مذہب خدا کے لیے یا سیاسی و جنگی ہتھیار… پہلاحصہ
دنیا میں تقریباََ ہرمذہب کے عقائد کو کسی بھی جنگ کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔
مذاہب کے انسانی حیات میں کردار پر غورکریں تو بہت سے سوالات انسانی دماغ میں جنم لیتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ حیران کن بات ہے کہ آخر امن ،انسانی فلاح اور بقا کے گیت گاتیں انجانے، ان دیکھے جہانوں سے برستی مذہبی آبشاریں زمین پرگرتے ہی انسانی خون سے بھری ہوئی ندیوں میں کیوں تبدیل ہوجاتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس مذہب کو ابتدائی معاشروں میں انسان اپنی ذات کے سوال اور اپنی شناخت کو حل کرنے کے لیے ذریعہ بناتے تھے، رفتہ رفتہ اسی مذہب کے ذریعے سماج کو نظم کرنا شروع کردیا۔
ان دیکھے خدا کا خوف اور تقدس وہ طاقتور ہتھیار تھے جن کی مدد سے سماج کا نظام چلانا بہت آسان تھا۔بہت سے مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ مذہب کو انسان نے اپنی ذات، کائنات اوراس کی حقیقت جاننے کی خواہش، اجنبی اشیاء کا فطرت سے تعلق اور فطرت کے سمجھ میں نہ آنیوالے قوانین کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے خوف کی وجہ سے جنم دیا ۔اسی خوف کو مقتدر طبقات اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے ہیں۔
اسی لیے مذہب جنگ کا سب سے اہم اور تاریخی ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں تقریباََ ہرمذہب کے عقائد کو کسی بھی جنگ کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔ مذہب کو جنگی ہتھیار کے طور پر ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ مذہب نے کبھی بھی دوسرے مذہب یا مخالف آئیڈیالوجی سے وابستہ افراد کو قبول نہیں کیا،البتہ بڑی مہانتا کے ساتھ برداشت کا درس ضرور دیا جاتا ہے۔
عموماََ ہر مذہب میں اورخصوصاََ عیسائیت میں۔ مگر برداشت تو ناپسندیدہ چیزوں، باتوں اورانسانوں کوکرنا ہوتا ہے ، برداشت کا درس دینے والے در حقیقت اپنے مخالف مذاہب یا نظریات یا مسلک یا خیالات کے لوگوں کو قبول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قوتِ برداشت ذرا ذرا سی بات پر جوا ب دے جاتی ہے۔اسی وجہ سے جب بھی حکمران طبقہ اپنے مفادات کے لیے کوئی فتنہ یا فساد کھڑا کرنا چاہتا ہے کرلیتا ہے ،کیونکہ لوگوں میں مصنوعی سطح پر پیدا کی ہوئی برداشت کا ختم کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے۔
اسی طرح مذہب ہی کے نام پر انتشار برپا کرنا اس سے بھی آسان تر ہوجاتا ہے۔ مذہب کے نام پر کیسے غاصب طبقات غریبوں کو غریب تر کرتے ہیں، کیسے خدا کے نام پر اپنی طاقت بڑھاتے ہیں،کیسے خدا سے وابستہ انسانی عقیدت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے، کیسے ان کو ٹکڑوں میں بانٹا جاتا ہے، وہ یہ سب عقل کو کبھی استعمال کرکے ان کے قول وفعل کے تضاد کو پہچاننے کے قابل نہ ہوجائیں ۔
اس لیے ان کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھی جاتی ہے اور ایک طرف تو معصوم اذہان کو یہ غاصب طبقات اپنے خلاف جدو جہد سے روکتے ہیں تو دوسری طرف ان کی پسماندہ حالت کو ان کی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے اپنی حالت کو بہترکرنے کے لیے کسی کوشش کا امکان بھی باقی نہیں رہنے دیتے ۔اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو ایک دوسرے سے مذہب و مسلک کے نام پر بر سرِ پیکار رکھا جاتا ہے ہے۔ جہاد جس کا سیدھا اور آسان معنی ہی جدو جہد کرنا ہے ۔
اس لفظ کو بنیاد بنا کر دنیا میں کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا مگر کبھی کسی کو یہ سوچنے کی اجازت نہیں کہ جہاد تو جہد سے ہے اس سے مراد انسانوں کا قتل کیسے ہے۔ بظاہر سب مذاہب خدا کی طرف بلاتے ہیں مگر اپنے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے یہ انسانوں کو اپنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں لانے یا خارج کر دینے پر اصرار کرتے آئے ہیں اور اسی اصرار کے نتیجے میں انسانوں کی تقسیم در تقسیم ہوتی گئی۔
