خواب کیسے پورا ہوا
کامیاب اردو سوشل میڈیا سمٹ کے نتیجے میں پہلی بار اردو سے وابستہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد بطور اسٹیک ہولڈرز سامنے آئے۔
اگر مقصد نیک، ارادے پختہ، حوصلے بلند اور منزل واضح ہو تو بڑے سے بڑا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے اور اس کا اندازہ مجھے جمعہ کی شب اُس وقت ہوا جب ہم اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015ء کے کامیاب انعقاد کے بعد ایچ ای جے آڈیٹوریم سے واپس گیسٹ ہاؤس جا رہے تھے۔
کئی روز کی تھکن کامیابی کے گراں مایہ احساس کے سامنے کہیں دبکی بیٹھی تھیں اور دوستوں کے قہقہوں نے میری مادر علمی یعنی جامعہ کراچی کے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ دوسری طرف تہنیتی پیغامات اور کالز کا تانتا بندھا ہوا تھا، جن سے اُس وقت تک جان نہ چھٹی جب تک کہ سیل فون کی بیٹری جواب نہ دے گئی۔
آج سے کوئی پانچ ماہ قبل دسمبر کی ایک سرد صبح ملیر کے ایک گوشے میں ناشتے کی میز پر موجود پانچ اردو بلاگرز اردو سورس کے بانی عامر ملک کے اچھوتے خیال پر غور کررہے تھے۔ اس پر حتمی فیصلہ نہ ہوسکا تو اگلی ملاقات تک اس کو زیر التوا بحث کے خانے میں ڈال دیا گیا۔ اگلی ملاقات جنوری کے وسط میں معروف آئی ٹی کنسلٹنٹ ہمایوں قریشی صاحب کی موجودگی میں بہادرآباد میں ہوئی جس میں اس خیال پر اتفاق ہوا کہ ایک اجلاس کے ذریعے اردو زبان سے متعلق مفروضوں کے خاتمے اور تکنیکی و غیر تکنیکی افراد کو مل بیٹھنے کا موقع دینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا اور اس کام کے لیے اردو سورس کی خصوصی ٹیم معرض وجود میں آئی۔ جنوری سے مئی تک کا عرصہ کیسے گزرا، یہ ایک طویل ادستان ہے۔ بہت سے دوست گئے، کئی نے خاموشی سے ہاتھ کھینچ لیے، کچھ آگے بڑھے اور بغل گیر ہوئے یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آ گئی۔
چار مہینے ایک ملک گیر اجلاس کے انعقاد کے لیے بہت کم وقت تھا، کئی بڑے چیلنجز منہ کھولے کھڑے تھے مثلاً اخراجات کا تخمینہ اور ان کا انتظام، اسپانسرز کی تلاش، روایتی میڈیا سے رابطے، اندرون و بیرون ملک پاکستانی اردو بلاگرز اور سوشل میڈیا سے وابستہ دیگر افراد سے رابطے اور مشاورت اور کانفرنس کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب۔ کبھی ایک معاملہ حل ہوجاتا تو کبھی دوسرا بگڑ جاتا، دوسرا حل کے قریب پہنچتا تو تیسرا سر پر آن کھڑا ہوتا۔ عامر ملک، اسد اسلم اور مصنف کبھی امیدوں کی لڑیاں پروتے ہوئے خوشی خوشی گھر لوٹتے تو کبھی اتنی مایوسی و افسردگی چھا جاتی کہ تینوں سر جھکائے یہ سوچ رہے ہوتے کہ اچھی خاصی زندگی چل رہی تھی، کیا ضرورت تھی اس مشقت میں پڑنے کی؟
فروری کے وسط میں کسی ذاتی کام سے استاد محترم پروفیسر انعام باری صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ کانفرنس کا ذکر چھڑ گیا۔ انہوں نے عمیر انصاری کو اس منصوبے میں شامل کرنے کا مشورہ دیا اور انہی کے مشورے کے چند روز بعد کراچی یونیورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن (کوجا) کے قائم مقام سربراہ اور شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد عمیرانصاری سے ملاقات ہوئی۔ وہ اردو سے محبت رکھنے والے نوجوان استاد ہیں۔ انہوں نے ہمارے منصوبے میں جامعہ کراچی اور 'کوجا' کی عملی شمولیت کی پیشکش کی۔ قریب ایک ماہ کی سوچ بچار کے بعد اردو سورس کے اجلاس میں اتفاق رائے سے جامعہ کراچی اور 'کوجا' کی بطور شراکت دار منصوبے میں شمولیت کا فیصلہ ہوا۔ اسی دوران پریس کلب میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر خورشید تنویر صاحب، کراچی پریس کلب کے جنرل سیکریٹری اے ایچ خانزادہ اور سینئر صحافی مظہر عباس سے ملاقات ہوئی اور ان کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہوا۔ لیکن دو اہم معاملات میں ابھی تک کوئی حوصلہ افزاء خبر نہ تھی، ایک اسپانسر، دوسرا میڈیا پارٹنر!
کسی شاعر نے کہا ہے ناں کہ ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں، جو اردو بول سکتے ہیں'' اور یقیناً ایسے لوگ موجود ہیں۔ شاہی گروپ کے سربراہ جناب غیاث الدین صاحب صرف اور صرف اردو زبان کی محبت میں اس بین الاقوامی سمٹ کے بنیادی اسپانسر بننے پر تیار ہوگئے اور کانفرنس سے چند روز قبل ڈالر انڈسٹری بھی ضمنی اسپانسر کے طور پر سامنے آ گئی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ جیسا معتبر صحافتی ادارہ ہمارے ساتھ میڈیا پارٹنر کے طور پر کھڑا ہوا تو گویا ہمیں سمٹ سے چند روز قبل ہی آدھی کامیابی مل گئی۔
کانفرنس سے قبل مسلسل چار راتیں اردو سورس کے دفتر اور جامعہ کراچی کے گیسٹ ہاؤس میں جاگ کر گزاریں۔ انتظامات در انتظامات در انتظامات، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر، حوصلے کبھی آسمان پر تو کبھی پاتال میں۔ یہی حال فہد کہیر بھائی، عامر ملک اور اسد اسلم کا بھی تھا۔ امید و بیم کی کیفیات سے گزرتے ہوئے بالآخر انتظار تمام ہوا اور 8 مئی کی صبح روشن ہوئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، انٹرنیٹ پر اردو پڑھنے اور لکھنے والے اس سے باخبر ہیں۔ ہماری رجسٹریشن ڈیسک کے مطابق اردو سوشل میڈیا 2015ء میں مجموعی طور پر 750 سے زائد بلاگرز، سوشل میڈیا صارفین اور طلباء نے شرکت کی۔ دوپہر کے سیشن میں ایک وقت میں 420 سے زیادہ شرکاء موجود تھے جبکہ ہال میں بیٹھنے کی کل گنجائش 368 تھی۔ پورے ملک سے دو درجن سے زیادہ بلاگرز، سوشل میڈیا صارفین اور دوسرے مقررین تشریف لائے۔ اس طرح الحمد للہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے ہم اسے حالیہ سالوں میں ملک میں ہونے والی سوشل میڈیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین تقریب قرار دے سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مثبت سوچ کا فقدان ہے، منفی رویے اور تنقید عام ہے اور تخریبی و سازشی سوچ کو خوب ہوا ملتی ہے، ان حالات میں ایسی تقریب کا انعقاد ہمارے لیے امید کی ایک کرن ہے۔
اس بات کا فیصلہ تو بہرحال وقت نے کرنا ہے کہ ہم اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے لیکن کم از کم ہماری اس چھوٹی سی کوشش کے نتیجے میں پہلی بار اردو سے وابستہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد بطور اسٹیک ہولڈرز سامنے آئے ہیں، ناصرف ان پر نظریں جمی ہیں بلکہ قومی اداروں، جامعات، پریس کلب اور ذرائع ابلاغ نے ان کی موجودگی، اہمیت اور ضرورت کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کئی روز کی تھکن کامیابی کے گراں مایہ احساس کے سامنے کہیں دبکی بیٹھی تھیں اور دوستوں کے قہقہوں نے میری مادر علمی یعنی جامعہ کراچی کے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ دوسری طرف تہنیتی پیغامات اور کالز کا تانتا بندھا ہوا تھا، جن سے اُس وقت تک جان نہ چھٹی جب تک کہ سیل فون کی بیٹری جواب نہ دے گئی۔
