تمام عذاب عوام کے لیے کیوں
ٹیکس بڑھاتے وقت مراعات یافتہ طبقے پر ہمیشہ کم سے کم بوجھ ڈالا جاتا ہے
عوام اپنی حکومت کو انتخابات میں اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے منتخب اور عوامی کہلانے والی حکومت ان کی فلاح و بہبود اور انھیں بنیادی سہولیات فراہم کرے گی اور انھیں وہ تمام بنیادی حقوق دے گی جو حقیقی جمہوری حکومتیں دیا کرتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوا اور عوام اپنی ہر حکومت کو منتخب کر کے ہمیشہ پچھتائے ہیں اور عوام کے خیال میں غیر منتخب حکومتیں ہمیشہ عوام کے لیے بہتر ثابت ہوئی ہیں اور ان کے دور میں پھر بھی عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا گیا اور غیر جمہوری حکومتوں میں عوام کو ترقی اور سہولیات کے ساتھ امن و امان بھی ملا اور مہنگائی اتنی نہیں ملی جتنی جمہوری حکومتوں نے دی۔
جمہوری حکمران ہمیشہ عوام کو کڑوی گولی نگلنے کے لیے کہتے رہے ہیں اور میٹھی گولیاں ہمیشہ اپنے اور ارکان اسمبلی کے لیے رکھتے آئے ہیں۔ جمہوری حکمرانوں نے ہمیشہ عوام پر ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو ترجیح دی اور عوام کے مفادات کو ہمیشہ نظر انداز کیا کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنے ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے کا حق عوام کو دیا جاتا ہے جس کے بعد آیندہ انتخابات تک عوام کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں۔
جس کے بعد صدر مملکت، وزیر اعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ صوبوں میں ارکان اسمبلی، وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ یا حکمران پارٹی کے قائد قابلیت کی بجائے ذاتی وفاداری و تعلق پر وزراء کا تقرر کرتے ہیں۔
وزراء کی تقرریوں میں بعض ممالک میں وہاں کی پارلیمنٹ کو تفتیش کا اختیار ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں تو بعض اہم ملکی معاملات میں بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور ہر فیصلہ پارلیمنٹ سے بالاتر ہو کر کر لیا جاتا ہے اور ہماری پارلیمنٹ کا تو یہ حال ہے وزیر اعظم مہمان بن کر قومی اسمبلی میں کبھی کبھی آتے ہیں اور سینیٹ میں آنا تو ایک سال بعد ہی پسند کیا جاتا ہے۔ جب وزیر اعظم ہی پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دیں تو وزیروں کو کیا پڑی کہ وہ وہاں آئیں اور اپنے ارکان کے مطالبات اور اپوزیشن کی تنقید سنیں۔ ارکان اسمبلی کا حال بھی اپنے بڑوں کو منتخب کرنے کے بعد عوام جیسا ہو جاتا ہے مگر کبھی کبھی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو ارکان کی حمایت کی ضرورت پڑ جاتی ہے مگر ارکان اسمبلی کو آنے والے انتخابات سے قبل عوام کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اسمبلیوں میں عوام کے مفادات اور بڑھتی مہنگائی پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی عوام کو عذابوں سے نجات دلانے پر کبھی واک آؤٹ نہیں کیا جاتا۔ دکھاوے کے لیے عوام کی بات اسمبلیوں میں اپوزیشن اپنے نمبر بڑھانے کے لیے کرتی ہے تو حکومتی ارکان ساتھ نہیں دیتے مگر جب مفاد اپنا ہو، سہولیات اپنی بڑھانی ہوں تو سب ارکان متحد ہو جاتے ہیں۔ بجٹ میں عوام کی بات اپوزیشن ضرور کرتی ہے مگر حکومت اپنی مرضی کا بجٹ ہمیشہ اسمبلی سے منظور کرا لیتی ہے اور بجٹ اجلاس میں عوام کے فائدے کا بل کبھی منظور نہیں ہوتا۔
ٹیکس بڑھاتے وقت مراعات یافتہ طبقے پر ہمیشہ کم سے کم بوجھ ڈالا جاتا ہے کیونکہ حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کے ساتھ بیوروکریٹس کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہوتا ہے جب کہ 98 فیصد غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں ہی کو بجٹ میں اضافی ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور ان کی حکومت میں کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ دو فیصد حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ افسران کو ملک کے مہنگے اسپتالوں کے علاوہ بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری مراعات حاصل، ملتی رہتی ہیں مگر عوام کی اکثریت کو ان سرکاری اسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
جہاں غریبوں کو سستی ادویات بمشکل میسر آتی ہیں اور مہنگی دوائیں بااثر افراد کا مقدر ہوتی ہیں۔ غریبوں کی اکثریت سرکاری اسپتالوں میں علاج پر مجبور ہے جہاں انھیں باہر سے ہی ٹیسٹ کرانا پڑتے ہیں اور مہنگی دوائیں خرید کر آپریشن کرانا پڑتا ہے۔یہی حال سرکاری اسکولوں کا ہے جہاں صرف ان افراد کے بچے داخلہ لیتے ہیں جن کے پاس نجی اسکولوں کے لیے مہنگی فیس نہیں ہوتی۔ امتحانات میں پوزیشنز اب سرکاری اسکولوں کے طلبا کی نہیں آتیں بلکہ ہزاروں روپے فیس وصول کرنے والے نجی اسکولوں کے طلبا کو ملتی ہیں۔
جمہوری حکومتوں میں سب سے زیادہ نقصان بلدیاتی اداروں کو پہنچا ہے کیونکہ ملک کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جب کہ عوام کا سب سے زیادہ قریبی تعلق بلدیاتی اداروں سے ہوتا ہے جس کے عہدیدار اگر منتخب ہوں تو عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔ عوام کے بلدیاتی مسائل جیسے فراہمی و نکاسی آب، سڑکوں اور راستوں کی تعمیر و مرمت، صفائی، روشنی، پارک اور پلے گراؤنڈ بنیادی سہولیات میں شامل ہیں مگر جمہوری حکومتیں عوام کو یہ بنیادی سہولتیں تک فراہم نہیں کرتیں بلکہ انھیں غصب کر کے بلدیاتی اداروں کو اپنے مقرر کردہ سرکاری افسروں کے ذریعے چلاتی ہیں جو لوگوں کے مشوروں پر نہیں بلکہ حکومت کے حکم پر چلتے ہیں اور یہ افسر سفارش اور رشوت دے کر بلدیاتی اداروں میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔
ہر عذاب عوام کے لیے ہونے کی دو حالیہ مثالیں موجود ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل تک نامعلوم افراد نے سرنگ بنانے کی کوشش کی تھی جس کی سزا عوام کو یہ دی گئی کہ اب سینٹرل جیل کے اطراف کی آبادی کے لوگ موبائل فونز کی سہولت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور پرانی آبادی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر سینٹرل جیل کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور نہیں جاتا۔ آئے روز سینٹرل جیل کے اطراف کی سڑکیں پولیس رات کو بند کر کے شہریوں کو پریشان کرتی رہتی ہے۔
ملک بھر میں وی وی آئی پیز کی آمد و رفت عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور انھیں گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسا رہنا پڑتا ہے اور ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ ملک میں جہازوں اور ٹرینوں کی روانگی اچانک منسوخ کر دی جاتی ہے اور مسافروں کی پریشانی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔گزشتہ ماہ لاہور اور ملتان کے درمیان مسافروں کی سہولیات کے لیے چلائی جانے والی موسیٰ پاک ٹرین کی لاہور سے روانگی 15 اپریل کو نئے ریلوے ٹائم ٹیبل کے باعث منسوخ کر دی گئی اور ٹرین چلنے کے وقت پر رات ساڑھے بارہ بجے جب مسافر اسٹیشن پہنچے جن میں ڈیڑھ سو مسافروں کی ایڈوانس ریزرویشن تھی تو پتہ چلا کہ ٹرین منسوخ اور کل شام ساڑھے چھ بجے کا نیا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
مسافر اپنے ٹکٹ واپس کر سکتے ہیں۔ ریلوے نے یہی احسان سمجھا اور یہ نہیں دیکھا کہ اس طرح رات کو مسافر کس قدر پریشان ہوں گے۔ حکومتی معاملات میں عوام کو پریشان کر کے عذاب میں مبتلا کرنا سرکاری اصول بنا لیا گیا ہے اور سارے عذاب عوام کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔
اپنی سہولیات کم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں بلکہ سرکاری کوشش ہوتی ہے کہ خود سرکاری مراعات حاصل کرنے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر عوام کو تھوڑی بہت حاصل مراعات بھی چھین لی جائیں۔ عوام کو کڑوی گولی نگلنے کا مشورہ دینے والے حکمران خود کوئی کڑوی گولی نہیں نگلتے۔ سرکاری ادارے کروڑوں روپے کے یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کرتے اور ان پر واجبات چڑھتے رہتے ہیں تو انھیں کوئی نہیں پوچھتا اور اگر عوام چند ہزار ادا نہ کریں تو ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو جاتی ہے اور عوام کے لیے کہلائی جانے والی جمہوریت میں سارے عذاب عوام ہی کے لیے کیوں مختص کیے جاتے ہیں؟
جمہوری حکمران ہمیشہ عوام کو کڑوی گولی نگلنے کے لیے کہتے رہے ہیں اور میٹھی گولیاں ہمیشہ اپنے اور ارکان اسمبلی کے لیے رکھتے آئے ہیں۔ جمہوری حکمرانوں نے ہمیشہ عوام پر ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو ترجیح دی اور عوام کے مفادات کو ہمیشہ نظر انداز کیا کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنے ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے کا حق عوام کو دیا جاتا ہے جس کے بعد آیندہ انتخابات تک عوام کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں۔
جس کے بعد صدر مملکت، وزیر اعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ صوبوں میں ارکان اسمبلی، وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ یا حکمران پارٹی کے قائد قابلیت کی بجائے ذاتی وفاداری و تعلق پر وزراء کا تقرر کرتے ہیں۔
وزراء کی تقرریوں میں بعض ممالک میں وہاں کی پارلیمنٹ کو تفتیش کا اختیار ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں تو بعض اہم ملکی معاملات میں بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور ہر فیصلہ پارلیمنٹ سے بالاتر ہو کر کر لیا جاتا ہے اور ہماری پارلیمنٹ کا تو یہ حال ہے وزیر اعظم مہمان بن کر قومی اسمبلی میں کبھی کبھی آتے ہیں اور سینیٹ میں آنا تو ایک سال بعد ہی پسند کیا جاتا ہے۔ جب وزیر اعظم ہی پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دیں تو وزیروں کو کیا پڑی کہ وہ وہاں آئیں اور اپنے ارکان کے مطالبات اور اپوزیشن کی تنقید سنیں۔ ارکان اسمبلی کا حال بھی اپنے بڑوں کو منتخب کرنے کے بعد عوام جیسا ہو جاتا ہے مگر کبھی کبھی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو ارکان کی حمایت کی ضرورت پڑ جاتی ہے مگر ارکان اسمبلی کو آنے والے انتخابات سے قبل عوام کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اسمبلیوں میں عوام کے مفادات اور بڑھتی مہنگائی پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی عوام کو عذابوں سے نجات دلانے پر کبھی واک آؤٹ نہیں کیا جاتا۔ دکھاوے کے لیے عوام کی بات اسمبلیوں میں اپوزیشن اپنے نمبر بڑھانے کے لیے کرتی ہے تو حکومتی ارکان ساتھ نہیں دیتے مگر جب مفاد اپنا ہو، سہولیات اپنی بڑھانی ہوں تو سب ارکان متحد ہو جاتے ہیں۔ بجٹ میں عوام کی بات اپوزیشن ضرور کرتی ہے مگر حکومت اپنی مرضی کا بجٹ ہمیشہ اسمبلی سے منظور کرا لیتی ہے اور بجٹ اجلاس میں عوام کے فائدے کا بل کبھی منظور نہیں ہوتا۔
ٹیکس بڑھاتے وقت مراعات یافتہ طبقے پر ہمیشہ کم سے کم بوجھ ڈالا جاتا ہے کیونکہ حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کے ساتھ بیوروکریٹس کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہوتا ہے جب کہ 98 فیصد غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں ہی کو بجٹ میں اضافی ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور ان کی حکومت میں کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ دو فیصد حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ افسران کو ملک کے مہنگے اسپتالوں کے علاوہ بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری مراعات حاصل، ملتی رہتی ہیں مگر عوام کی اکثریت کو ان سرکاری اسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
جہاں غریبوں کو سستی ادویات بمشکل میسر آتی ہیں اور مہنگی دوائیں بااثر افراد کا مقدر ہوتی ہیں۔ غریبوں کی اکثریت سرکاری اسپتالوں میں علاج پر مجبور ہے جہاں انھیں باہر سے ہی ٹیسٹ کرانا پڑتے ہیں اور مہنگی دوائیں خرید کر آپریشن کرانا پڑتا ہے۔یہی حال سرکاری اسکولوں کا ہے جہاں صرف ان افراد کے بچے داخلہ لیتے ہیں جن کے پاس نجی اسکولوں کے لیے مہنگی فیس نہیں ہوتی۔ امتحانات میں پوزیشنز اب سرکاری اسکولوں کے طلبا کی نہیں آتیں بلکہ ہزاروں روپے فیس وصول کرنے والے نجی اسکولوں کے طلبا کو ملتی ہیں۔
جمہوری حکومتوں میں سب سے زیادہ نقصان بلدیاتی اداروں کو پہنچا ہے کیونکہ ملک کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جب کہ عوام کا سب سے زیادہ قریبی تعلق بلدیاتی اداروں سے ہوتا ہے جس کے عہدیدار اگر منتخب ہوں تو عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔ عوام کے بلدیاتی مسائل جیسے فراہمی و نکاسی آب، سڑکوں اور راستوں کی تعمیر و مرمت، صفائی، روشنی، پارک اور پلے گراؤنڈ بنیادی سہولیات میں شامل ہیں مگر جمہوری حکومتیں عوام کو یہ بنیادی سہولتیں تک فراہم نہیں کرتیں بلکہ انھیں غصب کر کے بلدیاتی اداروں کو اپنے مقرر کردہ سرکاری افسروں کے ذریعے چلاتی ہیں جو لوگوں کے مشوروں پر نہیں بلکہ حکومت کے حکم پر چلتے ہیں اور یہ افسر سفارش اور رشوت دے کر بلدیاتی اداروں میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔
ہر عذاب عوام کے لیے ہونے کی دو حالیہ مثالیں موجود ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل تک نامعلوم افراد نے سرنگ بنانے کی کوشش کی تھی جس کی سزا عوام کو یہ دی گئی کہ اب سینٹرل جیل کے اطراف کی آبادی کے لوگ موبائل فونز کی سہولت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور پرانی آبادی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر سینٹرل جیل کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور نہیں جاتا۔ آئے روز سینٹرل جیل کے اطراف کی سڑکیں پولیس رات کو بند کر کے شہریوں کو پریشان کرتی رہتی ہے۔
ملک بھر میں وی وی آئی پیز کی آمد و رفت عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور انھیں گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسا رہنا پڑتا ہے اور ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ ملک میں جہازوں اور ٹرینوں کی روانگی اچانک منسوخ کر دی جاتی ہے اور مسافروں کی پریشانی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔گزشتہ ماہ لاہور اور ملتان کے درمیان مسافروں کی سہولیات کے لیے چلائی جانے والی موسیٰ پاک ٹرین کی لاہور سے روانگی 15 اپریل کو نئے ریلوے ٹائم ٹیبل کے باعث منسوخ کر دی گئی اور ٹرین چلنے کے وقت پر رات ساڑھے بارہ بجے جب مسافر اسٹیشن پہنچے جن میں ڈیڑھ سو مسافروں کی ایڈوانس ریزرویشن تھی تو پتہ چلا کہ ٹرین منسوخ اور کل شام ساڑھے چھ بجے کا نیا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
مسافر اپنے ٹکٹ واپس کر سکتے ہیں۔ ریلوے نے یہی احسان سمجھا اور یہ نہیں دیکھا کہ اس طرح رات کو مسافر کس قدر پریشان ہوں گے۔ حکومتی معاملات میں عوام کو پریشان کر کے عذاب میں مبتلا کرنا سرکاری اصول بنا لیا گیا ہے اور سارے عذاب عوام کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔
اپنی سہولیات کم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں بلکہ سرکاری کوشش ہوتی ہے کہ خود سرکاری مراعات حاصل کرنے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر عوام کو تھوڑی بہت حاصل مراعات بھی چھین لی جائیں۔ عوام کو کڑوی گولی نگلنے کا مشورہ دینے والے حکمران خود کوئی کڑوی گولی نہیں نگلتے۔ سرکاری ادارے کروڑوں روپے کے یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کرتے اور ان پر واجبات چڑھتے رہتے ہیں تو انھیں کوئی نہیں پوچھتا اور اگر عوام چند ہزار ادا نہ کریں تو ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو جاتی ہے اور عوام کے لیے کہلائی جانے والی جمہوریت میں سارے عذاب عوام ہی کے لیے کیوں مختص کیے جاتے ہیں؟