جنگل کا راج کیا لُہو بہانا عبادت ہے
وحشیوں، درندوں، جنونیوں سے کیسا شکوہ، سوال تو یہ ہے کہ محافظ کہاں ہیں؟
PESHAWAR:
وہ گھر سے نکلے تھے تو کب جانتے تھے کہ اب کبھی واپسی نہ ہوگی، جانے کس نے کیا وعدہ کیا ہوگا، کس نے کیا ارادہ باندھا ہوگا۔
سڑک پر دور تک پھیلی روشن دھوپ میں، جو خون میں نہلادی گئی، زندگی کی تابندگی تھی، کسی اندیشے کا سایہ دور دور تک نہ تھا، تو واپسی کی امید کیوں نہ ہوتی۔ مگر اس ملک کے شہری اس شہر کے باسی کتنی ہی قیامتیں جھیل جانے کے باوجود بھول جاتے ہیں کہ وہ جہاں رہتے ہیں وہاں جنگل کا راج ہے، اور جنگل میں تو بس بھوک مٹانے کے لیے خون بہایا جاتا ہے۔ انتقام اور زن، زر، زمین کے جھگڑے تو بستیوں کا چلن ہیں، جنگل میں شکار کا جواز بس بھوک ہے۔
انھیں بھی لگتا تھا کہ وہ ان بستیوں میں رہتے ہیں جہاں کسی کے قتل کا کوئی جواز ہوتا ہے، ''ہماری کسی سے کیا دشمنی''۔۔۔۔ارے بابا! تم جنگل میں رہتے ہو، خوں آشاموں کے نرغے میں ہو، تم پر ہزاروں سال پَرے کے وہ زمانے مسلط ہیں جب دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ سو تمہارا خون بہادیا گیا، ان کے لیے تو خون بہانا عبادت ہے، کسی کی جان کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس کے خون سے ''فلاں'' عقیدے کی مہک آتی ہے، اس کا جسم فلاں مسلک کی مٹی سے بنا ہے۔
وحشیوں، درندوں، جنونیوں سے کیسا شکوہ، سوال تو یہ ہے کہ محافظ کہاں ہیں؟
گذشتہ روز کراچی میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی اور اس کی سڑکوں کو انسانی لہو سے سرخ کردیا گیا۔ یہ افسوس ناک واقعہ صبح لگ بھگ ساڑھے نو بجے اس وقت پیش آیا جب اسماعیلی برادری کی ایک مسافر بس صفورا چورنگی سے عائشہ منزل کی طرف جارہی تھی۔
اس بس میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 60افراد سوار تھے۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہ دہشت گرد ان کی تاک میں ہیں اور کچھ ہی دیر بعد یہ جگہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھے گی۔ یکایک تین موٹر سائیکلیں نمودار ہوئیں جن پر سوار نامعلوم دہشت گردوں نے بس پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں آخری خبریں ملنے تک 44افراد جاں بہ حق ہوگئے اور کم وبیش 8زخمی ہوئے۔
اس موقع پر آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے جائے حادثہ کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد چھے تھی جنھوں نے بس کو روکنے کے بعد پہلے اس کے ڈرائیور کو گولی ماری، اس کے بعد وہ نہایت اطمینان سے بس میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کردی۔ غلام حیدر جمالی نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے دوران نائن ایم ایم پستول استعمال کیے تھے۔
مگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چھے نہیں تھی، بل کہ یہ 12تھے جن میں سے تین نے تو پولیس کی وردی پہن رکھی تھی اور یہی چیز بس ڈرائیور کے لیے غلط فہمی کا باعث بنی۔ جب پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا تو اس نے یہ سوچ کر بس روک دی کہ یہ معمول کی چیکنگ ہے۔ مگر نامعلوم حملہ آوروں نے پہلے ڈرائیور کو گولی ماری اور اس کے بعد بس کے اندر گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ ان دہشت گردوں نے اس بزدلانہ کارروائی سے پہلے باقاعدہ ریکی بھی کی تھی اور یہ کہ حملہ آور پہلے سے ایک عمارت میں روپوش تھے۔
اس مسافر بس میں سوار اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے 60سے زیادہ افراد اسکیم 33کے علاقے الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی طرف جارہے تھے۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جنہیں قریب ہی واقع میمن اسپتال پہنچادیا گیا۔ زخمیوں میں سے متعدد افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس موقع پر بس کے ڈرائیور نے بڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ حالاں کہ وہ خود بھی گولیوں کا نشانہ بنا تھا اور بری طرح زخمی تھا، مگر اس نے اس حالت میں بھی اپنی ڈرائیونگ سیٹ نہ چھوڑی اور بس کو چلاتا ہوا قریب ہی واقع میمن میڈیکل اسپتال تک لے گیا، تاکہ زخمیوں کا علاج کیا جاسکے۔
اس سنگین واقعے نے اہل کراچی کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس صبح کو کچھ لوگ اپنے دفتروں کے لیے رواں دواں تھے اور بعض جانے کی تیاری کررہے تھے کہ انہیں مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے اس دہشت ناک واقعے کی خبر ملی تو وہ سن ہوکر رہ گئے۔
کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے، کیسے ہوا ہے، یہ وحشیانہ کارروائی کس نے کی ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے ذرائع سے اس واقعے کی تصدیق کرنے کی کوشش کررہے تھے، مگر تفصیل معلوم نہیں ہوپارہی تھی۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اس سانحے پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ سے اس واقعے کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور انہوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، مگر اس وقت تک حملہ آور خون کی یہ ہولی کھیلنے کے بعد بڑے اطمینان کے ساتھ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا ہر بار ہی ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد پہلے سے اپنا پورا ایکشن پلان ترتیب دے کر آتے ہیں کہ انہیں کہاں کیا کرنا ہے اور پھر کس طرح بچ نکلنا ہے اور ایسا ہی اس مرتبہ بھی ہوا۔ اتنے سارے لوگوں کو موت کی نیند سلانے کے بعد نامعلوم حملہ آور ایک بار پھر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم اس وقت پولیس نے اس پورے علاقے کو گھیرے میں لینے کے بعد گھر گھر تلاشی کا کام اس امید پر شروع کردیا ہے کہ شاید حملہ آوروں میں سے کوئی یہاں چھپا ہوا ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس موقع پر فوری حرکت میں آئے، انہوں نے اس واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی کسی منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے اور حملہ آور پہلے سے ہی گھات لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ''حملہ'' کس کارروائی کا رد عمل ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کراچی میں امن قائم کرکے رہیں گے اور اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم دہشت گردی کے اس واقعے کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور جلد ہی قاتلوں کو بے نقاب کرکے رہیں گے۔
واضح رہے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ اسلام آباد میں ہیں اور جلد کراچی آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے سیکیورٹی لیپس کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا اس بس کے لیے ہم سے سیکیورٹی مانگی گئی تھی یا نہیں۔ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو ہم اسے بھی دیکھیں گے اور جلد ہی اس حوالے سے تمام حقائق عوام کے سامنے لائیں گے۔
انہوں نے اس ریجن کے ڈی آئی جی سے تین دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے تمام ہلاک شدگان کو پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ پانچ لاکھ روپے دینے سے متاثرہ خاندان کے مرنے والے فرد کی جان کا ازالہ ہوجائے گا؟ کیا وہ ایک بار پھر اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا بیوی بچوں کے ساتھ ہوگا؟ کیا یہ روپے اس کی جان کا بدل ہوسکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ایسے ہر سنگین واقعے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں، مگر کسی کے پاس بھی ان کا جواب نہیں ہے۔
ابھی تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی گروہ کی طرف سے اس حوالے کوئی بیان آیا ہے۔ مگر یہ معلوم ہوا ہے کہ جس جگہ یہ افسوس ناک سانحہ پیش آیا، وہاں سے ایک کالعدم تنظیم کے پمفلٹ ملے ہیں۔
کیا اس بزدلانہ کارروائی میں اسی تنظیم کا ہاتھ ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور ہے، اس کا جواب کون دے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا، مگر فی الحال تو 43قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور کچھ پتا نہیں کہ اتنے سارے لوگوں کی ہلاکت کے پیچھے کون ہے۔
اسماعیلی برادری ایک امن پسند برادری ہے۔ اس برادری کے لوگ نہ تو کسی جھگڑے میں پڑتے ہیں اور نہ کسی بھی معاملے پر دوسروں سے خواہ مخواہ الجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ امن پسند لوگ اپنے فرائض پوری دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور صوبے اور ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نہ جانے نامعلوم دہشت گردوں کو ان سے ایسی کیا دشمنی تھی کہ جس کے لیے انہوں نے ان امن پسند لوگوں کی جانیں لینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہ قتل 43افراد کا نہیں، بل کہ 43 خاندانوں کا ہے، شقی القلب لوگوں نے 43 خاندانوں کو زندگی بھر کے غم سے دوچار کردیا۔
اس سانحے پر ہر دل غم سے نڈھال ہے، ہر آنکھ میں آنسو ہیں، ہر ذہن سوال کر رہا ہے کہ دہشت کی یہ وارداتیں، وحشت کی یہ گھاتیں کب تک جاری رہیں گی، زندگی کے قافلے کب تک لٹتے رہیں گے، ہماری دھرتی کب تک خون سے سُرخ ہوتی رہے گی، کب تک۔۔۔؟
