کراچی میں پانی کا بحران سنگین صورت اختیار کرگیا صنعتی علاقوں میں بھی قلت

صنعتی علاقوں کی مجموعی طلب 125ملین گیلن یومیہ ہے تاہم صنعتوں کو صرف 13ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے


Kashif Hussain May 13, 2015
کراچی کے شہری پانی کی بوند بوندکو ترس گئے جب کہ وہ مہنگے داموں واٹرٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں، فوٹو:فائل

پانی کے بحران نے صنعتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے جب کہ شہر کے تمام صنعتی علاقے پانی کی بدترین قلت کا شکار ہیں، ملک میں سب سے مہنگے داموں پانی خریدنے کے باوجود کراچی کی صنعتوں کو ان کی ضرورت کے مقابلے میں90فیصد تک کم پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

جس سے پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں، کراچی کے7 صنعتی علاقوں سائٹ، کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، سائٹ سپر ہائی وے اور بن قاسم میں پانی کی مجموعی طلب 125ملین گیلن یومیہ ہے تاہم صنعتوں کو صرف 13ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے، سندھ کے دیگر صنعتی علاقوں کے مقابلے میں کراچی کی صنعتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور دیگر علاقوں کے مقابلے میں کراچی کے صنعتی علاقوں کو سب سے مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا ہے۔

نوری آباد کے صنعتی علاقے کو 65روپے فی ایک ہزار گیلن، کوٹری کو 33روپے فی ایک ہزار گیلن، حیدرآباد کو 25روپے، سکھر کو 25روپے، پنجاب کے صنعتی علاقوں کو 53روپے جبکہ لسبیلہ کے صنعتی علاقوں میں 40سے 52روپے فی ایک ہزار گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے تاہم کراچی کے صنعتی علاقوں سے فی ایک ہزار گیلن 204روپے وصول کیے جارہے ہیں، صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ بھاری قیمت کی ادائیگی کے باوجود صنعتوں کو پانی فراہم نہیں کیا جاتا کراچی میں زیادہ تر ٹیکسٹائل کی صنعت قائم ہے جن کے لیے پانی خام مال کی حیثیت رکھتا ہے کراچی کی صنعتیں اپنی ضرورت کا 90فیصد پانی خود مہیا کرتی ہیں جس کے لیے ٹینکرز مافیا پر انحصار کے ساتھ بورنگ کے پانی کو استعمال کیا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پاس صنعتوں کو پانی کی فراہمی بڑھانے کی گنجائش نہیں لیکن ٹٰینکر مافیا واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی نکال کر پورے شہر کو فراہم کررہی ہیں، مختلف وقتوں میں غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف مصنوعی کارروائی کی گئی تاہم حکومتی سطح پر موثر منصوبہ بندی اور پانی کے منصوبوں میں تاخیر کی وجہ سے ٹینکر مافیا شہر کے متوازی نظام کا حصہ بن چکی ہے۔

صنعتوں نے اپنے خرچ پر بورنگ کرائی ہے جس کے لیے اضافی سرمایہ کاری کرنا پڑرہی ہے جبکہ متعدد ٹھیکدار بھی رہائشی علاقوں میں بورنگ کرکے اپنی نجی لائنوں کے ذریعے صنعتوں کو بورنگ کا پانی فراہم کررہے ہیں، ملک کے اہم ترین صنعتی علاقے سائٹ کراچی میں پانی کی یومیہ طلب 40ملین گیلن ہے تاہم واٹر بورڈ کی جانب سے سائٹ کراچی کو صرف 5ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

اسی طرح دیگر صنعتی علاقوں کو بھی ان کی ضرورت سے 90فیصد تک کم پانی مہیا کیا جارہا ہے،کراچی میں پانی کی طلب و رسد کا فرق 600 ملین گیلن یومیہ تک پہنچ چکا ہے، شہر میں پانی کی یومیہ ضرورت 1080ملین گیلن یومیہ ہے تاہم واٹر بورڈ کی جانب سے 500ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جارہا ہے، شہر کی آبادی میں پھیلائو کے پیش نظر صرف گھریلو استعمال کے پانی کی طلب پوری کرنے کے لیے ہر پانچ سال بعد 100ملین گیلن اضافی پانی کی ضرورت ہے۔

کراچی کے شہری پانی کی بوند بوندکو ترس گئے جب کہ وہ مہنگے داموں واٹرٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں دوسری جانب کراچی واٹر بورڈ شہریوں کو پانی فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں میں اشتعال پایا جاتا ہے۔

