حکومت ابھی نہیں جائے گی
کیا کوئی اندر کا خوف ہے یا کسی نجومی اور صاحب کشف نے ڈرا دیا ہے اس بارے میں باہر کا کوئی آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔
ISLAMABAD:
کچھ معلوم نہیں کہ ان دنوں اچانک ایسی خبریں کیوں چھپنی شروع ہو گئی ہیں کہ یہ حکومت مضبوط ہے اور اپنی مقررہ میعاد پوری کرے گی باوجود اس کے کہ حکومت نے نااہلی کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں مگر اس کے اقتدار سے محرومی کے آثار نہیں ہیں اور یہ حکومت اپنی انتخابی مدت پوری کر کے ہی جائے گی یا پھر لوٹ آئے گی۔
میں اس حکومت کے رہنے نہ رہنے کے اسباب بیان کرنا نہیں چاہتا سوائے اس خواہش کے کہ حکومت کا دوسرا ستون میرے خیال میں بڑی حد تک نیک نیت ہے اور اس کی جیب اتنی بھر چکی ہے کہ اس میں مزید گنجائش نہیں ہے اس لیے اس دوسرے ستون کی موجودگی کسی حد تک وجہ اطمینان ہے ویسے ملک میں کوئی سیاسی اپوزیشن نہیں ہے کہ حکومت کے لیے خطرہ بن سکے بلکہ یوں کہیں تو شاید غلط نہ ہو گا کہ کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں حکومتی دیوار مضبوط ہے یا کمزور اسے کوئی دھکا نہیں دینا چاہتا اور اس کی چھاؤں میں آرام کرنا چاہتا ہے مگر میں یہ معمہ حل نہیں کر سکا کہ حکومت کی بقا اور توانائی کا ذکر کیوں کیا جا رہا ہے اور اس میں حکمران پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں جب کہ حالات کسی سیاسی کمزوری کا پتہ نہیں دے رہے۔
کیا کوئی اندر کا خوف ہے یا کسی نجومی اور صاحب کشف نے ڈرا دیا ہے اس بارے میں باہر کا کوئی آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔ ملک میں جس قدر سیاسی آزادی موجود ہے یہانتک کہ بوقت سیاسی ضرورت کسی مخالف کو قتل تک کیا جا سکتا ہے تو ایسے میں سیاستدانوں کو مکمل سکون حاصل ہے اور وہ اپنے ڈیروں کے برآمدوں میں رنگین پائیوں والے پلنگ پر چار خانے کا کھیس بچھا کر تکیہ لگائے حقہ پی رہے ہیں اور نوکروں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ایسے پرسکون سیاسی حالات میں حکومتوں کو کیا فکر جب کہ ہر حکومت ایک حد تک اپنی مضبوطی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے جو بالعموم اس کی بقا کے لیے کافی رہتی ہے۔
میں نے بھی آپ کی طرح پاکستان کی کئی حکومتیں دیکھی ہیں۔ دلجمعی کے ساتھ تخت پر بیٹھی ہوئی بھی اور تھوڑے بہت خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی لیکن پاکستان میں کبھی کوئی حکومت بدلی نہیں ہے۔ ہمیشہ چچا کی جگہ ماموں اور ماموں کی جگہ چچا آتے رہے ہیں۔ نام بدلے ہیں حکمرانوں کی نسل نہیں بدلی۔ پاکستان کئی ملکوں کے برعکس حکومتوں میں سیاستدانوں کی جگہ فوجی بھی آتے رہے ہیں اور حکومتیں سیاستدانوں کو لوٹا کر جاتے رہے ہیں لیکن حکومت کبھی شاید ہی بدلی ہے۔
صرف ایک بار بھٹو صاحب نئی حکومت یعنی نئے انداز حکومت کا نعرہ لگا کر آئے تھے اور کہتے تھے کہ میں ان زمینداروں کو بہت سمجھاتا ہوں کہ بندے بن جاؤ ورنہ یہ تمہاری آخری حکومت ہوگی لیکن تیز و طرار اور نئی بولیاں بولنے والے بھٹو صاحب کا جو حال خود ان کے ساتھیوں نے کر دیا وہ اب تاریخ کو دہرانے والی بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بھٹو نے بھی دل جلا کر دیکھ لیا مگر حکومت نہ بدلی مامے چاچے آتے رہے اور آ رہے ہیں۔ بھٹو کی بیٹی نے اپنی خاص پرورش کی وجہ سے بغاوت کا علم لہرایا مگر اس علم کے ساتھ اپنی جان بھی دے دی۔
