ہوا کے دوش پر
کانوں میں پڑی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج اس آواز اور لہجے میں شکوہ نہیں اظہار تشکر تھا
ڈاکٹر فیروز عالم کی والدہ جہاں آرا بیگم ہر صبح فجر کی نماز کے بعد یہ مناجات:
تیری ذات ہے اکبری سروری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
بڑی دلسوز آواز میں پڑھا کرتی تھیں۔ ان کے لہجے میں کچھ شکوہ، کچھ التجا اور کچھ اظہار حیرت کہ جس بارگاہ سے ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیا جاتا ہے، ان کی پکار کا جواب اب تک کیوں نہیں آیا۔
ڈاکٹر فیروز عالم اپنی کتاب زندگی ''ہوا کے دوش پر'' میں لکھتے ہیں کہ ان کی اس مناجات سے ہی میری آنکھ کھلتی تھی۔ ایک زمانہ اس پر گزر گیا۔ فیروز جوان ہو گئے، پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئے۔ پھر یہ ہوا کہ انھیں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک امریکی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اب ان کے تصور میں ایک نئی اور خوبصورت زندگی کے نقوش ابھر آئے۔ لکھتے ہیں ''میں ایک غیر یقینی اور ممکنہ فریب کی سی کیفیت میں مبتلا تھا۔ صبح ہونے والی تھی، فجر کا وقت تھا جب اماں کی مترنم آواز میں وہی مناجات:
میری بار کیوں دیر اتنی کری۔
کانوں میں پڑی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج اس آواز اور لہجے میں شکوہ نہیں اظہار تشکر تھا، اس رب کا شکر جس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔''
فیروز عالم نے اپنی کتاب زندگی لکھنے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ انھوں نے شہرت کی کسی ایسی بلندی کو چھوا ہے کہ ان کے نام کا ڈنکا بجے۔ وہ لکھتے ہیں ''جب میں تنہائی میں اپنی بزم خیال سجاتا ہوں اور ماضی کے دریچے کھولتا ہوں تو کتنے ہی چہرے، کتنے ہی لمحات اور کیسے کیسے واقعات میری نگاہوں کے سامنے یادوں کی چادر تان لیتے ہیں۔ میں انھیں اگر اور کسی کے نہیں تو کم از کم اپنے آپ کے لیے محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔'' اس میں ایک خواہش ان کی یہ بھی شامل ہے کہ ان کے بچوں کو یہ معلوم ہو کہ وہ کن راستوں سے گزر کر اپنی منزل پر پہنچے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز عالم امریکا میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے اٹھارہ سال گزار کر کراچی آئے اور آغا خان یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں امراض گردہ کے شعبے کو منظم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران ان کو ریاض میں شاہ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے آنے کی دعوت ملی اور یہ وہاں چلے گئے۔ وہاں ان کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ اس سے پہلے ان کو فلیڈلفیا میں امریکا کے سب سے قابل احترام ادارے، امریکن کالج آف فزیشن کی فیلوشپ کی خلعت پہنائی گئی تھی۔ اپنے زمانہ تعلیم میں ابتدائی درجوں سے کالج اور یونیورسٹی تک، میڈیکل پروفیشن میں ابتدائی تربیت سے مہارت تک ان کی کامیابیاں ان کے تعین، مقصد کی لگن، خود اعتمادی اور مشکلات اور آزمائش کے وقت ثابت قدمی کا ثمر ہیں۔ سچائی، وفاداری اور حوصلہ مندی ان کو اپنے ماں باپ سے ملی جسے ان کے بھائی اور بہنوں، اہل خاندان اور بے غرض دوستوں کی محبت نے جلا بخشی۔
فیروز عالم پاکستان کے وجود میں آنے سے دو سال پہلے راجپوتانے کے شہر جودھ پور میں پیدا ہوئے تھے لیکن انھوں نے سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوش سنبھالا۔ ان کا خاندان مراد آباد سے ملازمت کے سلسلے میں جودھپور آ کر بس گیا تھا، پاکستان بنا تو میرپورخاص آ گیا۔ ان کے والد ابن عباس یہاں ریلوے میں گارڈ تھے جہاں سے 1987ء میں ریٹائر ہوئے۔
