حلیماں علم کاچراغ
جو انسان چاندکے بعد دوسرے سیاروں پر کمند ڈال رہا ہے زمین پر اس کی اوقات یہ رہی۔
معاشروں میں اقدار کا سلسلہ آج تک ختم نہیں ہوا۔چاہے ترقی یافتہ معاشرہ ہو یا ترقی پذیر ہر معاشرے میں ہر ملک میں یہ فرق موجود ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور معاشرے کے سرکردہ اسے قائم کرنے پر ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔
افریقہ کے کالوں کی غلامی، نیلسن منڈیلا، اور ان سے پہلے جارج واشنگٹن سے لے کر ایک کالی رنگت کے لیڈر سمیت ساری دنیا اس پر عمل پیرا ہے۔ عرب اور نان عرب کا سلسلہ اب تک برقرار ہے اور حالانکہ اسلام نے آنے کے بعد اس کی مخالف سمت کو اختیار کیا اور صرف تقویٰ کو فرق قرار دیا۔ مگر تقویٰ اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ اور مسلمان کا کردار ہے۔
دوسری اقوام میں تو حضرت عیسیٰ کے دور میں بھی بادشاہوں نے انسانوں کو زرخرید غلام رکھا اور نہ صرف رکھا باعث افتخار جانا گیا جس کے پاس زیادہ غلام وہ اتنا ہی صاحب حیثیت، یا جس کے پاس جتنے گھوڑے یا اونٹ یا بھیڑ بکری وہ اتنا ہی صاحب حیثیت، گویا انسان کی حیثیت ہمارے معاشروں میں ہمیشہ مال سے ناپی گئی اور کہیں کہیں تو تاریخ میں زندہ انسانوں کو خرید و فروخت کی کرنسی کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
جو انسان چاندکے بعد دوسرے سیاروں پر کمند ڈال رہا ہے زمین پر اس کی اوقات یہ رہی۔ رنگت ہی کے فرق سے مالک اور غلام ہونا قرار پایا تھا کسی زمانے میں اور شاید اب بھی ہے۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ اس باسی کڑھی میں ابال آہی جاتا ہے۔
باسی کڑھی تو ہم کہہ رہے ہیں ورنہ دراصل اقوام کے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ فرق برقرار ہے، امریکن کے پاکستانیوں کے ساتھ رویے سے آپ اس کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ان کے یہاں کوئی دس بیس آدمیوں کو ہلاک کردے تو وہ اسے فوراً ذہنی مریض قرار دے دیتے ہیں تاکہ بچت کا راستہ قائم رہے اور ہمارے ذہنی مریضوں کو بھی وہ باہوش قرار دہشت گرد ہی گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی زمینوں سے اناج نہیں دہشت گرد ''اگتے'' ہیں۔
یہ کینوس بہت پھیل گیا تو سمیٹنا مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ بہت جی چاہتا ہے کہ ایسے معاملوں میں ہمارے ذہن میں جو''کیوں'' پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب حاصل کیا جائے۔ مگر ہمارا تو بہت کچھ انحصار ہی ان پر ہے جن سے ''کیوں'' کا جواب چاہیے تو چھوڑ دیتے ہیں ملک کی خاطر یہ سوال۔ اپنے معاشرے پر آجاتے ہیں۔ یہ بھی سرخ نہیں تو گلابی تو ضرور ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب ہم ذکر کرتے ہیں تو لوگ کہتے سوچتے ہیں کہ آپ کو صرف برائیاں ہی نظر آتی ہیں اچھائیاں آپ دیکھتے ہی نہیں ہیں یا دیکھنا نہیں چاہتے۔ چلیے مان لیتے ہیں چند لمحوں کو کہ آپ درست ہیں تو لگے ہاتھوں ہمیں چند اچھائیاں دکھادیں۔
بجلی کے محکمے کے وزیر صاحب لوڈشیڈنگ میں اضافے کی خوش خبریاں سناتے رہتے ہیں اور محکمہ کار سرکار کے مطابق سب سے آخری سطح پر لوڈشیڈنگ اس سے بھی زیادہ کرتا ہے جو وزیر صاحب فرماتے ہیں۔
کوئی محکمہ بتا دیں کہ بہتر ہوا ہو پورے ملک میں سڑکوں کے سلسلے میں کرپشن، ترقیاتی کاموں میں کرپشن، یہاں تک کے گندے پانی کے نکاس کے منصوبوں تک میں سے کرپشن کی بو آتی ہے۔ کیا بات کریں۔ کس صوبے، کس وزیر اعلیٰ کی بات کریں، کہیں نہ کہیں سب ''بھائیوار'' ہیں۔ جہاں زندگی کی شمعیں روز بجھتی ہیں ہمارا تھر اور جس کے وزیر اعلیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں لگتی کہ اب تو ان کے ''تھری دورے'' بھی ختم ہوگئے۔ افسران سب ''ڈکار'' گئے جو تھر کے نام سے جہاں سے بھی ملا تھا۔
وہاں ایک پولیو کے شکار انسان نے، ایک عورت نے مٹھی سے 40 میٹر دور صحرا میں چھاچھرو کے گوٹھ کمر ہاڑ میں ایک درخت کے نیچے اسکول شروع کیا، بھائیوں نے ایک جھونپڑا بنادیا جو تیز ہوا نے گرا دیا۔ گاؤں والوں نے ذرا فاصلے پر بنے مہمان خانے کو اس معذور خاتون حلیماں کے حوالے کردیا جہاں وہ اپنی مدد آپ کے تحت 30 لڑکیوں اور 40 لڑکوں کو مفت تعلیم دے رہی ہے۔
حلیماں ایک سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئی، جہاں حلیماں کا گھر ہے وہاں 25 سال پہلے نہ روڈ تھا نہ اب ہے ہر طرف ریت ہی ریت ہے چنانچہ سرکاری ٹیمیں اس طرف کا رخ ہی نہیں کرتیں۔ گھر کی گزر بسر مویشیوں کے پالنے پر ہوتا ہے اور خرید و فروخت پر۔ حلیماں کے 6 بھائی 5 بہنیں ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، حلیماں پولیو کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں سے محروم ہوگئی تھی۔
جس کی وجہ سے وہ لیٹ لیٹ کر اپنا سفر کرتی۔ پڑھائی میں اس کی لگن دیکھ کر گھر والے اسے گدھے پر سوار کرکے بھائیوں کے ساتھ گاؤں سے 3 کلومیٹر دور واقع مڈل اسکول میں پڑھنے بھیجتے۔ میٹرک اس نے حیدرآباد سے کیا اور پھر ان ڈاکٹروں کے برعکس جو تھرپارکر کے کوٹے پر کم مارکس کے باوجود میڈیکل میں داخلہ لیتے اور پھر تھرپارکر کے کوٹے پر سرکاری نوکریاں حاصل کرکے بڑے شہروں میں منتقل ہوجاتے حلیماں نے واپس گاؤں آکر یہ اسکول قائم کیا۔
حلیماں کی کوئی تنخواہ ہے نہ انکریمنٹ نہ ہاؤس رینٹ نہ ٹریولنگ الاؤنس پھر بھی وہ خوش ہے کہ علاقے میں تعلیم کے چراغ جل اٹھے ہیں۔ یہ اسکول سید سائیں کی سرکار میں شامل نہیں ہے اس لیے چل رہا ہے۔ تھرپارکر اور دیگر اضلاع کے ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں اور استاد دوسری جگہوں پر بھی نوکریاں کرکے دو دو تنخواہیں لے رہے ہیں۔ حلال کو حرام کر رہے ہیں۔
حلیماں کہتی ہے کہ آج تک کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ ایکسپریس اخبار واحد میڈیا تھا جو اس تک پہنچا تھا جس نے یہ کہانی اور تصویر شایع کی تھی یکم مارچ کو۔ حلیماں سوچ رہی ہے کہ شاید سندھ حکومت وہاں اسکول کی عمارت بنوا دے تاکہ وہ اپنا مشن بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔ حلیماں کی محبت جو پاکستان سے ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے علاقے میں اس کے اسکول پر دور سے ہی سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ حلیماں کے والد اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے وہ اسپیشل ٹیچر حلیماں کے مشن میں اس کی خاطر خواہ مدد نہیں کرسکتے۔ حکومت آگے بڑھے تو علاقے کے بچوں کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔
حلیماں کا شمار تھر کے ایسے باسیوں میں ہوتا ہے جن کی خدمات کا سن کر لوگ بے ساختہ انھیں سلام کرتے ہیں۔ حلیماں! تم اپنے علاقے کے لوگوں کے سلام حاصل کرتی رہوگی وہ تمہیں عزت دیتے رہیں گے مگر اس حکومت سے تم کیا توقع کرتی ہو جس کے علاقے تھر میں بچے روز بھوک سے مر رہے ہیں اور ہاں ایک بات اور بھی ہے کہ تم گل مکئی ہو نہ ملالہ ہو کہ دنیا بھر تمہیں انعامات سے نواز دے، دنیا بھر کی NGO'sتمہاری طرف دوڑ پڑیں۔ نہ جانے کتنی NGO'sتھر کے نام پر دنیا بھر سے امداد بٹور کر اپنا بینک بیلنس بڑھاتی رہتی ہیں۔
امداد دینے والوں کا اپنا شعبہ اطلاعات بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ ان خودساختہ جھوٹی NGO'sکو چیک کرسکے جو دراصل امیروں کا غریبوں کو CASHکرنے کا ایک ذریعہ ہے تم نے بھلا کیا کیا ہے؟ ریت میں، ہواؤں کے تیز جھکڑ میں علم کے چراغ ہی تو روشن کیے ہیں کون سا کام کیا ہے۔ BBCکی ڈائری تو نہیں لکھی نا۔ رہے ہمارے سائیں سرکار انھیں تو قریب کا ہی شاید صاف نہیں دکھائی دیتا تم تو بہت دور ہو۔ وہ تو مٹھی میں بہترین کھانا کھا کر واپس چلے جاتے ہیں جس کا بچا کچھا غریب تھری ریت سے اٹھا اٹھا کر کھاتے ہیں تم تو وہاں سے بھی 140 کلومیٹر دور ہو، سائیں وہاں کہاں آئیں گے؟
مگر تم نے جس پر بھروسہ کیا ہے وہ ہر جگہ ہے۔ سب اسے اپنے اپنے ناموں سے پکارتے ہیں وہ سب کی سنتا ہے تمہاری بھی سنے گا۔ وہ تمہارے اسکول کو استحکام دے گا۔ وہ تمہارے ارادوں کی سچائی کا واقف ہے حلیماں! تم نے درست بھروسہ کیا ہے اور وہ کبھی کسی کا بھروسہ نہیں توڑتا۔
کتنے بھی طوفان آئیں تم ہمت قائم رکھنا۔ تم خود ایک نہ بجھنے والا چراغ ہو اور اس نے تمہیں روشن کرکے سب کے چراغ روشن کیے ہیں۔ وہ دن ضرور آئے گا جب ایک دن ہم تمہارا شاندار اسکول دیکھنے آئیں گے۔ تمہارے گلے میں فتح کی مالا پہنائیں گے۔ وہ دن آئے گا۔ ضرور آئے گا، ایک دن!
افریقہ کے کالوں کی غلامی، نیلسن منڈیلا، اور ان سے پہلے جارج واشنگٹن سے لے کر ایک کالی رنگت کے لیڈر سمیت ساری دنیا اس پر عمل پیرا ہے۔ عرب اور نان عرب کا سلسلہ اب تک برقرار ہے اور حالانکہ اسلام نے آنے کے بعد اس کی مخالف سمت کو اختیار کیا اور صرف تقویٰ کو فرق قرار دیا۔ مگر تقویٰ اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ اور مسلمان کا کردار ہے۔
دوسری اقوام میں تو حضرت عیسیٰ کے دور میں بھی بادشاہوں نے انسانوں کو زرخرید غلام رکھا اور نہ صرف رکھا باعث افتخار جانا گیا جس کے پاس زیادہ غلام وہ اتنا ہی صاحب حیثیت، یا جس کے پاس جتنے گھوڑے یا اونٹ یا بھیڑ بکری وہ اتنا ہی صاحب حیثیت، گویا انسان کی حیثیت ہمارے معاشروں میں ہمیشہ مال سے ناپی گئی اور کہیں کہیں تو تاریخ میں زندہ انسانوں کو خرید و فروخت کی کرنسی کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
جو انسان چاندکے بعد دوسرے سیاروں پر کمند ڈال رہا ہے زمین پر اس کی اوقات یہ رہی۔ رنگت ہی کے فرق سے مالک اور غلام ہونا قرار پایا تھا کسی زمانے میں اور شاید اب بھی ہے۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ اس باسی کڑھی میں ابال آہی جاتا ہے۔
