نادان میڈیا

ٹاک شوز کا تماشا اصلاح کی غرض سے نہیں بلکہ ریٹنگ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔

سانحہ صفورا گوٹھ کو سامنے رکھتے ہوئے ٹی وی چینلز کے رویے کا تجزیہ کریں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ابھی طرم خان میڈیا اور طرم خان صحافی نادان ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور:
میڈیا کو کسی بھی ریاست کا ستون سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ناجانے ہمارے اس ستون کو کیا ہوگیا جو ہروقت عمارت کو گرانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، کوئی قومی سانحہ ہو یا المیہ بس ٹی وی چینلز کو موضوع مل جاتا ہے جس پر گھنٹوں گھنٹوں وقت صرف کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ وہ سب کھیل تماشا اصلاح کی غرض سے نہیں بلکہ ریٹنگ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔

میڈیا کا کردار معاشرے کی اصلاح کے لئے ہونا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی سے اصلاح تو درکنار اصلاح کے راستے سے گزرنا بھی شاید عوام کی عدم دلچسپی تصور کیا جاتا ہے اور قومی سانحہ پر وہی تماشا لگایا جاتا ہے جس سے مخالف چینل پر برتری حاصل کی جاسکے۔



ماضی میں ہونے والے تمام المیے بھول جائیے کیوںکہ ان کو گزرے کئی ماہ و سال بیت گئے اور حالیہ قومی سانحہ صفورا گوٹھ کو سامنے رکھتے ہوئے ٹی وی چینلز کے رویے کا تجزیہ کریں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ابھی طرم خان میڈیا اور طرم خان صحافی نادان ہیں کیوں کہ وہ نہ تو بلوغت کی عمر میں آنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مادر پدر آزادی نے ٹی وی چینلز کو اتنا آزاد بنادیا ہے کہ براہ راست نشریات میں کچھ بھی کہہ دیا جائے نہ تو چینل کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی بیان دینے والے کا۔

سانحہ صفورا گوٹھ کے فوری بعد تمام میڈیا چینلز نے وہ تماشا لگایا جس نے عام فرد کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر ٹی وی چینلز پر کس قسم کی دوڑ لگی ہوئی ہے؟ کسی چینل نے سانحہ کے بعد مختلف مکاتب فکر کے علماء کو بٹھا کر دہشتگردی کی اس کارروائی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تو کسی نے حکومت مخالف جماعت کے رہنما سے تجاویز لینا شروع کردیں اور پھر سانحہ کے بعد اس کی روک تھام اور آئندہ اس قسم کے سانحات سے نمٹنے کے لئے تجاویز آنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔



میڈیا چینلز نے یہ بھی دکھایا کہ کراچی میں اتنا بڑا سانحہ ہوگیا لیکن وزیراعظم اور وزراء اسلام آباد میں بیٹھے کھانا اڑاتے رہے۔ بھلا اُنہیں کون بتائے کہ اسلام آباد میں طے شدہ میٹنگ میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو پاک چین اقتصادی راہداری پر اعتماد میں لیا جانا تھا جس میں مہمانوں کے لئے ہلکے پھلکے ریفریشنمنٹ کا اہتمام بھی کیا گیا اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ اہتمام سانحہ کے بعد نہیں بلکہ سانحہ سے قبل کیا گیا تھا۔


لیکن نادان ٹی وی چینلز کو یہی نظر آیا کہ کراچی میں قومی سانحہ رونما ہوا اور وزیراعظم وزراء کے ساتھ اسلام آباد میں کھانا اڑاتے رہے۔ اس قدر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کی اس قسم کی رپوٹنگ دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر بھی میڈیا کی زبان ہی بولی گئی۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی میڈیا کی خبروں کو عین سچ قرار دیتے ہوئے اسی پر بحث جاری رہی۔ یہی نہیں وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی حکومت سے لاکھ اختلاف سہی ان کی کاردگی بھی یقیناً قابل تنقید ہے لیکن اگر وہ اسلام آباد سے براہ راست صفورا گوٹھ پہنچے تو ٹی وی چینلز نے ان کے لباس پرغیر ضروری تنقید کرنا شروع کردی کہ سائیں سرکار کاٹن کے کپڑے پہن کر جائے وقوعہ پہنچے، اب بھلا کیا سائیں سرکار کو پہلے گھر جاکر کالے کپڑے پہن کر جائے وقوعہ کا دورہ کرنا چاہیئے تھا؟ مطلب حد ہی ہوگئی یہ تو۔



یہ تو تمام چیزیں حادثے کے چند گھنٹے بعد کی تھیں لیکن رات 8 بجے سے 11 بجے کے درمیان ہونے والے ٹاک شوز کا جائزہ لیں تو نابالغ میڈیا کے مزید انوکھے کارنامے دکھائی دیں گے۔ کئی چینلز پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کو بٹھایا گیا اور پھر وہی پرانے سوال اور سیاسی رہنماؤں کو لڑانے کا پرانا طریقہ اور صد افسوس ان نابالغ سیاسی رہنماؤں کا جو میزبان کے سوال پر آستینیں چڑھا کر منہ سے جھاگ نکال کر ایک دوسرے کی کرپشن اور اسکینڈلز کو لے کر اسی پر جملے بازی کرتے رہے اور میزبان خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے۔

یہ سب کچھ صفورا گوٹھ سانحے کے بعد ہونے والے ٹاک شوز کی کہانی ہے اورآپ اس سے قبل ہونے والے قومی سانحات اور اس کے بعد ہونے والے ٹاک شوز نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو یہی منظر تمام ٹاک شوز میں دکھائیں دیں گے، ماضی کے پروگراموں میں بھی وہی سوال اور وہی جھگڑے ملیں گے.



اگر نہیں ملے گا تو آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی مثبت بحث یا بحث سے حاصل ہونے والا کوئی اصلاحی نتیجہ، اگر کسی پروگرام میں آپ کو یہ مل جائے تو سمجھ لیجیے گا کہ میڈیا نادانی سے دانائی کی طرف سفر پر گامزن ہوچکا ہے اور ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر سے نکل کر حقیقی طور پر ریاست کا ستون بن رہے ہیں جو عمارت کو گرانے کے لئے نہیں بلکہ مضبوط بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

[poll id="417"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story