مقتول درختوں کا مقدمہ کون لڑے گا
پاکستان میں درخت دشمنوں نے جنگلوں کو اجاڑنے کا اور درختوں پر آرے چلانے کا وطیرہ عرصے سے اختیار کر رکھا ہے
تشدد کی لہر اُمنڈی ہوئی ہے۔ ہم سب اس کی زد میں ہیں۔ خالی ہم نہیں' ہمارے درخت بھی۔
آخر درختوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے لیکن جس اندھا دھند انداز میں درخت کاٹے جا رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ انھیں جس بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے، اس کی مثال درختوں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ پہلے لمبے وقتوں سے ایسی خبر آیا کرتی تھی، مطلب یہ کہ پاکستان میں درخت دشمنوں نے جنگلوں کو اجاڑنے کا اور درختوں پر آرے چلانے کا وطیرہ عرصے سے اختیار کر رکھا ہے۔ مگر یہ وطیرہ اب زور پکڑ گیا ہے، اب جلدی جلدی ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں شاہراہ کے درخت آروں کی زد میں ہیں اور فلاں جنگل کو اجاڑ دیا گیا اور فلاں جنگل میں شیشم کے درخت بہت تھے یعنی ہزاروں کی تعداد میں انھیں اس طرح کاٹا گیا کہ اب اس جنگل میں شیشم کا کوئی درخت نظر نہیں آتا۔
اس ذیل میں اب ایک تازہ واقعہ سنئے، درختوں کے ایک جھنڈ کو صرف اس بنا پر کاٹ دیا گیا کہ اس کی شاخیں بہت نیچے جھک آئی تھیں۔ اتنی نیچے کہ ایک افسر اعلیٰ کا جب اپنے سرکاری دورے میں اس راہ سے گزر ہوا تو اسے سر جھکا کر وہاں سے گزرنا پڑا۔ یہ داستان ایک عینی شاہد انیس رحمٰن نے فرائی ڈے ٹائمز میں بہت دکھ کے ساتھ سنائی ہے۔
یہ داستان اس طرح ہے کہ ایبٹ آباد اور مری کے درمیان جو چند گلیاں یا سرکاری زبان میں گلیات شاد آباد ہیں جیسے نتھیا گلی' چھانگلا گلی' ڈونگا گلی وہیں کہیں ایوبیہ پارک نام کا ایک پارک بھی ہے۔ اس کی ایک راہ پر بہت پرانے درختوں کا ایک اچھا خاصا جھنڈ تھا۔ کتنے درخت بوڑھے ہو کر بہت جھک گئے تھے۔ ان درختوں کی قسمت بری تھی کہ خیبر پختون خوا کے ایک افسر اعلیٰ اس علاقے میں آ نکلے اور اس راہ سے گزرتے ہوئے انھیں اپنا سر پر غرور جھکانا پڑ گیا۔ انھوں نے ان بوڑھے درختوں کو اپنی نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور حکم جاری کیا کہ ان سب درختوں کو صاف کر دیا جائے۔ وائلڈ لائف محکمہ نے شاید ان کے گوش گزار بھی کیا تھا کہ ان درختوں کو کاٹنا قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ مگر اس افسر نے کسی کی ایک نہیں سنی اور اپنے حکم پر اڑا رہا۔
اس راہ میں دیودار اور چیڑ کے بلند و بالا درخت بھی قطار اندر قطار اس شان سے کھڑے تھے جیسے وہ ان بوڑھے درختوں کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ مگر دم کے دم میں افسر شاہی حکم کے تحت ان سب درختوں کا صفایا ہو گیا۔ اب افسر موصوف اس راہ سے گزرتے ہوئے سر اٹھا کر چل سکیں گے۔
ہاں اس داستان میں یہ بھی تو بتایا گیا ہے کہ ان درختوں کے کٹنے سے کتنے پرندے گھر سے بے گھر ہو گئے۔ اصل میں ایک گھنا پرانا درخت خالی درخت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی جگہ ایک پورا شہر ہوتا ہے۔ ایک شاد آباد بستی جس کی گھنی شاخوں کے بیچ کتنے پرندوں نے اپنے گھونسلے بنائے ہوتے ہیں۔ اس کی کھکھوں میں بھی گلہریوں اور طوطوں کے بسیرے ہوتے ہیں۔ سو جب ایک گھنا درخت گرتا ہے یا آرے سے کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو کتنے گھر اجڑ جاتے ہیں اور کتنی معصوم مخلوقات گھر سے بے گھر ہو جاتی ہیں۔ ہاں اور خود درخت پر کیا گزرتی ہے۔ آخر درخت اتنے بے حس تو نہیں ہوتے کہ ان کے ساتھ کیسا ہی سلوک ہو اور وہ اسے محسوس ہی نہ کریں۔
