی تھی۔ جو جہاں چاہے لے جائے وہ اب دوسروں کا غلام تھا۔ وہ جہاں چاہتے تھے اسے لے جاتے تھے اور وہ جانے پہ مجبور تھا کہ یہی اس کی قسمت تھی۔
اس کے سوار یعنی ساربان بہت خوش تھے۔ کبھی وہ عدالتوں کی طرف جا نکلتے۔ من مانے فیصلے کرواتے، کبھی کسی کو پھانسی چڑھوا دیتے۔ جس کو چاہتے مجرم قرار دلوا دیتے، جس کو چاہتے اسمگلنگ، ہیروئن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے اور ثبوتوں کے باوجود عدالتوں سے باعزت بری کروا دیتے۔ بدکردار اور اخلاق باختہ عورتوں، مردوں کو بڑے بڑے عہدے، جاگیریں اور دولت عطا کر دیتے اور بعض بدنصیبوں کو بے قصور ہونے کے باوجود خودساختہ ثبوتوں اور خریدے گئے غلاموں کے ذریعے مجرم قرار دے دیتے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا کہ ساربانوں کے نہ مذہب کا پتہ تھا نہ ان کے وطن کا۔ بس طاقت اور قوت ان کا دین ایمان تھا۔ ضمیر نام کی کسی چیز سے یہ واقف نہ تھے۔ یہ کسی دوسرے ہی سیارے کی مخلوق تھے۔ جنھوں نے آزادی کی چراگاہ سے اونٹ کا ایک بچہ اچک لیا تھا۔
کبھی یہ ساربان اپنے ساتھ اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے لیے بھی استعمال کرتے۔ جب یہ اقتدار کے اونٹ کو کسی علمی و ادبی سرکاری ادارے میں لے جانے کے لیے تیار ہوتے تو طالع آزما اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے، کوئی کوہان سے چپک کر بیٹھ جاتا۔ پھر ساربانوں کی مرضی سے جب یہ اونٹ کسی کروٹ تھک کر بیٹھ جاتا تو یہ بالشتیے جو چپکے سے ساتھ چلے آتے تھے جلدی جلدی مختلف کمروں میں جا کر کرسی نشین ہو جاتے۔
کوئی کہیں کا ایم ڈی بن جاتا کوئی چیئرمین یا چیئرپرسن۔ ادارے میں موجود لوگ انھیں دیکھتے اور ان کے قد و قامت سے بڑی کرسیوں اور اوقات سے بڑے عہدوں کو دیکھتے اور آپس میں مل کر آنسو بہاتے۔ مگر ساربانوں کے قبیلے کے خلاف بولنے کی سزا جانتے تھے اس لیے چپ رہتے اور وہ کہاوت یاد کر کے دل کو تسلی دیتے کہ ''اندھیر نگری چوپٹ راجہ' ٹکے سیر بھاجی' ٹکے سیر کھاجا'' ساتھ ساتھ کوئی بوڑھا سیانا اس کہاوت کا مطلب بھی بتا دیتا اور بتا دیتا کہ جب انصاف ختم ہو جاتا ہے تو سبزی اور کھویا ایک ہی دام بکنے لگتا ہے۔ پھندہ کسی بھی پتلی گردن والے کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اور جن کی گردن موٹی ہوتی ہے انھیں بے قصور قرار دے کر باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔
ساربانوں اور ان کے قبیلے کے عیش تھے۔ لیکن اکثر ان میں رقابت بھی پیدا ہو جاتی اور یہ اس کے کوہان کو قبضے میں کرنے کے لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کرنے لگتے۔ تب ایک زردار ساربان نے اپنی عقل و دانش سے یہ فارمولا نکالا کہ ''مل کر کھاؤ اور متحد رہو۔'' اس طرح دونوں قبیلے آپسی دشمنیاں بھلا کر اپنی آئندہ نسلوں کی تاجپوشی اور وراثت کے لیے اکٹھے ہو گئے۔
