مزدور تحریک
سرمایہ دارانہ نظام استحصال سے شروع ہوتا ہے اور استحصال پر ختم ہوتا ہے
ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان سمیت ساری دنیا میں یوم مئی پورے جوش وخروش سے منایاگیا، ریلیاں نکالی گئیں، جلسے کیے گئے، جلوس نکالے گئے، سیمینار اور ورکشاپ منعقد کیے گئے اور مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مزدوروں کے مسائل حل کرے۔
حکومت سے مسائل حل کرنے کا مطالبہ اس لیے غیر منطقی نظر آتا ہے کہ جو لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں، مسائل حل کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہوتی، ذمے داری اس لیے نہیں ہوتی کہ جس نظام میں صنعت کاروں، سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے، اس نظام میں مزدور کی حیثیت عموماً غلاموں جیسی ہوتی ہے جن کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل جد وجہد اور قربانیوں کے بعد مزدوروں نے اپنے کچھ حقوق تسلیم کروائے لیکن وہ حقوق جو مزدوروں نے بڑی قربانیاں دے کر منوائے اب مزدور ان حقوق سے بھی محروم ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام استحصال سے شروع ہوتا ہے اور استحصال پر ختم ہوتا ہے لیکن جب استحصال کے خلاف شدت سے آوازیں اٹھنے لگیں اور مزدور بے قابو ہونے لگے تو خود صنعت کاروں نے مزدوروں کو قابو میں رکھنے کے لیے انھیں کچھ حقوق دیے جن میں تنظیم یعنی ٹریڈ یونین بنانے کا حق، سودا کاری کا حق، حق ہڑتال وغیرہ شامل ہیں لیکن کس قدر شرم کی بات ہے کہ مزدوروں کو دیے ہوئے یہ قانونی حقوق بھی ان سے چھین لیے گئے۔
یوم مئی ساری دنیا کے مزدور اس لیے مناتے ہیں کہ آج سے لگ بھگ 139 سال پہلے شکاگو کے مزدوروں نے لا محدود اوقات کار کے خلاف تحریک چلائی اور اس جرم میں مزدوروں کے خون سے شکاگو کی سڑکیں سرخ کردی گئیں اور یہی سرخی مزدوروں کے پرچم پر نظر آتی ہے، شکاگو کے مزدوروں نے ناقابل فراموش قربانیاں دے کر کام کے محدود اوقات کار ختم کرائے، یہ لامحدود اوقات کار 12 سے 18 گھنٹے تک تھے، بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی اس لیے تھی کہ اس جبریہ مشقت میں مزدوروں کو نہ آرام کرنے کا وقت ملتا تھا نہ گھر کے کام کاج کا نہ اپنے بال بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا وقت ملتا تھا، شکاگو کے شہیدوں کا ہی کارنامہ تھا کہ انھوں نے لامحدود اوقات کار کے ظالمانہ نظام کو تبدیل کرایا، لیکن یہ کامیابی صرف مطالبات کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے سڑکوں پر آنا پڑا، خون دینا پڑا۔
شکاگوکے مزدوروں نے 139 سال پہلے خون دے کر جو کامیابی حاصل کی تھی اکیسویں صدی کے مزدورکو اس حق سے بھی محروم کردیاگیا ہے، آج مزدور نہ صرف اوقات کار سے محروم ہے بلکہ ان حقوق سے بھی اسے محروم کردیاگیا ہے جو سرمایہ داروں، صنعت کاروں نے اپنے وسیع تر مفادات کے تحفظ کے لیے اسے دیے تھے، جن کا ذکر ہم نے اوپر کردیا تھا، آج کے 6 کروڑ سے زیادہ پاکستانی مزدوروں کو جن غیر انسانی مسائل کا سامناہے ان میں لا محدود اوقات کار ایک بڑا مسئلہ ہے، مختلف صنعتوں اور شعبوں میں مزدوروں سے آج بھی 12 سے 18 گھنٹے بلا معاوضہ اضافی کام لیا جارہاہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ٹھیکیداری نظام کا ہے اس نظام میں مالکان نے مزدوروں کو اپنے ایجنٹوں یعنی ٹھیکیداروں کے اس طرح حوالے کردیا ہے کہ مزدور کارخانوں اور ملوں کا مزدور نہیں رہا بلکہ محض ٹھیکیدار کا غلام بن کر رہ گیا ہے، مزدورکے لیے ٹریڈ یونین بنانا ایک ایسا سنگین جرم بن گیا ہے جس کی پاداش میں یونین بنانے کی کوشش کرنے والے مزدوروں کو کان پکڑ کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، سودا کاری اور ہڑتال کا حق اس لیے غضب کیا جارہا ہے کہ جن اداروں میں یونین بنانا ہی جرم ہو وہاں سوداکاری اور ہڑتال بھلا کیا ذکر ہوسکتا ہے۔
مزدور کی بے بسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ مالکان کی محافظ بنی ہوئی ہے، مزدور کو خوف و ہراس میں اس طرح مبتلا کرکے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ یونین اور ہڑتال کے نام ہی سے دور بھاگتا ہے، قانون اور انصاف ہماری جمہوریت کے دو ایسے شاہکار ہیں جو ہماری جمہوریت کے سر کے دو سینگ بنے ہوئے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ جمہوریت اپنے ان دونوں سینگوں کو مظلوم عوام کے خلاف استعمال کرتی ہے۔
جن میں مزدور کسان سرفہرست ہیں۔ اگر کوئی مزدور یونین بنانے کی کوشش کرتا ہے، ہڑتال کرنے کی کوشش کرتا ہے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت اور صنعت کاروں کے یہ سینگ حرکت میں آجاتے ہیں جن سے خوف زدہ ہوکر مزدور پیچھے ہٹ جاتا ہے لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مزدور اپنی اجتماعی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو صنعت کاروں کا بیل سینگ دکھانے کے بجائے دم دباکر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
ٹریڈ یونین اور ٹریڈ یونین تحریک کا تعلق عموماً بائیں بازو کی سیاست سے رہا ہے، جب تک ہمارے ملک میں بائیں بازوکی سیاست زندہ تھی ٹریڈ یونین بھی مضبوط تھی، ٹریڈ یونین تحریک بھی جاندار تھی جس کا مشاہدہ قیام پاکستان کے بعد سے بھٹو دور تک کیا جاسکتا ہے، یہ بڑا عجیب مذاق ہے کہ ٹریڈ یونین اور ٹریڈ یونین تحریک اس دور میں تباہی کا شکار ہوئی جس دور میں مزدور، کسان راج کا نعرہ بلند کیا گیا، مزدوروں پر سب سے زیادہ مظالم ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں ہوئے۔
لیکن 1968 میں جب عوام ایوب خان کے خلاف سڑکوں پر آئے تو مزدور نے بھی انگڑائی لی اور 20،25 سال کے مظالم کو جھٹک کر اپنی اجتماعی طاقت کو اس طرح بروئے کار لایا کہ مالکان کو اپنی ملوں اور کارخانوں میں آنے کے لیے ٹریڈ یونین کے رہنماؤں سے اجازت لینی پڑتی تھی، ٹریڈ یونین طاقت ور ہوگئی تھی اور مزدور تحریکیں جوبن پر تھیں یہ تبدیلی اس لیے ممکن ہوئی کہ ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک کی قیادت بائیں بازو کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نظریاتی رہنماؤں کے ہاتھوں میں تھی جنھوں نی بڑی قربانیاں دے کر مزدوروں کو یہ مقام دے دیا تھا۔
مزدوروں کی اس طاقت کو اس حکومت نے ریاستی مشینری اور اس کے سینگوں کے ذریعے اس طرح توڑدیا کہ پاکستان میں آج تک دوبارہ مزدور سر نہ اٹھاسکا، پاکستان میں یوم مئی اگرچہ سرکاری طور پر بھٹو کے دور سے منایا جارہاہے لیکن اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ سائٹ انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں پو گولیاں چلانے سے جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی اسے نارمل کرنے کے لیے بھٹو نے اپنے وزیر محنت رانا حنیف کو کراچی بھیجا، کراچی میں قصرناز میں رانا حنیف نے مزدور رہنماؤں کا ایک اجلاس بلایا جس میں تمام مزدور رہنماؤں نے مختلف مطالبات پیش کیے۔
رانا حنیف نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ بیدری صاحب! آپ بھی کوئی مطالبہ پیش کریںگے؟ میں نے کہاکہ میرا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان میں یکم مئی اور یوم حسن ناصر پر عام تعطیل ہو اور یہ دن سرکاری طور پر منائے جائیں، ان دو مطالبوں میں سے ایک یعنی یکم مئی کو چھٹی اور سرکاری طور پر یہ دن منانے کا مطالبہ مان لیا گیا، اگرچہ پاکستان میں یوم مئی کی تعطیل ہماری تحریک پر ہوئی اور یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے لیکن یہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس وقت مزدور تحریک توانا تھی حکومت کے لیے اس مطالبے کو ماننے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔
حکومت سے مسائل حل کرنے کا مطالبہ اس لیے غیر منطقی نظر آتا ہے کہ جو لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں، مسائل حل کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہوتی، ذمے داری اس لیے نہیں ہوتی کہ جس نظام میں صنعت کاروں، سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے، اس نظام میں مزدور کی حیثیت عموماً غلاموں جیسی ہوتی ہے جن کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل جد وجہد اور قربانیوں کے بعد مزدوروں نے اپنے کچھ حقوق تسلیم کروائے لیکن وہ حقوق جو مزدوروں نے بڑی قربانیاں دے کر منوائے اب مزدور ان حقوق سے بھی محروم ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام استحصال سے شروع ہوتا ہے اور استحصال پر ختم ہوتا ہے لیکن جب استحصال کے خلاف شدت سے آوازیں اٹھنے لگیں اور مزدور بے قابو ہونے لگے تو خود صنعت کاروں نے مزدوروں کو قابو میں رکھنے کے لیے انھیں کچھ حقوق دیے جن میں تنظیم یعنی ٹریڈ یونین بنانے کا حق، سودا کاری کا حق، حق ہڑتال وغیرہ شامل ہیں لیکن کس قدر شرم کی بات ہے کہ مزدوروں کو دیے ہوئے یہ قانونی حقوق بھی ان سے چھین لیے گئے۔
یوم مئی ساری دنیا کے مزدور اس لیے مناتے ہیں کہ آج سے لگ بھگ 139 سال پہلے شکاگو کے مزدوروں نے لا محدود اوقات کار کے خلاف تحریک چلائی اور اس جرم میں مزدوروں کے خون سے شکاگو کی سڑکیں سرخ کردی گئیں اور یہی سرخی مزدوروں کے پرچم پر نظر آتی ہے، شکاگو کے مزدوروں نے ناقابل فراموش قربانیاں دے کر کام کے محدود اوقات کار ختم کرائے، یہ لامحدود اوقات کار 12 سے 18 گھنٹے تک تھے، بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی اس لیے تھی کہ اس جبریہ مشقت میں مزدوروں کو نہ آرام کرنے کا وقت ملتا تھا نہ گھر کے کام کاج کا نہ اپنے بال بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا وقت ملتا تھا، شکاگو کے شہیدوں کا ہی کارنامہ تھا کہ انھوں نے لامحدود اوقات کار کے ظالمانہ نظام کو تبدیل کرایا، لیکن یہ کامیابی صرف مطالبات کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے سڑکوں پر آنا پڑا، خون دینا پڑا۔
شکاگوکے مزدوروں نے 139 سال پہلے خون دے کر جو کامیابی حاصل کی تھی اکیسویں صدی کے مزدورکو اس حق سے بھی محروم کردیاگیا ہے، آج مزدور نہ صرف اوقات کار سے محروم ہے بلکہ ان حقوق سے بھی اسے محروم کردیاگیا ہے جو سرمایہ داروں، صنعت کاروں نے اپنے وسیع تر مفادات کے تحفظ کے لیے اسے دیے تھے، جن کا ذکر ہم نے اوپر کردیا تھا، آج کے 6 کروڑ سے زیادہ پاکستانی مزدوروں کو جن غیر انسانی مسائل کا سامناہے ان میں لا محدود اوقات کار ایک بڑا مسئلہ ہے، مختلف صنعتوں اور شعبوں میں مزدوروں سے آج بھی 12 سے 18 گھنٹے بلا معاوضہ اضافی کام لیا جارہاہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ٹھیکیداری نظام کا ہے اس نظام میں مالکان نے مزدوروں کو اپنے ایجنٹوں یعنی ٹھیکیداروں کے اس طرح حوالے کردیا ہے کہ مزدور کارخانوں اور ملوں کا مزدور نہیں رہا بلکہ محض ٹھیکیدار کا غلام بن کر رہ گیا ہے، مزدورکے لیے ٹریڈ یونین بنانا ایک ایسا سنگین جرم بن گیا ہے جس کی پاداش میں یونین بنانے کی کوشش کرنے والے مزدوروں کو کان پکڑ کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، سودا کاری اور ہڑتال کا حق اس لیے غضب کیا جارہا ہے کہ جن اداروں میں یونین بنانا ہی جرم ہو وہاں سوداکاری اور ہڑتال بھلا کیا ذکر ہوسکتا ہے۔
مزدور کی بے بسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ مالکان کی محافظ بنی ہوئی ہے، مزدور کو خوف و ہراس میں اس طرح مبتلا کرکے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ یونین اور ہڑتال کے نام ہی سے دور بھاگتا ہے، قانون اور انصاف ہماری جمہوریت کے دو ایسے شاہکار ہیں جو ہماری جمہوریت کے سر کے دو سینگ بنے ہوئے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ جمہوریت اپنے ان دونوں سینگوں کو مظلوم عوام کے خلاف استعمال کرتی ہے۔
جن میں مزدور کسان سرفہرست ہیں۔ اگر کوئی مزدور یونین بنانے کی کوشش کرتا ہے، ہڑتال کرنے کی کوشش کرتا ہے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت اور صنعت کاروں کے یہ سینگ حرکت میں آجاتے ہیں جن سے خوف زدہ ہوکر مزدور پیچھے ہٹ جاتا ہے لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مزدور اپنی اجتماعی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو صنعت کاروں کا بیل سینگ دکھانے کے بجائے دم دباکر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
ٹریڈ یونین اور ٹریڈ یونین تحریک کا تعلق عموماً بائیں بازو کی سیاست سے رہا ہے، جب تک ہمارے ملک میں بائیں بازوکی سیاست زندہ تھی ٹریڈ یونین بھی مضبوط تھی، ٹریڈ یونین تحریک بھی جاندار تھی جس کا مشاہدہ قیام پاکستان کے بعد سے بھٹو دور تک کیا جاسکتا ہے، یہ بڑا عجیب مذاق ہے کہ ٹریڈ یونین اور ٹریڈ یونین تحریک اس دور میں تباہی کا شکار ہوئی جس دور میں مزدور، کسان راج کا نعرہ بلند کیا گیا، مزدوروں پر سب سے زیادہ مظالم ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں ہوئے۔
لیکن 1968 میں جب عوام ایوب خان کے خلاف سڑکوں پر آئے تو مزدور نے بھی انگڑائی لی اور 20،25 سال کے مظالم کو جھٹک کر اپنی اجتماعی طاقت کو اس طرح بروئے کار لایا کہ مالکان کو اپنی ملوں اور کارخانوں میں آنے کے لیے ٹریڈ یونین کے رہنماؤں سے اجازت لینی پڑتی تھی، ٹریڈ یونین طاقت ور ہوگئی تھی اور مزدور تحریکیں جوبن پر تھیں یہ تبدیلی اس لیے ممکن ہوئی کہ ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک کی قیادت بائیں بازو کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نظریاتی رہنماؤں کے ہاتھوں میں تھی جنھوں نی بڑی قربانیاں دے کر مزدوروں کو یہ مقام دے دیا تھا۔
مزدوروں کی اس طاقت کو اس حکومت نے ریاستی مشینری اور اس کے سینگوں کے ذریعے اس طرح توڑدیا کہ پاکستان میں آج تک دوبارہ مزدور سر نہ اٹھاسکا، پاکستان میں یوم مئی اگرچہ سرکاری طور پر بھٹو کے دور سے منایا جارہاہے لیکن اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ سائٹ انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں پو گولیاں چلانے سے جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی اسے نارمل کرنے کے لیے بھٹو نے اپنے وزیر محنت رانا حنیف کو کراچی بھیجا، کراچی میں قصرناز میں رانا حنیف نے مزدور رہنماؤں کا ایک اجلاس بلایا جس میں تمام مزدور رہنماؤں نے مختلف مطالبات پیش کیے۔
رانا حنیف نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ بیدری صاحب! آپ بھی کوئی مطالبہ پیش کریںگے؟ میں نے کہاکہ میرا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان میں یکم مئی اور یوم حسن ناصر پر عام تعطیل ہو اور یہ دن سرکاری طور پر منائے جائیں، ان دو مطالبوں میں سے ایک یعنی یکم مئی کو چھٹی اور سرکاری طور پر یہ دن منانے کا مطالبہ مان لیا گیا، اگرچہ پاکستان میں یوم مئی کی تعطیل ہماری تحریک پر ہوئی اور یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے لیکن یہ اس لیے ممکن ہوا کہ اس وقت مزدور تحریک توانا تھی حکومت کے لیے اس مطالبے کو ماننے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