باسی کڑھی تو ہم کہہ رہے ہیں ورنہ دراصل اقوام کے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ فرق برقرار ہے، امریکن کے پاکستانیوں کے ساتھ رویے سے آپ اس کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ان کے یہاں کوئی دس بیس آدمیوں کو ہلاک کردے تو وہ اسے فوراً ذہنی مریض قرار دے دیتے ہیں تاکہ بچت کا راستہ قائم رہے اور ہمارے ذہنی مریضوں کو بھی وہ باہوش قرار دہشت گرد ہی گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی زمینوں سے اناج نہیں دہشت گرد ''اگتے'' ہیں۔
یہ کینوس بہت پھیل گیا تو سمیٹنا مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ بہت جی چاہتا ہے کہ ایسے معاملوں میں ہمارے ذہن میں جو''کیوں'' پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب حاصل کیا جائے۔ مگر ہمارا تو بہت کچھ انحصار ہی ان پر ہے جن سے ''کیوں'' کا جواب چاہیے تو چھوڑ دیتے ہیں ملک کی خاطر یہ سوال۔ اپنے معاشرے پر آجاتے ہیں۔ یہ بھی سرخ نہیں تو گلابی تو ضرور ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب ہم ذکر کرتے ہیں تو لوگ کہتے سوچتے ہیں کہ آپ کو صرف برائیاں ہی نظر آتی ہیں اچھائیاں آپ دیکھتے ہی نہیں ہیں یا دیکھنا نہیں چاہتے۔ چلیے مان لیتے ہیں چند لمحوں کو کہ آپ درست ہیں تو لگے ہاتھوں ہمیں چند اچھائیاں دکھادیں۔
بجلی کے محکمے کے وزیر صاحب لوڈشیڈنگ میں اضافے کی خوش خبریاں سناتے رہتے ہیں اور محکمہ کار سرکار کے مطابق سب سے آخری سطح پر لوڈشیڈنگ اس سے بھی زیادہ کرتا ہے جو وزیر صاحب فرماتے ہیں۔
کوئی محکمہ بتا دیں کہ بہتر ہوا ہو پورے ملک میں سڑکوں کے سلسلے میں کرپشن، ترقیاتی کاموں میں کرپشن، یہاں تک کے گندے پانی کے نکاس کے منصوبوں تک میں سے کرپشن کی بو آتی ہے۔ کیا بات کریں۔ کس صوبے، کس وزیر اعلیٰ کی بات کریں، کہیں نہ کہیں سب ''بھائیوار'' ہیں۔ جہاں زندگی کی شمعیں روز بجھتی ہیں ہمارا تھر اور جس کے وزیر اعلیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں لگتی کہ اب تو ان کے ''تھری دورے'' بھی ختم ہوگئے۔ افسران سب ''ڈکار'' گئے جو تھر کے نام سے جہاں سے بھی ملا تھا۔
وہاں ایک پولیو کے شکار انسان نے، ایک عورت نے مٹھی سے 40 میٹر دور صحرا میں چھاچھرو کے گوٹھ کمر ہاڑ میں ایک درخت کے نیچے اسکول شروع کیا، بھائیوں نے ایک جھونپڑا بنادیا جو تیز ہوا نے گرا دیا۔ گاؤں والوں نے ذرا فاصلے پر بنے مہمان خانے کو اس معذور خاتون حلیماں کے حوالے کردیا جہاں وہ اپنی مدد آپ کے تحت 30 لڑکیوں اور 40 لڑکوں کو مفت تعلیم دے رہی ہے۔
حلیماں ایک سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئی، جہاں حلیماں کا گھر ہے وہاں 25 سال پہلے نہ روڈ تھا نہ اب ہے ہر طرف ریت ہی ریت ہے چنانچہ سرکاری ٹیمیں اس طرف کا رخ ہی نہیں کرتیں۔ گھر کی گزر بسر مویشیوں کے پالنے پر ہوتا ہے اور خرید و فروخت پر۔ حلیماں کے 6 بھائی 5 بہنیں ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، حلیماں پولیو کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں سے محروم ہوگئی تھی۔
جس کی وجہ سے وہ لیٹ لیٹ کر اپنا سفر کرتی۔ پڑھائی میں اس کی لگن دیکھ کر گھر والے اسے گدھے پر سوار کرکے بھائیوں کے ساتھ گاؤں سے 3 کلومیٹر دور واقع مڈل اسکول میں پڑھنے بھیجتے۔ میٹرک اس نے حیدرآباد سے کیا اور پھر ان ڈاکٹروں کے برعکس جو تھرپارکر کے کوٹے پر کم مارکس کے باوجود میڈیکل میں داخلہ لیتے اور پھر تھرپارکر کے کوٹے پر سرکاری نوکریاں حاصل کرکے بڑے شہروں میں منتقل ہوجاتے حلیماں نے واپس گاؤں آکر یہ اسکول قائم کیا۔
حلیماں کی کوئی تنخواہ ہے نہ انکریمنٹ نہ ہاؤس رینٹ نہ ٹریولنگ الاؤنس پھر بھی وہ خوش ہے کہ علاقے میں تعلیم کے چراغ جل اٹھے ہیں۔ یہ اسکول سید سائیں کی سرکار میں شامل نہیں ہے اس لیے چل رہا ہے۔ تھرپارکر اور دیگر اضلاع کے ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں اور استاد دوسری جگہوں پر بھی نوکریاں کرکے دو دو تنخواہیں لے رہے ہیں۔ حلال کو حرام کر رہے ہیں۔
حلیماں کہتی ہے کہ آج تک کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ ایکسپریس اخبار واحد میڈیا تھا جو اس تک پہنچا تھا جس نے یہ کہانی اور تصویر شایع کی تھی یکم مارچ کو۔ حلیماں سوچ رہی ہے کہ شاید سندھ حکومت وہاں اسکول کی عمارت بنوا دے تاکہ وہ اپنا مشن بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔ حلیماں کی محبت جو پاکستان سے ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے علاقے میں اس کے اسکول پر دور سے ہی سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ حلیماں کے والد اور گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے وہ اسپیشل ٹیچر حلیماں کے مشن میں اس کی خاطر خواہ مدد نہیں کرسکتے۔ حکومت آگے بڑھے تو علاقے کے بچوں کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔
حلیماں کا شمار تھر کے ایسے باسیوں میں ہوتا ہے جن کی خدمات کا سن کر لوگ بے ساختہ انھیں سلام کرتے ہیں۔ حلیماں! تم اپنے علاقے کے لوگوں کے سلام حاصل کرتی رہوگی وہ تمہیں عزت دیتے رہیں گے مگر اس حکومت سے تم کیا توقع کرتی ہو جس کے علاقے تھر میں بچے روز بھوک سے مر رہے ہیں اور ہاں ایک بات اور بھی ہے کہ تم گل مکئی ہو نہ ملالہ ہو کہ دنیا بھر تمہیں انعامات سے نواز دے، دنیا بھر کی NGO'sتمہاری طرف دوڑ پڑیں۔ نہ جانے کتنی NGO'sتھر کے نام پر دنیا بھر سے امداد بٹور کر اپنا بینک بیلنس بڑھاتی رہتی ہیں۔
امداد دینے والوں کا اپنا شعبہ اطلاعات بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ ان خودساختہ جھوٹی NGO'sکو چیک کرسکے جو دراصل امیروں کا غریبوں کو CASHکرنے کا ایک ذریعہ ہے تم نے بھلا کیا کیا ہے؟ ریت میں، ہواؤں کے تیز جھکڑ میں علم کے چراغ ہی تو روشن کیے ہیں کون سا کام کیا ہے۔ BBCکی ڈائری تو نہیں لکھی نا۔ رہے ہمارے سائیں سرکار انھیں تو قریب کا ہی شاید صاف نہیں دکھائی دیتا تم تو بہت دور ہو۔ وہ تو مٹھی میں بہترین کھانا کھا کر واپس چلے جاتے ہیں جس کا بچا کچھا غریب تھری ریت سے اٹھا اٹھا کر کھاتے ہیں تم تو وہاں سے بھی 140 کلومیٹر دور ہو، سائیں وہاں کہاں آئیں گے؟
مگر تم نے جس پر بھروسہ کیا ہے وہ ہر جگہ ہے۔ سب اسے اپنے اپنے ناموں سے پکارتے ہیں وہ سب کی سنتا ہے تمہاری بھی سنے گا۔ وہ تمہارے اسکول کو استحکام دے گا۔ وہ تمہارے ارادوں کی سچائی کا واقف ہے حلیماں! تم نے درست بھروسہ کیا ہے اور وہ کبھی کسی کا بھروسہ نہیں توڑتا۔
کتنے بھی طوفان آئیں تم ہمت قائم رکھنا۔ تم خود ایک نہ بجھنے والا چراغ ہو اور اس نے تمہیں روشن کرکے سب کے چراغ روشن کیے ہیں۔ وہ دن ضرور آئے گا جب ایک دن ہم تمہارا شاندار اسکول دیکھنے آئیں گے۔ تمہارے گلے میں فتح کی مالا پہنائیں گے۔ وہ دن آئے گا۔ ضرور آئے گا، ایک دن!