عدالتوں کا امراء کی طرف جھکاؤ
مجھے کبھی اس بات پر شک نہیں ہوا کہ کوئی اثر و رسوخ‘ دباؤ یا مال و دولت انصاف کی راہ میں حائل ہوئی ہے۔
قانون کی پابندی کرنے والے شہری کی حیثیت سے مجھے بھارت کی عدالت پر اعتماد ہے کہ وہ میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا مداوا کر دے گی۔ مجھے اس حوالے سے کبھی دھوکا نہیں ہوا سوائے ایمرجنسی کے نفاذ کے جب مجھے کسی قسم کے قصور یا وجہ کے بغیر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم دو جج حضرات پر مشتمل بنچ نے میری اہلیہ کی طرف سے دائر کی جانے والی حبس بے جا کی پٹیشن منظور کرتے ہوئے مجھے رہا کر دیا تھا۔
میرے رہا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور میں صرف صحافتی کام سے پیشہ ورانہ طور پر منسلک تھا۔ میری حراست کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ تاہم مجھے رہا کرنے کی سزا دونوں جج حضرات کو بھگتنا پڑی۔ سینئر جج ایس رنگا راجن کا تبادلہ سکم کے دور دراز مقام پر کر دیا گیا اور جسٹس این آر اگروال کو ان کے منصب میں تخفیف کر کے واپس سیشن کورٹ بھیج دیا گیا جہاں سے وہ ترقی پا کر اعلیٰ عدالت میں پہنچے تھے۔ دونوں ججوں کو آزادی صحافت کی قربان گاہ پر قربان کر دیا گیا۔
مجھے کبھی اس بات پر شک نہیں ہوا کہ کوئی اثر و رسوخ' دباؤ یا مال و دولت انصاف کی راہ میں حائل ہوئی ہے۔ لیکن دو حالیہ واقعات نے قانون کی عدالتوں پر میرے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔پہلے مقدمے میں فلمی اداکار سلمان خان کو جیل میں ایک منٹ بھی گزارے بغیر ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ دوسرے معاملے میں جے جیا للیتا جسے ناجائز دولت جمع کرنے پر تامل ناڈو کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اس پر سے یہ الزام واپس لے لیا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ وکلاء نے بڑی اچھی بحث کی ہو گی۔ سلمان اور للیتا دونوں ملک کے بہترین قانونی دماغوں کے انتہائی بھاری اخراجات برداشت کر سکتے ہیں لیکن جو جج ان کے مقدمات سن رہے تھے انھیں تو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ استغاثہ خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو انصاف کے تقاضے ضرور پورے کیے جانے چاہیئں۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا اور اس کی محض یہ وجہ نہیں کہ وکلاء جج حضرات سے کہیں زیادہ قابل تھے بلکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر مال و دولت نے کام نہیں کیا تو یقیناً اس کے پیچھے کچھ اور بھی محرکات رہے ہونگے۔ ان دونوں مقدمات کی خصوص تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے ذریعے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جانی چاہیئں۔ بصورت دیگر یہ انصاف کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہو گا۔
جہاں تک سلمان کے مقدمے کا تعلق ہے تو ماتحت عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ وہ شراب کے نشے میں کار چلا رہا تھا اور اس نے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے لوگوں کو کچل ڈالا۔ اسے پانچ سال قید کی سزا درست دی گئی تھی کیونکہ قانون کے تحت کم سے کم یہی سزا بنتی تھی تاہم سلمان کا مقدمہ ممبئی ہائی کورٹ کے روبرو باقاعدہ سماعت کے لیے پیش کرنے سے پہلے اس کی عبوری ضمانت ہو گئی اور جج نے سلمان کی طرف سے کی جانے والی اپیل کی سماعت سے پہلے اس کی سزا کو معطل کر دیا۔ یہ درست ہے کہ قانون کے تحت سزا کو معطل کیا جا سکتا ہے لیکن کیا ایک عام شہری کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے؟ اس مجرم کی وی آئی پی حیثیت کی وجہ سے اس کے جرم کے ساتھ اس قدر رعایت برتی گئی۔
