جوتوں کے بھوتوں کے کرتوتوں کے ثبوت
ایک تو یہ کہ معاف کرنا لفظ ذرا سخت ہے، پاگل ہورہے ہو یا ۔۔۔ لیکن وہ ’’یا‘‘ پر رک کر ’’گم‘‘ ہو گئے
آج کل ہمارے ساتھ کچھ عجیب سا ہو رہا ہے۔ ہر روز بلکہ ہر گھڑی نئی نئی باتیں اور نئے نئے راز ہم پر کھل رہے ہیں حالا نکہ ہم کسی درخت کے نیچے مراقبے میں بیٹھے ہوئے بھی نہیں ہیں اور شہزادہ سدھارتھ بھی نہیں ہیں لیکن نئے نئے ''گیان'' حاصل کر کے روز بروز گوتم بدھ یا صرف ''بدھ'' بنتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ''ملا'' نہ ہوتے ہوئے بھی ایسے حالات میں ہماری دوڑ بھی مسجد تک ہی ہوتی ہے جہاں علامہ بریانی کے پاس دنیا کے ہر روگ کا علاج اور مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے، سوائے ایک روگ اور ایک مسئلے کے جو خود علامہ بریانی ہیں، اپنا جدید ترین مسئلہ بتایا جو مختصر طور پر ۔۔۔۔ ''آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں'' کا ہے، سن کر بولے، دو باتیں ہو سکتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ معاف کرنا لفظ ذرا سخت ہے، پاگل ہورہے ہو یا ۔۔۔ لیکن وہ ''یا'' پر رک کر ''گم'' ہو گئے جہاں سے خود ان کو بھی ان کی خبر نہیں آرہی تھی۔ دو چار مرتبہ ہم نے ''یا'' دہرایا تو مسکرا کر بولے یا ٹھیک ہو رہے ہو، تفصیل پوچھنے پر بولے کہ یا تو تم اب پاگل ہو رہے ہو یا یہلے پاگل تھے، اب ٹھیک ہو رہے ہو۔ علامہ اکثر جب کچھ نہیں بتانا چاہتے یا ان کو معلوم نہیں ہوتا تو ایسے ہی جوابات دیتے ہیں کہ ۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، اب علامہ کے علاوہ ہمارا اگر کوئی اور ہے تو وہ آپ ہیں اس لیے اپنا مسئلہ آپ سے ہی شیئر کر رہے ہیں، سیدھے سادے الفاظ میں ہمارے مرض کی علامات یہ ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتا اور جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے کیونکہ دوسرے لوگوں کا یہی کہنا ہے مثلاً ہمیں اکثر جب سامنے کوئی نظر آجاتا ہے تو پوچھ لیتے ہیں کہ یہ تم ہو؟ لیکن وہ کہتا ہے کہ نہیں یہ میں نہیں کوئی اور ہے۔
چنانچہ اکثر چیزیں بالکل الٹ نظر آتی ہیں۔ پانی کو چلتا ہوا دیکھتے ہیں اور آگ کو بہتا ہوا مثلاً ہم نے ایک شخص کو ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا لیکن ہمارے پوچھنے پر وہ فوراً زمین بوس ہو کر بولا، میں اڑ نہیں رہا تھا لیکن چھت سے گر رہا تھا، چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑی دکھائی دے جاتی ہیں اور بڑی چیزیں چھوٹی۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اچانک ہمارا دھیان جوتوں پر چلا گیا، بس پھر کیا تھا چاروں طرف جوتے ہی جوتے ناچتے ہوئے، تیرتے ہوئے، چلتے ہوئے، ہنستے ہوئے نظر آئے جدھر دیکھیے ادھر جوتے ہی جوتے۔ ہم لاکھ خود کو سمجھاتے رہے کہ
جوتوں کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
تب سے اب تک ہمارے ذہن میں بھی جوتے ہی جوتے ہیں اور جو بھی سوچتے ہیں جوتوں ہی کے بارے میں ہوتا ہے۔کمال ہے کہ دنیا کی اس اہم ترین بلکہ سب سے زیادہ اہم ترین چیز کے بارے میں ابھی تک ہم نے سوچا ہی نہیں تھا، یہ ''جوتے'' کم بخت تو بہت بڑی چیز نکلے بلکہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا رہتا ہے یا جو ہو چکا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ جوتوں ہی کی وجہ سے ہے۔
سارے فسادات کی جڑ تو یہ کم بخت جوتے ہی نکلے۔ ہم خواہ مخواہ اپنے معصوم لیڈروں پر شک کر رہے تھے، حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے امریکا، روس، چین، جاپان اور ہندوستان افغانستان سے شاکی تھے اور اصل ملزم بلکہ مجرم جوتے نکلے۔ جتنا سوچتے ہیں تاریخ جغرافیہ جنرل نالج سائنس، ریاضیات واہیات سب کی روشنی میں تحقیق کرتے ہیں بات پھرتے پھراتے ''جوتوں'' تک جا پہنچی چنانچہ جوتوں کے کرتوتوں کے بارے میں ثبوتوں کے ڈھیر ہمارے ہاتھ لگتے جارہے ہیں۔
دنیا میں ایسا کوئی سانحہ کوئی حادثہ کوئی جھگڑا آج تک نہیں ہوا ہے جس میں جوتوں کا ''ہاتھ'' نہیں ہوتا حالانکہ بظاہر جوتوں کے ہاتھ نہیں ہوتے، صرف پیر ہوتے ہیں اور یہ بھی جوتوں کا شاخسانہ ہے کہ جو چیز ہوتی ہے وہ دکھائی نہیں دیتی اور جو دکھائی دیتی ہے وہ ہوتی نہیں اس لیے جوتوں کے ''ہاتھ'' بھی دکھائی نہیں دیتے جو ہوتے ہیں اور ہر جگہ ہوتے ہیں ہر چیز میں ہوتے ہیں اور پاکستان میں تو ''بیرونی ہاتھ'' کے بعد دوسرا نمبر جوتوں کے ہاتھوں کا ہے جو ہر چیز میں ہوتے ہیں ۔
جہاں جہاں مجھے ''چہرہ'' دکھائی دیتا ہے
وہاں وہاں مجھے ''جوتا'' دکھائی دیتا ہے
اور یہ کوئی دعویٰ بے دلیل نہیں ہے ہم ابھی ثابت کیے دیتے ہیں بلکہ آپ خود اس کا ''پنج وقتہ'' مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ جیسے ہی لوگ مسجد میں آکر جوتے اتار دیتے ہیں ، نہایت نیک صالح متقی عابد زاہد اور معصوم بن جاتے ہیں، چہروں پر نور برسنے لگتا ہے، زباں پر اسماء الحسنیٰ دعاؤں اور ذکر و فکر جاری ہو جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھ کر ہر ایک کو سر سے پیروں تک چوم چوم لوں، جتنی دیر مسجد میں رہتے ہیں خدا کے نیکو کار تابعدار خاکسار اور غم گسار بندے بنے رہتے ہیں لیکن باہر نکل کر جیسے ہی جوتے پہنتے ہیں آپ نے خود دیکھا ہو گا کہ پھر کیا بن جاتے ہیں بلکہ کیا کیا نہیں بن جاتے، پس ثابت ہوا کہ اصل فساد کی جڑ تو یہ ناہنجار نابکار ابلیس شعار جوتے ہی ہوتے ہیں، بے چارے بندے یونہی بدنام ہو جاتے ہیں۔ وہ محترمہ ممدوحہ صوفیہ مرشدہ عابدہ پروین نے جو کہا ہے کہ
کچھ اس طرح سے آج وہ پہلو نشین رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ''ہم'' نہیں رہے
یہ جوتوں کا ہی ذکر معلوم ہوتا ہے غالباً ''پاؤں'' کی جگہ ''پہلو'' کا لفظ کتابت کی غلطی سے آگیا ہے، آپ یقین کریں ہم نے ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے اعمال اور کرتوت دیکھ کر ابلیس بھی شرم سے پانی پانی ہو جائے جو لوگوں کے گلے ڈریکولا کی طرح دانتوں سے ادھیڑ کر غٹا غٹ خون پیتے ہیں اور پھر ان کو جوتوں کے بغیر بھی جب مسجد میں دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور جب جوتے پہن کر باہر نکلے تب بھی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ،اتنی جلدی جلدی تو انڈین فلموں کے گانوں میں ہیروئن لباس بھی نہیں بدلتی، یہ اس وقت کی بات ہے جب فلموں میں لوگ خاص طور پر ہیروئنیں کپڑے پہنا کرتی تھیں۔
اس لیے ثابت ہو گیا کہ ''قصور'' ان بے چارے بندوں کا نہیں ہے جو ۔۔۔۔ مطلب یہ کہ جن سے آپ واقف ہیں بلکہ اکثر سے تو روزانہ آئینے میں ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے، خود ہی خدا لگتی کہیے کہ اتنے معصوم اتنے پاک اتنے نیک لوگ بھلا چور ڈاکو حرام خور لٹیرے یا لیڈر یا منتخب نمایندے ہو سکتے ہیں؟ ہر گز ہر گز نہیں ۔۔۔۔ کاش یہ کم بخت جوتے نہ ہوتے تو دنیا کتنی اچھی ہوتی۔ ٹھیک ویسے ہی ہوتی جیسی مسجد کے اندر ہوتی ہے۔ جوتوں کے بغیر، نیک شانت معصوم عبادت ریاضت سے بھری ہوئی، لیکن دکھ کی اصل بات یہ بھی نہیں کہ جسے دنیا شیطان و ابلیس سمجھتی تھی وہ جوتے نکلے وہ تو
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزے موج مے تری رفتار دیکھ کر
بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ انسان کو ابھی تک یہ علم ہی نہیں ہو پایا ہے کہ مجرم کون؟ وہ تو خواہ مخواہ ہر کام کے لیے شیطان کو برا بھلا کہتا رہتا ہے جب کہ دشمن اس کے اپنے پیروں میں ہوتا ہے، ہم بھی حیران تھے کہ آخر ابلیس یا شیطان بے چارا تو دور دور تک دکھائی بھی نہیں دیتا اور یہ لوگ ہر برا کام کرنے پر اسے برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو اس ناحق الزام تراشی سے بے چارا ظاہر ہو کر بول بھی پڑا تھا جب ایک شخص نے ایک نہایت ناروا فعل بڑی ذہانت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا تو بولا ، ارے شیطان تیرا منہ کالا ہو، یہ کیا کروایا تم نے مجھ سے ۔۔۔۔ اس پر شیطان نے کہا ، ارے کم بخت یہ تو نے جو طریقہ اختیار کیا ہے یہ میرے باپ کو بھی نہیں آتا تھا ۔۔۔ لیکن اب پتہ چلا کہ وہ دونوں ہی صحیح تھے کیونکہ اصل مجرم تو جوتے ہی تھے اور یہ ہم سائنسی طور پر ثابت کر سکتے ہیں ۔
آخر جب لوگ جوتے اتار کر مسجد میں چلے جاتے ہیں تو اچانک اتنے نیک کیوں بن جاتے ہیں اور پھر یہی خدا کا نیک بندہ جوتے میں پیر ڈالتے ہی ''آن'' ہو جاتا ہے، لازمی طور پر جوتوں ہی میں کچھ ایسا میگنٹ کوئی ایسا کرنٹ کوئی ایسی ''ریز'' ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔ ارے اس طرف تو ہمارا دھیان گیا ہی نہیں تھا یقیناً شیطان نے جوتوں میں ایسی کوئی چیز فٹ کی ہوئی ہوتی ہے جسے وہ موبائل کی طرح دور سے کنٹرول کرتا ہے جسے ہی آدمی انھیں پہنتا ہے اس کے سگنل آنا شروع ہو جاتے ہیں اور آدمی ہیپناٹائز ہو کر وہی کچھ کرتا ہے جو اس سے کرایا جاتا ہے۔