تماشہ میرے آگے

پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے اس خطے کی روایات کا حصہ ہیں۔


Muqtida Mansoor May 14, 2015
[email protected]

بات چند درجن،چند سو یا چند ہزار تک ہوتی توشاید سمجھ میں آجاتی۔ مگر لوئر دیرمیںصوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے دوران ایک بھی خاتون اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے نہیں آسکی، یہ کیسے ممکن ہے؟ بغیر کسی باہمی طے شدہ معاہدے کے یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں ہے۔خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بے تکے جوابات دے کر صورتحال کو مزید مضحکہ خیزبنا دیا گیا ہے۔

یعنی کامیاب ہونے والی مذہبی جماعت نے یہ جواز پیش کیا کہ خواتین گھریلوکاموں میں اس قدرمحوو مصروف تھیں کہ انھیں اپنا ووٹ ڈالنے کی فرصت نہیں مل پائی۔یہ ایک ایسا عذر لنگ ہے، جو اس جماعت سے عقیدت رکھنے والوں کے سوا کسی بھی شخص کے حلق سے نہیں اترسکتا۔ جب کہ دوسری طرف ایک جماعت کے رہنماء نے کم ازکم اتنا سچ تو بول دیا کہ ہمارے علاقے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی روایت نہیں ہے ،لیکن یہ جملے اس جماعت کے رہنماء کے تھے، جو روشن خیالی اور خواتین حقوق کی بلند آہنگ دعویدار ہے۔

پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے اس خطے کی روایات کا حصہ ہیں۔ جو اب ذرایع ابلاغ کی مستعدی اور سول سوسائٹی کی فعالیت کے باعث منظر عام پر آرہے ہیں۔ مگر حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی منصوبہ سازوں کے دہرے معیار اور شہریوں کے حقوق پر متضاد رویوں کے باعث یہ امتیازی سلوک تاحال جاری ہیں۔اس حوالے سے ان چند واقعات کا نقل کیا جانا ضروری ہے، جن کا راقم نے خود تسلسل کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کیا۔

پہلاواقعہ 2000کا ہے، جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے قائم کردہ NRB نے مقامی حکومت کا ایک نظام متعارف کرایا تھا۔جس میں خواتین سمیت محنت کشوں اور غیر مسلموں کے لیے یونین کونسل سے ضلع کونسل تک نشستیں مختص کی گئی تھیں۔

اس نظام کو عوامی سطح پر متعارف کرانے اور اس کے بارے میں شعوروآگہی پھیلانے کی خاطر چند سماجی تنظیموں نے DRCEPکے نام سے اتحاد قائم کیا اور ملک بھر میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔

اس دوران اطلاع ملی کہ خیبر پختونخواہ، شمالی بلوچستان اور مغربی پنجاب کے بعض اضلاع میں خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے علاوہ انھیں رائے دہی کے حق سے بھی محروم کرنے کے لیے مقامی قیادتوں نے ایک تحریری معاہدہ کیا ہے۔جس پرمذہبی جماعتوں کی قیادتوں کے علاوہ ان جماعتوں کی مقامی قیادتوں نے بھی دستخط کیے ہیں، جو روشن خیالی کی دعویدارہیں۔ان معاہدوں کی نقول حاصل کرنے کے بعد انھیں متعلقہ انتظامی حکام اور الیکشن کمیشن تک پہنچایا گیا۔ مگرکسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔

اسی نوعیت کی شکایات 2002 ،2008اور2013 کے عام انتخابات میں بھی سامنے آئیں۔جنھیں پریس کانفرنسوں کے ذریعے منظر عام پر لانے کے علاوہ متعلقہ حکام کو ان معاہدوں کی نقول بھیجی گئیں، مگر نتیجہ ایک بار پھر بے سود رہا۔جوتحریری معاہدے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے، وہ پنجاب میں میانوالی،خوشاب اور اٹک اضلاع کے بعض حلقوں کے تھے۔ خیبر پختونخواہ میںبنوں، اس سے ملحقہ FR،صوابی، مالاکنڈ ڈویژن اورکوہستان کے علاقوںمیں کیے گئے تھے۔

جب کہ 2013 کے عام انتخابات میں کراچی کی ان کچی بستیوں میںجہاں طالبان کا اثر ونفوذ بڑھ چکا ہے، خواتین کو ووٹ دینے نہیں دیا گیا۔ جس کی رپورٹنگ ذرایع ابلاغ میں بھی ہوئی، مگر کسی بھی ریاستی ادارے نے اس پر کان نہیں دھرا۔ حالانکہ اس قسم کے اقدامات آئین شکنی کے زمرے میں آتے ہیں،جن کے مرتکب پر آئین کے آرٹیکل6کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ مگر وطن عزیزان واقعات کو نظر اندازکیا جانا عام سی بات ہے۔

اب ذرا خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پربھی گفتگو کرلی جائے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ پاکستانی معاشرہ قبائلی،جاگیردارانہ اور برادری کلچر میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، جہاں عورتوں کو مساوی شہری حقوق دینا تو دور کی بات زر اور زمین کی طرح ذاتی ملکیت تصور کیاجاتا ہے۔اس لیے ان کے مقدرکا فیصلے کا اختیار بھی مردوں کو حاصل ہوتا ہے۔

وہ اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں رائے دہی کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی خاندانی، مقامی یا کسی قومی معاملے میں اس کی رائے لی جاتی ہے۔اسے وہی کرنا ہے، جس کا فیصلہ اس کے خاندان کے بزرگ، برادری یا قبیلے کے بڑے کریں۔وہ چاہیں تو کم سنی کے باوجود اس کا نکاح ایک60سالہ بوڑھے سے پڑھوا دیں، وہ چاہیں تو اسے کاری قراردے کر قتل کردیں اور پھر عام قبرستان میں اس کی تدفین بھی نہ ہونے دیں۔مگر اسے احتجاج کا حق حاصل نہیں ہے۔

اس حوالے سے بھی چند واقعات قارئین کی نذر ہیں۔یہ1994 کی بات ہے خیبر پختونخواہ کے ایک معروف سیاسی وکاروباری خاندان کی دوشیزہ نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کیپٹن کے ساتھ پسند کی شادی کرلی۔لڑکی کے خاندان والوں کویہ رشتہ قبول نہ تھا۔بلکہ اسے انھوں نے اپنی خاندانی عزت پر حملہ تصورکیا۔لڑکی کی والدہ نے انتقاماً اپنی بیٹی اور داماد کو قتل کرانے کے لیے چند پیشہ ور قاتلوںکو استعمال کیا۔قاتلوں نے اس جوڑے پر اس وقت حملہ کیا جب یہ حقوق انسانی کی سرگرم کارکن خاتون وکیل کے دفتر سے باہر نکل رہاتھا۔

حملے میں لڑکازخمی ہوا، مگردوشیزہ جاں بحق ہوگئی۔بیرسٹراقبال حیدر مرحوم جو اس زمانے میں سینیٹراور وفاقی وزیر قانون تھے، سینیٹ میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف بل پیش کیا۔ان دنوںسینیٹ66 اراکین پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔اس بل کی حمایت صرف دو اراکین یعنی پیپلز پارٹی کے بیرسٹراعتزاز احسن اور ایم کیو ایم کے جمیل الدین عالی نے کی۔جب کہ بقیہ63 اراکین نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ یہ ان کی سماجی روایات کے خلاف تھا۔اس صورتحال کا مزید پہلو یہ ہے کہ مخالفت کرنے والوں میں ایک معروف ترقی پسند رہنماء بھی شامل تھے۔

2009 میںبلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں7لڑکیوں کو زندہ جلادیا گیا۔اس واقعے کی بازگشت قومی اسمبلی اورسینیٹ میں گونجی۔ایک فاضل رکن نے مذمتی قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے اسے قبائلی روایات کا حصہ قراردیا۔ کچھ روز بعد انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔اسی طرح شمالی سندھ کے ایک بڑے قبائلی سردار اور جاگیردار نے اپنے علاقے کی ایک لڑکی کوپسند کی شادی کرنے پر کاری قرار دے کر قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔

اس رکن اسمبلی کو تعلیم کی وزارت دی گئی۔خواتین کو کاری قرار دے کر قتل کردینا۔ ونی کے نام پر انھیں قبائلی مصالحت کے نام پر دوسرے قبیلے کے حوالے کردینا ۔ان کی مرضی جانے بغیر انھیں شادی جیسے بندھن میں باندھ دینا۔ہمارے معاشرے میں عام سی بات ہے۔ لیکن انھیں ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا اور ان جماعتوں کی جانب سے جو ملک کے دیگر حصوں میں خواتیں کو اپنے حق میں متحرک کرنے کا کوئی لمحہ ضایع نہیں ہونے دیتیں، خاصا معنی خیز رویہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا روایات کو بنیادی انسانی حقوق پر فوقیت دی جاسکتی ہے؟جب کہ ماہرین قانون (Jurists) کاکہنا ہے کہ کوئی سماجی روایت اگر آئین کی شقوں سے متصادم ہے، توروایت کا نہیں، آئین اورقانون کا احترام اور پاسداری مقدم ہے۔لہٰذا یہ طے ہے کہ کسی بھی سماجی،ثقافتی یا مقامی روایت کوآئین وقانون پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جوجماعتیںخیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع یا تحصیلوں میں خواتین کے حق رائے دہی کو سلب کرنے کے لیے معاہدے کرتی ہیں۔ وہ سندھ اور میں خواتین کو اپنے حق میں مجتمع کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسے کرتی ہیں۔خاص طورپر جماعت اسلامی نے سندھ اور پنجاب کے شہروں میں خواتین کے کئی بڑے اور قابل ذکر جلسے کیے اور انھیں اپنے حق میںووٹ ڈالنے کے لیے موبلائز کیاہے۔یہی معاملہ تحریک انصاف کا ہے، جو خواتین کوسیاسی طور پر متحرک اور فعال کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔مگر لوئر دیر کے ضمنی انتخابات میں خواتین کی عدم شرکت پر مجرمانہ خاموشی اختیارکیے ہوئے ہے۔

جہاں تک عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، تو ان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ روشن خیالی اور خواتین حقوق کی سب سے بڑی چیمپئن ہیں۔لیکن لوئر دیر کے متذکرہ بالا حلقے کی 47 فیصد آبادی کوحق رائے دہی سے محروم کیے جانے پرخاموش ہیں۔وہ میڈیاجس نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، حقوق انسانی کی اس بد ترین خلاف ورزی پر چپ سادھے بیٹھا ہے۔دراصل پاکستانی معاشرہ بدترین قسم کی قبائلیت، جاگیردارانہ کلچر اور برادری سسٹم کے چنگل میں پھنسا ہواہے۔بلوچستان (کیچ ومکران کو چھوڑکر)اورخیبر پختونخواہ جہاں قبائلیت میں جکڑے ہوئے ہیں، وہیں دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب پر فیوڈلزکی مضبوط گرفت ہے۔

وسطی اور مغربی پنجاب کی سیاست پر (ڈاکٹر ظہوراحمد چوہدری کی تحقیق کے مطابق) برادریوں کے گہرے اثرات ہیں۔ ایک ایسی صورت حال میں خواتین کے مساوی انسانی حقوق کی بات کرنا گوکہ عبث ہے،لیکن آئین پر حقیقی عملدرآمد کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن لوئر دیر میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اس ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کرائے اور انتظامیہ کو پابند کرے کہ وہ خواتین کے حق رائے دہی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے گی۔یہی وہ واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعے خواتین سمیت معاشرے کے محروم طبقات کو حقوق دلائے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