جدید گدھا گاڑی
انسان کا بنایا ہوا یہ پہلا منصوبہ تھا جس کو خلا میں 64 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کرایا گیا
کتنی عام ہیں ہمارے درمیان نفرتیں، کتنے شوقین ہے ہمارے یہاں کے لوگ ایک دوسرے کا قتل کرنے کے لیے، کتنی سرگرم ہیں ہمارے یہاں رنجشیں۔ بادشاہوں اور سپہ سالاروں نے اس زمین پر اپنی عظمت اور فتح کے لیے خون کی ندیاں بہا دیں مگر ان سب کے باوجود ان تمام لفنگوں کو بس ایک تھوڑے وقت کی شان و شوکت ملتی ہے اور وہ بھی بس اس کائنات میں ایک چھوٹے سے نیلے رنگ کے دھبے پر۔ یہ مشہور جملے کہنے کے بعد کارل ساگان مزید کہتا ہے کہ اس ساری کائنات میں اس زمین کی اہمیت کیا ہے؟
اگر غور سے دیکھیے تو صحرا میں ایک ذرہ، بس ایک چھوٹا ذرہ جو کائنات میں کہیں بس ایک بہت بہت چھوٹا نیلا سا ''ڈاٹ'' (نقطہ) ہے۔ اتنی بڑی کائنات میں دور دور تک کوئی ایسی نشانی نظر نہیں آتی جو ہمیں اپنے آپ سے بچا سکے۔ ابھی تک دور دور تک کوئی ایسی نشانی نظر نہیں آتی کہ اس کائنات میں نظر آنے والے اس چھوٹے سے نقطے کے علاوہ کہیں اور زندگی ہے۔ تو بس سوچ لیجیے کہ ہمیں یہیں رہنا ہے۔
ان شاندار جملوں کے تاریخی بننے سے پہلے تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ اس ایک لفظ کی قدر و منزلت کیا ہے۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے آج سے 37 سال 8 مہینے پہلے خلا میں اپنا ایک مشن روانہ کیا۔ جس کا مقصد ہمارے شمسی نظام کے متعلق معلومات فراہم کرنا تھا۔ یوں تو اس کے جو اہداف رکھے گئے تھے وہ اُسی سال حاصل ہو گئے تھے لیکن آج بھی اس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
انسان کا بنایا ہوا یہ پہلا منصوبہ تھا جس کو خلا میں 64 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کرایا گیا۔ سیارہ زحل ہمارے نظام شمسی کا دوسرا بڑا سیارہ ہے اور ترتیب کے لحاظ سے یہ اس نظٓام کا چھٹا سیارہ ہے۔ جب 1980 میں وائجر 1 اس کے پاس سے گزرا تو اس نے بہت زیادہ صاف تصاویر وہاں سے روانہ کیں۔ اور وہیں سے ساگان کے دل میں ایک خواہش جاگی۔ جس کی تکمیل میں ناسا کو مزید دس سال لگ گئے۔ اس سے پہلے کہ اس خواہش کو جانیے، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کارل ساگان کون ہے؟
ؐ 62 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے اس عظیم سائنسدان نے اپنی تحقیق اور تجربات سے دنیا میں سوچنے اور سمجھنے کے کئی زاویے تبدیل کر کے رکھ دیے۔ جہاں اس کا ایک بڑا کارنامہ سیارہ زہرہ کا درجہ حرارت معلوم کرنا تھا وہیں اُس نے تابکاری سے بڑا مفید کام لیا۔ یہ ساگان ہی تھا جس نے کائنات میں زمین کے علاوہ موجود کسی اور مخلوق سے رابطہ کے لیے پیغام بھیجا۔ اس نے 600 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے۔
اور جب وائجر 1 زحل کے پاس سے گزرا تو اُس نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ کیا ہمیں ایک تصویر ایسی مل سکتی ہے جس سے اندازہ ہو کہ اس پوری کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا جان سکے کہ ہماری حیثیت کیا ہے۔ اس حوالے سے ناسا کو یہ خدشہ تھا کہ اگر سورج کے قریب سے نظام کی تصویر لینے کی کوشش کی گئی تو وائجر 1 کو نقصان ہو سکتا ہے۔
اور پھر وہ دن آیا جب وائجر 1 زمین سے 6 ارب کلو میٹر دور تھا۔ ناسا سے حکم دیا گیا کہ اب اپنے کیمرے کو پیچھے موڑا جائے اور اس نظام شمسی سے باہر نکلنے سے پہلے یہ بتایا جائے کہ ہم کہاں ہیں؟ حکم کی تعمیل ہوئی اور کیمرے پیچھے کی طرف حرکت کرنے لگے۔ یہ 14 فروری 1990 کا دن تھا۔ وائجر 1 نے تصاویر لینا شروع کی۔ یہ تصاویر تیزی سے ہماری زمین کی طرف بھیجی گئیں پھر بھی اس میں کئی دن لگ گئے۔
اور جب یہ سب نے دیکھیں تو اس کائنات میں ایک چھوٹے سے نیلے نقطے کی طرح ہماری دنیا نظر آئی اور اُس وقت ساگان نے یہ جملے کہے تھے کہ ہم جس زمین کو بہت بڑی کہتے ہیں جہاں کا ہم خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں، جہاں ہم نفرتوں کو پروان چڑھاتے ہیں جہاں ہم وقت کی عظمت کی نشانیاں گاڑتے ہیں اس کی اوقات اس کائنات میں کیا ہے۔ ایسے ہی ہے جیسے کسی بہت بڑے صحرا میں ریت کا ایک ذرہ ہو۔ اور ہم خود کو کیا سمجھتے ہیں؟ بہت بڑا رستم یا بہت بڑا جاہل۔
جب اس کائنات میں زمین کی ایک ذرہ سے چھوٹی حیثیت ہے اور پھر اس دنیا میں ہماری کیا اوقات ہے۔ وہ لوگ مریخ پر جھنڈے لگا رہے ہیں وہ چاند پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکے ہیں اور اس وقت کا سب سے بڑا سائنسدان اسٹیفن ہاپکنگ کہتا ہے کہ انسان کو اپنی بقا کے لیے اب اس دنیا کو چھوڑنا ہو گا۔ ایسے میں کتنی معمولی بات لگتی ہے کہ اگر کوئی ہمیں کوئی یہ کہہ دے کہ گزشتہ سال دنیا بھر کے اندر جتنی سائنسی تحقیقات رجسٹرڈ ہوئی اس میں ہمارا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا لیکن ہمیں گمان یہ ہے کہ دنیا ہمارے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ ہم خطے میں اُس جگہ پر ہیں کہ جہاں دنیا کو گزرنا لازم و ملزوم ہیں۔
دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں ایک نئی چیز ایجاد ہو رہی ہے لیکن ہمارے پاس تو ایجادات کا ذخیرہ اتنا ہے کہ کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتا ۔ اس کائنات میں ایک نیلے نقطہ سے چھوٹا مقام ہے ہمارا...اور اس دنیا میں ہم جدت کے حوالے سے 150 ممالک کے پیچھے ہیں لیکن ہماری نرگسیت کا عالم یہ ہے کہ ہم یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارا مستقبل تابناک ہے۔
وہ مریخ پر پانی تلاش کر چکے ہیں اور ہمارے یہاں لوگ اب تک پانی کے حصول کے لیے لائنوں میں کھڑے ہو کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کسی کو ہم پر رحم آئے گا۔ وہ جدت کے ساتھ سورج کی روشنی کے ذریعہ چاند میں اپنے اسٹیشن کو روشنی فراہم کر رہے ہیں اور اس اسمبلی جمہوریہ پاکستان میں ہم بجلی آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے لوگوں کو مریخ پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور ہم اس بات پر فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے یہاں ایک بہت شاندار قسم کا میٹرو پراجیکٹ بننے والا ہے۔
ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ سعودیہ میں ہمارا کیا کردار ہو گا اور ہمیں اپنے دستے بھیجنے چاہییں یا نہیں۔ ایک صاحب بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ یہاں G3 کا اب دور نہیں رہا بلکہ تھری جی کا وقت آ چکا ہے تو کوئی ان سے یہ تو کہہ دے کہ جہاں سے آپ نے نشتست چھوڑی اور اپنے ایک رفیق کو کھڑا کیا وہاں پر جی تھری کے دور میں عورتوں کو کیوں گھروں میں قید میں کر دیا گیا۔
ہمارے مسائل دیکھیے اور اُن کی ترقیاں دیکھیے۔ اب اگر سوچیں کہ ہالی وڈ کی فلموں کی طرح یہ سچ ہو گیا کہ سب طاقت ور لوگ اس دنیا سے مریخ یا کہیں اور چلے گئے تو ہم بھیک مانگنے اب اپنی گدھا گاڑی میں تو جانے سے رہے۔ ہر چیز میں جدت آ چکی ہے اس لیے براہ مہربانی اپنی بھکاری کاروبار کو بچانے کے لیے ہی کوئی مریخ تک کی سواری بنا لے۔ اور وہاں بھی کوئی ایسا ہی کونا پکڑ لیں اور سب کو ڈراتے رہیں کہ ہمیں بھیک نہ دی تو ہم کسی الف، ب، پ کو نہیں چھوڑیں گے۔