پاکستان کی سیاسی پود سیاسی قیادت اور سیاسی حالت دیکھ کر میرا یہ خیال ہے کہ بے نظیر پاکستان کی آخری سیاستدان تھی جس کا کوئی اچھا برا نظریہ بھی تھا کوئی تعارف بھی تھا اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے یہ سب کچھ کر لیا اور ہم نے یہ سب کچھ دور بیٹھ کر آرام کے ساتھ دیکھ بھی لیا۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ کل کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر بھٹو اور بے نظیر بھٹو جان دے کر بھی اس ملک کی سیاست کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو اب کون ہے جو کوئی تبدیلی لائے گا اور ملک کو بدلے گا۔ ملک میں اگر کوئی بھرپور نظریاتی جماعت ہے اور جو اپنے سیاسی لائحہ عمل پر یقین رکھتی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جو چند دن ہوئے پاکستان کے شمال میں لوئر دیر کے کسی پتھر کے سائے میں آرام کے لیے رکھ دی گئی ہے۔( انا للہ وانا الیہ راجعون۔)
قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے مارشل لاء میں رشوت اور کرپشن کا آغاز ہوا جو اب جوان ہے۔ اس وقت ایک سربراہ اسکندر مرزا کو جلا وطن کر دیا گیا تھا جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اور وہ لندن کے ایک ہوٹل میں ملازم ہو گیا۔ اس کی بیوی پاکستان کی خاتون اول جس طرح مہمان داری کرتی تھی اور وقت گزارتی تھی اب اس دکھ بھری داستان کو بیان کرنے کا کیا فائدہ۔ مقصد یہ ہے کہ میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کا آخری کرپشن فری حکمران تھا جو مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میر جعفر یا میر صادق ان دو میں سے کس کی اولاد میں سے تھا۔
سکندر مرزا کے بعد اس ملک نے اپنی حکمران اشرافیہ میں شرافت نہیں دیکھی صرف کرپشن دیکھی ہے اور اب تک ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں۔ خدا معلوم یہ منظر کب تک دیکھتے رہیں گے۔ میری ان بیمار آنکھوں نے کل رات ٹی وی پر۔ پاکستان ٹی وی کے ایک چینل پر۔ لندن میں ایک لیڈر کے صاحبزادے کا گھر دیکھا ہے کاش کہ یہ منظر دیکھنے سے پہلے میری باقی ماندہ بینائی بھی چلی جاتی اور میں اس ذہنی اور قلبی عذاب سے بچ جاتا۔ یہ جنت نظیر بنگلہ لازماً پاکستانی سرمائے سے خریدا گیا ہے۔ ایسے بنگلوں کے مالکان کے اقتدار کو خطرہ نہیں ہو سکتا۔ خطرہ جتنا بھی ہے وہ ہم آپ کو لاحق ہے اور رہے گا۔ حکومت نہ کبھی بدلی ہے نہ بدلے گی۔
کچھ معلوم نہیں کہ ان دنوں اچانک ایسی خبریں کیوں چھپنی شروع ہو گئی ہیں کہ یہ حکومت مضبوط ہے اور اپنی مقررہ میعاد پوری کرے گی باوجود اس کے کہ حکومت نے نااہلی کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں مگر اس کے اقتدار سے محرومی کے آثار نہیں ہیں اور یہ حکومت اپنی انتخابی مدت پوری کر کے ہی جائے گی یا پھر لوٹ آئے گی۔
میں اس حکومت کے رہنے نہ رہنے کے اسباب بیان کرنا نہیں چاہتا سوائے اس خواہش کے کہ حکومت کا دوسرا ستون میرے خیال میں بڑی حد تک نیک نیت ہے اور اس کی جیب اتنی بھر چکی ہے کہ اس میں مزید گنجائش نہیں ہے اس لیے اس دوسرے ستون کی موجودگی کسی حد تک وجہ اطمینان ہے ویسے ملک میں کوئی سیاسی اپوزیشن نہیں ہے کہ حکومت کے لیے خطرہ بن سکے بلکہ یوں کہیں تو شاید غلط نہ ہو گا کہ کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں حکومتی دیوار مضبوط ہے یا کمزور اسے کوئی دھکا نہیں دینا چاہتا اور اس کی چھاؤں میں آرام کرنا چاہتا ہے مگر میں یہ معمہ حل نہیں کر سکا کہ حکومت کی بقا اور توانائی کا ذکر کیوں کیا جا رہا ہے اور اس میں حکمران پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں جب کہ حالات کسی سیاسی کمزوری کا پتہ نہیں دے رہے۔
کیا کوئی اندر کا خوف ہے یا کسی نجومی اور صاحب کشف نے ڈرا دیا ہے اس بارے میں باہر کا کوئی آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔ ملک میں جس قدر سیاسی آزادی موجود ہے یہانتک کہ بوقت سیاسی ضرورت کسی مخالف کو قتل تک کیا جا سکتا ہے تو ایسے میں سیاستدانوں کو مکمل سکون حاصل ہے اور وہ اپنے ڈیروں کے برآمدوں میں رنگین پائیوں والے پلنگ پر چار خانے کا کھیس بچھا کر تکیہ لگائے حقہ پی رہے ہیں اور نوکروں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ایسے پرسکون سیاسی حالات میں حکومتوں کو کیا فکر جب کہ ہر حکومت ایک حد تک اپنی مضبوطی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے جو بالعموم اس کی بقا کے لیے کافی رہتی ہے۔
