کتاب کلچر اور نیشنل بک فائونڈیشن
ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو انھوں نے غریب اور پسے ہوئے طبقات میں شعور پیدا کرنا شروع کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو انھوں نے غریب اور پسے ہوئے طبقات میں شعور پیدا کرنا شروع کیا۔ ان کا مطمئہ نظر تھا کہ ہماری قوم کا ہر بچہ چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا، گاؤں کا ہو یا شہر کا بلاامتیاز تعلیم حاصل کر کے اپنے ٹیلنٹ اور محنت کے ذریعے دنیا میں اپنا نام پیدا کرے۔ اس سلسلے میں پورے ملک کے اندر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھنا شروع کیا جس کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے شہر میں لائبریریاں قائم کرنے کا پروگرام بنایا گیا تا کہ سب کتاب پڑھنے کی عادت اپنائیں۔
اس ضمن میں 1972ء میں ایک ایکٹ کے ذریعے نیشنل بک فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد تھا کہ وہ ٹیکسٹ بکس، ریفرنس بکس اور دوسرے اہم مضامین کی کتابیں چھپوا کر اسٹوڈنٹس اور دوسرے عام لوگوں کو کم ریٹ پر دی جائیں۔ یہ بھی طے ہوا کہ اچھے رائٹرز سے کتابیں لکھوائی جائیں جنھیں بہترین معاوضہ دیا جائے گا، جس سے نہ صرف ان کی معاشی مدد ہو گی بلکہ لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا مواد مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کتابیں دوسرے ملکوں کی ہیں اور وہ انگریزی میں لکھی ہوئی ہیں انھیں اردو اور دوسری علاقائی زبانوں میں ترجمہ کر کے مارکیٹ میں اور فاؤنڈیشن کی شاپ پر رکھا جائے جہاں سے لوگ انھیں سستے ریٹ پر خرید سکیں۔ مزید یہ بھی تھا کہ جو کتابیں نایاب ہیں ان کی دوبارہ اشاعت کا بندوبست کیا جائے جب کہ باہر ممالک سے بھی کتابیں منگوا کر انھیں تعلیمی اداروں کو مہیا کیا جائے اور عام آدمی کے لیے بھی دستیاب کیا جائے۔
اس ادارے کا مقصد یہ بھی ہے کہ نئے نئے لکھنے والے پیدا کیے جائیں اور ان سے اہم موضوعات پر لکھوا کر بک ٹریڈ کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں بک پبلشرز کی ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ کتاب پڑھنے اور خریدنے کے عمل کی ترغیب دینے کے لیے سیمینار، کانفرنسیں، ورک شاپس منعقد کی جاتی ہیں جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور ادیب کتاب کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہیں۔ جب کہ ہر سال دو مرتبہ فاؤنڈیشن والے مئی اور دسمبر کے مہینے میں کتابوں کی نمائش ملک کے کئی شہروں میں منعقد کرتے ہیں جہاں ہر کتاب خریدنے والوں کو 40 سے 45 فی صد ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری نمائشوں میں بھی جا کر بک اسٹال لگائے جاتے ہیں۔
فاؤنڈیشن جس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے اور باقی سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے کے کیپیٹل شہروں میں ان کے ریجنل آفسز ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی ریجنل آفیسرز اور سینٹرز کام کر رہے ہیں۔ سندھ میں کراچی کے علاوہ حیدرآباد، سکھر، خیرپور میرس، جیکب آباد میں سینٹرز اور شاپس کے طور پرکام کر رہے ہیں۔ جب کہ سندھ میں ٹریولر بک کلب اور شاپ کراچی ایئرپورٹ پر کام کر رہے ہیں جہاں سے کتابیں خریدی جا سکتی ہیں۔ اور اگر کوئی کتاب پڑھنا چاہے تو وہ بھی مل سکتی ہے۔ کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن پر بھی اس طرح کی سہولت دستیاب ہے۔ پورے سندھ میں 28 آؤٹ لِٹ ہیں جہاں پر کتابیں دستیاب ہیں۔ جب کہ باقی پاکستان میں لاہور، راولپنڈی، ملتان، وزیرآباد اور روہڑی کے ریلوے اسٹیشن پر بھی آپ کو یہ سہولتیں مل جائیں گی۔
کراچی کا ریجنل آفس پہلے لیاقت میموریل لائبریری میں قائم تھا جو اب اپنی نئی خوبصورت اور کشادہ عمارت میں وہیں پر شفٹ ہو گیا ہے۔ اس عمارت میں ایک اچھا آڈیٹوریم بنایا گیا ہے جہاں پر پروگرام کروائے جائیں گے مگر اس میں فرنیچر اور آڈیو، ویڈیو اور ایئرکنڈیشنز کی سہولت اس وقت دستیاب نہیں ہے، جو آنے والے بجٹ 2015-2016ء میں مل جائے گی۔ یہاں پر آنکھوں سے محروم لوگوں کے لیے جو کتابیں چھپتی ہیں ان کا بریل پریس لگایا گیا ہے جہاں پر اسٹوڈنٹس کے لیے ٹیکسٹ اور ریفرنس بکس چھپتی ہیں جس میں قرآن پاک بھی چھاپا جاتا ہے۔ بریل(Braille) پریس سے چھپی ہوئی کتابیں نابینا افراد کو پڑھانے والے اداروں کو صرف دس فی صد رقم وصول کر کے دی جاتی ہیں۔ یہ بریل پریس صرف کراچی اور لاہور میں ہیں اور 1979ء سے کام کر رہے ہیں۔
اس ادارے میں ہر جگہ پر بک شاپ ہوتی ہے جہاں پر مختلف مضامین اور پبلشرز کی چھپی ہوئی کتابوں کے ساتھ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی چھپی ہوئی کتابیں بھی دستیاب ہیں جو 33 فی صد ڈسکاؤنٹ پر عام آدمی کے لیے اور شاپ میں ریڈرز کلب کے ممبر کے لیے 55 فی صد تک رعایت میں مل جاتی ہیں۔ پڑھنے والوں کو سہولت دینے کے لیے دوسرے پبلشرز کی کتابیں بھی رکھی جاتی ہیں جس میں خاص طور پر سنگ میل پبلشر لاہور، الفیصل لاہور، انجمن ترقی اردو، اردو سائنس بورڈ حیدرآباد، ویلکم بک بورڈ کراچی، رائل بک کمپنی حیدرآباد شامل ہیں جب کہ مزید پبلشرز سے رابطے جاری ہیں۔
جب سے کراچی آفس کے محسن علی ناریجو نے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کا چارج سنبھالا ہے انھوں نے اس ادارے کو فعال بنانے میں میڈیا اور دوسرے اہم لوگوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ کچھ دن پہلے انھوں نے بک ڈے Celeberate کیا۔ میری جب ان سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کی طرف سے بنایا گیا Readers Club بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی ممبرشپ ہر پڑھنے والا دس روپے کا فارم لے کر سالانہ 100 روپے کی فیس ادا کر کے ممبر بن سکتا ہے جس کی میعاد جون کے مہینے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کلب کا ممبر پورے پاکستان میں فاؤنڈیشن کی شاپ اور دوسرے رجسٹرڈ پینل بک سیلر کی دکان سے کتاب 50 فی صد ڈسکاؤنٹ پر خرید سکتا ہے۔ اس وقت تک صرف کراچی میں 2500 ممبر بنے ہوئے ہیں جنھیں ممبر شپ کارڈ ایشو کیا گیا ہے۔
فاؤنڈیشن کی بک شاپس صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک کھلی رہتی ہیں جب کہ لوگوں کی سہولت کے لیے یہ شاپس ہفتے کو بھی صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ ناریجو صاحب سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ وہ لوگوں میں بک ریڈنگ اور کتابیں خریدنے کے سلسلے میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انھیں نیا بجٹ ملے گا وہ فاؤنڈیشن کے خالی پلاٹ پرکتابوں کا ہفتہ وار بازار، ہر اتوار کو لگوائیں گے۔ اس پلاٹ کے چاروں طرف مختلف اقسام کے پودے اور پھول بھی لگائے جائیں گے تا کہ آنے والے لوگوں کو اچھا ماحول مل سکے۔
اس کے علاوہ جس طرح اسلام آباد میں موبائل بک شاپ ایک وین کے ذریعے چلائی جاتی ہے اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ کراچی کے نواحی علاقوں میں جا کر لوگوں میں موبائل بک شاپ سروس شروع ہو، اس ضمن میں سندھ حکومت سے ایک وین کے حصول کے لیے درخواست کر چکے ہیں۔ اس موبائل بک شاپ کے ذریعے مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کو کرسی اور ٹیبل بھی مہیا کی جائے گی۔ اس سلسلے میں پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتوں نے وہاں پر فاؤنڈیشن کے ریجنل آفس کو وین دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔
اب ان کی نگاہیں حکومت سندھ اور بلوچستان کی طرف لگی ہوئی ہیں اور جیسے ہی یہ وین مل جائیں گی موبائل بک شاپ سروس شروع کر دی جائے گی تا کہ لوگوں کو کتابوں کی سہولت گھر کے دروازے پر بھی میسر ہو سکے کیونکہ کئی لوگ کتاب خریدنا اور پڑھنا چاہتے ہیں، مگر یہ سہولت انھیں اگر اپنے دروازے پر مل جائے گی تو وہ بہت خوش ہوں گے جس سے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔
اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، ہمیں لوگوں کے ذہنوں کو اچھی کتابوں سے بہتر بنانا ہو گا اور کتابوں کو لوگوں کی رسائی تک آنے کے لیے کتابوں کی قیمتیں مزید کم کرنا ہوں گی، جس کے لیے حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کو مزید کچھ بہتر اسکیمیں اناؤنس کرنی ہوں گی۔ خاص طور پر سندھ حکومت کے ادارے جن میں کلچر ڈیپارٹمنٹ، سندھی ادبی بورڈ، سندھی لینگویج اتھارٹی، سندھیالوجی انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں، انھیں پرانی کتابوں کو دوبارہ شایع کروانا ہو گا اور نئی کتابیں لانے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ ادارہ جو کیبنٹ ڈویژن پاکستان کے تحت کام کر رہا ہے جس کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق ہیں جو ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آنے والے نئے بجٹ میں اس ادارے کو مزید فعال بنانے کے لیے حکومت زیادہ فنڈز مہیا کرے گی تا کہ جو بھی ضروریات ہیں وہ پوری ہو سکیں اور ہم ایک پڑھا لکھا، پر امن معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