مذہب خدا کے لیے یا سیاسی و جنگی ہتھیار… آخری حصہ
عرب ریاستوں کے علاوہ جہاں جہاں غیر عرب مسلم ہیں وہ معاشی بنیادوں پر کمزور اور پسے ہوئے ہیں
کچھ یہی حال اسلام سے وابستہ ریاستوں کا بھی ہے۔ اسلام بھی تبلیغ پر یقین رکھتا ہے، تبلیغ کا پہلو اسلام میں بہت پختہ اور بنیادی ہے، اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پھیلائو کے لیے ''دوسرے'' مذاہب کے لوگوں کو باقاعدہ دعوت دی جاتی تھی اور اسلامی اسکالرز دور دراز ممالک کا سفر کر کے تبلیغ کرتے رہے اور لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا گیا، مگر اس حوالے سے بھی اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو عرب اسلامی ممالک خود کو نسل پرستی کی بنیاد پر ہی استوار کرتے آئے ہیں، عیسائیت کے دائرہ میں داخل ہونے والے دوسری نسلوں کے افراد کی طرح اسلام کے دائرہ میں بھی جو ریاستیں داخل ہوئیں، ان کے رہنے والے اسلامی برادر ہونے کے باوجود عرب ریاستوں میں قیام کے لیے بہت سی مشکلات سے دوچار بھی ہوتے ہیں اور عرب ریاستوں نے کبھی ان کو اپنا ریاستی شہری تسلیم نہیں کیا۔
عرب ریاستوں کے علاوہ جہاں جہاں غیر عرب مسلم ہیں وہ معاشی بنیادوں پر کمزور اور پسے ہوئے ہیں، مگر جب عرب ریاستوں، خصوصاََ سعودی عرب یا ایران کو اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لیے کسی مسئلے کا حل درکار ہو تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کے نام پر اکٹھا ہونے کی دعوت دے دی جاتی ہے، یعنی سیاست میں بطورِ ہتھیار مذہب اور خدا کے نام پر غیر عرب ''دوسرے'' مسلم ممالک کو استعمال کیا جاتا ہے، مگر معاشی حوالوں سے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ جب کہیں سعودی عرب اور ایران کے معاشی مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے تو دنیا بھر کے سنی مسلموں کو سعودی ریاست اور شیعہ کو ایرانی ریاست دو حصوں میں بآسانی تقسیم کر دیتے ہیں۔
مذاہب کے ان اختلافات کو بنیاد بنا کر غالب طبقات اپنے مفادات کے لیے مختلف عقیدوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے خطرے کے طور پر شناخت کرتے رہے ہیں۔ شناخت کے اس اختلاف نے جو پہلے سوچ کی ساخت میں تھا، انسانی زندگیوں کے طریقہِ حیات پر بھی اس طور اثرات مرتسم کیے کہ کل انسانیت اپنے اندر ہی مختلف حصوں میں بٹی رہی ہے۔
مذہبی خیالیات نے تخالف پر مبنی فکر کی پرورش اس قدر مضبوط بنیادوں پر کی ہوئی ہے کہ آج بھی انسان مذہبی آئیڈیاز کے ذریعے استعمال ہو کر اپنے ہی جیسے بے گناہ انسانوں کو قتل کر دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ خدا کے نام پر صرف اسلامی ممالک کے ہی نہیں، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسی طرح عام انسانوں کو بے وقوف بناتے آئے ہیں۔ جیسے بش کے بارے میں ایستھر کپلان اپنی کتاب With God on Their Side میں حوالے دے کر ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ جسے امن کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے اور کبھی اس کی شرح معیشت کی جنگ کے طور پر کی جا رہی ہے در اصل صلیبی جنگوں کا ہی تسلسل ہے، جسے بش کے مطابق اس نے خدا کو خوش کرنے کے لیے شروع کر رکھا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بش نے واقعی خدا کو خوش کرنا تھا، بلکہ اپنی ناجائز جنگ جو آزاد منڈی کے پھیلائو کا حصہ تھی کو جائز جواز دینا ہی بش کا اصل مقصد تھا اور صلیبی جنگوں کے پسِ پردہ بھی اصل ہدف یورپ کی ان ریاستوں پر قبضہ کرنا تھا جن پر مسلم فاتحین قابض تھے۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے اس وقت بھی لوگوں کو یہی بتایا گیا کہ خدا کا حکم ہے کہ عیسائی اپنے علاقے واپس حاصل کریں، اگر ان علاقوں کے حصول کی اصل وجہ اقتدار کا قائم کرنا تھا، اقتدار میں رہتے ہوئے معاشی مقاصد زیادہ آ سانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، یورپ کی وہ ریاستیں اس وقت سب سے بڑی تفریح گاہوں میں تبدیل کی جا چکی ہیں۔ مذہبی جذبات کو بھڑکا کر برسراقتدار طبقات یا حکمرانوں کا مقصد عوام کی بڑی تعداد کو اپنے حق میں اپنے ساتھ کھڑا کرنا ہوتا ہے، تا کہ وہ خدا کے نام پر ان کو استعمال کر سکیں اور ان کی انسانیت سوز پالیسیوں کو جاری رکھنے میں عوامی رائے کو ہموار کر سکیں۔
مذہب جنگ کا سب سے پراثر اور قدیم ہتھیار ہے، کیونکہ مذہب اور انسان کا ساتھ اس وقت کا ہے جب انسانی زندگی عقل سے زیادہ جذبات اور عقیدت سے وابستہ تھی۔ مذہب کے زیرِ اثر تمام کام عقیدے پر چلتے ہیں اور عقیدہ عقلی نہیں ہوتا مگر عقلی عناصر کے سہارے مذہب غیر عقلیت کی خود میں پرورش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عقیدوں کی ڈور میں بندھے ہوئے لوگ بآسانی مذہب کے نام پر استعمال ہو جاتے ہیں۔ مذہبی عقائد کی ڈور سے بندھے ہوئے انسانوں کے لیے مذہب نے مل جل کر رہنا آسان بنایا، مگر جیسے جیسے انسانی عقل تجربے کی آغوش میں پرورش پاتے ہوئے عملی سرگرمی سے اس کائنات سے متعلق بنیادی سوالات کا فہم حاصل کرتی گئی، ویسے ویسے سماج کے کچھ افراد نے عقل کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مذہبی عقائد کو سیاسی ہتھیار کے طور پر اپنے معاشی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیا، جو آج تک موثر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی استحصالی طبقات مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خدا کے نام کو استعمال کرتے ہوئے جنگ کرتے ہیں۔ یہودی ہوں کہ عیسائی یا عرب مسلم ان سب کی تاریخ کہیں نہ کہیں جا کر ایک خاص نسل اور خطہ پر یکجا ہوتی ہے، مگر مذہب کو بطورِ سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ہر دور میں غالب طبقات نے انسانیت کی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
جس میں 'دوسرے'' مختلف کو قبول نہیں کیا جاتا، بلکہ اپنے معاشی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کی بنیاد پر ''دوسرے'' مختلف کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا اور اپنا ''غلام'' بنانا مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ رہی ہے۔
مذہب کی آغوش میں پرورش پائی ہوئی انسانی موت اور نفرت جب تک یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مابین پیدا کیے ہوئے 'فرق' کو استعمال کرتی رہی تب تک بھی ارتقاء پذیر شعور کو بہلانے کے لیے مذہبی اختلاف جائز جواز کے طور پر با ٓسانی لوگوں کو قائل کر لیتا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ میں ایسے موڑ بھی آئے جب ایک ہی کل میں مختلف عقیدوں کی بنیاد پر مصنوعی ''تخالف'' پیدا کر کے ایک ہی مذہب کے پیروکاروں کے مابین جنگیں برپا کی گئیں، جن کے نتیجے میں انسانی شعور میں اس سوال نے جنم لیا کہ کیا واقعی مذہب اور خدا کی خوشنودی کے لیے جنگ ہوئی تھی یا زمینی خدائوں کے اپنے معاشی مفادات نے سرمائے کے خدائوں کو جنگ پر آمادہ کیا؟ ایسی جنگوں کی مثال پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہیں۔ ان کے علاوہ گلف کی جنگ اور حال ہی میں عرب ریاستوں میں پھیلایا جانے والا انتشار اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب اس کائنات کی سچائی جاننے کا ذریعہ کم اور غاصب طبقات کا اپنے معاشی فوائد کے حصول کے لیے سیاسی ہتھیار زیادہ رہا ہے۔