فیروز عالم نے ریلوے پرائمری اسکول سے چوتھی جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی اسکول، میرپور خاص میں داخلہ لے لیا۔ اسی دور کی بات ہے 23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان بڑے زور و شور سے منایا گیا۔ اسکول میں ایک تقریب ہوئی اور سب بچوں کو ایک سنہری تمغہ ملا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فیروز عالم لکھتے ہیں ''یہ ایک نادر چیز تھی۔ افسوس کئی دفعہ گھر اور شہروں بلکہ ملک کی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ تمغہ کھو گیا۔ مگر اس کا اب کیا غم کہ جب سے اب تک کتنی دفعہ آئین توڑا گیا، کتنی دفعہ آئین بنے۔'' یہ تمغہ 1956ء کے آئین کی یادگار تھا جب اسکندر مرزا صدر اور چوہدری محمد علی وزیر اعظم تھے۔
فیروز عالم نے 1961ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج میرپور خاص میں داخلہ ملا اور زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لکھتے ہیں ''اس کالج میں گزارے ہوئے پہلے دو سال میری زندگی کے مکمل طور پر کامیاب، خوشیوں سے بھرپور، امنگوں سے آراستہ، خود سے مطمئن اور مسرتوں سے وابستہ سال تھے۔'' اسی زمانے میں ان کو زندگی میں پہلی بار ایک ایسی مسرت کا احساس ہوا اور سرور کی ایسی کیفیت ان پر طاری ہوئی جس کا تجربہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کی کلاس کی ایک خوبرو لڑکی نے جس کا نام نجمہ شیخ تھا کالج کے تقریری مقابلے میں اول آنے پر انھیں بہت اپنائیت سے مسکرا کر مبارک باد دی۔
1963ء میں فیروز عالم نے انٹر سائنس کا امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ اسی سال انھوں نے میرپورخاص کو بھی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
فیروز عالم انٹر سائنس میڈیکل گروپ کے امتحان میں پورے سندھ میں اول آئے تھے، انھیں حیدرآباد میں لیاقت میڈیکل کالج میں آسانی سے داخلہ مل گیا۔ زندگی کے اگلے پانچ سال انھوں نے اس کالج میں گزارے۔ فائنل امتحان کا نتیجہ ان کی توقعات کے مطابق تھا اور اب وہ ڈاکٹر بن گئے تھے۔
امتحان ختم ہوتے ہی فیروز عالم نے حیدرآباد چھوڑ دیا تھا۔
اب وہ ملازمت کی تلاش میں کراچی آ گئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں کراچی کا سب سے باوقار اور جدید اسپتال سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ تھا جسے ایک امریکی مشن چلا رہا تھا مگر اس میں کوئی پاکستانی ڈاکٹر نہیں تھا صرف ایک پارسی ڈاکٹر کھمباٹا وہاں کبھی کبھی سرجری کرتا تھا یہ بھی مشہور تھا کہ یہ کسی نوعمر ڈاکٹر کو نہیں لیتے تھے بلکہ انٹرویو تک نہیں کرتے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر چپ مین سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اپنی زبردست خوداعتمادی اور اپنے اچھے تعلیمی ریکارڈ کے بل پر اسے انھیں اسپتال میں لینے پر آمادہ کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور اسی سے ان کے لیے امریکا جا کر پڑھنے کا دروازہ کھل گیا۔
سیونتھ ڈے اسپتال میں ملازمت مل جانے کے بعد فیروز عالم اب باقاعدہ ڈاکٹر تھے اور اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر رہے تھے۔ کراچی میں ان کی رہائش کا مسئلہ یوں حل ہو گیا تھا کہ وہ اپنی خالہ جان کے یہاں رہنے لگے تھے۔ سیونتھ ڈے اسپتال کا ماحول بہت اچھا تھا۔ سب لوگ بلاامتیاز مرتبہ دوستی اور عزت سے پیش آتے تھے۔ تمام سینئر ڈاکٹر غیر ملکی سفید فام تھے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے یہاں بہت کچھ سیکھا۔ اس کا ذکر ان کی کتاب میں تفصیل سے ہے۔