میری خواہش ہے کہ جج کو ہلاک اور زخمی ہونیوالوں کے لواحقین کا بھی احساس کرنا چاہیے تھا۔ جج نے نہ صرف یہ کہ مرنے والے کے ورثاء کے لیے زیادہ معاوضے کی سفارش نہ کی بلکہ سلمان نے جو 19 لاکھ روپیہ اپنے طور پر عدالت میں جمع کروایا تھا وہ بھی 13 سال کے طویل عرصے میں متاثرین میں تقسیم نہیں کیا گیا، کیونکہ مقدمے کی کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ مقدمے کو اتنے طویل عرصے تک لٹکائے رکھنے میں بھی سلمان کے اثر و رسوخ اور اس کی مال و دولت نے نمایاں کردار ادا کیا جب کہ پولیس بھی اس حوالے سے اس کے ساتھ شریک ہو چکی تھی۔
یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آخر قانون اس قدر بے حس کیوں ہے اور قانونی مشینری کی رفتار اس قدر سست کیوں ہے۔ اس میں کوئی سیاست کارفرما نہیں صرف دولت نے کام دکھایا ہے۔ یقیناً حکومتی نظام میں ایسے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جس سے مالدار لوگ جرم کر کے بآسانی بچ کر نہ نکل سکیں۔ یہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ اراکین اسمبلی اپنے ضمیر کے مطابق کام کریں نہ کہ سیاسی اثر و رسوخ سے متاثر ہوں۔
ایک استثناء کی مثال جو فوری طور پر میرے ذہن میں آئی ہے وہ سنجیو نندہ کا مقدمہ ہے جس میں وہ ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد موقعے سے فرار ہو گیا تھا تاہم اس کو طویل جدوجہد اور غیر معمولی تاخیر کے باوجود گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔ اس کا والد بحریہ کا سابق سربراہ تھا مگر وہ سنجیو کو نہیں بچا سکا۔ لیکن دوسری طرف سلمان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور وہ جیل جانے سے بچ گیا۔
گو کہ یہ دلیل موجود ہے کہ اسے معطل شدہ سزا دی گئی ہے۔ ایک اور اداکار سنجے دت کے معاملے پر بھی بہت شور و غوغا ہوا تھا کیونکہ اس کو کئی مرتبہ پیرول پر رہا کر دیا گیا تھا۔اب ہم واپس جے جیا للیتا کی سبکدوشی کی طرف آتے ہیں وہ بھی اتنی ہی حیرت انگیز ہے۔ جو آسائشیں اس نے حاصل کیں وہ ڈھکی چھپی نہیں بلکہ لگژری عمارتوں اور تعیش کی دیگر اشیاء میں وہ سب اظہر من الشمس ہے۔ جج کسی ملزم کو شک کا فائدہ دینے کا اختیار رکھتا ہے لیکن اس کا حقائق سے چشم پوشی کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کی ناجائز رعایت کر رہا ہے۔
آخر للیتا کو کس بنیاد پر اتنی زیادہ رعایت دی گئی؟ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے للیتا کی کل آمدنی 34.76 کروڑ روپے تھی۔ اس میں 13.50کروڑ روپے غلطی سے شامل کر دیے گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اصل آمدنی 21.26 کروڑ روپے تھی جب کہ جے للیتا کے اثاثوں کی مالیت 37.59 کروڑ روپے ہیں جسے جج نے تسلیم بھی کیا ہے' تب بھی اس کی اصل آمدنی اور جو جائداد اس کے پاس ہے اس میں 16.32 کروڑ روپے کا فرق ہے۔
جب کہ جج نے کہا ہے کہ فرق صرف 2.82 کروڑ روپے کا ہے جو کہ اس کی آمدنی سے %8.12 زائد ہے۔ بہر حال اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ 16.32 کروڑ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اثاثے اس کی معلوم آمدنی سے %76 زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ حساب کتاب میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مالدار لوگوں کے حق میں فیصلے کرتا ہے اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس معاملے میں ریفرنڈم کرانے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں' کانگریس اور بی جے پی ہر گز قانون میں کسی بڑی تبدیلی پر رضا مند نہیں ہونگی۔
ان کا انحصار متوسط طبقے پر ہے جن پر کسی انقلابی تبدیلی کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ سلمان اور جیا للیتا کے مقدمات کے جو فیصلے ہوئے ہیں اسے قوم کو دہل جانا چاہیے۔ نریندر مودی کی حکومت کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے میں ابھی چار سال باقی ہیں لہذا قوم کو نئے انتخابات تک صبر ہی کرنا ہو گا بشرطیکہ نئے انتخابات بالکل مختلف مسائل پر منعقد کرائے جائیں۔ اس کے باوجود بعض ایسی تبدیلیاں یقیناً ناگزیر ہیں جن سے نیچے والی آدھی آبادی کو بھی ان کا حصہ مل سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)