مثلاَ یہودیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہودی اپنی شناخت کی بنیاد مذہبی عقائد کی پیروی کی بجائے ایک مخصوص علاقے کی نسل پر رکھتے ہیں یعنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر اور ان کی تاریخی طور پرکوشش بھی یہ رہی ہے کہ وہ اپنی اس (خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی اعلیٰ نسل کی ) خصوصیت اور خالص پن کو بر قرار رکھیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب یعنی عیسائیت اور اسلام کی طرح اپنے دائرہِ یہودیت میں کسی ''دوسرے'' کو جگہ دینا پسند نہیں کرتے، یعنی وہ خود کو ہی واحد خدا کی اعلیٰ نسل تصور کرتے ہیں، مگر بڑے فخر سے اپنی اس نسل پرستی کا دفاع یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو عیسائیت یا اسلام کی طرح مجبور کر کے اپنے دائرے میں شامل نہیں کرتے، مگر اس کے پس پردہ ان کے عقیدے کیمطابق اپنی ہی نسل کے اتحاد کا پختہ خیال کار فرما ہے جو بنا کسی ''تخلاف'' اور ''تفریق'' کے ان کی ''کلیت'' کو برقرار رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی نسل کشی کو شاید اسرائیل اپنا آسمانی حق سمجھتا ہے ۔
یہودیت کے برعکس عیسائیت کا آغاز ہی مذہبی تقلیب سے ہوا جو یہودیت ہی سے جنم لیتی ہے اور شاید یہی یہودیت کی کلیت میں وہ شگاف ہے جس کا یہودی اکثر فائدہ اٹھاتے ہیں کبھی نمایاں کر کے توکبھی بوقتِ ضرورت اس'' دوسرے '' کو خودمیں ضم کر کے جو اسی سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائیت کی بقا اور افزائش دوسروں پر منحصر تو ہے مگر یہودیت سے اس کا جو جنم ہوا ، وہ معنی خیز ہے آج تک عیسائیت میں اسی نسل کے عیسائیوں کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ جنوبی ایشیا کے عیسائیوں یا افریقہ کے عیسائیوں کو نہیں ملی۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف رنگ کے عیسائی پیروکار دنیا بھر میں اس طرح سے معاشی طور پر مضبوط ہو کر نہیں ابھرے جس طرح مغربی یورپ، امریکا اور برطانیہ کے سفید نسل عیسائی ریاستیں مضبوط ہوئیں ہیں۔مذہب کی نسبت نسل پرستی کو اہم سمجھا گیا ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ معاشی مضبوطی کا مسئلہ ہو تو نسل پرستی کو فوقیت دی جاتی ہے اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کوئی معرکہ سر کرنا ہوتو مذہبی خیالات کا سہارا لے کر اپنی نسل سے باہر کے ''دوسرے'' کو استعمال کرنے کے لیے خود میں وقتی طور پر ضم بھی کر لیا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت مخالف کے طور پر ابھار بھی لیا جاتا ہے۔
(جاری ہے۔)
ان دیکھے خدا کا خوف اور تقدس وہ طاقتور ہتھیار تھے جن کی مدد سے سماج کا نظام چلانا بہت آسان تھا۔بہت سے مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ مذہب کو انسان نے اپنی ذات، کائنات اوراس کی حقیقت جاننے کی خواہش، اجنبی اشیاء کا فطرت سے تعلق اور فطرت کے سمجھ میں نہ آنیوالے قوانین کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے خوف کی وجہ سے جنم دیا ۔اسی خوف کو مقتدر طبقات اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے ہیں۔
اسی لیے مذہب جنگ کا سب سے اہم اور تاریخی ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں تقریباََ ہرمذہب کے عقائد کو کسی بھی جنگ کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔ مذہب کو جنگی ہتھیار کے طور پر ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ مذہب نے کبھی بھی دوسرے مذہب یا مخالف آئیڈیالوجی سے وابستہ افراد کو قبول نہیں کیا،البتہ بڑی مہانتا کے ساتھ برداشت کا درس ضرور دیا جاتا ہے۔
عموماََ ہر مذہب میں اورخصوصاََ عیسائیت میں۔ مگر برداشت تو ناپسندیدہ چیزوں، باتوں اورانسانوں کوکرنا ہوتا ہے ، برداشت کا درس دینے والے در حقیقت اپنے مخالف مذاہب یا نظریات یا مسلک یا خیالات کے لوگوں کو قبول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قوتِ برداشت ذرا ذرا سی بات پر جوا ب دے جاتی ہے۔اسی وجہ سے جب بھی حکمران طبقہ اپنے مفادات کے لیے کوئی فتنہ یا فساد کھڑا کرنا چاہتا ہے کرلیتا ہے ،کیونکہ لوگوں میں مصنوعی سطح پر پیدا کی ہوئی برداشت کا ختم کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے۔
اسی طرح مذہب ہی کے نام پر انتشار برپا کرنا اس سے بھی آسان تر ہوجاتا ہے۔ مذہب کے نام پر کیسے غاصب طبقات غریبوں کو غریب تر کرتے ہیں، کیسے خدا کے نام پر اپنی طاقت بڑھاتے ہیں،کیسے خدا سے وابستہ انسانی عقیدت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے، کیسے ان کو ٹکڑوں میں بانٹا جاتا ہے، وہ یہ سب عقل کو کبھی استعمال کرکے ان کے قول وفعل کے تضاد کو پہچاننے کے قابل نہ ہوجائیں ۔
اس لیے ان کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھی جاتی ہے اور ایک طرف تو معصوم اذہان کو یہ غاصب طبقات اپنے خلاف جدو جہد سے روکتے ہیں تو دوسری طرف ان کی پسماندہ حالت کو ان کی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے اپنی حالت کو بہترکرنے کے لیے کسی کوشش کا امکان بھی باقی نہیں رہنے دیتے ۔اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو ایک دوسرے سے مذہب و مسلک کے نام پر بر سرِ پیکار رکھا جاتا ہے ہے۔ جہاد جس کا سیدھا اور آسان معنی ہی جدو جہد کرنا ہے ۔
اس لفظ کو بنیاد بنا کر دنیا میں کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا مگر کبھی کسی کو یہ سوچنے کی اجازت نہیں کہ جہاد تو جہد سے ہے اس سے مراد انسانوں کا قتل کیسے ہے۔ بظاہر سب مذاہب خدا کی طرف بلاتے ہیں مگر اپنے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے یہ انسانوں کو اپنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں لانے یا خارج کر دینے پر اصرار کرتے آئے ہیں اور اسی اصرار کے نتیجے میں انسانوں کی تقسیم در تقسیم ہوتی گئی۔
مثلاَ یہودیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہودی اپنی شناخت کی بنیاد مذہبی عقائد کی پیروی کی بجائے ایک مخصوص علاقے کی نسل پر رکھتے ہیں یعنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر اور ان کی تاریخی طور پرکوشش بھی یہ رہی ہے کہ وہ اپنی اس (خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی اعلیٰ نسل کی ) خصوصیت اور خالص پن کو بر قرار رکھیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب یعنی عیسائیت اور اسلام کی طرح اپنے دائرہِ یہودیت میں کسی ''دوسرے'' کو جگہ دینا پسند نہیں کرتے، یعنی وہ خود کو ہی واحد خدا کی اعلیٰ نسل تصور کرتے ہیں، مگر بڑے فخر سے اپنی اس نسل پرستی کا دفاع یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو عیسائیت یا اسلام کی طرح مجبور کر کے اپنے دائرے میں شامل نہیں کرتے، مگر اس کے پس پردہ ان کے عقیدے کیمطابق اپنی ہی نسل کے اتحاد کا پختہ خیال کار فرما ہے جو بنا کسی ''تخلاف'' اور ''تفریق'' کے ان کی ''کلیت'' کو برقرار رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی نسل کشی کو شاید اسرائیل اپنا آسمانی حق سمجھتا ہے ۔
یہودیت کے برعکس عیسائیت کا آغاز ہی مذہبی تقلیب سے ہوا جو یہودیت ہی سے جنم لیتی ہے اور شاید یہی یہودیت کی کلیت میں وہ شگاف ہے جس کا یہودی اکثر فائدہ اٹھاتے ہیں کبھی نمایاں کر کے توکبھی بوقتِ ضرورت اس'' دوسرے '' کو خودمیں ضم کر کے جو اسی سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائیت کی بقا اور افزائش دوسروں پر منحصر تو ہے مگر یہودیت سے اس کا جو جنم ہوا ، وہ معنی خیز ہے آج تک عیسائیت میں اسی نسل کے عیسائیوں کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ جنوبی ایشیا کے عیسائیوں یا افریقہ کے عیسائیوں کو نہیں ملی۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف رنگ کے عیسائی پیروکار دنیا بھر میں اس طرح سے معاشی طور پر مضبوط ہو کر نہیں ابھرے جس طرح مغربی یورپ، امریکا اور برطانیہ کے سفید نسل عیسائی ریاستیں مضبوط ہوئیں ہیں۔مذہب کی نسبت نسل پرستی کو اہم سمجھا گیا ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ معاشی مضبوطی کا مسئلہ ہو تو نسل پرستی کو فوقیت دی جاتی ہے اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کوئی معرکہ سر کرنا ہوتو مذہبی خیالات کا سہارا لے کر اپنی نسل سے باہر کے ''دوسرے'' کو استعمال کرنے کے لیے خود میں وقتی طور پر ضم بھی کر لیا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت مخالف کے طور پر ابھار بھی لیا جاتا ہے۔
(جاری ہے۔)