اردو کی اڑان اور پاکستان
اردو زبان میں نثر نگاری کے علاوہ مرثیہ گوئی کی بھی ایک بڑی تاریخ ہے
اردو زبان کسی خاص فرد، گروہ یا حکومت کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ اس زبان نے مختلف گروہوں اور حملہ آور قوتوں اور ہندوستان میں موجود بھاشائوں کے درمیان جو دریا حائل تھا۔
اس کے درمیان ایک پل کا کام کیا۔ اردو کا خط فارسی سے اس لیے متاثر ہوا کیونکہ مسلمان حکمراں اپنے حکومتی معاملات فارسی زبان میں طے کرتے تھے یا یوں کہیے کہ فارسی برصغیر کی سرکاری زبان تھی۔ چونکہ اردو زبان نے بہت سے الفاظ نہ صرف عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، ترکی سے لیے بلکہ بہت سے الفاظ انگریزی زبان کو بھی دیے۔ قندیل جو انگریزی میں کینڈل کہلاتی ہے، کارواں جس کو انگریزی میں کارواں ہی کہتے ہیں، جنگل کو Jungle بھی کہتے ہیں اور فوریسٹ بھی ان کے یہاں مستعمل ہے۔ انگریزوں نے حکمرانی کرکے بہت کچھ لیا بھی ہے، مثلاً کمان دار، کمانڈر وغیرہ وغیرہ۔
اردو زبان کی ایک اور خوبصورتی ہے کہ آپ عربی زبان سے لے کر چینی زبان کی آواز کو اسی انداز میں نکال سکتے ہیں، اور ہندی زبان تو اس کی زرخیزی میں استعمال ہوئی ہے۔اردو زبان میں نثر نگاری کے علاوہ مرثیہ گوئی کی بھی ایک بڑی تاریخ ہے جس میں رزمیہ، المیہ اور ڈرامائی انداز میں اردو زبان کو ادا کیا جاتا ہے، جس کو مرثیہ تحت اللفظ کہتے ہیں۔ اردو کی یہ بے مثال خوبیاں اور خوبصورت انداز کو دیکھتے ہوئے انگریز نے 19 ویں صدی کے اوائل میں ہی فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی اور اس پر عمل کیا تاکہ ہندوستان میں ان کی حکومت کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔
اردو زبان کی اس خصوصیت اور ہمہ گیری اور مستقبل کا ادراک کرتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا تھا، مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ بیورو کریسی عوام النّاس کو اقتدار میں شریک کرنے پر آمادہ نہ تھی، محض مراعات یافتہ طبقات میں یہ اقتدار چلتا رہے اور انگریزوں کی تیار کردہ (ICS) انڈین سول سروس کی حکمرانی قائم رہے، اردو کے ساتھ غضب یہ ہوا کہ قائداعظم تو قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی چل بسے، لہٰذا اردو زبان کے نفاذ کا مسئلہ مسلسل التوا کا شکار رہا۔اردو ارتقاء کا دوسرا نام ہے۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں میر عثمانی علی خان کی کاوشوں سے ایم بی بی ایس کے کورسز کو اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھا۔ نواب دکن نے اردو زبان اور پاکستان کی بھرپور مدد کی، مگر افسوس کہ پاکستانی حکمراں ہمیشہ پہلو تہی کرتے رہے اور نفاذ اردو کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے تھے مگراس سلسلے میں میر غوث بخش بزنجو کو نفاذِ اردو کے لیے ان کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت آئی تو اس نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کی بنیاد رکھی ۔ پروفیسر کرار حسین کو وی سی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین کو اردو کی ترویج اور اس کے شعبے کا ڈین بنایا مگر وہ حکومت اپنے دن پورے نہ کرسکی۔
تقسیم ہند کے بعد جب قائداعظمؒ نے اردو کو مرتبہ دیا تو 1948 میں اردو بھی بھارت میں مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔ تقسیم کے 30 سال تک اردو زبان کو بھارت میں شدید مشکلات کا سامنا تھا مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں یہ درخت پوری آب و تاب سے نئی نئی کونپلیں اور شاخیں نکالتا رہا، پھر اسی اردو زبان کی بدولت بھارتی فلمیں پوری دنیا میں مقبولِ عام ہوئیں۔ کٹھمنڈو سے کیلی فورنیا تک تماش بین یہ فلمیں دیکھتے ہیں۔ اگر یہ بات کہی جائے تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ اردو زبان سمجھنے اور بولنے والے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
یہی وہ زبان ہے کہ جس نے بھارتی فلم انڈسٹری کو زرِ کثیر کما کر دیا کیونکہ اس زبان کو برصغیر کے عوام کی پرزور حمایت حاصل ہے۔ یہ کہنا بجاطور پر درست ہوگا کہ اب نہ صرف اردو زبان کو عوامی سرپرستی حاصل ہے بلکہ بھارت میں اس کی سرکاری سرپرستی بھی کی جارہی ہے مگر قیامِ پاکستان کے بعد بھارتی مسلمانوں اور اردو زبان کے ساتھ انتہا پسندوں کا سلوک ناروا تھا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اس کو بھی دربدر کیا جارہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کو یہ احساس تھا، اس لیے 1950 کے اوائل میں بھارت کو خیرباد کہا، گو پنڈت جواہر لعل نہرو جو اس وقت بھارتی وزیراعظم تھے، ان کو ہوائی اڈے تک روکنے کے لیے پہنچ گئے تھے، مگر وہ بالآخر پاکستان آگئے۔
انھوں نے پاکستان آکر اردو ڈکشنری بورڈ کا خیال پیش کیا جو بعد ازاں زبردست خدمات انجام دیتا رہا، مگر شاباش ہے ان لوگوں پر جو بھارت میں رہتے ہوئے بھی اردو کا چراغ روشن کیے رہے اور بالآخر ان چراغوں کی روشنی دور دور تک دیکھی جاسکتی ہے۔ آج کل ایسے چراغ مغربی دنیا میں اپنی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔ اس قافلے میں بھارتی فلم انڈسٹری کا اسکرین کے پیچھے کا وہ عملہ ہے جو قلم کی سیاہی سے روشنی بکھیر رہا ہے، جن میں چند اسمائے گرامی پروفیسر محمود فاروقی، نہرو یونیورسٹی دہلی، انوشا رضوی، مشہور فلم ساز عامر خان کی بہن، جاوید اختر اور دیگر ہندوستانیوںکا قافلہ بھی جو امریکا کی تمام یونیورسٹیوں پر اردو زبان کی وسعت، گہرائی، گرفت، ابلاغ، حسنِ بیان، جادوگری، طلسماتی اثرات، تغزل، عوامی رنگ، خسرو کے گیت، صوفیا کا رنگ برصغیر کی رسومات واضح کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ان میں سائنسی ادبی، دوربینی بھی موجود ہے۔ اردو زبان کے یہ سیمینار امریکا کی تمام یونیورسٹیوں میں منعقد ہورہے ہیں۔ حالیہ سیمینار بوسٹن میں ہوا اور آیندہ چند ہفتوں میں وسکانسن میں منعقد ہوگا، ان سیمیناروں میں اساتذہ اور انگریز شاگرد بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ قافلہ عامر خان کی کاوشوں کا بڑا نتیجہ ہے۔ بھارتی فلم سازوں میں عامر خان نے اردو دوستی کا جو مشن جاری رکھا ہے، اس سے اب جنوب مشرقی ایشیا کی زبانوں اور کلچر کا تعارف ان ممالک میں ہورہا ہے۔ پہلے ان ممالک میں بدھا اور قدیم تاریخ پر پروگرام ہوتے تھے مگر اب داستان گوئی، میر امن دہلوی اور دیگر موضوعات پر سیمینار ہورہے ہیں۔
جدید دنیا ان پروگراموں سے کافی متاثر ہے۔ گو آرٹس کونسل میں بھی سالانہ اردو کانفرنس ہوتی ہے مگر یہ نفاذ اردو کانفرنس نہیں ہوتی بلکہ یہ دور دراز کے ادبا سے ملنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ اردو زبان کے لیے جو کاوشیں اب بھارت کے شمالی ہند سے اٹھ رہی ہیں، وہ یقیناً بھارت کے عالمی معیار کو مزید بلند کرے گا، مگر پاکستان میں اردو زبان کی قوت کا اندازہ لوگوں کو نہیں ہے، البتہ یہ ضرور محسوس ہوچکا ہے کہ جب بھی کوئی نیشنل الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں انگریزی زبان کے سہارے آتا ہے ناکام ہوجاتا ہے کیونکہ اردو بلامبالغہ کثیر القومی زبان ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کیوں خاموش تماشائی ہے۔ یہ بات تمام صاحبانِ فہم سمجھ سکتے ہیں کہ حکمرانوں کے پاس دوربینی نہیں، وہ مصلحت سے کام لیتے ہیں۔
اس بلند پرواز زبان کے پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کتر دیے گئے ہیں مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اے (A) اور (O) او لیول والے طلبا اور اساتذہ اس زبان کو اہمیت دے رہے ہیں اور مستقبل کی سائوتھ ایشین لینگویج کا درجہ حاصل کرنیوالی اس زبان کا سورج طلوع ہوگا۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اردو داں طبقے کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو اپنے اسکرین سے دور کر رکھا ہے اور من مانے تلفظ، آہنگ اور صوت کا خیال رکھے بغیر اردو کا استعمال جاری ہے۔