میک تھورنبیری

’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ سامراجی قوتوں کا ایک پرانہ اور آزمودہ طریقہ کار ہے


Abid Mehmood Azam 1 May 13, 2015

عراق کی امداد سے متعلق امریکی کانگریس کے متنازع بل ''میک تھورنبیری'' Mac Thornberry billکی منظوری کے بعد ایک بار پھر عراق کی تقسیم کے بارے میں امریکی عزائم کافی حد تک کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ آپس میں لڑا کر عراق کے حصے بخرے کرنے کے سامراجی کھیل کو جیتنے کے لیے امریکا سرتوڑ کوششوں میں مشغول ہے۔

''لڑاؤ اور حکومت کرو'' سامراجی قوتوں کا ایک پرانہ اور آزمودہ طریقہ کار ہے، جس کو امریکا آج بھی مضبوطی سے تھامے اپنی سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مگن ہے۔ عراق کی تقسیم امریکا کی دیرینہ خواہش اور اہم مقصد ہے، جس کے لیے ایک عرصے سے بھرپور انداز میں کام جاری ہے، کیونکہ امریکا اس تقسیم سے پورے مشرق وسطیٰ کو متاثر کرنا چاہتا ہے اور اپنے بغل بچہ اسرائیل کو مکمل تعاون فراہم کرنے کے لیے بھی عراق کو تقسیم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

امریکی کانگریس کی جانب سے منظور کیے گئے، مسودہ قانون میں عراق کے لیے 2016ء کے مالی سال کے دوران 715 ملین ڈالر کی فوجی امداد مختص کی گئی ہے۔ تاہم بل میں یہ شرط عاید کی گئی ہے کہ عراقی حکومت اس فوجی بجٹ کا 25 فی صد نیم خود مختار صوبہ کردستان کی ''البیشمرکہ'' اور سْنی فوج کو دینے کی پابند ہو گی۔ اگر عراقی حکومت بقیہ 75 فی صد امدادی رقم کو قومی مفاہمت کے لیے استعمال نہیں کر سکے گی تو اس رقم کا 60 فی صد حصہ کرد اور سنی افواج کو دے دیا جائے گا۔ عراق کو عراقی تقسیم کے حالیہ امریکی منصوبے سے انتہائی زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ امریکی کانگریس نے عراق کو دی جانے والی امداد کو جن شرائط سے مشروط کیا ہے، وہ عراق کی عملی تقسیم کی پہلی سیڑھی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کے مطابق ''عراق کی تقسیم کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عراق کی تقسیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں ملوث ہیں، جو خاص منصوبے کے تحت عراق میں جاری خونریزی کو ہوا دے رہی ہیں۔

یہ منصوبہ نہ صرف عراق اور قریبی مسلم ممالک کے لیے خطرہ ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔'' عراقی ارکان پارلیمنٹ نے ''میک تھورنبیری'' بل کو عراق کی بالادستی کی توہین اور عراقی قوم کے دہشت گردی کے خلاف عزم سے لاپرواہی کا مظہر قرار دیا ہے اور عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے بھی مشروط امریکی امدادی بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے متنازع اور مشروط قوانین سے عراق میں انتشار مزید بڑھے گا اور عراق تقسیم کے خطرے سے دوچار ہو گا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ملک کو تقسیم کرنے میں خانہ جنگی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ بلقان کے خطے میں اس کا تجربہ بڑی طاقتوں کو کامیابی سے ہمکنار کر گیا۔ اسی کامیابی کی کاوش میں مسلم ممالک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کے لیے نہایت عیاری کے ساتھ عراق کو بیک وقت مذہبی و قومی عصبیت کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے، تا کہ مقاصد آسانی سے حاصل ہو سکیں۔

سامراجی قوتوں کی روز اول سے یہی چال رہی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کبھی مذہب اور کبھی قومیت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شاطرانہ طریقہ کار تا حال جاری ہے۔ خونریزی کی آگ بھڑکا کر عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مقصود ہے، جس میں سب سے اہم کردستان کی تقسیم ہے۔ امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر اس تقسیم کو ہر حال میں عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے اور اسرائیل ایک عرصے سے کردستان کے جوانوں کو فوجی تربیت اسی لیے دے رہا ہے، تا کہ تقسیم کے بعد وہ اسرائیل کے کام آ سکیں۔

امریکی صدر اوباما نے ایک بار پھر کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ واشنگٹن ہر صورت کردستان کا مالی اور لاجسٹک تعاون جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ عراق کی تقسیم پر گزشتہ صدی کے اوائل سے کام جاری ہے۔ 1920ء میں معاہدہ سیورے طے ہوا، جس کے سیکشن III کے آرٹیکل 62 تا 64 کے مطابق کردستان کو بھی آزادی ملنا تھی، لیکن جب معاہدہ لوزان طے پایا تو کردستان کے قیام کا خواب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن کردستان کو عراق سے علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔

اگرچہ کردستان کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا، لیکن سامراجی قوتوں کو اسے بہر حال عراق سے علیحدہ کرنا تھا، اسی لیے مسلسل کردستان کی علیحدگی کا معاملہ زندہ رکھا گیا اور اب ایک بار پھر بھاری امداد کا بل منظور کر کے کردستان کا قیام معرضِ وجود میں لانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

عراق پہلے سے ہی امریکا کی لگائی آگ میں بری طرح جل رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے جمہوریت اور بنیادی حقوق کی آڑ میں بھڑکائی ہوئی آگ روز مرہ کی بنیاد پر سیکڑوں نہتے شہریوں کی جانیں لے رہی ہے۔ امریکا نے مہلک ہتھیاروں سے چھٹکارا دلانے کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا، لیکن خود اس قدر مہلک ہتھیار استعمال کیے، جن کے نتیجے میں بلامبالغہ لاکھوں بے گناہ عراقی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں اور دن بدن قتل و غارت گری اور خونریزی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ ماہ عراق میں ہونے والے کشت و خون کے نتیجے میں 2500 افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں اور ہر مہینے اندازاً اتنے لوگ بم دھماکوں اور دہشت گردی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں بے گناہ عراقی شہری بم دھماکوں، فائرنگ اور بمباری میں نہ مارے جاتے ہوں۔ عراق کے مختلف صوبوں میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں میں زیادہ تر عام شہری مارے جاتے ہیں۔ غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے دس گنا زیادہ ہے، جنھیں عوامی سطح پر ظاہر کیا جاتا ہے۔

مغربی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ امریکا تنازعہ کے دونوں فریقوں کی مدد کرتا ہے، جس کے نتیجے میں خونریزی جنم لیتی ہے۔ متنازع بل ''میک تھورنبیری'' کی منظوری کے بعد کردستان کے لیے مختص کی گئی امریکی امداد سے یقینا عراق بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے، جس سے امریکا اور اسرائیل کا مقصد تو پورا ہو جائے گا، لیکن عراق بربادی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ امریکا اپنے اور اسرائیل کے مفادات کی خاطر عراق کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔

عراق کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونکنے کے لیے پہلے خود ہی کسی فریق کو اسلحہ دے کر کھڑا کرتا ہے، پھر اس کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خاتمے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ داعش کے معاملے میں ہوا، لیکن بظاہر مطلوبہ افراد کو اس وقت تک نہیں ختم نہیں کیا جاتا، جب تک مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ نہ بج جائے۔ اس پالیسی سے ایک طرف تو امریکا کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے اور دوسری طرف مسلم ممالک میں امریکا کے سامنے کھڑی ہونے والی ممکنہ قوتیں خود آپس میں ہی لڑ لڑ کر ختم ہو جاتی ہیں، جس سے سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی سلامت رہتی ہے۔

امریکا نے عراق میں مذہبی فرقہ واریت اور قوم پرستی کی نفرت کے ایسے بیج بوئے ہیں، جو اب تناور درخت بن چکے ہیں اور عراق میں ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے شیعہ سنی تضاد کے زہر کو سماج کی نس نس میں اتار دیا ، جو کہ امریکا کی بڑی کامیابی ہے۔ امریکا جس ملک کو برباد کرنا چاہتا ہے، پہلے خود ہی مداخلت کے اسباب پیدا کرتا ہے اور پھر اس ملک کے حصے بکھرے کر کے چھوڑتا ہے اور عراق میں بھی یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں