دہشت گردی یا حریت پسندی

جب معاشرے میں لاقانونیت اور دلیل کی جگہ طاقت کے استعمال کا رجحان ہوجائے تو دہشت گردی جنم لیتی ہے

advo786@yahoo.com

کراچی کے مقامی ہوٹل میں ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کے موضوع پر سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔

جس کا انعقاد سندھ ہائی کورٹ بار اور سندھ بار کونسل نے کیا تھا، جس میں ججز، ممتاز قانون دان اور ماہرین قانون اور وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جنھوں نے دہشت گردی، اس کے محرکات، دہشتگردی اور حریت پسندی کے درمیان امتیاز بین الاقوامی دہشت گردی اور بغاوت اور عدالتوں کے کردار کے موضوع پر کھل کر جامع اور مدلل انداز میں بحث کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی روشنیوں اور قائد کا شہر تھا، آج کل دہشت گردی کی علامت ہے۔ یہ شہر جو صنعت و تجارت کا حب تھا، اب دہشتگردی کا حب ہے۔ دہشت گردی کی وجہ عدم برداشت ہے۔

جب معاشرے میں لاقانونیت اور دلیل کی جگہ طاقت کے استعمال کا رجحان ہوجائے تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کو کسی خاص حصّے میں نہیں روکا جاسکتا ہے۔ دنیا کے ایک خطے میں امن و امان یا دہشت گردی کے واقعات ہوں تو وہ دوسرے حصّوں میں بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ دہشتگردوں کو مقامی ایجنٹوں کے لیے کوئی مشکل پیش نہیں آتی، خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں سماجی ناانصافی سے گزر کر امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہو۔ چیف جسٹس نے بہت سے اعداد و شمار بھی پیش کیے، جس کے مطابق 1974 سے 2007 تک 33 برسوں میں ایسے 2590 واقعات رونما ہوئے جس کا تناسب 78.5 فیصد سالانہ جب کہ 2008 سے 2010 تک 1924 واقعات رونما ہوئے۔ اس کا تناسب 643 فیصد پہنچ گیا۔

انھوں نے کہا کہ FATA اور PATA کے باشندوں کے مسائل کو اہمیت دی جائے۔ صوبائی و وفاقی سطح پر ان کو مساوات، برابری اور اہمیت کا احساس دلایا جائے تاکہ ان کے ذہنوں میں محرومی اور حق تلفی کا تاثر پیدا نہ ہو۔ جب تک ادارے موثر و فعال نہیں ہوں گے، تحقیق و تفتیش موثر نہیں ہوگی، ادارے کرپشن، رشوت، سیاسی مداخلت کا شکار ہوں گے تو ججز پر ذمے داری کیسے ڈالی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ عدلیہ دہشت گردوں کو رہا کردیتی ہے۔ رہائی کی بنیادی وجہ خراب تفتیش اور کمزور استغاثہ ہیں۔

انھوں نے پنجاب حکومت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا، جس کے مطابق 74% دہشت گردوں کی رہائی، تفتیش اور استغاثہ کی خامیوں کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ اجلاس سے خطاب میں معزز جج صاحبان نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ عدم برداشت کی وجہ سے مذہب، قومیت اور نظریات کی بنیاد پر انسان کو مارا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ سے ڈرونز حملوں کے خلاف قرارداد منظور ہونے کے باوجود حملے جاری ہیں لیکن حکومت ملک کی خودمختاری کا مسئلہ کسی فورم پر نہیں اٹھا رہی ہے۔ ایجنسیوں کی ملکی سلامتی کے نام پر غیر قانونی سرگرمیاں بھی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں۔ شدّت پسندی سیاسی ہو، مذہبی ہو یا نظریاتی یا کرمنل گینگ یہ سب عناصر دہشت گردی کی بنیاد ہیں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ ناانصافی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے یو این او تمام ممالک کے لیے یکساں معیار اپنائے۔ ہر ایک کو دہشت گرد قرار دینے سے قبل حریت پسندوںاور ریاستی ناانصافیوں اور بربریت کے خلاف جدوجہد کرنیوالوں میں امتیاز اور دہشت گردی کی وجوہات بھی جاننا ہوں گی۔


سابق اٹارنی جنرل اور صدر سندھ بار انور منصور نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین Constitutional Terrorism کی مثال ہیں۔ ایک مندوب فائزہ خلیل نے ریاستی دہشت گردی، سپرپاور کی اسلامی ممالک پر چڑھائی کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل Veto passer کے حق کو ختم کرے اور عالمی سطح پر دہشت گردی کی تعریف اور تشریح کرے اور ممالک ایک دوسرے کی جغرافیائی حدود اور قومی تشخص اور خودداری کا احترام کریں۔ کانفرنس میں یہ تجویزیں بھی پیش کی گئیں کہ جرائم میں کمی لانے کے لیے فوری انصاف (Speedy trial) اور گواہان کے تحفظ کا پروگرام لایا جانا چاہیے اور بہ حیثیت قوم متحد ہو کر ہم دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ بار اور سندھ بار کونسل کی سہ روزہ کانفرنس Combating terrorism through law ملک کو درپیش دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے متعلق بروقت عملی اقدام ہے۔ دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے، جس میں ریاستیں، مذہبی و سیاسی، لسانی، علاقائی گروہوں کے علاوہ جرائم پیشہ گروہ اور افراد بھی شامل ہیں لیکن اس قسم کی کارروائیوں میں ریاستوں کا شامل ہونا ایک شرم ناک اور بربریت آمیز عمل ہے جو انسانیت کی کھلی تذلیل ہے۔ گو یو این او کے چارٹر میں دنیا کے ہر انسان کو بلالحاظ جنس، مذہب، زبان، علاقہ، سیاسی و مذہبی وابستگی اور رتبہ کے پیدایشی طور پر آزاد اور یکساں قرار دیا گیا ہے۔ تمام افراد عزت، وقار اور حقوق میں یکساں ہیں۔

کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی اور معاملات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات اور آزادی کی زندگی کا حق دیا گیا ہے لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ ریاستیں خود دہشت گردی اور انسانی آزادی کو پامال کرکے ملکوں اور اقوام کو غلام بنانے پر کمربستہ ہیں۔ آزاد ملکوں کی سرحدیں اور عوام ان کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ گوانتاناموبے، ابوغریب اور بگرام جیل جیسے مشہور زمانہ عقوبت خانوں کے علاوہ لاتعداد اس قسم کے خفیہ عقوبت خانے اور جیلیں انسانیت، اقوام اور ممالک کے حقوق، تشخص اور آزادی کو تاراج کررہے ہیں، بے ہنگم انداز میں بلاتفریق بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں بذاتِ خود دہشت گردی تو ہوسکتی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں کہلاسکتی۔ سپر طاقتوں کی ریاستی دہشت گردی سے متاثرہ افراد میں اشتعال پیدا ہوتا ہے جو ان میں مزاحمت یا مسلح جدوجہد کے جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔

دہرے معیار اور منافقت کی بہت سے مثالوں میں سے دو مثالیں برطانوی صحافی ایوان ریڈلی اور پاکستان کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہیں۔ ایک دہشت گردوں کی قید میں تھی اور دوسری دہشت گردوں سے نبرد آزما امن کے پیامبروں کی قید میں تھی۔ دہشت گردوں کی قیدی رہا ہوتی ہے تو ان کی تعریف و وکالت کرتی ہے، وہ ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جیل موجودگی کا راز افشا کرتی ہے جب کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے داعیوں کی قید میں عافیہ سے جو سلوک کیا گیا، اس کی نہ صرف دنیا بلکہ امریکی حکومتیں، عہدے دار، قانون دان اور ایوانوں میں بیٹھے لوگ بھی خدمت کررہے ہیں، خلافِ قانون اور خلافِ انسانیت قرار دے کر عملی جدوجہد کررہے ہیں کہ اس بے گناہ لڑکی کو رہائی مل سکے۔جب تک عالمی سطح پر دہشت گردی کی منصفانہ، متفقہ اور حقیقی تشریح سامنے نہیں آتی، جارحیت اور حریت پسندی یا مزاحمت میں فرق محسوس نہیں کیا جاتا۔

دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ میں عالمی انسانی حقوق قوانین اور اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی اور دہشت گردی کو مذہب، عقیدہ یا خطے سے جوڑا جاتا رہے گا، دہشت گردی اور انارکی کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہے گی۔ کسی کا دشمن کسی کا محبوب، کسی کا باغی و جنگجو، کسی کا حریت پسند اور کسی کا دہشت گرد، کسی کا مجاہد قرار پائے گا۔ گروہی، مذہبی، سیاسی اور علاقائی دہشت گردی اور اس کے نام پر ریاستی دہشت گردی دنیا کے امن اور مستقبل دونوں کو تباہی و بربادی سے دوچار کرسکتی ہے۔
Load Next Story