بھارت میں آزادی صحافت کا معیار
بزنس کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ اخبار المناک خبروں میں بھی رجائیت کا تڑکا لگا دیتا ہے
امریکی پندرہ روزہ جریدے ''دی نیو یارکر'' نے ''ٹائمز آف انڈیا'' گروپ کی سربراہی کرنے والے دو بھائیوں سمیر اور ونیت کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے۔
وہ بھارت کے بیشتر لوگوں کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ جین مت کے پیروکار یہ دو بھائی بھارت کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک ہیں۔ نیو یارکر نے ان شکوک کی تصدیق کی ہے کہ ان دونوں کے نزدیک اخبار میں شائع ہونے والی کوئی خبر یا کالم کسی قسم کے تقدس کا حامل نہیں ہوتا بلکہ سب کچھ بکائو مال ہے جیسے کہ ٹیلکم پائوڈر یا ٹوتھ پیسٹ وغیرہ۔
بھارتی قارئین کو یہ جان کر دھچکہ لگے گا کہ جن خبروں کو وہ بڑے اشتیاق اور دلجمعی سے پڑھتے ہیں وہ سب پیسے دے کر چھپوائی جاتی ہیں۔ قاری کا احساس محرومی اور بے بسی اس وقت عروج پر پہنچ جاتی ہے جب اسے اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ جو خبر وہ پڑھ رہا ہے اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ۔ ادارتی معیار کی اس خلاف ورزی سے جین مت کے پیروکار ان دونوں بھائیوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک اخبار بھی ایک ایسی صنعت ہے جس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔
وہ اس بات پر الٹا فخر محسوس کرتے ہیں کہ انھوںنے اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑا دی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ملک بھر میں سب سے بڑے اخباری ادارے کے کرتا دھرتا ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ وہ غالباً دنیا بھر کے کسی بھی دوسرے اخبار سے کہیں زیادہ دولت کماتے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے بڑی اخباری صنعت کے آسٹریلوی نژاد مالک روپرٹ مردوک کی سلطنت ٹائمز آف انڈیا سے 20 گنا زیادہ بڑی ہے مگر اس کے باوجود اس کے منافع کی شرح ٹائمز آف انڈیا سے کہیں کم ہے۔ نیو یارکر نے ان پر نو صفحات پر مشتمل مضمون شائع کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ دونوں بھائی صحافت کے ساتھ ایک ناگزیر خرافات کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔
اشتہار دینے والے کو اصل گاہک سمجھ کر اس کی توقیر کرتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ دی ٹائمز آف انڈیا کی پرنٹ لائن پر ایڈیٹر کا نام ہی نہیں لکھا ہوتا، کیونکہ اس اخبار کا کوئی ایڈیٹر ہے ہی نہیں۔ کسی نے بہت پہلے یہ بات کہی تھی کہ اخبار میں لکھنا اشتہار کی پشت پر لکھنے کے مترادف ہے۔ دونوں جین بھائی اس بات پر نہ صرف لفظی طور پر بلکہ معنوی طور پر بھی عمل کرتے ہیں۔ ''ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کاروبار بہت اعلیٰ معیار کے قارئین کے ساتھ ہے۔ اس سے قبل ہم اشتہار کے لیے اخبار کی جگہ فروخت کرتے تھے۔
نیویارکر کے مضمون میں جین برادرز کے منہ سے نکلی ہوئی کسی بات کا حوالہ نہیں دیا گیا غالباً انھوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا ہو گا۔ البتہ ان کے ترجمانوں کی باتیں ضرور لکھی گئی ہیں اور شکر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ادارتی عملے کا رکن نہیں ہے۔ ان باتوں سے جین بھائیوں کے ذہن میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک ترجمان کہتا ہے ''ایڈیٹر حضرات کا تو یہ حساب ہے گویا سنگھاسن پر بیٹھے گرجدار آواز میں وعظ کر رہے ہیں اور 80,80 الفاظ پر مشتمل جملے بولتے ہیں۔ ونیت جین کا ذہن اس بارے میں بہت صاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اخباری بزنس میں کامیاب ہونے کی خاطر آپ کو ہر گز ایڈیٹر کی طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر آپ ادارتی ذہن کے مالک ہیں تو آپ ہمیشہ غلط فیصلے کریں گے۔''
درست کہ جین بھائیوں نے اخبار کو کاغذ کا کاروبار بنا دیا ہے لیکن یہ اس طرح ہوا کہ انھوںنے اخبار کی قیمت اتنی کم کر دی ہے کہ یہ زرد صحافت کی سطح تک گر گیا ہے۔ تاہم وہ اس کا برا نہیں مناتے کیونکہ انھوں نے اس پیشے کو ایک انتہائی منفعت بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک ایڈیٹر لوگ تھوک کے بھائو خریدے جائیں تو زیادہ سستے پڑتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر گری لال جین نے ایک دن مجھے فون کیا اور کہا، کیا میں اخبار کے مالک اشوک جین سے بات کروں گا۔ جسے میں اچھی طرح جانتا تھا اور اس کے بیٹے سمیر جین سے اس کا پیچھا چھڑائوں گا۔ گری نے کہا کہ اشوک جین بہت اچھا سلوک کرتا ہے مگر سمیر کا طرز عمل توہین آمیز ہے۔ اشوک جین نے جواب میں کہا کہ وہ جتنے چاہے گری لال جین خرید سکتا ہے مگر اس کو دوسرا سمیر کہیں سے نہیں مل سکتا جس نے اس کی آمدنی میں آٹھ گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اندر ملہوترا نے ایک بار مجھے بتایا کہ سمیر سینئر صحافیوں کو کس طرح اپنے کمرے میں زمین پر بٹھا کر مختلف تنظیموں کے دعوت ناموں کے جواب لکھواتا ہے۔