کچھ عرصہ ایک قبیلہ سواری کرتا اور دوسرا اس کے استحکام کے لیے کام کرتا تا کہ آنے والے وقتوں میں اسے اقتدار کے اونٹ کی سواری میں کوئی دقت نہ اٹھانی پڑے۔ اب راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ جسے چاہو سرفراز کرو، جسے چاہو مروا دو، ایسے میں قصیدہ لکھنے اور براہ راست جھوٹی تعریف کرنے والوں کی لاٹری نکل آئی۔ ''زبردست کا ٹھینگا سر پر'' والا محاورہ مجسم ہو گیا۔
اب اپنی عدالتیں تھیں، اپنے اپنے میڈیا ہاؤسز تھے، اپنے اپنے قصیدہ گو تھے اور اپنے اپنے مرثیہ خواں۔ انعامات اعزازات کی بارشیں تھیں، بدی نے نیکی پہ فتح پا لی تھی، اماوس کی راتیں ان لوگوں کا مقدر بن گئی تھیں جو جانتے تھے کہ ایک تندرست و توانا اونٹ کے بچے کی کلیں کیونکر ٹیڑھی ہوئیں۔ لیکن انھیں بولنے، اور لکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
اونٹ دن بہ دن بوڑھا اور کمزور ہو چلا تھا۔ اب وہ اپنے بھائی اور ماں باپ کو یاد کر کے روتا تھا اور پچھتاتا تھا کہ اس نے آزادی کی چراگاہ میں سانس لینے کے لیے جو بے وقوفیاں کی تھیں کاش وہ اپنے بزرگوں کی باتوں پہ کان دھرتا، لیکن وہ تو اب ''شتر بے مہار'' تھا۔ جہاں چاہے گھس جائے، جسے چاہے تباہ کر دے، جس کو چاہے زمین سے اٹھا کر آسمان پہ بٹھا دے، لیکن کبھی کبھی وہ ان نادیدہ ساربانوں کے بوجھ سے بے دم ہو کر کہیں بیٹھ جاتا۔ لیکن ساربانوں کی گرفت ڈھیلی نہ ہوتی۔
اور پھر ایک دن وہ ایسا بیٹھا ایسا بیٹھا کہ دوبارہ اٹھ نہ سکا۔ ساربانوں نے جب مردہ اونٹ کو دیکھا تو پہلے تو یہی سمجھے کہ اس کی تو کوئی کل ہی سیدھی نہیں ہے، ابھی اٹھ کھڑا ہو گا ہمیشہ کی طرح۔ لیکن اس بار معاملہ برعکس تھا۔ ساربانوں نے مردہ اونٹ کو چیل، کووں اور گِدھوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا اور خود چراگاہ سے کسی نئے اونٹ کو نکیل ڈالنے کی تلاش میں نکل پڑے۔ لیکن اب اس جنگل میں کوئی زندہ اونٹ نہ تھا، نہ گھوڑا تھا نہ ہاتھی تھا۔
افسردہ ساربان سوچ رہے تھے کہ آئندہ نسلیں کس پہ سواری کریں گی؟ کہ اجنبی گھوڑوں کی ٹاپوں سے جنگل گونج اٹھا۔ لمحہ بھر میں سواروں کا ایک لشکر کسی اجنبی دیس سے حملہ آور ہوا۔ اور پھر نہ جنوں رہا نہ پری رہی، جو رہی سو بے خبری رہی۔ سواری کے لیے نیا جانور تلاش کرنے والے خود شکار ہو گئے۔ کہاں کی چراگاہ؟ کہاں کا آزادی کا جنگل اور کہاں ساربانوں کے قبیلے؟ واقعی شتر بے مہار کا کیا بھروسہ؟ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ذرا سنبھل کے کہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ لمحہ بھر میں کوہان سے گرا کر خود مر گیا؟