سوچنے کی ضرورت ہے
الیکشن ٹریبونل نے لاہور کے متنازع حلقے NA125 کا الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے، وہاں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا ہے،
گئے ہفتے الیکشن ٹریبونل نے لاہور کے متنازع حلقے NA125 کا الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے، وہاں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا ہے، جواباً متاثرہ رکن اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور ان کی جماعت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے لاہور کے دوسرے متنازع حلقے NA122 میں بھی اسی نوعیت کی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے سامنے آنے کے قوی امکانات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف جوڈیشل کمیشن میں پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری جاوید اقبال اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری راؤ افتخار نے اقرار کیا ہے کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے پرنٹنگ کے ماہر 200 افراد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن ساتھ ہی اضافی بیلٹ پیپر چھاپے جانے کے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، جب کہ سابق الیکشن کمشنر پنجاب نے پیشگی اجازت کے بغیر اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کا اعتراف کیا ہے۔
سامنے آنے والے حقائق پاکستان کے انتخابی عمل میں پائی جانے والی ان لاتعداد خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی ہیں، جن پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ ملک میں گورننس کے بحران اور سرکاری اہلکاروں میں پیشہ ورانہ اخلاقی اقدار کی پستی بھی سامنے آتی ہے۔ ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ یہ لکھا جا چکا ہے کہ وطن عزیز میں دسمبر 1970ء سے مئی 2013ء تک کل 10 عام اور 5 بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات ان کے سوا ہیں۔ دسمبر 1970ء کے انتخابات کو چھوڑ کر باقی تمام انتخابات متنازع رہے ہیں اور ان پر مختلف حلقوں کی جانب سے انگشت نمائی ہوتی رہی ہے۔ پہلے انتخابات اس لیے تنقید سے بچے رہے، کیونکہ اس وقت تک شاید عوام دھاندلی کے مظہر کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ حالانکہ اس وقت بھی ہر حلقے میں طاقتور امیدواروں نے حسب توفیق زور زبردستی کے ذریعے دھاندلی کی تھی۔ البتہ انتظامیہ غیر جانبدار تھی۔
اب اگر ان 45 برسوں کے دوران بے ضابطگیوں کے الزامات، ان کے ردعمل اور کیے گئے اقدامات کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد (PNA) نے حکمران پیپلز پارٹی پر بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے تین روز بعد متوقع صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے تحریک شروع کر دی۔ قصہ طویل ہے۔ مظاہروں، ہنگامہ آرائی اور تین شہروں میں جزوی مارشل لاء کے بعد فریقین مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور یہ طے پایا کہ متنازع 20 حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروا دیے جائیں۔ ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جنرل ضیا الحق نے شب خون مار دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اس ''پارسا'' فوجی آمر نے اول تو انتخابات کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی، جب مجبور ہو گئے تو اسی ناقص نظام کے تحت غیر جماعتی انتخابات کرا کے پاکستان میں رہی سہی قومی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔
مگر انھیں انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کی توفیق نہیں ہو سکی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس عمل سے انھیں کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔ ان کے بعد 1988ء سے 1999ء کے دوران چار عام انتخابات ہوئے اور ہر انتخاب متنازع ٹھہرا۔ مگر اس دوران اقتدار میں آنے والی جماعتوں کو ایوان صدر کی طرف سے 58(2)B کی لٹکی ہوئی تلوار، پارلیمان کے اندر غیر منطقی رسہ کشی اور اقتدار کی مختصر مدت نے سوائے اپنا اقتدار بچانے پر توجہ مرکوز کرنے کے کسی اور جانب سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ویسے بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو سیاسی و انتظامی امور میں دیرپا اور پائیدار اصلاحات لانے کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ ''روشن خیال'' فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی قومی انتظامی ڈھانچہ میں اصلاحات کے لیے ایک 7 نکاتی ایجنڈا ضرور دیا، جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ نیز انتخابی عمل کی بہتری اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔
2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس وقت کی اپوزیشن جماعت PML(N) کے ساتھ مل کر 18 ویں ترمیم لانے کے ساتھ ہی انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی بھی کسی قدر کوشش کی۔ انتخابی عمل اہم اور کلیدی نوعیت کی بعض اہم اصلاحات کا متقاضی چلا آ رہا ہے، مگر صرف عبوری حکومتوں کے قیام اور چیف الیکشن کمشنر سمیت کمیشن کے دیگر اراکین کی تقرری کا طریقہ کار وضع کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ نتیجتاً مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ تمام خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں ابھر کر سامنے آ گئیں، جن پر توجہ دینے سے گریز کیا گیا تھا۔ ذرایع ابلاغ نے ملک کے طول و عرض میں ہونے والی ان دھاندلیوں کو کھل کر دکھایا۔
صورتحال میں ابتری کا دوسرا سبب یہ ہے کہ انتخابی عمل کو ریاستی انتظام میں ایک الگ نظام تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ انتخابی عمل ریاست کے دیگر ستونوں یعنی انتظامیہ اور عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ریاستی انتظامی ڈھانچہ یعنی سول سروس بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد سے بدترین ابتری کا شکار ہے۔ 45 برسوں کے دوران منتخب اور غیر منتخب دونوں طرح کی حکومتوں نے اپنی قبائلی اور فیوڈل ذہنیت کے باعث ایسے اقدامات کیے جس کے نتیجے میں انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتا چلا گیا۔ برٹش انڈیا میں ICS کی جس انداز میں انتخاب اور تربیت کی جاتی تھی، اس کے نتیجے میں وہ ایک باصلاحیت کے ساتھ باکردار انتظامی افسر کے طور پر سامنے آتا تھا۔ انگریز نے اسی انتظامی کیڈر کے ذریعے اتنے بڑے ہندوستان پر ایک صدی تک حکمرانی کی تھی۔ مگر پاکستان میں اس سروس کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے علاوہ سول بیوروکریسی اور جونئیر عدلیہ میں پائی جانے والی خامیاں اور کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آتی جا رہی ہیں۔
ایک روایتی غلطی پھر دہرائی جا رہی ہے۔ عمران خان کو عجلت ہے، میاں صاحب کو بے پرواہی ہے۔ دیگر جماعتیں تماشا دیکھنے میں مشغول ہیں۔ کوئی اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہے کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا پورے ملک میں انتشار (Chaos) نہیں پھیل جائے گا؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ایک طرف عدالتی کمیشن انتخابی عمل میں رہ جانے والی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی تحقیق کرتا، وہیں دوسری طرف وہ 31 رکنی کمیشن جو شاید بنتے بنتے رہ گیا یا سیاسی گردو غبار میں کہیں دب گیا ہے، فعال ہو کر انتخابی اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کرتا۔ اس طرح عدالتی کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد افراتفری کے بجائے نئے انتخابات کی طرف شفافیت کے ساتھ بڑھنا قدرے آسان ہوتا۔
لیکن یہاں ایک اور پہلو قابل غور ہے۔ پاکستان میں چار کلیدی اقدامات کے بغیر آیندہ ہونے والا ہر انتخاب بے معنی اور بے مصرف، بلکہ متنازع ہو گا۔ یہ اقدامات ترتیب وار کچھ اس طرح ہیں۔ اول، مردم شماری، جو آیندہ برس مارچ میں متوقع ہے۔ بغیر کسی سیاسی مداخلت کے اپنے تمام تیکنیکی لوازمات کے ساتھ تکمیل پذیر ہو جائے اور کوشش کی جائے کہ کسی بھی مرحلے پر متنازع نہ ہونے پائے۔ دوئم، اس کے بعد انتخابی اصلاحات کا فوری نفاذ کیا جائے، جن پر متذکرہ بالا کمیشن اس دوران اپنا کام مکمل کر چکا ہو۔ سوئم، پارلیمان سے ان اصلاحات کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ چہار، مردم شماری کی بنیاد پر نیا قائم ہونے والا الیکشن کمیشن پورے ملک کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی نئی حد بندیاں کرے۔ یوں ان چاروں اقدامات کی شفافیت کے ساتھ تکمیل کے لیے کم از کم دو برس کی مدت درکار ہے۔ لہٰذا عام انتخابات فروری/ مارچ سے قبل ممکن نہیں ہیں۔ اس سے قبل انتخابی عمل میں جانا، یا اس کے لیے دباؤ ڈالنا، دراصل نئے سیاسی بحرانوں کو جنم دینے کے مترادف ہو گا۔
لہٰذا وقتی اور فوری مفادات کی خاطر ملک کو نت نئے بحرانوں میں مبتلا کرنا دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ سوچ کا محور یہ ہونا چاہیے کہ جو خرابیاں، خامیاں، کمزوریاں اور نقائص سامنے آ رہے ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جائے اور انھیں کس طرح دور کیا جا سکے؟ دوسرے اس سے قبل کہ کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پارلیمان اپنا منطقی جواز کھو بیٹھے، اس کی موجودگی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سیاسی و انتظامی اصلاحات لانے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ کسی مرحلہ پر اگر قومی اسمبلی قبل از وقت یا غیر فطری طور پر تحلیل ہو جاتی ہے، تو پھر اہم اور حساس قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا نہایت مشکل ہو جائے گا اور انتشار و افراتفری (Chaos) میں مسلسل اضافے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکے گا۔ اس لیے یہ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کے حق رائے دہی اور حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں اور پارلیمان کی قبل از وقت تحلیل سے گریز کا راستہ اختیار کریں۔
سامنے آنے والے حقائق پاکستان کے انتخابی عمل میں پائی جانے والی ان لاتعداد خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی ہیں، جن پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ ملک میں گورننس کے بحران اور سرکاری اہلکاروں میں پیشہ ورانہ اخلاقی اقدار کی پستی بھی سامنے آتی ہے۔ ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ یہ لکھا جا چکا ہے کہ وطن عزیز میں دسمبر 1970ء سے مئی 2013ء تک کل 10 عام اور 5 بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات ان کے سوا ہیں۔ دسمبر 1970ء کے انتخابات کو چھوڑ کر باقی تمام انتخابات متنازع رہے ہیں اور ان پر مختلف حلقوں کی جانب سے انگشت نمائی ہوتی رہی ہے۔ پہلے انتخابات اس لیے تنقید سے بچے رہے، کیونکہ اس وقت تک شاید عوام دھاندلی کے مظہر کو سمجھ نہیں پائے تھے۔ حالانکہ اس وقت بھی ہر حلقے میں طاقتور امیدواروں نے حسب توفیق زور زبردستی کے ذریعے دھاندلی کی تھی۔ البتہ انتظامیہ غیر جانبدار تھی۔
اب اگر ان 45 برسوں کے دوران بے ضابطگیوں کے الزامات، ان کے ردعمل اور کیے گئے اقدامات کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد (PNA) نے حکمران پیپلز پارٹی پر بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے تین روز بعد متوقع صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے تحریک شروع کر دی۔ قصہ طویل ہے۔ مظاہروں، ہنگامہ آرائی اور تین شہروں میں جزوی مارشل لاء کے بعد فریقین مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور یہ طے پایا کہ متنازع 20 حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروا دیے جائیں۔ ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جنرل ضیا الحق نے شب خون مار دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اس ''پارسا'' فوجی آمر نے اول تو انتخابات کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی، جب مجبور ہو گئے تو اسی ناقص نظام کے تحت غیر جماعتی انتخابات کرا کے پاکستان میں رہی سہی قومی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔
مگر انھیں انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کی توفیق نہیں ہو سکی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس عمل سے انھیں کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔ ان کے بعد 1988ء سے 1999ء کے دوران چار عام انتخابات ہوئے اور ہر انتخاب متنازع ٹھہرا۔ مگر اس دوران اقتدار میں آنے والی جماعتوں کو ایوان صدر کی طرف سے 58(2)B کی لٹکی ہوئی تلوار، پارلیمان کے اندر غیر منطقی رسہ کشی اور اقتدار کی مختصر مدت نے سوائے اپنا اقتدار بچانے پر توجہ مرکوز کرنے کے کسی اور جانب سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ویسے بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو سیاسی و انتظامی امور میں دیرپا اور پائیدار اصلاحات لانے کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ ''روشن خیال'' فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی قومی انتظامی ڈھانچہ میں اصلاحات کے لیے ایک 7 نکاتی ایجنڈا ضرور دیا، جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ نیز انتخابی عمل کی بہتری اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔
2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس وقت کی اپوزیشن جماعت PML(N) کے ساتھ مل کر 18 ویں ترمیم لانے کے ساتھ ہی انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی بھی کسی قدر کوشش کی۔ انتخابی عمل اہم اور کلیدی نوعیت کی بعض اہم اصلاحات کا متقاضی چلا آ رہا ہے، مگر صرف عبوری حکومتوں کے قیام اور چیف الیکشن کمشنر سمیت کمیشن کے دیگر اراکین کی تقرری کا طریقہ کار وضع کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ نتیجتاً مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ تمام خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں ابھر کر سامنے آ گئیں، جن پر توجہ دینے سے گریز کیا گیا تھا۔ ذرایع ابلاغ نے ملک کے طول و عرض میں ہونے والی ان دھاندلیوں کو کھل کر دکھایا۔
صورتحال میں ابتری کا دوسرا سبب یہ ہے کہ انتخابی عمل کو ریاستی انتظام میں ایک الگ نظام تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ انتخابی عمل ریاست کے دیگر ستونوں یعنی انتظامیہ اور عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ریاستی انتظامی ڈھانچہ یعنی سول سروس بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد سے بدترین ابتری کا شکار ہے۔ 45 برسوں کے دوران منتخب اور غیر منتخب دونوں طرح کی حکومتوں نے اپنی قبائلی اور فیوڈل ذہنیت کے باعث ایسے اقدامات کیے جس کے نتیجے میں انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتا چلا گیا۔ برٹش انڈیا میں ICS کی جس انداز میں انتخاب اور تربیت کی جاتی تھی، اس کے نتیجے میں وہ ایک باصلاحیت کے ساتھ باکردار انتظامی افسر کے طور پر سامنے آتا تھا۔ انگریز نے اسی انتظامی کیڈر کے ذریعے اتنے بڑے ہندوستان پر ایک صدی تک حکمرانی کی تھی۔ مگر پاکستان میں اس سروس کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے علاوہ سول بیوروکریسی اور جونئیر عدلیہ میں پائی جانے والی خامیاں اور کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آتی جا رہی ہیں۔
ایک روایتی غلطی پھر دہرائی جا رہی ہے۔ عمران خان کو عجلت ہے، میاں صاحب کو بے پرواہی ہے۔ دیگر جماعتیں تماشا دیکھنے میں مشغول ہیں۔ کوئی اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہے کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا پورے ملک میں انتشار (Chaos) نہیں پھیل جائے گا؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ایک طرف عدالتی کمیشن انتخابی عمل میں رہ جانے والی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی تحقیق کرتا، وہیں دوسری طرف وہ 31 رکنی کمیشن جو شاید بنتے بنتے رہ گیا یا سیاسی گردو غبار میں کہیں دب گیا ہے، فعال ہو کر انتخابی اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کرتا۔ اس طرح عدالتی کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد افراتفری کے بجائے نئے انتخابات کی طرف شفافیت کے ساتھ بڑھنا قدرے آسان ہوتا۔
لیکن یہاں ایک اور پہلو قابل غور ہے۔ پاکستان میں چار کلیدی اقدامات کے بغیر آیندہ ہونے والا ہر انتخاب بے معنی اور بے مصرف، بلکہ متنازع ہو گا۔ یہ اقدامات ترتیب وار کچھ اس طرح ہیں۔ اول، مردم شماری، جو آیندہ برس مارچ میں متوقع ہے۔ بغیر کسی سیاسی مداخلت کے اپنے تمام تیکنیکی لوازمات کے ساتھ تکمیل پذیر ہو جائے اور کوشش کی جائے کہ کسی بھی مرحلے پر متنازع نہ ہونے پائے۔ دوئم، اس کے بعد انتخابی اصلاحات کا فوری نفاذ کیا جائے، جن پر متذکرہ بالا کمیشن اس دوران اپنا کام مکمل کر چکا ہو۔ سوئم، پارلیمان سے ان اصلاحات کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ چہار، مردم شماری کی بنیاد پر نیا قائم ہونے والا الیکشن کمیشن پورے ملک کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی نئی حد بندیاں کرے۔ یوں ان چاروں اقدامات کی شفافیت کے ساتھ تکمیل کے لیے کم از کم دو برس کی مدت درکار ہے۔ لہٰذا عام انتخابات فروری/ مارچ سے قبل ممکن نہیں ہیں۔ اس سے قبل انتخابی عمل میں جانا، یا اس کے لیے دباؤ ڈالنا، دراصل نئے سیاسی بحرانوں کو جنم دینے کے مترادف ہو گا۔
لہٰذا وقتی اور فوری مفادات کی خاطر ملک کو نت نئے بحرانوں میں مبتلا کرنا دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ سوچ کا محور یہ ہونا چاہیے کہ جو خرابیاں، خامیاں، کمزوریاں اور نقائص سامنے آ رہے ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جائے اور انھیں کس طرح دور کیا جا سکے؟ دوسرے اس سے قبل کہ کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پارلیمان اپنا منطقی جواز کھو بیٹھے، اس کی موجودگی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سیاسی و انتظامی اصلاحات لانے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ کسی مرحلہ پر اگر قومی اسمبلی قبل از وقت یا غیر فطری طور پر تحلیل ہو جاتی ہے، تو پھر اہم اور حساس قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا نہایت مشکل ہو جائے گا اور انتشار و افراتفری (Chaos) میں مسلسل اضافے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکے گا۔ اس لیے یہ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کے حق رائے دہی اور حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں اور پارلیمان کی قبل از وقت تحلیل سے گریز کا راستہ اختیار کریں۔