لہو کب پکارے گا

ہر آنکھ پرنم ہے، دہشتگردی کی ایک پرخوں واردات نے مکمل امن کے امکانات پر شب خون ماردیا


Editorial May 14, 2015
کیا استدلال، مکالمہ، تدبر اورعلمی مباحث کے مزید جنازے اٹھیں گے؟آستینوں کا لہو کب پکارے گا؟

کراچی بیگناہوں کے خون ناحق پر پھر سے سوگوار ہوگیا ہے۔ ہر آنکھ پرنم ہے، دہشتگردی کی ایک پرخوں واردات نے مکمل امن کے امکانات پر شب خون ماردیا جس کے بعد یاسیت ،خوف و سراسیمگی اور بے یقینی کے کالے بادل منی پاکستان پر پھر سے منڈلانے لگے ہیں ۔

بدھ کی صبح ساڑھے نو بجے کراچی کے علاقے صفورہ چوک یونیورسٹی روڈ پر چار موٹر سائیکلوں پر سوار تقریبا 8 مسلح دہشت گردوں نے ایک کمیونٹی بس پر سوار45 افراد کو ہلاک جب کہ متعدد کو شدید زخمی کردیاجس میں کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی، ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس بہیمانہ واردات میں کلاشنکوف اور نائن ایم ایم پستول استعمال ہوئے، قاتل حسب دستور موقع سے فرار ہونے کے بعد زیر زمین چلے گئے یا انھیں آسمان نے نگل لیا خدا بہتر جانتا ہے، تاہم اس واردات کی سنگینی چشم کشا ہے، بس مسافروں کو نشانہ بنانے کی اکثر وارداتیں بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہوتی رہی ہیں جن میں غیر بلوچوں کو چن چن کر ماراگیا،جب کہ وہ اہل علم اور بیگناہ محنت کش تھے۔

اس سفاکانہ ٹرینڈ کا کراچی میں ظہور اپنے عالمی مضمرات سے خالی نہیں، دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کے پیش نظر سیکیورٹی حکام کو اپنی دہشت گردی مخالف حکمت عملی کو مزید نتیجہ خیز بنانا پڑیگا، انٹیلی جنس شیئرنگ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطے اور تھانوں کی سطح پر ریڈ الرٹ سے گریز یا تساہل کا نتیجہ قاتلوں کے حق میں جاتا ہے ورنہ صفورہ چوک کوئی ویران علاقہ یا جنگل جزیرہ نہیں کہ اتنی بڑی واردات صبح کو ہو اور تمام ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوجائیں۔

اس لیے اشد ضروری ہے کہ پہلے تو اس الم ناک واردات کے تمام ماسٹر مائنڈز اور ان کے کارندے فوری طور پر گرفتار کیے جائیں، انھیں اسی سرعت اور مستعدی و شفافیت کے ساتھ قانون کے آہنی شکنجہ میں جکڑا جائے جس طرح پولیس و رینجرز نے اب تک لاتعداد کرمنلز کو حراست میں لیا ہے اور بعض ہارڈ کور قانون شکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بے لگام انتہا پسندی اور بربریت کی حالیہ وارداتیں اس شہر قائد میں ہوئی ہیں جہاں دہشت گردمافیاؤں کے کئی چہرے، لاتعداد روٹس،بیشمار سرپرست اور ان گنت سیف ہیونز ہیں، نیز مصلحتوں کی دبیز سیاسی و اشرافیائی چادروں میں لپٹے ایسے نوسرباز اور جمہوریت بیزار عناصر چھپے ہوئے ہیں جنھیں اپنے 'ان ٹچ ایبل ' ہونے کا زعم ہے ۔

واضح رہے 29 اپریل2015 کو کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی آپریشن جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ تمام مافیاز کے خاتمے کا عمل جاری رہیگا۔ سو اس تناظر میں اسماعیلی کمیونٹی بس پر حملہ جن عناصر نے کیا ہے وہ بہرطور امن دشمن تھے اور انسانیت سے انھیں کوئی پیار نہ تھا، وہ انتقامی وحشیانہ کلچر اور اپنے خود ساختہ ایجنڈے کو ملک پر مسلط کرنے کے جنوں میں بیگناہوں کی ہلاکت پر کمر بستہ ہیں ۔ ریاستی رٹ چیلنج کرتے ہیں۔

کراچی کو ان ہی وارداتوں کے باعث عالمی میڈیا دنیا کا خطرناک شہر قرار دینے لگا ہے جہاں پانی و بجلی سے محروم شہری خوف و ہراس میں رہتے ہیں، دو کروڑ کی آبادی کا شہر جس قسم کے شفاف انتظامی سسٹم کا تقاضہ کرتا ہے اس حوالہ سے بوجوہ کوتاہی ہوئی ہے، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے واقعہ کا فوری نوٹس لینا جب کہ متعلقہ تھانیداروں کا احتساب اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قاتلوں کی جلد گرفتاری کی ہدایت کافی نہیں بلکہ مافیاؤں کے اصل نیٹ ورک کا زور توڑا جائے۔

اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ دہشت گرد اپنی حکمت عملی میں قانون نافذ کرنے والوں سے ٹائمنگ اور اٹیک میں سبقت کیسے لے جاتے ہیں اور گولیوں کی زبردست ترتڑاہت اور ہولناک واردات کے ساتھ ہی اٹھنے والے شور و بھگدڑ میں مسلح افراد ہر قسم کے تعاقب سے کیسے بچ نکلتے ہیں ؟دوسری جانب اس اجتماعی قتل و غارتگری کا افسوسناک انسانی پہلو یہ ہے کہ ملک میں رونما ہونے والے دیگر دلگداز واقعات کی طرح صفورہ چوک پر بس کے جن مسافروں کو قتل کیا گیا وہ بھی جرم بیگناہی میں لقمہ اجل بن گئے، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے میگا سٹی کی تاریک راہوں میں مارے گئے یہ چھوٹے کاروباری گھرانوں سے متعلق کمیونٹی کے لوگ تھے۔

بس میں مرد ،خواتین اور معصوم بچے بھی سوار تھے، ایک مرنجان مرنج اور بے ضرر کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا جو تعلیم و صحت کے شعبے میں خدمات کا بیش بہا خاموش ریکارڈ رکھتی ہے ناقابل معافی جرم ہے، شواہد بتاتے ہیں کہ بس رکوائی گئی اور ٹارگٹ کلرز اندر داخل ہوکر مسافروں کو ہلاک کرتے رہے جب کہ ایک انگریزی معاصراخبار کی ابتدائی اطلاع میں ایک سینئر پولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ قاتلوں نے بس میں جاکر مسافروں کے سروں پر گولیاں ماریں اور پھر سیٹ پر جاکر اس امر کا بھی یقین کرلیا کہ کوئی زندہ تو نہیں بچ گیا۔

بس الاظہر کالونی کے ویلفیئر بورڈ کی ملکیت ہے جس میں 60 کے لگ بھگ افراد تھے جو ریگولر روٹ پر ہمیشہ کی طرح الاظہر سے عائشہ منزل کی طرف سفر کررہی تھی۔ بلاشبہ اس سانحے پر کئی سازشی تھیوریز گردش میں ہوں گی، بعض حلقے اسے وزیراعظم کے حالیہ دورہ افغانستان کا رد عمل بھی کہہ سکتے ہیں، اسی نوعیت کی کارروائی طالبان کالاش اور چترال میں کرچکے ہیں اور ان واقعات کی ذمے داری بھی قبول کرچکے ہیں۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ منصوبہ سازوں نے اس کی ریکی کی ہو اور ملک میں ہونے والے واقعات سے توجہ ہٹانے کے لیے اسے ٹارگٹ کیا ہو۔

لہٰذا یہ واردات ایک ایسے وسیع المشرب ، وفا کیش ، سلیم الطبع پر امن اور بندہ نواز زندہ و متحرک شہر کے قتل گاہ میں ڈھلنے کا نوحہ ہے جسے روشنیوں کا شہر کہنے والے اب ''شکاریوں کا شہر'' کہنے پر مجبور ہوگئے۔ دنیا کا کوئی امن پسند انسان اس قسم کے ظلم اور بلا جواز قتل و غارت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ایک دانشور کا قول ہے کہ ''دنیا میں ابھی تک ایسا کوئی وسیع و عریض پرچم نہیں بنا ہے جو بیگناہ انسانوں کے قتل کی شرمناکی کو ڈھانپ سکے۔''

چنانچہ ہر محب وطن کراچی کے اس سانحے پر رنجیدہ اور غمزدہ ہے۔ تاہم اس واقعے کے عالمی اثرات و مضمرات سے ارباب اختیار کسی قسم کا تجاہل عارفانہ نہ برتیں،دہشتگردوں نے ریاست اور کراچی سمیت ملک کے تمام محب وطن اور امن پسند شہریوں کو للکارا ہے،ان دہشت گردوں نے کمال سفاکی کے ساتھ وقفہ وقفہ سے پروین رحمن، راشد رحمن ، وحیدالرحمن ، سبین محمود کو موت کی ابدی نیند سلا دیا، امریکی نژاد پروفیسرڈیبرا لوبو پر حملہ کر کے اسے شدید زخمی کیا اور اب ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر برنارڈ ایل ڈین پاکستان چھوڑنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد ملک سے جا رہی ہیں۔

یوں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قحط الرجال کے بعد اہل وطن اب قہر الرجال کا نشانہ بنیں گے؟ کیا استدلال، مکالمہ، تدبر اورعلمی مباحث کے مزید جنازے اٹھیں گے؟آستینوں کا لہو کب پکارے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