لیجیے اس پر ہمیں ا یک ممتاز ہندی رہنما کی ایک بھولی بسری تحریر یاد آ گئی۔ یہ تحریر شری راج گوپال اچاریہ کی تھی جو السٹرٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں شائع ہوئی تھی اور چونکہ ان ہی دنوں لاہور میں درختوں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ سو ہمیں یہ تحریر بر محل نظر آئی اور اس کا ذکر اپنے ایک کالم میں کیا تھا۔ اچاریہ جی نے اپنے اس مضمون میں ایک شخص کرنل جانسن کا ذکر کیا تھا جو درختوں سے بہت مانوس تھا۔ ایک درخت سے تو اس کی اتنی یاری ہو گئی تھی کہ اس سے وہ باقاعدہ باتیں کرتا تھا۔ ایک منحوس دن وہاں کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے کارندے آرے کلہاڑیاں لے کر آئے اور اس درخت کو کاٹ ڈالا۔
کرنل جانسن کا عزیز دوست کٹ گیا تو وہ بہت رویا مگر ڈسٹرکٹ بورڈ والوں کا استدلال یہ تھا کہ اس درخت کی ہمسائیگی میں ڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت کھڑی تھی۔ اس درخت کی جڑیں پھیلتی پھیلتی اس عمارت کی بنیادوں میں گھس گئی تھیں۔ اس سے عمارت کی بنیادوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ کرنل جانسن کا استدلال یہ تھا کہ درخت یہاں کب سے شاد آباد چلا آ رہا تھا۔ ڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ اس نے آخر اس درخت کے متصل اپنی عمارت کیوں کھڑی کی تھی۔
مگر یہ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی۔ راج گوپال اچاریہ نے بیان کیا کہ وہ درخت ان کے خواب میں آیا اور فریاد کی کہ اچاریہ جی مجھ بے گناہ کو قتل کیا گیا ہے۔ آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور میرا مقدمہ لڑیں۔
ہم سوچ رہے ہیں کہ اس مقتول درخت نے کیا سوچ کر تخصیص کے ساتھ اپنا مقدمہ اچاریہ جی کے سپرد کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ راج گوپال اچاریہ نے انگریزی میں بڑے سلیقہ سے مہا بھارت اور رامائن کے خلاصے مرتب کیے تھے اور ان دونوں رزمیائوں میں خاص طور پر رامائن میں جنگل کا ذکر بہت آتا ہے اور سیتا جی نے تو جب راون کی قید میں تھیں تو ایک درخت تلے ہی بسیرے کی ٹھانی تھی۔ تو مقتول درخت نے سوچا ہو کہ اچاریہ جی کو اس حساب سے درختوں سے بہت شناسائی ہو گئی ہو اور اس واسطے سے ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہو گئے ہوں۔ مگر اچاریہ جی نے مقتول درخت کو اچھا خاصا مایوس کیا۔ انھوں نے اس کے مقدمہ کو تو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ اخبار 'مدراس میل' میں اپنا ایک مراسلہ چھپوایا جس میں اس خواب کا تذکرہ تھا اور مقتول درخت کے حق میں اپنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا تھا۔
مگر ان کی یہ روش کانگریس پارٹی کو پسند نہیں آئی۔ ان کے ہم جماعتوں نے ان پر بہت طعن و تشنیع کی کہ اس وقت ہم ہوم رول کے حق میں تحریک چلا رہے ہیں۔ ہمارے کتنے ساتھی جیل میں ہیں اور اچاریہ جی نے انھیں فراموش کر رکھا ہے اور ایک درخت کے درد میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے اتنے درخت کٹ گئے بلکہ جنگل کے جنگل صاف ہو گئے۔ مگر کوئی درخت کسی شریف آدمی کے خواب میں نہیں آیا اور کسی کو اپنی مظلومی کا واسطہ دے کر اپنے حق میں آواز اٹھانے کا تقاضا نہیں کیا۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا وہ یہاں کے لوگوں کی طرف سے اتنے مایوس ہیں۔ کیا انھوں نے یہ سوچا کہ خود ان کے بھائی بند اتنے قتل ہو رہے ہیں۔ ان کے بچاؤ کے لیے انھوں نے کتنا تردد کیا۔ جب انھوں نے اپنے ہم جنسوں کا مقدمہ ٹھکانے سے نہیں لڑا تو ہمارا مقدمہ کیا لڑیں گے۔
