انتہائی المناک سانحہ
ہیلی کاپٹروں کو دنیا بھر میں سول اور فوجی مقاصد کے لیے بہت پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے
لاہور:
پاکستان میں حالات بہتر ہوتے نظر آ رہے تھے کہ نلتر کے پرُ فضا مقام پر آرمی کے ایم آئی17 ہیلی کاپٹر کا اندوہناک حادثہ وقوع پذیر ہو گیا جس سے ایک بار پھر ملک بھر میں سوگ اور غم کی فضا چھا گئی۔ اس حادثے کی سب سے المناک بات یہ تھی کہ اس کا شکار ہونے والوں میں ناروے اور فلپائن کے سفیر اور ملائیشیا اور انڈونیشیا کے سفیروں کی بیگمات بھی شامل تھیں۔ بہت سے دیگر سفارتکار اور ان کی بیگمات زخمی ہونے والوں میں شامل ہیں۔
اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 7 ہے جن میں کہ دو پائلٹ میجر التمش اور میجر فیصل بھی شامل ہیں۔ دونوں وی وی آئی پی پروازوں کے کوالیفائیڈ پائلٹ تھے جن کا دس سال سے زیادہ پرواز کا تجربہ تھا۔ حادثہ ہیلی کاپٹر کے لینڈ کرتے وقت پیش آیا جس سے جے پی فور کے انجن کو آگ لگ گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہیلی کاپٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس المیے کا ایک اور دلدوز پہلو یہ ہے کہ آگ لگنے کے بعد ہیلی کاپٹر آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر گرا جہاں پر خوش قسمتی سے ایک دن کے لیے کلاسوں کو معطل کر دیا گیا تھا ورنہ اس المیے کی ہولناکی میں کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا۔
یہ وادی بلند و بالا قراقرم کے پہاڑوں کے درمیان واقعہ ہے جس کی وجہ سے تیز ہوائیں ایک ہوائی سرنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس حادثے سے قبل دو ایم آئی17 ہیلی کاپٹر وی وی آئی پی مہمانوں کو لے کر بحفاظت وہاں پر اتر چکے تھے تاہم ایک تیسرا ہیلی کاپٹر جس پر جنوبی افریقہ کے ہائی کمشنر سوار تھے وہ قدرے بے قابو ہوا لیکن اس کے باوجود وہ بحفاظت اترنے میں کامیاب ہو گیا۔
حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر کا رڈر کنٹرول ( rudder control ) بے قابو ہو جانے سے یہ المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا جس کی بنیادی وجہ حد سے زیادہ تیز ہواؤں کا چلنا تھا تاہم حادثے کی اصل وجوہات کا علم ایک مفصل انکوائری کے بعد ہی ہو سکے گا۔ حادثے کے بعد ہمارے بہادر فوجی جوانوں اور پولیس والوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے زخمیوں کو شعلوں سے بھڑکتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے باہر نکالا ورنہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔
ایم آئی17 روسی ساختہ ایم آئی8 کی ترقی یافتہ شکل ہے جو 26 مسافروں کو لے کر پرواز کر سکتا ہے جب کہ وی آئی پی اصحاب کی صورت میں ہیلی کاپٹر میں 18 یا 19 مسافر بٹھائے جاتے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر ماسکو میں روسی طیارہ ساز پلانٹ میں تیار ہوا جو دو انجنوں والے ہیلی کاپٹر تیار کرنے کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے اور اس پلانٹ سے ایم آئی8 اور ایم آئی17 قسم کے ہزاروں ہیلی کاپٹر تیار کیے جا چکے ہیں۔
ان ہیلی کاپٹروں کو دنیا بھر میں سول اور فوجی مقاصد کے لیے بہت پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے اور جنھیں 50 سے زیادہ ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایم آئی8 سے مذکورہ ہیلی کاپٹر اس حساب سے مختلف ہے کہ اس میں روٹیٹر کو بائیں جانب لگایا جاتا ہے کیونکہ اس کے انجن زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ مال بردار ہیلی کاپٹر 4000 کلو گرام سے زیادہ وزن اٹھا کر پرواز کر سکتا ہے' یہ وزن کیبن کے اندر بھی رکھا جا سکتا ہے اور بیرونی سلنگ external sling میں بھی۔
چونکہ میزبان ملک پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مہمانوں کی حفاظت اور تحفظ کا مکمل بندوبست کرے بصورت دیگر اس کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اور اگر مسافروں میں حکومت کے مہمان شامل ہوں تو صورت حال کہیں زیادہ خجالت آمیز ہو سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ناروے کے سفیر ہزایکسی لینسی لیف لارسن (HE Leif Larsen) کی افسوسناک وفات کا اس بنا پر کچھ زیادہ ہی دکھ ہے کیونکہ وہ صرف دو مہینے پہلے خاص طور پر مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔
پاکستان کے بارے میں ان کی سفارتی معلومات غیر معمولی تھیں اور پورے خطے کے حالات پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ کراچی کے معاملات کے بارے میں ان کی آگاہی قابل ستائش تھی۔ انھوں نے میرے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جس دوران گفتگو میں مجھے احساس ہوا کہ وہ کتب بینی کا غیر معمولی شوق رکھتے ہیں۔ جان ماسٹرز کی کتابیں ان کی خاص دلچسپی کا مرکز تھیں لیکن بدقسمتی سے یہ کتابیں مارکیٹ میں بمشکل دستیاب ہیں۔
زیادہ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے کہ پاک فوج کا فضائی شعبہ گزشتہ 16 سال سے مسلسل جنگ میں مصروف ہے جس کا آغاز 1999 میں کارگل کے واقعہ سے ہوا اس کے بعد سے اسے کوئی مہلت ہی نہیں مل سکی۔ فوج کے پاس کئی درجن ایل 19 اور کچھ او ایچ 13 ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں جب کہ Alouette-3 قسم کے صرف درجن بھر ہیلی کاپٹر ہیں۔
1970,71 میں ایم آئی8 بھی اسی تعداد میں موجود تھے جب کہ اس وقت ایم آئی17 کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے۔ میں خود 1969,70 میں امن کے زمانے میں Alouette-3 میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں کے اوپر پرواز کرتا رہا ہوں جب کہ نلتر کو عبور کرنے کے بھی کئی مواقع پیش آ چکے ہیں جن کے بارے میں، میں نے بہت سی کہانیاں بھی لکھیں۔ میجر (اور بعد میں میجر جنرل) ایچ یو کے نیازی' ایس جے (بعد ازاں چیئرمین این ایچ اے) کے کے ایچ فلائٹ کمانڈر کی پروازیں بہت زیادہ ہوتی تھیں کیونکہ 1970,71 میں مشرقی پاکستان میں سائیکلون یعنی سمندری طوفان کے متاثرین کے لیے بحالی کا آپریشن چل رہا تھا۔ میں ایم آئی8 کے شریک پائلٹ کے طور پر پروازوں میں شامل ہوتا تھا جب کہ ایک انسٹرکٹر پائلٹ بھی ساتھ ہوتا تھا تاہم میں ایم آئی8 کا کنورشن کورس Conversion Course مکمل نہیں کر سکا۔
اس وقت جب کہ دہشت گردی کے خلاف روایتی جنگ جاری ہے اور آیندہ بھی کئی جنگیں لڑنے کے امکانات ہیں تو ہمیں چاہیے کہ روسی ساخت کے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر اپنے فلیٹ میں شامل کریں۔ امریکا نے دیگر آلات کے ساتھ 26 Bell اور 412 ہیلی کاپٹر تحفے کے طور پر دیے ہیں جو افغانستان میں استعمال ہوئے۔ ہمیں چینی ہیلی کاپٹر بھی حاصل کرنے چاہئیں۔ علاوہ ازیں ہمیں زیادہ سے زیادہ پائلٹوں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مسلسل زیرتربیت رہنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں مینٹیننس کے اعلیٰ معیار کو بھی مقدم رکھنا چاہیے اور ہر قسم کے طیاروں پر تربیت حاصل کرنی چاہیے۔
مسلسل پرواز کے نتیجے میں طیارے اور ہیلی کاپٹر کے پرزے گھس جاتے ہیں جن کی مسلسل مینٹیننس اور تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے جس کا کہ بطور خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ مزید برآں طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال صرف حربی مقاصد کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ قدرتی آفات کے موقعے پر بھی ان کی ضرورت درپیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر زلزلے یا سیلاب سے بچاؤ کے لیے۔