دشمن کو یاد رکھیے

یہ کوئی سنی سنائی تاریخ نہیں ہے ہڈبیتی ہے اور اس کے زخم ہم مسلسل سہلاتے رہتے ہیں


Abdul Qadir Hassan May 13, 2015
[email protected]

ہماری اپنی منتخب حکومت کا ہر ناز و انداز سر آنکھوں پر لیکن ہم اپنے مسلمہ اور مصدقہ دشمن بھارت کے ساتھ کسی رو رعایت اور نرمی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی حکومت کو ایک ایسی حکومت کی صورت میں دیکھتے ہیں جو بھارت کے ساتھ سیاسی و کاروباری تعلقات میں کسی رعایت اور اس کے ساتھ کسی دلجوئی کی قائل نہیں ہے پاکستانی مفادات کا ڈٹ کر دفاع کرتی ہے اور پاکستانی مفادات کے تحفظ میں جان دے دیتی ہے۔

یہ معروضات شوقیہ نہیں ہیں۔ ہیلی کاپٹر کا حالیہ سو فی صد تکنیکی حادثہ ہو یا کوئی بھی اور واقعہ ہم بھارت کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہیں دے سکتے اور بھارت کا یہی رویہ بار بار ثابت کرتا ہے کہ یہ ملک ہمارا دشمن ملک ہے اور ہمارے ایٹم بم اور فوج کی باکمال اہلیت اور جذبے کو دیکھ کر اسے جو نہ ختم ہونے والی دلدوز تکلیف لاحق رہتی ہے ہمیں وہ دشمن کی نظروں سے دیکھنی چاہیے کہ وہ اپنی اس بے بسی پر کس قدر نالاں ہے اور کچھ نہ کر سکنے پر کس قدر مجبور ہے۔ بھارت کی ہمارے ساتھ دشمنی اور عناد وقتی اور محض سیاسی ہی نہیں ہے اس کے خیال میں ہم نے بھارت ماتا کو کاٹ کر اس کے ایک ٹکڑے کو پاکستان بنا لیا ہے۔

وہ تو بعض لیڈروں کی غداری اور وطن سے کمزور ترین تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت اپنا غم غلط کرنے کے لیے ہمارے ایک ٹکڑے کو ہم سے جدا کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس میں اسے جو کامیابی ملی وہ اتنی کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا مگر وہ اس سے متصل بنگال میں ضم نہ ہو سکا بلکہ ایک الگ ملک بن گیا کیونکہ برصغیر کے مسلمان کے دل و دماغ میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ ہندوستان سے ہر لحاظ سے الگ ہے اس کی تہذیب اور اس کا نظریہ زندگی جداگانہ ہے وہ غلط کار پاکستانیوں سے ناراض ہو سکتا ہے مگر پاکستان کو چھوڑ کر دشمن بھارت کے ساتھ مل نہیں سکتا اس سے الگ ہی رہتا ہے۔ یہ سب ہمارے سامنے کا واقعہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور ہم پاکستانیوں کی اکثریت نے یہ سب دیکھا ہے۔

یہ کوئی سنی سنائی تاریخ نہیں ہے ہڈبیتی ہے اور اس کے زخم ہم مسلسل سہلاتے رہتے ہیں۔ بہر کیف عرض یہ ہے کہ بھارت کو ہم اگر ذرہ برابر بھی دوست سمجھ لیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے اپنے دشمن کو کسی حد تک دوست سمجھ لیا ہے اور جب کسی دشمن کو دوستی کی رعایت دی جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے تاریخ ایسے واقعات کی سزاؤں سے بھری پڑی ہے۔ تازہ مثال سقوط ڈھاکا۔

بھارت ان دنوں چین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ایک زبردست دوستانہ عمل سے سخت پریشان ہے۔ چین کے ساتھ مجوزہ تجارتی راستوں سے اس کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور وہ ہمارے حکمرانوں کی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ مجھے پریشانی ہے کہ ہمارے حکمران بھی حالات کو سنبھال نہیں پا رہے۔ انھوں نے آفتابی بجلی کے ایک زبردست منصوبے کا افتتاح کیا۔ تقریب میں دونوں حکمران موجود تھے۔ صحافیوں کو خاص جہاز میں بھر کر لے جایا گیا اور تقریب میں ان کی نمائش کی گئی مگر اس تبرک کو جس طرح لایا گیا تھا ویسے ہی ادب کے ساتھ واپس بھجوا دیا گیا۔ حیرت زدہ صحافیوں کے کپڑوں کی استری بھی خراب نہیں ہونے دی گئی۔

وہ تو خدا کا شکر ہے کہ میں سرکاری پالیسی کی وجہ سے اس تقریب میں مدعو نہیں تھا ورنہ مجھے اپنے اکلوتے تقریباتی سوٹ کی دوبارہ استری کرانی پڑتی اور اس دوران گھر کے اندر بیٹھنا پڑتا۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ادیب اور شاعر بس ایک ہی جوڑے میں زندگی بسر کرتے تھے وہ دھوبی کی دکان میں جا کر بیٹھ جاتے کپڑے اتار کر دھوبی کو دے دیتے اور خود مشق سخن میں مصروف ہو جاتے دھوبی کپڑے تیار کر کے دے دیتا تھا وہ انھیں پہن کر بھاگم بھاگ کسی تقریب میں شریک ہو جاتے۔ ایک سیاسی لطیفہ بھی یاد آتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بعض معروف لیڈر بھی رات کو کپڑے دھونے کے لیے گھر میں دے دیتے اور صبح جب استری ہو جاتی تو گھر سے باہر عوام کے پاس جاتے۔ انھیں عوام سے دوری کی سزا بھی ملتی لیکن بات لمبی ہو جائے گی عرض یہ تھی ہمارے سرکاری مہمان جو ہوائی جہاز میں بہاول پور گئے تھے ویسے ہی لوٹ کر آ گئے۔ ان مہمانوں کی طویل فہرست کو کیوں لے جایا گیا اور ان کا مجوزہ استعمال کیا تھا معلوم نہیں ہو سکا۔ ہمارے حکمران قدرے بوکھلائے ہوئے ہیں کہ اپنے کام بھی بھول جاتے ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ ان کے یہ مہمان جو صحافی ہیں اور لکھنا جن کا کام ہے اپنے اس سفر کی روداد اور مقصد لکھیں گے یا حیران و پریشان ہو کر چپ ہو رہیں گے میں تو آدھا بہاول پور کا ہوں میرے ننھال نے ریاست آباد ہونے پر یہاں بہت سی زمینیں خریدیں۔ میرے مرحوم و مغفور ماموں نواب صاحب کے ساتھ فوج میں تھے اسی تعلق کی وجہ سے وہ کسی سرکاری پابندی کے بغیر جتنی زمین چاہتے خرید سکتے تھے انھوں نے زمینیں خریدیں۔ ان کا ایک بیٹا یہاں کا ایم پی اے ملک سیف اللہ خان دوسرا اے آئی جی ملک سعد اللہ خان تھا اور مجھے بتایا گیا کہ زمین کا گرا پڑا ایک ٹکڑا میرے نام کا بھی کہیں پڑا ہے مگر میں نے کبھی اس کی تلاش نہیں کی جو موجود اور دستیاب ہے وہ بھی نہیں سنبھالی جاتی تو مزید کا کیا کروں گا۔

بات تو بھارت کی تازہ ترین پریشانی سے شروع ہوئی تھی جو چین کی پاکستان دوستی سے شروع ہوئی ہے اور میں اس خطرے کا اظہار کر رہا تھا کہ ہمارے حکمران بھارت کو شاید اپنا دشمن نہیں سمجھتے یا کسی دوسری غلط فہمی کے شکار ہیں لیکن پاکستانی یاد رکھیں بھارت چین کی پاکستان دوستی کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ بھارت کے جاسوسی ادارے 'را' کا ایک پورا شعبہ پاکستان دشمنی کے لیے مخصوص ہے اور وہ اس پر مسلسل کام کر رہا ہے آپ ذرا غور کریں کہ خود ہمارے دانشور بھی کبھی قائداعظم کے کسی اقدام کا ذکر کر کے اسے پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور کبھی خود براہ راست بھارت کی تعریف میں کالم لکھتے ہیں اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ایک کمزور پسماندہ ملک قرار دیا جاتا ہے۔

یہ سب بھارت کی تازہ ترین کارروائیاں ہیں اور حسب معمول اسے ان کارروائیوں کا ایندھن پاکستان سے ہی ملتا رہتا ہے۔ پاکستانی عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھارت کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے باخبر رہیں۔ پاکستان کا نام لینے والے بھارت پسندوں کا جواب دیتے رہیں گے۔ ہمارے ڈاکٹر صفدر محمود تو اسی کام پر لگے ہوئے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ آپ ہم سب اپنے دشمن کو یاد رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں