گلاس اور رومال
بظاہر یہ امید کرنا غلط نہیں ہو گا کہ بابر اعوان کو ان کا ہتھیایا گیا رومال واپس مل جائے گا۔
جو ماجرا ہوا ہے، اسے ان لفظوں میں بیان کیا جاسکتاہے کہ ایک ہی واقعے میں بارہ آنے کا گلاس ٹوٹ گیا اور دو آدمیوں کا رومال ہتھیانے کیلیے لگایا جانے والا میلہ بالآخر ختم ہو گیا۔
گلاس اس معنی میں ٹوٹا کہ تین چار سال کھیل ہوتا رہا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ جو بات جہاں تھی وہیں رہی البتہ قوم اور فریقین کے چار سال ضائع ہو گئے اور ان چار برسوں کی مجموعی قیمت بارہ آنے تو ضرور ہو گی۔ حاصل وصول کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ نہ فریقین کو نہ تماشائیوں کو جو چار سال دَم سادھے کسی سنسنی خیز ''دی اینڈ'' کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ... اور پردہ اُٹھا تو پتہ چلا کہ بس پردہ ہی تھا، پردے کے پیچھے کچھ نہیں تھا۔ اس چار سالہ جنگ میں کسی کو کچھ ملا تو وہ میڈیا تھا۔
اخبارات کو ہر تیسرے روز ایک سنسنی خیز شہ سرخی ملتی رہی۔ ٹی وی کو بریکنگ نیوز کی پٹی دکھانے کے بے شمار سنہرے مواقع ملے۔ میڈیا نے اس کھیل یا جنگ کو خوب کیش کرایا۔ ان تجزیہ نگاروں کی بھی چاندی رہی جو ہر چینل پر موسٹ وانٹڈ رہے اور کیا ہو گا، کیا نہیں ہوگا کے بارے میں اپنی رائے اس وثوق سے بیان کرتے رہے کہ جیسے جج صاحبان نے فیصلہ لکھ دیا ہے اور انھیں دکھا بھی دیا ہے۔ بس کسی مناسب صبح کا انتظار ہے جس کے طلوع ہوتے ہی فیصلہ سنا دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کا سورج اور صدر کے مقدر کا ستارہ ڈوب جائے گا۔
اگر شہ سرخی لگنے سے عدلیہ کے وقار اور جلال میں اضافہ ہوتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ اس کیس کی چار سالہ سماعت کے دوران یہ وقار اور جلال ہر روز بڑھا بلکہ بڑھتا ہی گیا اور اگر ان شہ سرخیوں سے حکومت دبائو میں آتی ہے تو یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان چار برسوں کے دوران حکومت ہر روز دبائو میں رہی، اس کے وزیروں نے بار بار شکوہ کیا کہ جب ہر رات یہ باور کرایا جائے کہ کل صبح کا سورج اس حکومت نے نہیں دیکھنا تو وہ اپنا کام کیسے کر سکتی تھی۔ توانائی کے بحران سے وہ کیسے نمٹتی اور دوسرے مسائل کیسے حل کرتی۔ بہرحال اب وہ چار سال کے دبائو سے نکل گئی ہے۔
جیسا خط وہ لکھنا چاہتی تھی، اس نے لکھ ڈالا ہے اور عدالت نے مان لیا ہے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ ضمنی طور پر یہ ماننے میں بھی ہرج نہیں کہ سپریم کورٹ نے کمال فیاضی دکھائی۔ قانون دان حضرات کہتے رہے کہ اگر حکومت کو استثنیٰ کا حق چاہیے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ یہ حق دینا ہے کہ نہیں۔ سپریم کورٹ کی فیاضی یہ ہے کہ اس نے حکومت کے مانگے بنا ہی استثنیٰ کا حق دے دیا ہے اگرچہ یہ حق دینے میں چار سال کا عرصہ لگ گیا، اب جبکہ حکومت دبائو سے نکل گئی ہے تو اُمید ہے کہ باقی ماندہ تین چار ماہ میں وہ زیر التوا مسائل کا حل نکال لے گی اور اسے یہ شکوہ نہیں ہوگا کہ اسے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ حکومت کو تین چار ماہ کا جو وقت ملا ہے وہ اسے الیکشن کی تیاری میں لگائے یا عوامی مسائل کے حل پر صرف کرے؟ بہرحال اس کا شکوہ دور ہو گیا ہے۔ جن دو حضرات کا رومال ہتھیایا گیا، ان میں ایک سابق وزیر اعظم گیلانی ہیں اور دوسرے بابر اعوان ہیں۔ گیلانی یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ایسا خط ہی لکھوانا تھا تو بتا دیا ہوتا' ایک کی جگہ دس لکھ دیتا۔ وہ لاعلمی میں مارے گئے۔
وزارت عظمیٰ بھی گئی' توہین عدالت کیس میں سزا یافتہ بھی ٹھہرے اور اپنوں اور غیروں کے مذاق اور تمسخر کا نشانہ بھی بنے لیکن وہ تسلی رکھیں' اگر کھیل کا ڈراپ سین کسی پس پردہ' مصالحت کا نتیجہ ہے تو ان کے بیٹے پر جو کیس ہے، اس کا انجام بھی خط والے کیس سے مختلف نہیں ہو گا۔ دوسرے حضرت بابر اعوان صاحب ہیں جو استثنیٰ کی دہائی دیتے دیتے ایک موقع پر پنجابی کا ایک شعر یا مصرعہ پڑھ بیٹھے اور دھر لیے گئے۔ ان کی وکالت کا لائسنس معطل ہے اور وہ خود توہین عدالت کے ایک کیس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دیکھئے انھیں سزا ملتی ہے یا خط لکھے جانے کے صدقے میں ان کی جان بخشی ہو جاتی ہے۔
بظاہر یہ امید کرنا غلط نہیں ہو گا کہ بابر اعوان کو ان کا ہتھیایا گیا رومال واپس مل جائے گا۔ مطلب یہ کہ ان کا لائسنس بھی بحال ہو جائے گا اور ارتکاب جرم کی معافی بھی مل جائے گی۔ گیلانی کا رومال البتہ اس لیے واپس نہیں ملے گا کہ وہ اب راجہ پرویز اشرف کی جیب میں ہے اور اسکی باقی ماندہ مدت چارچھ مہینے رہ گئی ہے۔ اتنی مدت کیلیے کیا لڑنا اور ساتھ ہی یہ دور کی کوڑی لانے میں بھی کوئی زیادہ خطرہ نہیں کہ ارسلان افتخار کیس کی شدت اور قوت میں کچھ کمی آجائے گی۔
یار لوگ اصرار کرتے ہیں کہ یہ سارے کیس ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ارسلان کے خلاف کچھ گواہیاں ایسی ہیں کہ کچھ نہ کچھ پریشان کن حالات پیدا کر سکتی ہیں، خدا ہی کو پتہ ہے کہ یار لوگوں کا یہ اصرار کس حدتک درست ہے لیکن کچھ واقعات بعض اوقات ایسی ترتیب کے ساتھ آتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی سچائی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کسی بھی کیس کا فیصلہ ایک مثال (PRECEDENT) ہوتا ہے۔ دیکھیے یہ مثال بلوچستان کیس اور لاپتہ افراد کے کیس میں بھی دہرائی جاتی ہے یا نہیں۔ رومال کیس کی طرح ان دونوں مقدمات نے بھی اخبارات کیلیے شہ سرخیوں اور چینلز کیلیے بریکنگ نیوز کا خام اور تیار مال خوب مہیا کیا۔ ان دونوں مقدمات میں بھی تجزیہ نگاروں کی توقعات رومال کیس کی طرح بہت بلند ہیں، ان بریکنگ نیوز کا اختتام بھی کہیں ''بریکنگ آف گلاس'' جیسا تو نہیں ہو گا؟ دیکھتے جائیے۔
آئندہ کا منظر نامہ یہ ہے کہ حکومت نے نیا احتساب بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت2002ء سے پہلے کے معاملات یا الزامات پر کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو صدر کو ' کم از کم اندرون ملک' عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی آئینی استثنیٰ مل جائے گا۔ اس سے ان کے مخالف ضرور ناراض ہوں گے لیکن انھیں صبر کرنا پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پر صرف سپریم کورٹ کا حق ہے۔
گلاس اس معنی میں ٹوٹا کہ تین چار سال کھیل ہوتا رہا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ جو بات جہاں تھی وہیں رہی البتہ قوم اور فریقین کے چار سال ضائع ہو گئے اور ان چار برسوں کی مجموعی قیمت بارہ آنے تو ضرور ہو گی۔ حاصل وصول کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ نہ فریقین کو نہ تماشائیوں کو جو چار سال دَم سادھے کسی سنسنی خیز ''دی اینڈ'' کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ... اور پردہ اُٹھا تو پتہ چلا کہ بس پردہ ہی تھا، پردے کے پیچھے کچھ نہیں تھا۔ اس چار سالہ جنگ میں کسی کو کچھ ملا تو وہ میڈیا تھا۔
اخبارات کو ہر تیسرے روز ایک سنسنی خیز شہ سرخی ملتی رہی۔ ٹی وی کو بریکنگ نیوز کی پٹی دکھانے کے بے شمار سنہرے مواقع ملے۔ میڈیا نے اس کھیل یا جنگ کو خوب کیش کرایا۔ ان تجزیہ نگاروں کی بھی چاندی رہی جو ہر چینل پر موسٹ وانٹڈ رہے اور کیا ہو گا، کیا نہیں ہوگا کے بارے میں اپنی رائے اس وثوق سے بیان کرتے رہے کہ جیسے جج صاحبان نے فیصلہ لکھ دیا ہے اور انھیں دکھا بھی دیا ہے۔ بس کسی مناسب صبح کا انتظار ہے جس کے طلوع ہوتے ہی فیصلہ سنا دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کا سورج اور صدر کے مقدر کا ستارہ ڈوب جائے گا۔
اگر شہ سرخی لگنے سے عدلیہ کے وقار اور جلال میں اضافہ ہوتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ اس کیس کی چار سالہ سماعت کے دوران یہ وقار اور جلال ہر روز بڑھا بلکہ بڑھتا ہی گیا اور اگر ان شہ سرخیوں سے حکومت دبائو میں آتی ہے تو یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان چار برسوں کے دوران حکومت ہر روز دبائو میں رہی، اس کے وزیروں نے بار بار شکوہ کیا کہ جب ہر رات یہ باور کرایا جائے کہ کل صبح کا سورج اس حکومت نے نہیں دیکھنا تو وہ اپنا کام کیسے کر سکتی تھی۔ توانائی کے بحران سے وہ کیسے نمٹتی اور دوسرے مسائل کیسے حل کرتی۔ بہرحال اب وہ چار سال کے دبائو سے نکل گئی ہے۔
جیسا خط وہ لکھنا چاہتی تھی، اس نے لکھ ڈالا ہے اور عدالت نے مان لیا ہے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ ضمنی طور پر یہ ماننے میں بھی ہرج نہیں کہ سپریم کورٹ نے کمال فیاضی دکھائی۔ قانون دان حضرات کہتے رہے کہ اگر حکومت کو استثنیٰ کا حق چاہیے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ یہ حق دینا ہے کہ نہیں۔ سپریم کورٹ کی فیاضی یہ ہے کہ اس نے حکومت کے مانگے بنا ہی استثنیٰ کا حق دے دیا ہے اگرچہ یہ حق دینے میں چار سال کا عرصہ لگ گیا، اب جبکہ حکومت دبائو سے نکل گئی ہے تو اُمید ہے کہ باقی ماندہ تین چار ماہ میں وہ زیر التوا مسائل کا حل نکال لے گی اور اسے یہ شکوہ نہیں ہوگا کہ اسے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ حکومت کو تین چار ماہ کا جو وقت ملا ہے وہ اسے الیکشن کی تیاری میں لگائے یا عوامی مسائل کے حل پر صرف کرے؟ بہرحال اس کا شکوہ دور ہو گیا ہے۔ جن دو حضرات کا رومال ہتھیایا گیا، ان میں ایک سابق وزیر اعظم گیلانی ہیں اور دوسرے بابر اعوان ہیں۔ گیلانی یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ایسا خط ہی لکھوانا تھا تو بتا دیا ہوتا' ایک کی جگہ دس لکھ دیتا۔ وہ لاعلمی میں مارے گئے۔