تیری ذات ہے اکبری سروری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
بڑی دلسوز آواز میں پڑھا کرتی تھیں۔ ان کے لہجے میں کچھ شکوہ، کچھ التجا اور کچھ اظہار حیرت کہ جس بارگاہ سے ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیا جاتا ہے، ان کی پکار کا جواب اب تک کیوں نہیں آیا۔
ڈاکٹر فیروز عالم اپنی کتاب زندگی ''ہوا کے دوش پر'' میں لکھتے ہیں کہ ان کی اس مناجات سے ہی میری آنکھ کھلتی تھی۔ ایک زمانہ اس پر گزر گیا۔ فیروز جوان ہو گئے، پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئے۔ پھر یہ ہوا کہ انھیں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک امریکی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اب ان کے تصور میں ایک نئی اور خوبصورت زندگی کے نقوش ابھر آئے۔ لکھتے ہیں ''میں ایک غیر یقینی اور ممکنہ فریب کی سی کیفیت میں مبتلا تھا۔ صبح ہونے والی تھی، فجر کا وقت تھا جب اماں کی مترنم آواز میں وہی مناجات:
میری بار کیوں دیر اتنی کری۔
کانوں میں پڑی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج اس آواز اور لہجے میں شکوہ نہیں اظہار تشکر تھا، اس رب کا شکر جس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔''
فیروز عالم نے اپنی کتاب زندگی لکھنے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ انھوں نے شہرت کی کسی ایسی بلندی کو چھوا ہے کہ ان کے نام کا ڈنکا بجے۔ وہ لکھتے ہیں ''جب میں تنہائی میں اپنی بزم خیال سجاتا ہوں اور ماضی کے دریچے کھولتا ہوں تو کتنے ہی چہرے، کتنے ہی لمحات اور کیسے کیسے واقعات میری نگاہوں کے سامنے یادوں کی چادر تان لیتے ہیں۔ میں انھیں اگر اور کسی کے نہیں تو کم از کم اپنے آپ کے لیے محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔'' اس میں ایک خواہش ان کی یہ بھی شامل ہے کہ ان کے بچوں کو یہ معلوم ہو کہ وہ کن راستوں سے گزر کر اپنی منزل پر پہنچے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز عالم امریکا میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے اٹھارہ سال گزار کر کراچی آئے اور آغا خان یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں امراض گردہ کے شعبے کو منظم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران ان کو ریاض میں شاہ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے آنے کی دعوت ملی اور یہ وہاں چلے گئے۔ وہاں ان کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ اس سے پہلے ان کو فلیڈلفیا میں امریکا کے سب سے قابل احترام ادارے، امریکن کالج آف فزیشن کی فیلوشپ کی خلعت پہنائی گئی تھی۔ اپنے زمانہ تعلیم میں ابتدائی درجوں سے کالج اور یونیورسٹی تک، میڈیکل پروفیشن میں ابتدائی تربیت سے مہارت تک ان کی کامیابیاں ان کے تعین، مقصد کی لگن، خود اعتمادی اور مشکلات اور آزمائش کے وقت ثابت قدمی کا ثمر ہیں۔ سچائی، وفاداری اور حوصلہ مندی ان کو اپنے ماں باپ سے ملی جسے ان کے بھائی اور بہنوں، اہل خاندان اور بے غرض دوستوں کی محبت نے جلا بخشی۔
فیروز عالم پاکستان کے وجود میں آنے سے دو سال پہلے راجپوتانے کے شہر جودھ پور میں پیدا ہوئے تھے لیکن انھوں نے سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوش سنبھالا۔ ان کا خاندان مراد آباد سے ملازمت کے سلسلے میں جودھپور آ کر بس گیا تھا، پاکستان بنا تو میرپورخاص آ گیا۔ ان کے والد ابن عباس یہاں ریلوے میں گارڈ تھے جہاں سے 1987ء میں ریٹائر ہوئے۔
فیروز عالم نے ریلوے پرائمری اسکول سے چوتھی جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی اسکول، میرپور خاص میں داخلہ لے لیا۔ اسی دور کی بات ہے 23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان بڑے زور و شور سے منایا گیا۔ اسکول میں ایک تقریب ہوئی اور سب بچوں کو ایک سنہری تمغہ ملا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فیروز عالم لکھتے ہیں ''یہ ایک نادر چیز تھی۔ افسوس کئی دفعہ گھر اور شہروں بلکہ ملک کی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ تمغہ کھو گیا۔ مگر اس کا اب کیا غم کہ جب سے اب تک کتنی دفعہ آئین توڑا گیا، کتنی دفعہ آئین بنے۔'' یہ تمغہ 1956ء کے آئین کی یادگار تھا جب اسکندر مرزا صدر اور چوہدری محمد علی وزیر اعظم تھے۔
فیروز عالم نے 1961ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج میرپور خاص میں داخلہ ملا اور زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لکھتے ہیں ''اس کالج میں گزارے ہوئے پہلے دو سال میری زندگی کے مکمل طور پر کامیاب، خوشیوں سے بھرپور، امنگوں سے آراستہ، خود سے مطمئن اور مسرتوں سے وابستہ سال تھے۔'' اسی زمانے میں ان کو زندگی میں پہلی بار ایک ایسی مسرت کا احساس ہوا اور سرور کی ایسی کیفیت ان پر طاری ہوئی جس کا تجربہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کی کلاس کی ایک خوبرو لڑکی نے جس کا نام نجمہ شیخ تھا کالج کے تقریری مقابلے میں اول آنے پر انھیں بہت اپنائیت سے مسکرا کر مبارک باد دی۔
1963ء میں فیروز عالم نے انٹر سائنس کا امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ اسی سال انھوں نے میرپورخاص کو بھی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
فیروز عالم انٹر سائنس میڈیکل گروپ کے امتحان میں پورے سندھ میں اول آئے تھے، انھیں حیدرآباد میں لیاقت میڈیکل کالج میں آسانی سے داخلہ مل گیا۔ زندگی کے اگلے پانچ سال انھوں نے اس کالج میں گزارے۔ فائنل امتحان کا نتیجہ ان کی توقعات کے مطابق تھا اور اب وہ ڈاکٹر بن گئے تھے۔
امتحان ختم ہوتے ہی فیروز عالم نے حیدرآباد چھوڑ دیا تھا۔
اب وہ ملازمت کی تلاش میں کراچی آ گئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں کراچی کا سب سے باوقار اور جدید اسپتال سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ تھا جسے ایک امریکی مشن چلا رہا تھا مگر اس میں کوئی پاکستانی ڈاکٹر نہیں تھا صرف ایک پارسی ڈاکٹر کھمباٹا وہاں کبھی کبھی سرجری کرتا تھا یہ بھی مشہور تھا کہ یہ کسی نوعمر ڈاکٹر کو نہیں لیتے تھے بلکہ انٹرویو تک نہیں کرتے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر چپ مین سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اپنی زبردست خوداعتمادی اور اپنے اچھے تعلیمی ریکارڈ کے بل پر اسے انھیں اسپتال میں لینے پر آمادہ کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور اسی سے ان کے لیے امریکا جا کر پڑھنے کا دروازہ کھل گیا۔
سیونتھ ڈے اسپتال میں ملازمت مل جانے کے بعد فیروز عالم اب باقاعدہ ڈاکٹر تھے اور اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر رہے تھے۔ کراچی میں ان کی رہائش کا مسئلہ یوں حل ہو گیا تھا کہ وہ اپنی خالہ جان کے یہاں رہنے لگے تھے۔ سیونتھ ڈے اسپتال کا ماحول بہت اچھا تھا۔ سب لوگ بلاامتیاز مرتبہ دوستی اور عزت سے پیش آتے تھے۔ تمام سینئر ڈاکٹر غیر ملکی سفید فام تھے۔ ڈاکٹر فیروز عالم نے یہاں بہت کچھ سیکھا۔ اس کا ذکر ان کی کتاب میں تفصیل سے ہے۔