میں نے بھی آپ کی طرح پاکستان کی کئی حکومتیں دیکھی ہیں۔ دلجمعی کے ساتھ تخت پر بیٹھی ہوئی بھی اور تھوڑے بہت خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی لیکن پاکستان میں کبھی کوئی حکومت بدلی نہیں ہے۔ ہمیشہ چچا کی جگہ ماموں اور ماموں کی جگہ چچا آتے رہے ہیں۔ نام بدلے ہیں حکمرانوں کی نسل نہیں بدلی۔ پاکستان کئی ملکوں کے برعکس حکومتوں میں سیاستدانوں کی جگہ فوجی بھی آتے رہے ہیں اور حکومتیں سیاستدانوں کو لوٹا کر جاتے رہے ہیں لیکن حکومت کبھی شاید ہی بدلی ہے۔
صرف ایک بار بھٹو صاحب نئی حکومت یعنی نئے انداز حکومت کا نعرہ لگا کر آئے تھے اور کہتے تھے کہ میں ان زمینداروں کو بہت سمجھاتا ہوں کہ بندے بن جاؤ ورنہ یہ تمہاری آخری حکومت ہوگی لیکن تیز و طرار اور نئی بولیاں بولنے والے بھٹو صاحب کا جو حال خود ان کے ساتھیوں نے کر دیا وہ اب تاریخ کو دہرانے والی بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بھٹو نے بھی دل جلا کر دیکھ لیا مگر حکومت نہ بدلی مامے چاچے آتے رہے اور آ رہے ہیں۔ بھٹو کی بیٹی نے اپنی خاص پرورش کی وجہ سے بغاوت کا علم لہرایا مگر اس علم کے ساتھ اپنی جان بھی دے دی۔
پاکستان کی سیاسی پود سیاسی قیادت اور سیاسی حالت دیکھ کر میرا یہ خیال ہے کہ بے نظیر پاکستان کی آخری سیاستدان تھی جس کا کوئی اچھا برا نظریہ بھی تھا کوئی تعارف بھی تھا اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ بھی تھا۔ اس نے یہ سب کچھ کر لیا اور ہم نے یہ سب کچھ دور بیٹھ کر آرام کے ساتھ دیکھ بھی لیا۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ کل کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر بھٹو اور بے نظیر بھٹو جان دے کر بھی اس ملک کی سیاست کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو اب کون ہے جو کوئی تبدیلی لائے گا اور ملک کو بدلے گا۔ ملک میں اگر کوئی بھرپور نظریاتی جماعت ہے اور جو اپنے سیاسی لائحہ عمل پر یقین رکھتی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جو چند دن ہوئے پاکستان کے شمال میں لوئر دیر کے کسی پتھر کے سائے میں آرام کے لیے رکھ دی گئی ہے۔( انا للہ وانا الیہ راجعون۔)
قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے مارشل لاء میں رشوت اور کرپشن کا آغاز ہوا جو اب جوان ہے۔ اس وقت ایک سربراہ اسکندر مرزا کو جلا وطن کر دیا گیا تھا جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اور وہ لندن کے ایک ہوٹل میں ملازم ہو گیا۔ اس کی بیوی پاکستان کی خاتون اول جس طرح مہمان داری کرتی تھی اور وقت گزارتی تھی اب اس دکھ بھری داستان کو بیان کرنے کا کیا فائدہ۔ مقصد یہ ہے کہ میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کا آخری کرپشن فری حکمران تھا جو مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میر جعفر یا میر صادق ان دو میں سے کس کی اولاد میں سے تھا۔
سکندر مرزا کے بعد اس ملک نے اپنی حکمران اشرافیہ میں شرافت نہیں دیکھی صرف کرپشن دیکھی ہے اور اب تک ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں۔ خدا معلوم یہ منظر کب تک دیکھتے رہیں گے۔ میری ان بیمار آنکھوں نے کل رات ٹی وی پر۔ پاکستان ٹی وی کے ایک چینل پر۔ لندن میں ایک لیڈر کے صاحبزادے کا گھر دیکھا ہے کاش کہ یہ منظر دیکھنے سے پہلے میری باقی ماندہ بینائی بھی چلی جاتی اور میں اس ذہنی اور قلبی عذاب سے بچ جاتا۔ یہ جنت نظیر بنگلہ لازماً پاکستانی سرمائے سے خریدا گیا ہے۔ ایسے بنگلوں کے مالکان کے اقتدار کو خطرہ نہیں ہو سکتا۔ خطرہ جتنا بھی ہے وہ ہم آپ کو لاحق ہے اور رہے گا۔ حکومت نہ کبھی بدلی ہے نہ بدلے گی۔