چند معروضات و گزارشات
غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں بجلی کی آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
ایک جانب عام لوگ گرمی سے بلبلا رہے ہیں اور دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں بجلی کی آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ دن کا سکون ناپید اور رات کی نیند غارت ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی بے بس عوام کو فردا کے وعدوں پر ٹرخا رہی ہے۔ حکومتوں کے وعدے تو کبھی پورے ہوئے تھے اور نہ آیندہ پورے ہوں گے۔ بقول مرزا غالب:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہمارا مشاہدہ ہے کہ حکومت کو جس کام میں دلچسپی ہوتی ہے وہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح فٹافٹ ہو جاتا ہے اور جس کام کے بارے میں حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی اس کے لیے یا تو طرح طرح کے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں یا پھر دلفریب وعدے کیے جاتے ہیں۔ مختلف کمیٹیوں اور کمیشنوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ حکومت خواہ غیر جمہوری ہو یا برائے نام جمہوری طریقہ واردات ہر ایک کا بس یہی ہے کہ عوام کو پرکشش جھوٹے وعدوں کے ذریعے بہلاؤ اور پھسلاؤ اور اپنا اُلو سیدھا کرکے اپنی مدت حکمرانی پوری کرو۔
جہاں تک برسر اقتدار طبقے کا تعلق ہے اسے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات اور مضمرات کا اس لیے احساس نہیں ہے کہ اسے یہ مسئلہ درپیش ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہندی زبان کی ایک مشہور کہاوت یاد آرہی ہے۔ ''جاکے پَیر پڑے نہ بیسوائی' وہ کیا جانے پیڑ پرائی'' ۔ مطلب یہ کہ جس کے پیروں میں پھٹن نہ پڑی ہوئی ہو اسے بھلا دوسرے کی تکلیف کی شدت کا احساس کیونکر ہوسکتا ہے۔
انگریزی کہاوت میں اسی مفہوم کو یہ کہہ کر ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ: "Wearer knows where the shoe pinches"برسر اقتدار طبقے کے علاوہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو مراعات یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے جس میں امرا و رؤسا اور زمیندار جاگیردار اور وڈیرے شامل ہیں۔ ان کے پاس بھی چونکہ دولت کی ریل پیل ہے اس لیے وہ متبادل ذرایع سے بجلی حاصل کرکے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے خود کو مکمل طور پر محفوظ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
سارا عذاب بے چارے عام آدمی کے مقدر میں لکھا ہوا ہے جو بجلی کے متبادل ذرایع حاصل کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ غریب تو بجلی کے بل کی رقم کو دیکھ کر ہی 440 وولٹ کے کرنٹ جیسے جھٹکے کی تاب نہ لاکر بری طرح نڈھال بلکہ ادھ موا ہو جاتا ہے۔ بجلی کے محکمے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بجلی آئے نہ آئے بجلی کے بل ہر ماہ بڑھی ہوئی رقم کے ساتھ نہایت پابندی سے موصول ہوتے رہتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بجلی کے بل پہلے ادا کیے جائیں اور غلط بلنگ کی شکایت اس کے بعد درج کرائی جائے۔ اب اگر کسی Inflated بل کی بھاری رقم کو دیکھتے ہی کسی کمزور دل صارف کو دل کا دورہ پڑ جائے تو بجلی کا محکمہ اس سے قطعاً بری الذمہ ہے حالانکہ اس ناگہانی موت کا محرک اس کے سوائے اور کوئی نہیں ہے۔ گویا بجلی کے محکمے کو سات خون معاف ہیں۔
بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں بجلی کے محکمے کا جواز یہ تھا کہ یہ سو فیصد سزا کے مستحق ہیں جس میں ان کی بجلی کاٹ دینا بالکل معمولی سی سزا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بجلی کے محکمے کا استدلال یہ تھا کہ جن علاقوں سے بلوں کی وصولی کم ہے وہ لوڈشیڈنگ کی سزا کے مستحق ہیں۔
لیکن تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اب وہ علاقے بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں جہاں بجلی کے بل باقاعدگی اور انتہائی پابندی سے ادا کیے جاتے ہیں۔ بجلی کے محکمے سے ہمارا سیدھا سوال یہ ہے کہ ایسے علاقے کے مکینوں کو بھلا کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟ حکمرانوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اس صورتحال سے لاعلم کیوں ہے؟ اور اگر یہ بات اس کے علم میں ہے (اور ہونی چاہیے) تو پھر وہ اس معاملے میں چپ سادھے ہوئے کیوں بیٹھی ہے اور غفلت، چشم پوشی اور سست روی کا شکار کیوں ہے؟ حکومت کی خدمت میں ہم صرف اتنا ہی عرض کرسکتے ہیں کہ:
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا
ہمارا وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے پرزور مطالبہ ہے کہ آیندہ بجٹ میں نہ صرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کے تناسب سے EOBIکے پنشنرز کی ماہانہ پنشن جوکہ چند دن پیشتر بڑھائی گئی ہے اسے 3600 سے بڑھا کر 5200 کردیا گیا ہے، حالانکہ اس بات کا اعلان گزشتہ بجٹ میں کیا گیا اور یہ رقم چھ ہزار روپے مقرر کی گئی تھی ۔ ماہانہ پنشن میں خوف خدا کے تحت معقول اور منصفانہ اضافہ کیا جائے بلکہ گزشتہ اضافہ شدہ پنشن کے واجبات کی بلاتاخیر ادائیگی کے احکامات بھی فوراً جاری کیے جائیں۔
میاں صاحب یاد رکھیں کہ کفر کی حکومت تو زیادہ عرصے تک چل سکتی ہے لیکن بے انصافی کی حکمرانی کے دن گنے ہوئے ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں آیندہ بجٹ میں اضافے کے حوالے سے بھی ہم وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی خدمت میں یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ یہ اضافہ برائے نام یا اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہونے کے بجائے کمر توڑ مہنگائی کے مقابلے میں حقیقی اور خاطر خواہ ہونا چاہیے ورنہ روز قیامت انھیں خدائے بزرگ و برتر کے آگے اپنی اس دانستہ کوتاہی یا غفلت کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
ہم حکومت وقت کی توجہ جہازرانی کے شعبے کی جانب بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں جو مدت دراز سے بے توجہی کا شکار ہے۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے سی مینوں(Seamen) کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور کوئی ان کا والی وارث نہیں ہے۔ ان بے چاروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملتا جس کے نتیجے میں ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔
انھیں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر صرف 20,000 روپے کی قلیل رقم ملتی ہے اور وہ بھی چیریٹیبل ٹرسٹ یا ویلفیئر ادارے کی جانب سے ادا کی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس چھوٹی سی رقم کی وصولیابی کے لیے بھی انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ PNSCبھی اپنے ریٹائرڈ سی مین کو پھوٹی کوڑی تک ادا نہیں کرتی۔
یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ جن سی مینز کی محنت سے ملک کے خزانے میں لاکھوں ڈالر کا سرمایہ جمع ہوتا ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اس شعبے سے منسلک ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد کم ازکم 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی باقی ماندہ زندگی عزت و آبرو اور اطمینان و سکون سے گزار سکیں۔ ہماری حکومت سے پرزور سفارش ہے کہ وہ ان مظلوم سی مینز(Seamen) کی خستہ حالی کا خیال کرتے ہوئے ان کی جانب فوری اور بھرپور توجہ دے کر اپنی انصاف پسندی اور صلہ رحمی کا عملی ثبوت پیش کرے اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کا بھی اہتمام کرے۔