وزارت عظمیٰ بھی گئی' توہین عدالت کیس میں سزا یافتہ بھی ٹھہرے اور اپنوں اور غیروں کے مذاق اور تمسخر کا نشانہ بھی بنے لیکن وہ تسلی رکھیں' اگر کھیل کا ڈراپ سین کسی پس پردہ' مصالحت کا نتیجہ ہے تو ان کے بیٹے پر جو کیس ہے، اس کا انجام بھی خط والے کیس سے مختلف نہیں ہو گا۔ دوسرے حضرت بابر اعوان صاحب ہیں جو استثنیٰ کی دہائی دیتے دیتے ایک موقع پر پنجابی کا ایک شعر یا مصرعہ پڑھ بیٹھے اور دھر لیے گئے۔ ان کی وکالت کا لائسنس معطل ہے اور وہ خود توہین عدالت کے ایک کیس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دیکھئے انھیں سزا ملتی ہے یا خط لکھے جانے کے صدقے میں ان کی جان بخشی ہو جاتی ہے۔
بظاہر یہ امید کرنا غلط نہیں ہو گا کہ بابر اعوان کو ان کا ہتھیایا گیا رومال واپس مل جائے گا۔ مطلب یہ کہ ان کا لائسنس بھی بحال ہو جائے گا اور ارتکاب جرم کی معافی بھی مل جائے گی۔ گیلانی کا رومال البتہ اس لیے واپس نہیں ملے گا کہ وہ اب راجہ پرویز اشرف کی جیب میں ہے اور اسکی باقی ماندہ مدت چارچھ مہینے رہ گئی ہے۔ اتنی مدت کیلیے کیا لڑنا اور ساتھ ہی یہ دور کی کوڑی لانے میں بھی کوئی زیادہ خطرہ نہیں کہ ارسلان افتخار کیس کی شدت اور قوت میں کچھ کمی آجائے گی۔
یار لوگ اصرار کرتے ہیں کہ یہ سارے کیس ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ارسلان کے خلاف کچھ گواہیاں ایسی ہیں کہ کچھ نہ کچھ پریشان کن حالات پیدا کر سکتی ہیں، خدا ہی کو پتہ ہے کہ یار لوگوں کا یہ اصرار کس حدتک درست ہے لیکن کچھ واقعات بعض اوقات ایسی ترتیب کے ساتھ آتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی سچائی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کسی بھی کیس کا فیصلہ ایک مثال (PRECEDENT) ہوتا ہے۔ دیکھیے یہ مثال بلوچستان کیس اور لاپتہ افراد کے کیس میں بھی دہرائی جاتی ہے یا نہیں۔ رومال کیس کی طرح ان دونوں مقدمات نے بھی اخبارات کیلیے شہ سرخیوں اور چینلز کیلیے بریکنگ نیوز کا خام اور تیار مال خوب مہیا کیا۔ ان دونوں مقدمات میں بھی تجزیہ نگاروں کی توقعات رومال کیس کی طرح بہت بلند ہیں، ان بریکنگ نیوز کا اختتام بھی کہیں ''بریکنگ آف گلاس'' جیسا تو نہیں ہو گا؟ دیکھتے جائیے۔
آئندہ کا منظر نامہ یہ ہے کہ حکومت نے نیا احتساب بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت2002ء سے پہلے کے معاملات یا الزامات پر کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو صدر کو ' کم از کم اندرون ملک' عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی آئینی استثنیٰ مل جائے گا۔ اس سے ان کے مخالف ضرور ناراض ہوں گے لیکن انھیں صبر کرنا پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پر صرف سپریم کورٹ کا حق ہے۔