کراچی شہر کے مختلف علاقوں جن میں گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد، نیوکراچی، ماڈل کالونی، ایف سی ایریا، ناظم آباد، بلدیہ ٹائون سائٹ، اورنگی ٹائون، لانڈھی ، کورنگی ، کھارادر، رنچھوڑ لائن، لائنزایریا، منگھوپیر روڈ شامل ہیں ان علاقوں میں گزشتہ کئی روز سے پانی فراہم نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے ان علاقوں کے مکین شدید مشکلات کا شکار ہیں،ان علاقوں کے مکین مہنگے داموں واٹرٹینکر خرید رہے ہیں، ان علاقوں کے مکین مجبوراً بورنگ کا پانی استعمال کر رہے ہیں جو انسانی صحت کیلیے مضر ہے،کھاراپانی پینے سے شہری امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

شہریوں نے شکایت کی ہے کہ کراچی واٹر بورڈ کے افسران ٹینکرمافیا کی سرپرستی کر رہے ہیں جبکہ غیرقانونی ہائیڈرنٹ کی مسماری کے بعد ذاتی مفادات کیلیے ان کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دیدی، نیوکراچی ، نارتھ کراچی اور ناظم آباد کے مکینوں نے شکایت کی ہے کہ مذکور علاقوں میں گزشتہ کئی روز سے پانی فراہم نہیں کیا گیا،نارتھ کراچی کے بعض سیکٹرز میں گزشتہ ایک ہفتے سے پانی فراہم نہیں کیا گیا ہے، لانڈھی، کورنگی، قائدآباد، ملیر، کھوکھراپار، سعودآباد کے علاقوں کے مکینوں نے شکایت کی ہے مذکورہ علاقوں میں گزشتہ ایک ماہ سے پانی کا شدید بحران جاری ہے،واٹر بورڈ کے افسران بحران کا کوئی نوٹس نہیں لے رہے اور ان کی تمام توجہ واٹرٹینکر مافیا سے فوائد حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔

رنچھوڑلائن، لائنزایریا، بلدیہ ٹائون، سائٹ اور اورنگی ٹائون کے مکینوں نے شکایت کی ہے کہ مذکورہ علاقوں میں پانی کا بدترین بحران جاری ہے،شہر کے بعض علاقوں میں واٹرٹینکر بھی دستیاب نہیں کیونکہ واٹرٹینکر کی کھپت بڑھ جانے کی وجہ سے واٹرٹینکر بھی دستیاب نہیں رہے ،واٹرٹینکر مافیا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے واٹرٹینکر انتہائی مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔

صوبائی وزیربلدیات شرجیل انعام میمن کی ہدایت پر پانی سے متاثرہ علاقوں میں مفت واٹرٹینکر سروس شروع کی گئی تھی لیکن 2 کروڑ کی آبادی کے شہر میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ثابت ہوئی، اس سروس کے ذریعے اورنگی ، بلدیہ، نارتھ کراچی کے علاقوں میں واٹرٹینکر سے شہریوں کو پانی فراہم کیا گیا لیکن اس سے شہریوں کی ضروریات پوری نہیں ہوئیں اور ان علاقوں کے 90فیصد عوام اب بھی پانی سے محروم ہیں۔

ذرائع کے مطابق شہر میں 30لاکھ گیلن پانی ٹینکرز مافیا کے ذریعے مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے ،دوسری جانب کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پپری پمپنگ اسٹیشن پر بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے اور منگل کو بھی بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے کراچی کو دس ملین گیلن پانی فراہم نہیں کیا جاسکا،کراچی واٹراینڈسیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائیریکٹر سید ہاشم رضا زیدی نے واٹربورڈ کے پپری پمپنگ ہاؤس پر11دنوں کے دوران کے الیکٹرک کی بجلی کی آنکھ مچولی، وولٹیج میں کمی بیشی اور جھٹکوں سے پمپنگ ہاؤس کی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کی طرف مبذول کراتے ہوئے کے الیکٹرک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کو مکتوب تحریر کیا ہے۔

جس میں اس زبوں حالی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پپری پمپنگ ہاؤس /فلٹر پلانٹ سے روزانہ 146ملین گیلن پانی شہر کے اہم علاقوں کو فراہم کیا جاتا ہے لہٰذا پپری کی اہم وقیمتی تنصیبات اور پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے بجلی کی بلاتعطل فراہمی ناگزیر ہے۔

پپری پر 11KVAکی موٹریں لگی ہوئی ہیں جوبجلی کی غیر تسلسل فراہمی جھٹکوں ،وولٹیج میں کمی بیشی اور بجلی کے اچانک بند ہونے سے بری طرح متاثر ہورہی ہیں، اس صورتحال میں پپری پمپنگ اسٹیشن اور فلٹرپلانٹ مسلسل بحرانی پوزیشن میں ہیں، بجلی کے بڑے جھٹکے اور وولٹیج میں کمی اور بجلی کی اچانک بندش سے کسی بھی وقت پانی کی فراہمی بند ہوجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں