اسلحے سے پاک یا پُر کراچی
کراچی جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ تھا، اب اس کے در و دیوار سے خون ٹپک رہا ہے
ISLAMABAD:
کراچی جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ تھا، اب اس کے در و دیوار سے خون ٹپک رہا ہے۔ کوئی بھی شہر یا بستی اپنے مکینوں کے رویے سے جانی یا پہچانی جاتی ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہاں ہر قسم کی بربریت کا تماشا لگا ہوا ہے۔ یہ تماشے اس لیے لگے ہوئے ہیں کہ فکری آلودگی کو نظریات کا نام دے دیا گیا ہے۔بے گناہ لوگ مذہبی منافرت نسلی منافرت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
تعجب ہے کہ چند مسلح لوگ 13 مئی کو بس میں گھس کر کسی کمیونٹی کے لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ سر جھکاؤ اور قتل ہو جاؤ اور ایسا ہی ہوتا ہے اگر چند لوگ کھڑے ہو کر جھپٹ پڑتے تو مجرم اتنا نقصان نہ پہنچا سکتے مگر سیاسی پارٹیوں کے رویوں، آئے دن کے بے مقصد جلوسوں اور ٹارگٹ کلنگ نے عوام کے حوصلوں کو پست کر دیا ہے اور خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں میں جرأت کا فقدان ہو گیا ہے۔
جب سے انٹرنیٹ اور فیس بک میں لوگ ڈوبے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ تمام مسائل انگلیوں سے حل ہو سکتے ہیں' کتابی علوم سے دوری، تاریخ سے دوری، اجداد کی ہمت و عظمت سے دوری نے مجہول بنا دیا ہے۔ ورنہ ہتھیار بند آدمی چند کو تو ختم کر سکتے ہیں مگر وہ لوگوں کی یلغار کو نہیں روک سکتے مگر عوام کی حفاظت ہر صورت میں حکومت کا فرض ہے جب سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی میں عوامی تحریک کا خاتمہ ہوا ہے تو جرأت کا عوامی انداز میں اظہار نہیں ہوا ورنہ یہ کراچی کی طلبا تحریک تھی جس سے عوامی مطالبات کے لیے کرفیو لگ جاتے تھے۔
عوام تقسیم نہ تھے عوام کی لسانی اور فرقہ واریت میں تقسیم نے عوامی جذبات کو کچل دیا ورنہ کراچی میں تحریکوں کو ایف سی کنٹرول نہ کر سکی تھی' شہر کی نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی اس پر حکمرانی ہے۔
100 اور 50 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کے منصوبے ہیں پانی گیس پلے گراؤنڈ اور آگ لگنے کی صورت میں دس منزل سے زیادہ کی بلڈنگ پر آگ لگنے کی صورت میں کوئی راستہ نہیں مگر حکمرانی کا شور ہر طرف اور حب الوطنی کی آوازیں چونکہ ثقافتی اور روایتی انداز میں ملک کے ایک حصے میں اسلحے کو مردوں کا زیور تصور کیا جاتا ہے۔ اسی سے ملک میں اسلحے کا شوق عام ہوا اور پھر جب افغان جنگ سے اسلحے کا کلچر فروغ پایا تو ہر خوشی کے موقعے پر ملک کے قائدین جشن مناتے وقت مختلف بور کے اسلحے استعمال کرتے ہیں' سال نو پر اسلحے کی نمائش اور اگر کرکٹ میچ میں پاکستان جیت گیا ہو تو پھر سڑک پر چلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں جشن منائے جاتے ہیں مگر ثقافت ہم کو تہذیب سے بدتہذیبی کی جانب لے جا رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم میں چند سو کے موبائل کے لیے لوگوں کی جان لینے کی روایت اس لیے رہزنوں نے ڈالی کہ لوگوں کے اعصاب کو شل کر کے ان میں خوف پیدا کیا جائے اور گزشتہ 15 بیس برسوں سے معاملات چلتے رہے اور آخر کار عروج پر مداوا کرنے کو چلے 'ضرب عضب' کے ساتھ۔ اس مسئلے پر دھیان دیا گیا مگر وہاں بھی ہر زاویے اور ہر مجرمانہ گروہ کو یکساں طور پر ضرب نہیں لگائی جا رہی ہے خصوصاً رہزنوں، شاہراہوں پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں پر، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اب اس مسئلے کو اگر واقعی سنجیدگی سے ختم کرنا ہے تو دو قسم کی دہشت گردی زور پکڑ رہی ہے ایک تو جو سر عام آپ دیکھ رہے ہیں اور خاص طور پر ان لوگوں پر دہشت گردوں کی کارروائی زیادہ ہے جن کے اجداد نے قیام پاکستان کی تحریک میں ہر اول دستے کا کام انجام دیا۔ اسماعیلی کمیونٹی جس نے معاشی سرگرمیوں کا ملک میں جال بچھایا اور کراچی میں بڑے کاروباری ادارے اور طبی اداروں کا جال بچھایا۔ اسی طریقے سے میمن اور بوہری کمیونٹی نے بھی کاروباری بنیاد رکھی۔ اسی لیے آج بھی کراچی کو کاروباری مرکز قرار دیا جاتا ہے۔
مگر بجلی کے بحران، گیس اور پانی کے بحران نے کراچی کے کاروباری مرکز کو بیمار کر دیا ہے ایک طرف دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ دوسری طرف ان برادریوں پر خوف کی فضا، مگر ایک مہذب اور پرامن برادری پر جس سفاکانہ انداز میں حملہ کیا گیا ہے۔ اس نے پاکستان کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے اور ایسے موقعے پر راہول گاندھی کا بیان جس نے واقعے کو ایک بین الاقوامی رنگ دے دیا کیونکہ بوہری اور دیگر برادریوں کی تقسیم شدہ فیملی آج بھی بھارت کے تجارتی شہروں میں قیام پذیر ہیں اور اس طرح اس نے کشمیر کے مسلمانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں۔
اس کا جوابی عکس دنیا کے سامنے پیش کیا ہے مگر یہ ہماری نااہلی ہے کہ ہمارے ملک کو جس قدر زخم لگائے جائیں گے تو ملک بدنام ہوتا جائے گا اس خونی حادثے کا اثر یہ ہوا کہ پاکستان کے لیڈروں کا دورہ افغانستان ادھورا ہی رہا اور جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ دورہ منظم کیا گیا تھا۔ وہ مقاصد تو قدرے پورے ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔
ایک طرف تو لوگ جسم و جاں سے جا رہے ہیں، دوسری دہشت گردی معاشی ہے جس نے پاکستان کے روپے کی قیمت کو بے وقعت کر دیا ہے، ہر سال آئی ایم ایف کا قرض عوام پر لادا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دبئی پاکستانیوں کی کرپشن منی کی آرام گاہ بن گیا ہے۔
لانچیں بھر کے ڈالر اور یورو ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ کئی اقسام کے ماضی اور حال کے اہل ثروت اور اہل اقتدار کے نوازے ہوئے لوگ مصروف عمل ہیں مگر ابھی پاکستان کے افسران قابل ستائش ہیں جنھوں نے ہر سفارش اور زر کو ٹھکرا کے ماڈل آیان کو گرفتار کیا مگر جب یہ ماڈل پیشی پر آتی ہے تو اس کی توقیر تو دیکھیے۔
ایک پرانی عام سی کہاوت ہے ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا'' ایسے موقعے پر پرانے سینئر احباب یاد آتے ہیں آغا جعفر، امیر حیدر کاظمی، علی مختار رضوی، محسن پاکستان محسن الملک کے پوتے اور نیپ (NAP) کے رکن حسن ناصر شہید جو زیادتیوں اور ظلم سے شہید کر دیے گئے۔ جن کا جرم جمہوریت اور معاشی مساوات تھا دور کیوں جائیں میرے تنظیمی ساتھی معراج محمد خان کے ساتھ جیل کے مظالم۔ مگر برے کاموں پر اس ملک میں حوصلہ افزائی اور عوام کے فلاح کے لیے کام کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے ملک میں جرائم ہی پروان چڑھیں گے جہاں پیسوں کے پجاری عزت دار ہیں معاشی اور سماجی انصاف پاکستان کے عوام کا حق ہے اور اس کے حصول کے لیے سیاسی پارٹیوں کو جدوجہد کرنی پڑے گی بغیر اس کے حصول کے لیے ہر ضرب وقتی ہو گی۔