آخر درختوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے لیکن جس اندھا دھند انداز میں درخت کاٹے جا رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ انھیں جس بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے، اس کی مثال درختوں کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ پہلے لمبے وقتوں سے ایسی خبر آیا کرتی تھی، مطلب یہ کہ پاکستان میں درخت دشمنوں نے جنگلوں کو اجاڑنے کا اور درختوں پر آرے چلانے کا وطیرہ عرصے سے اختیار کر رکھا ہے۔ مگر یہ وطیرہ اب زور پکڑ گیا ہے، اب جلدی جلدی ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں شاہراہ کے درخت آروں کی زد میں ہیں اور فلاں جنگل کو اجاڑ دیا گیا اور فلاں جنگل میں شیشم کے درخت بہت تھے یعنی ہزاروں کی تعداد میں انھیں اس طرح کاٹا گیا کہ اب اس جنگل میں شیشم کا کوئی درخت نظر نہیں آتا۔
اس ذیل میں اب ایک تازہ واقعہ سنئے، درختوں کے ایک جھنڈ کو صرف اس بنا پر کاٹ دیا گیا کہ اس کی شاخیں بہت نیچے جھک آئی تھیں۔ اتنی نیچے کہ ایک افسر اعلیٰ کا جب اپنے سرکاری دورے میں اس راہ سے گزر ہوا تو اسے سر جھکا کر وہاں سے گزرنا پڑا۔ یہ داستان ایک عینی شاہد انیس رحمٰن نے فرائی ڈے ٹائمز میں بہت دکھ کے ساتھ سنائی ہے۔
یہ داستان اس طرح ہے کہ ایبٹ آباد اور مری کے درمیان جو چند گلیاں یا سرکاری زبان میں گلیات شاد آباد ہیں جیسے نتھیا گلی' چھانگلا گلی' ڈونگا گلی وہیں کہیں ایوبیہ پارک نام کا ایک پارک بھی ہے۔ اس کی ایک راہ پر بہت پرانے درختوں کا ایک اچھا خاصا جھنڈ تھا۔ کتنے درخت بوڑھے ہو کر بہت جھک گئے تھے۔ ان درختوں کی قسمت بری تھی کہ خیبر پختون خوا کے ایک افسر اعلیٰ اس علاقے میں آ نکلے اور اس راہ سے گزرتے ہوئے انھیں اپنا سر پر غرور جھکانا پڑ گیا۔ انھوں نے ان بوڑھے درختوں کو اپنی نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور حکم جاری کیا کہ ان سب درختوں کو صاف کر دیا جائے۔ وائلڈ لائف محکمہ نے شاید ان کے گوش گزار بھی کیا تھا کہ ان درختوں کو کاٹنا قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ مگر اس افسر نے کسی کی ایک نہیں سنی اور اپنے حکم پر اڑا رہا۔
اس راہ میں دیودار اور چیڑ کے بلند و بالا درخت بھی قطار اندر قطار اس شان سے کھڑے تھے جیسے وہ ان بوڑھے درختوں کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ مگر دم کے دم میں افسر شاہی حکم کے تحت ان سب درختوں کا صفایا ہو گیا۔ اب افسر موصوف اس راہ سے گزرتے ہوئے سر اٹھا کر چل سکیں گے۔
ہاں اس داستان میں یہ بھی تو بتایا گیا ہے کہ ان درختوں کے کٹنے سے کتنے پرندے گھر سے بے گھر ہو گئے۔ اصل میں ایک گھنا پرانا درخت خالی درخت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی جگہ ایک پورا شہر ہوتا ہے۔ ایک شاد آباد بستی جس کی گھنی شاخوں کے بیچ کتنے پرندوں نے اپنے گھونسلے بنائے ہوتے ہیں۔ اس کی کھکھوں میں بھی گلہریوں اور طوطوں کے بسیرے ہوتے ہیں۔ سو جب ایک گھنا درخت گرتا ہے یا آرے سے کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو کتنے گھر اجڑ جاتے ہیں اور کتنی معصوم مخلوقات گھر سے بے گھر ہو جاتی ہیں۔ ہاں اور خود درخت پر کیا گزرتی ہے۔ آخر درخت اتنے بے حس تو نہیں ہوتے کہ ان کے ساتھ کیسا ہی سلوک ہو اور وہ اسے محسوس ہی نہ کریں۔
لیجیے اس پر ہمیں ا یک ممتاز ہندی رہنما کی ایک بھولی بسری تحریر یاد آ گئی۔ یہ تحریر شری راج گوپال اچاریہ کی تھی جو السٹرٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں شائع ہوئی تھی اور چونکہ ان ہی دنوں لاہور میں درختوں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ سو ہمیں یہ تحریر بر محل نظر آئی اور اس کا ذکر اپنے ایک کالم میں کیا تھا۔ اچاریہ جی نے اپنے اس مضمون میں ایک شخص کرنل جانسن کا ذکر کیا تھا جو درختوں سے بہت مانوس تھا۔ ایک درخت سے تو اس کی اتنی یاری ہو گئی تھی کہ اس سے وہ باقاعدہ باتیں کرتا تھا۔ ایک منحوس دن وہاں کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے کارندے آرے کلہاڑیاں لے کر آئے اور اس درخت کو کاٹ ڈالا۔
کرنل جانسن کا عزیز دوست کٹ گیا تو وہ بہت رویا مگر ڈسٹرکٹ بورڈ والوں کا استدلال یہ تھا کہ اس درخت کی ہمسائیگی میں ڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت کھڑی تھی۔ اس درخت کی جڑیں پھیلتی پھیلتی اس عمارت کی بنیادوں میں گھس گئی تھیں۔ اس سے عمارت کی بنیادوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ کرنل جانسن کا استدلال یہ تھا کہ درخت یہاں کب سے شاد آباد چلا آ رہا تھا۔ ڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ اس نے آخر اس درخت کے متصل اپنی عمارت کیوں کھڑی کی تھی۔
مگر یہ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی۔ راج گوپال اچاریہ نے بیان کیا کہ وہ درخت ان کے خواب میں آیا اور فریاد کی کہ اچاریہ جی مجھ بے گناہ کو قتل کیا گیا ہے۔ آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور میرا مقدمہ لڑیں۔
ہم سوچ رہے ہیں کہ اس مقتول درخت نے کیا سوچ کر تخصیص کے ساتھ اپنا مقدمہ اچاریہ جی کے سپرد کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ راج گوپال اچاریہ نے انگریزی میں بڑے سلیقہ سے مہا بھارت اور رامائن کے خلاصے مرتب کیے تھے اور ان دونوں رزمیائوں میں خاص طور پر رامائن میں جنگل کا ذکر بہت آتا ہے اور سیتا جی نے تو جب راون کی قید میں تھیں تو ایک درخت تلے ہی بسیرے کی ٹھانی تھی۔ تو مقتول درخت نے سوچا ہو کہ اچاریہ جی کو اس حساب سے درختوں سے بہت شناسائی ہو گئی ہو اور اس واسطے سے ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہو گئے ہوں۔ مگر اچاریہ جی نے مقتول درخت کو اچھا خاصا مایوس کیا۔ انھوں نے اس کے مقدمہ کو تو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ اخبار 'مدراس میل' میں اپنا ایک مراسلہ چھپوایا جس میں اس خواب کا تذکرہ تھا اور مقتول درخت کے حق میں اپنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا تھا۔
مگر ان کی یہ روش کانگریس پارٹی کو پسند نہیں آئی۔ ان کے ہم جماعتوں نے ان پر بہت طعن و تشنیع کی کہ اس وقت ہم ہوم رول کے حق میں تحریک چلا رہے ہیں۔ ہمارے کتنے ساتھی جیل میں ہیں اور اچاریہ جی نے انھیں فراموش کر رکھا ہے اور ایک درخت کے درد میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے اتنے درخت کٹ گئے بلکہ جنگل کے جنگل صاف ہو گئے۔ مگر کوئی درخت کسی شریف آدمی کے خواب میں نہیں آیا اور کسی کو اپنی مظلومی کا واسطہ دے کر اپنے حق میں آواز اٹھانے کا تقاضا نہیں کیا۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا وہ یہاں کے لوگوں کی طرف سے اتنے مایوس ہیں۔ کیا انھوں نے یہ سوچا کہ خود ان کے بھائی بند اتنے قتل ہو رہے ہیں۔ ان کے بچاؤ کے لیے انھوں نے کتنا تردد کیا۔ جب انھوں نے اپنے ہم جنسوں کا مقدمہ ٹھکانے سے نہیں لڑا تو ہمارا مقدمہ کیا لڑیں گے۔