وہ گھر سے نکلے تھے تو کب جانتے تھے کہ اب کبھی واپسی نہ ہوگی، جانے کس نے کیا وعدہ کیا ہوگا، کس نے کیا ارادہ باندھا ہوگا۔
سڑک پر دور تک پھیلی روشن دھوپ میں، جو خون میں نہلادی گئی، زندگی کی تابندگی تھی، کسی اندیشے کا سایہ دور دور تک نہ تھا، تو واپسی کی امید کیوں نہ ہوتی۔ مگر اس ملک کے شہری اس شہر کے باسی کتنی ہی قیامتیں جھیل جانے کے باوجود بھول جاتے ہیں کہ وہ جہاں رہتے ہیں وہاں جنگل کا راج ہے، اور جنگل میں تو بس بھوک مٹانے کے لیے خون بہایا جاتا ہے۔ انتقام اور زن، زر، زمین کے جھگڑے تو بستیوں کا چلن ہیں، جنگل میں شکار کا جواز بس بھوک ہے۔
انھیں بھی لگتا تھا کہ وہ ان بستیوں میں رہتے ہیں جہاں کسی کے قتل کا کوئی جواز ہوتا ہے، ''ہماری کسی سے کیا دشمنی''۔۔۔۔ارے بابا! تم جنگل میں رہتے ہو، خوں آشاموں کے نرغے میں ہو، تم پر ہزاروں سال پَرے کے وہ زمانے مسلط ہیں جب دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ سو تمہارا خون بہادیا گیا، ان کے لیے تو خون بہانا عبادت ہے، کسی کی جان کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس کے خون سے ''فلاں'' عقیدے کی مہک آتی ہے، اس کا جسم فلاں مسلک کی مٹی سے بنا ہے۔
وحشیوں، درندوں، جنونیوں سے کیسا شکوہ، سوال تو یہ ہے کہ محافظ کہاں ہیں؟
گذشتہ روز کراچی میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی اور اس کی سڑکوں کو انسانی لہو سے سرخ کردیا گیا۔ یہ افسوس ناک واقعہ صبح لگ بھگ ساڑھے نو بجے اس وقت پیش آیا جب اسماعیلی برادری کی ایک مسافر بس صفورا چورنگی سے عائشہ منزل کی طرف جارہی تھی۔
اس بس میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 60افراد سوار تھے۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہ دہشت گرد ان کی تاک میں ہیں اور کچھ ہی دیر بعد یہ جگہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھے گی۔ یکایک تین موٹر سائیکلیں نمودار ہوئیں جن پر سوار نامعلوم دہشت گردوں نے بس پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں آخری خبریں ملنے تک 44افراد جاں بہ حق ہوگئے اور کم وبیش 8زخمی ہوئے۔
اس موقع پر آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے جائے حادثہ کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد چھے تھی جنھوں نے بس کو روکنے کے بعد پہلے اس کے ڈرائیور کو گولی ماری، اس کے بعد وہ نہایت اطمینان سے بس میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کردی۔ غلام حیدر جمالی نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے دوران نائن ایم ایم پستول استعمال کیے تھے۔
مگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چھے نہیں تھی، بل کہ یہ 12تھے جن میں سے تین نے تو پولیس کی وردی پہن رکھی تھی اور یہی چیز بس ڈرائیور کے لیے غلط فہمی کا باعث بنی۔ جب پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا تو اس نے یہ سوچ کر بس روک دی کہ یہ معمول کی چیکنگ ہے۔ مگر نامعلوم حملہ آوروں نے پہلے ڈرائیور کو گولی ماری اور اس کے بعد بس کے اندر گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ ان دہشت گردوں نے اس بزدلانہ کارروائی سے پہلے باقاعدہ ریکی بھی کی تھی اور یہ کہ حملہ آور پہلے سے ایک عمارت میں روپوش تھے۔
اس مسافر بس میں سوار اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے 60سے زیادہ افراد اسکیم 33کے علاقے الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی طرف جارہے تھے۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جنہیں قریب ہی واقع میمن اسپتال پہنچادیا گیا۔ زخمیوں میں سے متعدد افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس موقع پر بس کے ڈرائیور نے بڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ حالاں کہ وہ خود بھی گولیوں کا نشانہ بنا تھا اور بری طرح زخمی تھا، مگر اس نے اس حالت میں بھی اپنی ڈرائیونگ سیٹ نہ چھوڑی اور بس کو چلاتا ہوا قریب ہی واقع میمن میڈیکل اسپتال تک لے گیا، تاکہ زخمیوں کا علاج کیا جاسکے۔
اس سنگین واقعے نے اہل کراچی کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس صبح کو کچھ لوگ اپنے دفتروں کے لیے رواں دواں تھے اور بعض جانے کی تیاری کررہے تھے کہ انہیں مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے اس دہشت ناک واقعے کی خبر ملی تو وہ سن ہوکر رہ گئے۔
کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے، کیسے ہوا ہے، یہ وحشیانہ کارروائی کس نے کی ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے ذرائع سے اس واقعے کی تصدیق کرنے کی کوشش کررہے تھے، مگر تفصیل معلوم نہیں ہوپارہی تھی۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اس سانحے پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ سے اس واقعے کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور انہوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، مگر اس وقت تک حملہ آور خون کی یہ ہولی کھیلنے کے بعد بڑے اطمینان کے ساتھ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا ہر بار ہی ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد پہلے سے اپنا پورا ایکشن پلان ترتیب دے کر آتے ہیں کہ انہیں کہاں کیا کرنا ہے اور پھر کس طرح بچ نکلنا ہے اور ایسا ہی اس مرتبہ بھی ہوا۔ اتنے سارے لوگوں کو موت کی نیند سلانے کے بعد نامعلوم حملہ آور ایک بار پھر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم اس وقت پولیس نے اس پورے علاقے کو گھیرے میں لینے کے بعد گھر گھر تلاشی کا کام اس امید پر شروع کردیا ہے کہ شاید حملہ آوروں میں سے کوئی یہاں چھپا ہوا ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس موقع پر فوری حرکت میں آئے، انہوں نے اس واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی کسی منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے اور حملہ آور پہلے سے ہی گھات لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ''حملہ'' کس کارروائی کا رد عمل ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کراچی میں امن قائم کرکے رہیں گے اور اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم دہشت گردی کے اس واقعے کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور جلد ہی قاتلوں کو بے نقاب کرکے رہیں گے۔
واضح رہے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ اسلام آباد میں ہیں اور جلد کراچی آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے سیکیورٹی لیپس کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا اس بس کے لیے ہم سے سیکیورٹی مانگی گئی تھی یا نہیں۔ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو ہم اسے بھی دیکھیں گے اور جلد ہی اس حوالے سے تمام حقائق عوام کے سامنے لائیں گے۔
انہوں نے اس ریجن کے ڈی آئی جی سے تین دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے تمام ہلاک شدگان کو پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ پانچ لاکھ روپے دینے سے متاثرہ خاندان کے مرنے والے فرد کی جان کا ازالہ ہوجائے گا؟ کیا وہ ایک بار پھر اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا بیوی بچوں کے ساتھ ہوگا؟ کیا یہ روپے اس کی جان کا بدل ہوسکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ایسے ہر سنگین واقعے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں، مگر کسی کے پاس بھی ان کا جواب نہیں ہے۔
ابھی تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی گروہ کی طرف سے اس حوالے کوئی بیان آیا ہے۔ مگر یہ معلوم ہوا ہے کہ جس جگہ یہ افسوس ناک سانحہ پیش آیا، وہاں سے ایک کالعدم تنظیم کے پمفلٹ ملے ہیں۔
کیا اس بزدلانہ کارروائی میں اسی تنظیم کا ہاتھ ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور ہے، اس کا جواب کون دے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا، مگر فی الحال تو 43قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور کچھ پتا نہیں کہ اتنے سارے لوگوں کی ہلاکت کے پیچھے کون ہے۔
اسماعیلی برادری ایک امن پسند برادری ہے۔ اس برادری کے لوگ نہ تو کسی جھگڑے میں پڑتے ہیں اور نہ کسی بھی معاملے پر دوسروں سے خواہ مخواہ الجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ امن پسند لوگ اپنے فرائض پوری دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور صوبے اور ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نہ جانے نامعلوم دہشت گردوں کو ان سے ایسی کیا دشمنی تھی کہ جس کے لیے انہوں نے ان امن پسند لوگوں کی جانیں لینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہ قتل 43افراد کا نہیں، بل کہ 43 خاندانوں کا ہے، شقی القلب لوگوں نے 43 خاندانوں کو زندگی بھر کے غم سے دوچار کردیا۔
اس سانحے پر ہر دل غم سے نڈھال ہے، ہر آنکھ میں آنسو ہیں، ہر ذہن سوال کر رہا ہے کہ دہشت کی یہ وارداتیں، وحشت کی یہ گھاتیں کب تک جاری رہیں گی، زندگی کے قافلے کب تک لٹتے رہیں گے، ہماری دھرتی کب تک خون سے سُرخ ہوتی رہے گی، کب تک۔۔۔؟