جین بھائیوں کے اخبار کے ذریعے اندھا دھند دولت کمانے کی مہم جوئی نے ان کے اخبار کو محض خرافات تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ صحافت محض ان کے کاروبار کو مہمیز دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ بزنس کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ اخبار المناک خبروں میں بھی رجائیت کا تڑکا لگا دیتا ہے۔ قتل و غارت' مجرمانہ حملے' حادثات اور آفات سماوی کی خبروں میں بھی وہ نوجوان پود کے حوصلے اور ہمت کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ غربت کے بارے میں خبروں کو غیر نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔
اخبار کے بزنس اور مینجمنٹ کے شعبوں کے اختیارات بہت زیادہ ہیں۔ میرے خیال میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران اخبارات پر جو سختی آئی تھی اس کی بنا پر ٹائمز آف انڈیا نے اپنی نئی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس دور میں جب دیکھا گیا کہ صحافیوں پر شکنجا کسا جا رہا ہے تو مینجمنٹ اور بزنس کے شعبوں نے ان پر برتری حاصل کر لی۔ اور صحافی شعبہ بزنس کے زیر نگیں آ گئے۔ اس سے قبل ایسے پریس نوٹ جن پر ''بزنس ناگزیر'' کا لیبل لگا ہوتا ہے ادارتی عملہ ردی کاغذوں کی ٹوکری میں پھینک دیتا تھا۔
جب سے ادارتی اور بزنس کے شعبوں کے تعلقات میں تبدیلی آئی ہے، آزادی اظہار پر قدغن لگ گئی ہے اور بزنس والوں کی ادارتی شعبے میں مداخلت بڑھ گئی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ مینجمنٹ اور بزنس کا شعبہ اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے پیش نظر ادارتی شعبے کو نہ صرف ہدایات جاری کرتا ہے بلکہ اس پر دھونس بھی جماتا ہے۔ مزید برآں بہت سے اخباری مالکان پہلے ہی راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں بیٹھے ہیں جو سیاسی پارٹیوں سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے رہتے ہیں۔راجیہ سبھا میں کی جانے والی ان سیاسی چالبازیوں کی جھلکیاں اخبارات کے کالموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سیاستدانوں اور اخبارات مالکان میں ان تعلقات کا ترجمہ Paid News یا ''اجرتی خبریں'' کیا گیا ہے۔ خبریں اس انداز میں لکھی جاتی ہیں جن میں کوئی خاص شخصیت یا نکتہ نظر نمایاں ہو جائے۔ عام قارئین کو بمشکل ہی اس بات کا پتہ چلتا ہے اطلاعات میں پراپیگنڈے کا ٹانکا کس جگہ پر لگایا گیا ہے یا کب کسی اشتہار کو خبر کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ بہر حال اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت میں ایک میڈیا کمیشن قائم کیا جائے جو اخبارات' ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لے جب 1977ء میں آخری پریس کمیشن بنایا گیا تھا تو اس وقت بھارت میں ٹیلی ویژن کا وجود نہیں تھا۔
نئے کمیشن کو سونپے جانے والی ذمے داریوں میں اخباری مالک اور ایڈیٹر اور صحافیوں کے حقیقی تعلقات کا جائزہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ اخبارات نے ''کنٹریکٹ سسٹم'' کا نفاذ کر رکھا ہے اور ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کو باہم پیوست کر رکھا ہے۔ آج ایک اخبار ٹیلی ویژن یا ریڈیو چینل کی ملکیت بھی حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ''کارٹل'' تخلیق ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے آزادی صحافت پر ان کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر حکمران جماعت میڈیا کمیشن قائم کرنا نہیں چاہتی۔
کیا یہ جین برادرز کے دبائو کا نتیجہ ہے جن کو بہت سی باتوں کی جوابدہی کرنی ہے؟ جین برادرز کو لازمی طور پر سمجھنا چاہیے کہ آزادی اظہار کا حق ایک لکھنے والے کو اس بنا پر دیا گیا تھا تاکہ وہ کسی ڈر خوف اور لاگ لپٹ کے بغیر سچی بات کہہ سکے۔ اگر اسے ایک ''شامل باجے'' کا کردار ہی ادا کرنا ہے تو پھر آزادی اظہار کہاں گئی؟ ایک جمہوری معاشرے میں اطلاعات تک رسائی کا آزادانہ حق ناگزیر ہے ورنہ جمہوریت کا دم گھٹ جائے گا۔ ایک ایسا پریس جس پر پابندیاں لگی ہوں آئین کی طرف سے آزادی اظہار کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)