حسین وادیوں میں خوفناک حادثہ
لیکن جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی نمائندگی کے لیے ایک دو تصویروں سے کام نہیں چل پاتا۔
دلفریب وادیاں، دلکش برف زار، پرشور دریا، جلترنگ چشمے، گنگناتے جھرنے، گیت گاتے آبشار اور سرسبز ڈھلوانیں... یہ پاکستان کے مناظر ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے اپنے حسن اور دل فریبی کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں، طویل ترین برفانی گلیشئر، تیز رفتار دریا اور سحر انگیز وادیاں یہاں جا بہ جا بکھری ہوئی ہیں۔ ہمارا وطن دنیا کے ان شاندار ممالک میں شامل ہے جو کہ سیاحتی اعتبار سے بہت پرکشش ہیں۔ اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کے لینڈ اسکیپ کا جائزہ لیں تو ان کی ایک دو تصاویر ہی ان کی جغرافیائی خصوصیات کو واضح کردیتی ہیں۔ مثلاً صحرا میں جاتے اونٹوں کی قطار دیکھتے ہی آپ فیصلہ کردیں گے کہ یہ مشرق وسطیٰ کے کسی عرب ملک کی تصویر ہے۔ اسی طرح سرسبز میدانوں سے برصغیر یا مشرق بعید کا کوئی ملک ذہن میں آئے گا۔ گھنے جنگلوں کو دیکھ کر آپ کا ذہن افریقہ یا جنوبی امریکا کے متعلق سوچنے لگے گا اور سرسبز نشیب و فراز دیکھتے ہی آپ کا ذہن یورپ کے خطے کی طرف جائے گا۔
لیکن جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی نمائندگی کے لیے ایک دو تصویروں سے کام نہیں چل پاتا۔ یہ دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس چھوٹے ملک میں ایک طرف تو ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے اور دوسری جانب دنیا کی عظیم چوٹیوں پر مشتمل کوہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے بلند ترین سلسلے ہیں۔ ایک طرف سبی اور جیکب آباد کے گرم ترین مقامات ہیں تو دوسری طرف سولہ ہزار فٹ بلند درہ خنجراب گرمی کے دنوں میں بھی منفی درجہ حرارت پر رہتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں ایک طرف تو تھر اور چولستان کے خشک صحرا ہیں اور دوسری طرف سرسبز لہلہاتی فصلوں کے وسیع سلسلے ہیں۔ یہ ملک بیک وقت پہاڑی وادیوں، سرسبز میدانوں، خشک بیابانوں، لق و دق صحراؤں، لبالب دریاؤں اور برف پوش چوٹیوں کا مجموعہ ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایسے راستے ہیں جو کسی نہ کسی دریا کے کنارے کنارے پہاڑوں کے اونچے سلسلوں میں اندر ہی اندر چلتے چلے گئے ہیں اور یہ ہمیں ان کوہساروں میں پوشیدہ و خوابیدہ کئی دلفریب وادیوں تک پہنچادیتے ہیں۔
دریائے سندھ کی وادی، گلگت و بلتستان پر مشتمل شمالی علاقہ جات، ہنزہ اور درہ خنجراب، وادیٔ چترال، وادیٔ کشمیر، وادیٔ سوات، وادیٔ کاغان، کے ٹو جیسے پہاڑ، نانگا پربت جیسی چوٹیوں، موہن جو دڑو، ہڑپ، ٹیکسلا اور کٹاس ویلی سمیت دیگر علاقے سیاحت کے وہ عظیم خزانے ہیں جو دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ ہے۔
بالخصوص گلگت و بلتستان پر مشتمل شمالی علاقہ جات دنیا بھر کے سیاحوں کا دارالحکومت سمجھے جاتے ہیں، جہاں پاکستانیوں سے زیادہ یورپی اور جاپانی سیاح ملتے ہیں۔ گلگت کے اطراف میں کئی حسین و دلفریب وادیاں ہیں جہاں جیپ کے ذریعے اور پیدل جایا جاسکتا ہے۔ شاہراہ قراقرم پر گلگت سے مزید آگے بڑھیں تو دو گھنٹے کا سفر ہنزہ پہنچادیتا ہے۔ ہنزہ، یورپ میں ''The Lost Paradise'' یعنی جنت گم گشتہ کے نام سے مشہور ہے۔
دریائے ہنزہ کے کنارے خوبصورت برفانی چوٹی راکا پوشی پورے علاقے کو ہر دم نگاہ میں رکھتی ہے۔ اگر صبح فجر کی نماز سے بھی پہلے اٹھ کر باہر نکل آئیں اور اندھیرے میں اندازے سے اس طرف منہ کرکے بیٹھ جائیں جدھر راکا پوشی کی چوٹی ہے تو کچھ دیر بعد آپ کو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملے گا۔ طلوع ہوتے سورج کی پہلی پہلی شعاع جیسے ہی راکا پوشی کی سفید چوٹی سے ٹکرائے گی تو اس اندھیرے میں وہ چاند کی طرح روشن ہوجائے گی اور پھر پورے ہنزہ میں ہر سو اس کی منعکس کی ہوئی یہ چاندنی بکھر جائیگی۔ پھر جوں جوں سورج بلند ہوتا جاتا ہے چوٹی کی چمک بھی بڑھتی جاتی ہے، حتیٰ کہ پہاڑوں کے پیچھے سے سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ ابھر آتا ہے۔
تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پرکشش سیاحتی علاقوں میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کے مجموعی اعداد و شمار بے حد مایوس کن ہیں۔ اس کی وجوہات میں سرفہرست امن و امان کی صورتحال ہے۔ وادیٔ سوات، گلگت بلتستان ودیگر علاقوں میں بدامنی کی وجہ سے سیاح جاتے ہوئے کتراتے ہیں، مگر اب صورتحال بدل چکی ہے، پاک فوج ان علاقوں میں امن قائم کرچکی ہے اور حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کررہی ہے۔ افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے اور پاک فوج کی جانب سے ضرب عضب آپریشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے سے مفلوج سیاحتی عمل کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات قابل ستائش ہے۔
سیاحت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی جانب سے گلگت میں چیئر لفٹ پراجیکٹ یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔ منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نے سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے کے لیے دوست ممالک کے سفیروں کو دورے کی دعوت دی مگر بدقسمتی سے ان حسین وادیوں میں خوفناک حادثہ رونما ہوا۔ دنیا میں محفوظ سفر کے لیے سب سے بہتر سمجھے جانے والا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر دوران لینڈنگ تکنیکی وجوہات کے سبب حادثے کا شکار ہوا، ہیلی کاپٹر میں ہالینڈ، لبنان، ناروے، رومانیہ، جنوبی افریقہ، فلپائن، پولینڈ، سوئیڈن اور انڈونیشیا کے سفیر سوار تھے۔
حادثے کے نتیجے میں ناروے اور فلپائن کے سفیر ہلاک ہوئے، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے سفیروں کی بیگمات بھی جان سے گئیں، ہمارے 2 پائلٹس میجر التمش اور میجر فیصل نے اپنی جانوں پر کھیل کر ایک درجن سے زائد سفیر مہمانوں کو محفوظ بناکر تاریخ رقم کردی۔ ہیلی کاپٹر چند فٹ اونچائی سے نیچے گرا، پائلٹس چاہتے تو شیشے توڑ کر باآسانی باہر نکل سکتے تھے، ہمارے پائلٹس نے مہمانوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔حادثے میں پولینڈ اور ہالینڈ کے سفیروں سمیت 13 زخمی ہوئے جبکہ ہیلی کاپٹر میں 11 غیر ملکی اور 6 پاکستانی سوار تھے۔
نلتر ہیلی کاپٹر حادثے سے پہلے بھی پہاڑی علاقوں میں کئی فضائی حادثات پیش آچکے ہیں جن میںمتعدد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔
نلتر حادثہ انتہائی افسوسناک ہے جس سے ملک بھر میں سوگ کی فضا قائم ہوئی تاہم ہمیں سیاحت کے ان عظیم خزانوں کو دنیا بھر کے لوگوں کی خوشیوں کا مرکز بنانا ہے۔ بیرونی دنیا اور پاکستان کے متجسس لوگوں کی توجہ ان مقامات کی طرف مبذول کرانی ہے۔ سیاحت ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے، جس سے ہم بھرپور منافع کماسکتے ہیں، بغیر کچھ خرچ کیے بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے، جس سے یہاں ہر سال لاکھوں سیاح اکھٹے ہوسکتے ہیں۔ بس تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے، جہاں قدم پڑتے ہیں وہاں راستہ پہلے بنا ہوا ہوتا ہے، اٹھتے قدموں تلے زمین ضرور ہوتی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں سیاحت کے فروغ کے لیے حکومتی دلچسپی بھی خوش آئند ہے، ہم اگر اپنے سیاحتی شعبے کو درست کرلیں تو ملکی معیشت میں بڑی بہتری لائی جاسکتی ہے۔