آج سے کوئی پانچ ماہ قبل دسمبر کی ایک سرد صبح ملیر کے ایک گوشے میں ناشتے کی میز پر موجود پانچ اردو بلاگرز اردو سورس کے بانی عامر ملک کے اچھوتے خیال پر غور کررہے تھے۔ اس پر حتمی فیصلہ نہ ہوسکا تو اگلی ملاقات تک اس کو زیر التوا بحث کے خانے میں ڈال دیا گیا۔ اگلی ملاقات جنوری کے وسط میں معروف آئی ٹی کنسلٹنٹ ہمایوں قریشی صاحب کی موجودگی میں بہادرآباد میں ہوئی جس میں اس خیال پر اتفاق ہوا کہ ایک اجلاس کے ذریعے اردو زبان سے متعلق مفروضوں کے خاتمے اور تکنیکی و غیر تکنیکی افراد کو مل بیٹھنے کا موقع دینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا اور اس کام کے لیے اردو سورس کی خصوصی ٹیم معرض وجود میں آئی۔ جنوری سے مئی تک کا عرصہ کیسے گزرا، یہ ایک طویل ادستان ہے۔ بہت سے دوست گئے، کئی نے خاموشی سے ہاتھ کھینچ لیے، کچھ آگے بڑھے اور بغل گیر ہوئے یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آ گئی۔
چار مہینے ایک ملک گیر اجلاس کے انعقاد کے لیے بہت کم وقت تھا، کئی بڑے چیلنجز منہ کھولے کھڑے تھے مثلاً اخراجات کا تخمینہ اور ان کا انتظام، اسپانسرز کی تلاش، روایتی میڈیا سے رابطے، اندرون و بیرون ملک پاکستانی اردو بلاگرز اور سوشل میڈیا سے وابستہ دیگر افراد سے رابطے اور مشاورت اور کانفرنس کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب۔ کبھی ایک معاملہ حل ہوجاتا تو کبھی دوسرا بگڑ جاتا، دوسرا حل کے قریب پہنچتا تو تیسرا سر پر آن کھڑا ہوتا۔ عامر ملک، اسد اسلم اور مصنف کبھی امیدوں کی لڑیاں پروتے ہوئے خوشی خوشی گھر لوٹتے تو کبھی اتنی مایوسی و افسردگی چھا جاتی کہ تینوں سر جھکائے یہ سوچ رہے ہوتے کہ اچھی خاصی زندگی چل رہی تھی، کیا ضرورت تھی اس مشقت میں پڑنے کی؟
فروری کے وسط میں کسی ذاتی کام سے استاد محترم پروفیسر انعام باری صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ کانفرنس کا ذکر چھڑ گیا۔ انہوں نے عمیر انصاری کو اس منصوبے میں شامل کرنے کا مشورہ دیا اور انہی کے مشورے کے چند روز بعد کراچی یونیورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن (کوجا) کے قائم مقام سربراہ اور شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد عمیرانصاری سے ملاقات ہوئی۔ وہ اردو سے محبت رکھنے والے نوجوان استاد ہیں۔ انہوں نے ہمارے منصوبے میں جامعہ کراچی اور 'کوجا' کی عملی شمولیت کی پیشکش کی۔ قریب ایک ماہ کی سوچ بچار کے بعد اردو سورس کے اجلاس میں اتفاق رائے سے جامعہ کراچی اور 'کوجا' کی بطور شراکت دار منصوبے میں شمولیت کا فیصلہ ہوا۔ اسی دوران پریس کلب میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر خورشید تنویر صاحب، کراچی پریس کلب کے جنرل سیکریٹری اے ایچ خانزادہ اور سینئر صحافی مظہر عباس سے ملاقات ہوئی اور ان کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہوا۔ لیکن دو اہم معاملات میں ابھی تک کوئی حوصلہ افزاء خبر نہ تھی، ایک اسپانسر، دوسرا میڈیا پارٹنر!
کسی شاعر نے کہا ہے ناں کہ ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں، جو اردو بول سکتے ہیں'' اور یقیناً ایسے لوگ موجود ہیں۔ شاہی گروپ کے سربراہ جناب غیاث الدین صاحب صرف اور صرف اردو زبان کی محبت میں اس بین الاقوامی سمٹ کے بنیادی اسپانسر بننے پر تیار ہوگئے اور کانفرنس سے چند روز قبل ڈالر انڈسٹری بھی ضمنی اسپانسر کے طور پر سامنے آ گئی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ جیسا معتبر صحافتی ادارہ ہمارے ساتھ میڈیا پارٹنر کے طور پر کھڑا ہوا تو گویا ہمیں سمٹ سے چند روز قبل ہی آدھی کامیابی مل گئی۔
کانفرنس سے قبل مسلسل چار راتیں اردو سورس کے دفتر اور جامعہ کراچی کے گیسٹ ہاؤس میں جاگ کر گزاریں۔ انتظامات در انتظامات در انتظامات، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر، حوصلے کبھی آسمان پر تو کبھی پاتال میں۔ یہی حال فہد کہیر بھائی، عامر ملک اور اسد اسلم کا بھی تھا۔ امید و بیم کی کیفیات سے گزرتے ہوئے بالآخر انتظار تمام ہوا اور 8 مئی کی صبح روشن ہوئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، انٹرنیٹ پر اردو پڑھنے اور لکھنے والے اس سے باخبر ہیں۔ ہماری رجسٹریشن ڈیسک کے مطابق اردو سوشل میڈیا 2015ء میں مجموعی طور پر 750 سے زائد بلاگرز، سوشل میڈیا صارفین اور طلباء نے شرکت کی۔ دوپہر کے سیشن میں ایک وقت میں 420 سے زیادہ شرکاء موجود تھے جبکہ ہال میں بیٹھنے کی کل گنجائش 368 تھی۔ پورے ملک سے دو درجن سے زیادہ بلاگرز، سوشل میڈیا صارفین اور دوسرے مقررین تشریف لائے۔ اس طرح الحمد للہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے ہم اسے حالیہ سالوں میں ملک میں ہونے والی سوشل میڈیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین تقریب قرار دے سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مثبت سوچ کا فقدان ہے، منفی رویے اور تنقید عام ہے اور تخریبی و سازشی سوچ کو خوب ہوا ملتی ہے، ان حالات میں ایسی تقریب کا انعقاد ہمارے لیے امید کی ایک کرن ہے۔
اس بات کا فیصلہ تو بہرحال وقت نے کرنا ہے کہ ہم اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے لیکن کم از کم ہماری اس چھوٹی سی کوشش کے نتیجے میں پہلی بار اردو سے وابستہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد بطور اسٹیک ہولڈرز سامنے آئے ہیں، ناصرف ان پر نظریں جمی ہیں بلکہ قومی اداروں، جامعات، پریس کلب اور ذرائع ابلاغ نے ان کی موجودگی، اہمیت اور ضرورت کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی