دہشت گردی کے خاتمے کے لیے درست اقدام

پاکستانی حکومت دہشت گردی کےناسورکوہمیشہ ہمیشہ کےلیےجڑسےختم کرنےکےلیےتمام ممکن اقدامات اور وسائل بروئے کار لا رہی ہے


Editorial May 11, 2015
اب حکومت اور سول اداروں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فرائض جو قوم نے انھیں سونپے ہیں، کی ادائیگی میں اپنا حق ادا کریں۔ فوٹو : فائل

لاہور: پاکستانی حکومت دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ سے ختم کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات اور وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔اس جنگ میں حتمی نتائج حاصل کرنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ اس جنگ میں فتح کا انحصار قربانیوں اور دہشت گردی سے پہنچنے والے جانی و مالی نقصان کو حوصلے اور جرات سے برداشت کرنے سے عبارت ہے۔ عزم جواں اور حوصلے بلند ہوں تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں ہوتی اور یہ منزل بڑی تیزی سے قریب آتی چلی جاتی ہے۔ جنگ جیتنے کے لیے ہر عمل اور ہر حربے کو جائز سمجھا جاتا ہے ایسے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بعض اوقات حکومتوں کو کو سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ خیبر پختونخواحکومت نے دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے ضابطہ فوجداری 1898ء کے تحت پبلک نوٹس جاری کردیا جسے اخبارات میں بھی اشتہار کی شکل میں شایع کیاگیا۔

نوٹس کے تحت دہشتگردی میں ملوث افراد کے بارے میں نزدیکی تھانہ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں رپورٹ مع تصویر جمع نہ کرانے والے پورے خاندان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا گیا ہے، صوبائی حکومت کی جانب سے جاری پبلک نوٹس میں کہا گیا کہ کسی بھی گھرانے کا کوئی بھی فرد یا افراد جن میں زیرکفالت غیر رشتہ دار بھی شامل ہیں کسی بھی دہشتگرد کارروائی میں چاہے وہ انفرادی حیثیت میں ہو یاکسی تنظیم کے رکن کے طور پر ملوث ہوں یا ملوث ہونے کا خدشہ ہو اور اس مقصد کے لیے اپنے گھروں سے غائب ہیں توان کے متعلق اپنے نزدیکی تھانہ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفترمیں اس کی تفصیلات مع تصویر رپورٹ کی جائے بصورت دیگر اگر کوئی دہشتگرد کسی بھی واردات بشمول خودکش حملہ میںملوث ہو کر گرفتار کیا گیا یا ہلاک کیا گیا تو اس کے والدین، بھائی، متعلقہ رشتہ دارجن کا وہ کفیل یا زیرکفالت رہا ہو کے خلاف مذکورہ بالا قوانین کی انھی دفعات کے تحت جس میں پھانسی، عمرقید، منقولہ جائیدادکی ضبطگی شامل ہیں قانونی کارروائی کی جائے گی جس میں مذکورہ دہشتگرد ملوث پایا گیا یا ہلاک کیا گیا۔

خیبرپختونخوا کا خطہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور دہشت گردوں کی آماجگاہیں بھی زیادہ تر اسی خطے میں موجود ہیں، وہ تمام عوامل جو دہشت گردی کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں وہ بھی اسی خطہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں، دشوار گزار پہاڑی علاقے دہشت گردوں کی محفوظ تربیت گاہیں اور پناہ گاہیں بن چکے ہیں، ان کٹھن اور دشوار گزار راستوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے سرحد پار افغانستان میں رابطے قائم کر رکھے ہیں، اس صورت حال کے تناظر میں تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود دہشت گردی ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی، اس لیے یہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے کہ حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرے۔ اب خیبرپختونخوا حکومت نے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے جو پبلک نوٹس جاری کیا ہے یہ دہشت گردی پر قابو پانے میں کافی معاون ثابت ہو گا حالانکہ اس قسم کے اقدامات بہت پہلے کیے جانے چاہیے تھے، خیبرپختونخوا کے قبائلی اور بندوبستی علاقوں سے بے شمار بچے کئی کئی برس سے گھروں سے غائب ہیں، یہ کہاں ہیں؟

اس حوالے سے پوری چھان بین ہونی چاہیے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں خواہ وہ کوئی بھی ہوں، انھیں سزا دینا بھی انتہائی ضروری ہے تاہم ان قوانین کے نفاذ میں بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی کے جرم کی سزا اس کے پورے خاندان یا رشتے داروں کو نہیں دی جانی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ کسی دہشت گرد کے جرم میں اس کے خاندان یا رشتے دار بھی اس کے معاون ہوں، جرم کرنے والا کوئی بھی شخص کھلم کھلا اپنے جرم کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ چھپ کر اپنے گھناؤنے افعال سرانجام دیتا ہے۔ دہشت گرد تو ویسے ہی بے چہرہ ہیں اور وہ عام شہریوں کی طرح معاشرے میں گھومتے پھرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے خاندان یا رشتے داروں کو ان کے مذموم افعال کا علم ہی نہ ہو، ایسی صورت میں کسی بھی دہشت گرد کے کیے کی سزا اس کے خاندان یا رشتے داروں کو دینا قرین انصاف نہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردی سے جنم لینے والے خوف کے سائے بتدریج معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے یہ احساس پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے آگے بڑھ کر مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔خیبر پختون خوا حکومت کا حالیہ اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور معاونین کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ فوج تو اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے قربانیوں کی جو داستان رقم کی ہے پوری قوم اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اب حکومت اور سول اداروں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فرائض جو قوم نے انھیں سونپے ہیں، کی ادائیگی میں اپنا حق ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں