پاکستانی قوم کو لاحق پانچ خطرناک امراض
معدنی دولت اس کے علاوہ ۔۔۔دنیا کے لذیذترین پھلوں کی اتنی اقسام اورا س قدر باافراط کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے
کئی سالوں سے پاکستان میں رہنے والے ترُک دانشور نے پاکستانی پروفیشنلز کے وفد سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ''بلاشبہ قدرت نے پاکستان کو بے شمار وسائل سے نوازا ہے۔ اٹھارہ کروڑ ذہین اور محنتی نفوس۔۔۔افرادی قوت کا اتنا بڑا سرمایہ دنیا کے چند ہی ملکوں کو میسّر ہے۔ چار خوبصورت موسم، بارہ مہینے کا ورکنگ سیزن، ہموار اور زرخیز زمین کا اتنا بڑا خطّہ جس سے اُگنے والا اناج پورے ایشیا کا پیٹ بھر دے۔
معدنی دولت اس کے علاوہ ۔۔۔دنیا کے لذیذترین پھلوں کی اتنی اقسام اورا س قدر باافراط کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ پاکستان کے ڈاکٹرز اور انجنیئرز نے دنیا میں اپنی قابلیّت کا لوہا منوایا ہے اور آپ کے نوجوان طالب علم یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں جاکر عالمی ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔ ۔۔اتنے وسائل اور اس طرح کا Potential کے ہوتے ہوئے آپ کو دنیا کے پہلی دس ترقی یافتہ ملکوں میں ہونا چاہیے''۔۔۔ '' ہونا تو ایسا ہی چاہیے'' پاکستانی وفدنے کہا۔۔۔مگرایسا نہیں ہے، ترک دوست نے کہا۔''آپ کے خیال میں ایسا کیوں نہیں ہے؟'' وفد کے ارکان نے پوچھا ''جس طرح پودے کو بیماری لگ جائے تو اس کی نشوونما رک جاتی ہے۔
اسی طرح افراد اور قومیں بھی کسی مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی افزائش اور growthبھی رک جاتی ہے''ترک دوست نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ''برا نہ ماننا۔۔۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی قوم کچھ ایسی بیماریوں کا شکار ہے جنہوں نے اس کی growthاور افزائش روک دی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے آپ کو ان بیماریوں پر قابو پانا ہوگا''۔ ''آپ ہمارے ہمدرد دوست ہیں ان بیماریوں کی نشاندہی کردیں تو ہم آپ کے شکرگذار ہونگے'' ۔ ۔۔دوتین حضرات نے بیک زبان کہا۔ ''کیوں نہیں۔۔آپ کے امراض دیکھ کر ہمیں بھی دکھ ہوتا ہے اس لیے ان کی نشاندہی کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں''۔ ترک دانشور گویاہوا ''سب سے پہلااور سب سے بڑا موذی مرض جس میں آپ کی قوم مبتلا ہے وہ ہے مایوسی اور بے یقینی ۔ آپ کے اپنے صحافی ٹی وی اسکرینوں پر ملک کے بارے میں مایوسی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل کا ملک کے بارے میں یقین ڈگمگا گیا ہے۔
کمزور اور غریب ترین ملکوں کے باشندے بھی اپنے ملک کے بارے میں ایسی مایوسی کا اظہار نہیں کرتے اور کبھی اپنے چھوٹے سے غریب ملک کے تحلیل ہونے کی بات نہیں کرتے مگر آپ کے دانشور سرِعام اسطرح کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔آپ کے دشمن دل سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گا مگر اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستانی قوم بے یقینی کا شکار رہے۔ آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ ایک گرینڈ اسکیم کے تحت آپ کی قوم میں ناامیدی اور آپ کے نوجوانوں میں disillusionmentپیدا کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں آپ کا میڈیا بھی استعمال ہورہا ہے۔اسی اسکیم کے تحت آپ کے ملک کی آزادی اور آزادی دلانے والے رہنماؤں کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
آزادیء رائے کے نام پر پاکستان کے قیام اور بنیاد پر اعتراض کیے جارہے ہیں۔ ۔۔ آپ تحقیق کرالیں، پاکستان کے قیام اور اس کے بانیوں پر اعتراضات کے تیر برسانے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو کسی این جی او سے منسلک نہ ہو اور جسے باہر سے ڈالر اور یورونہ ملتے ہوں۔ آزادی ء اظہار کاسب سے بڑا چیمپئن امریکا بھی اپنے بانی رہنماؤں کو میڈیا پر متنازعہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
آپ کی قوم جس دوسری خطرناک بیماری میں مبتلا ہے وہ ہے احساسِ کمتری ۔ جب کسی قوم کی اشرافیہ اپنی زبان اور اپنے کلچر کو دوسروںسے کمتر سمجھے گی اور اپنی اقدار اور اپنی تہذیب کے بارے میں مدافعانہ روّیہ اپنائے گی تو وہ قوم خوداعتمادی کے جوہر سے محروم ہوجائیگی۔ خود اعتمادی ہی وہ مقام اور وہ جمپنگ بورڈ ہے جس پر پاؤں رکھ کر قومیں ترقی اور عروج کی جانب چھلانگ لگاتی ہیں۔
یورپی اقوام کو چھوڑدیں کوئی بھی باوقار قوم مثلاً ترک ، عرب یا ایرانی، اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔مگر پاکستان کی الیٹ کلاس اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زبان میں بات نہیں کرتی اسی لیے آپ کی نئی نسل اپنی زبان نہ بول سکتی ہے نہ لکھ سکتی ہے۔ دنیا کی کسی قوم نے غیر ملکی زبان میں پڑھ کر ترقی نہیں کی۔ آپ جن کی زبان بولتے ہیں اور جن کے کلچر کی پیروی کرتے ہیں، کیا آپ کے خیال میں وہ آپ کی عزّت کرتے ہوں گے؟ ھرگز نہیں وہ آپ کو حقیر ، بے وقارا ور غلام سمجھتے ہیں وہ صرف ان کی عزّت کرتے ہیں جو اپنی زبان، اپنی اقدار اور اپنے کلچر پر فخر کرتے ہیں۔
آپ کی پوری قوم یہ جانتی ہے کہ آپ کا ہمسایہ بھارت آپ کے ملک میں مداخلت کرتا ہے، دھشت گردی بھی کرواتا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں بھی کرتا رہتا ہے مگر پھر بھی اسی بھارت کا کلچر آپ کے گھر گھر میں پہنچا ہواہے۔۔ نہ آپ کی سول سوسائٹی اس کی مزاحمت کرتی ہے اور نہ حکومت۔۔۔ دنیا کی کوئی باوقار اور باغیرت قوم اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔
آپ کی تیسری خطرناک بیماری کرپشن ہے۔ آپ کے معاشرے میں اس لعنت سے نفرت ختم ہورہی ہے۔ کرپشن اور بددیانتی سے نفرت نہ کرنا زوال پذیر معاشرے کی نشانی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے تمام قومی ادارے کرپشن کی وجہ سے برباد ہوئے ،کچھ عرصہ پہلے تک آپ کے باعزّت گھرانے راشی افسروں اور کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ تعلق یا رشتے داریاں نہیں کرتے تھے۔
اب وہ حجاب بھی ختم ہو گئے ہیں۔ پہلے آپ غیر قانونی ذرایع سے بنائے گئے وسیع وعریض بنگلوں اور لمبی کاروں سے متاثر نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے مالکوں سے نفرت کرتے تھے۔ اب آپ ان سے نفرت نہیں کرتے بلکہ مرعوب ہوتے ہیں۔ آپ کرپٹ سیاستدانوں کی پیروی کرتے ہیں اور بدیانت افسروں کے قصیدے لکھتے ہیں۔ آپ کے ہاں احتساب کے ادارے انتہائی کمزور ہیں اور حکمرانوں کے آلہء کار ہونے کے باعث اعتبار کھوچکے ہیں۔ آپ کے ہمسایہ ممالک میں بھی کرپشن ہے مگر وہاں احتسات کا نظام موئثر بھی ہے اور شفاف بھی جس پر عوام کو اعتماد ہے ۔ آپ کے ہاں احتساب کا نظام اس قدر غیر موئثر اور غیر شفاف ہے کہ کرپشن کا مرتکب کوئی بڑاافسر یا بڑا سیاستدان اس سے خوفزدہ نہیں ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔
آپ کی قوم کو لاحق چوتھی بیماری یہ ہے کہ آپ لوگ قانون کو احترام کے قابل نہیں سمجھتے ۔ قانون توڑنا بڑائی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے آپ کے ہاں قانون پر عمل کے بجائے قانون شکنی کا رجحان عام ہے۔ آپ کو جان لینا چاہیے کہ قانون کی حکمرانی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک نے سب سے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنے ہاں قانون کی حکمرانی قائم کی ہے۔
انصاف کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی زیادہ روشن اور شاندار روایات آپ کے یعنی مسلمانوں کے ہاں رہی ہیں۔۔۔ مگر اب آپ کے ملک میں قانون کا نفاذ نہ تو موئثر ہے اور نہ ہی یکساں۔۔۔ قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کرنے والے ادارے خریدے جاتے ہیں اور بااثر افراد اور گروہ عملی طور پر قانون سے بالاتر ہیں۔ جس ملک میں قانون کمزور ہووہ ملک خود کیسے مضبوط ہوسکتا ہے؟۔
علم اور کتاب سے لاتعلقی آپ کا ایک اورموذی مرض ہے جس کی اہمیّت کا آپ کو قطعاًادراک نہیں ہے۔ خود اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی اور اﷲ کے سچے نبی ﷺ نے علم حاصل کرنے کے لیے دوردراز کا سفر کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ کتاب، تعلیم اور تحقیق کے بغیر کوئی قوم ترقی اور خوشحالی کا تصّور بھی نہیں کرسکتی۔ آپ کے ہاں قومی سطح کی پالیسیاں قومی رہنماؤں کے بجائے افسر شاہی بناتی ہے جس نے تمام تر اختیارات اور مراعات اپنی جھولی میں ڈال لی ہیں اور تعلیم اور معلّم کو حقیر اور بے توقیربنادیا ہے۔ اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو یورپ اور امریکا کی طرح تعلیم اور تدریس کو اس قدر باعزّت اور دلکش بنادیں کہ یہ قابل ترین نوجوانوں کی پہلی ترجیح بن جائے۔
ہرزندہ معاشرے میں گھر اور اسکول سب سے بڑے تربیّتی ادارے ہوتے ہیںجو بچوں کے ذہنوں میں اچھے اور برے کا تصّور راسخ کرنے اور ان کی کردار سازی میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔ آپ کے ہاں کئی سالوں سے یہ دونوں ادارے غیر فعال ہیں۔ جس کے بڑے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انسان کو بچپن میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس عمر میں آپ کے بچوں کی انگلی پکڑنے والا اور انھیں راہ دکھانے والا کوئی نہیں۔ والدین اور استاد دونوں اس فرض سے غافل ہوچکے ہیں ۔ اسی لیے آپ کے کھاتے پیتے متمول گھرانوں کے بچوں میں منشیات کے استعمال، چوری، دھوکا دہی، جھوٹ، بداخلاقی اور جنسی جرائم کے رجحانات فروغ پارہے ہیں۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ آپ کی آئیندہ نسل کس طرح کی ہوگی اور آپ کے معاشرے کے کیا خدوّ خال ہوں گے!!۔
وفد کے ارکان نے جو پوری توجہ سے سن رہے تھے سراٹھایا اور تشویش بھرے لہجے میں کہا۔''ہمارے مخلص دوست! آپ نے قوم کو لاحق بیماریوں کی صحیح تشخیص کی ہے مگر کیا ان پر قابوپایاجاسکتاہے؟ شفایابی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے ؟'' ہاں کیوں نہیں!''تو پھر شفا کے لیے دوا بتادیجیے۔ شفاکا نسخہ کہاں سے ملے گا۔
یورپ سے، امریکا سے یا چین سے ؟کسی حکیم سے یا کسی ڈاکٹر سے؟ کس بزرگ کے پاس جاناہوگا؟'' پاکستانی وفد نے بیک زبان پوچھا۔''اس کے لیے آپ کو کہیں نہیں جانا پڑے گا شفا کا نسخہ آپ کو اپنے ہاں سے ہی ملے گا'' ترک دانشور نے کہا۔'' کون ہیںوہ بزرگ جن سے نسخہء شفا ملے گا؟'' پاکستانی پروفیشنلزنے بیتابی سے دریافت کیا۔''وہ کوئی حکیم ہے یا ڈاکٹر''؟ ''وہ حکیم بھی ہیں اور ڈاکٹر بھی۔ وہ حکیم ُ الامّت بھی ہیں اور دانائے راز بھی۔ انھوں نے امراضِ ملّت کی تشخیص بھی کی ہے اور علاج بھی بتایا۔ ایران ہو، ملائیشیا ہو یا ترکی ، ان سب ممالک نے اپنے امراض سے شفاکا نسخہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ سے حاصل کیا اور شفا پائی ۔ آپ بھی ڈاکٹرصاحب کی طرف رجوع کرلیں۔ ؎ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی ؔ
علامہ اقبال ؒ کے پیغام کو رہنما بنالیں تو آپ کی کمندیں ستاروں پر ہوںگی اور عظمت وسربلندی آپ کے پاؤں چھوئے گی۔