سمندر کنارے پیاسا کراچی

بنیادی ضروریات کی فراہمی کے وعدے پرعوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے ساستدانوں کوعوام کی دشواریوں کا اندازہ ہی نہیں۔

دھوپ اور گرمی میں پانی کے حصول کے لئے عوام کی لمبی قطاریں ان کی شدید مشکلات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD:
کروڑوں کی آبادی کو پہنچتا، سمندر کے کنارے آباد یہ خوبصورت شہر کراچی ایک عرصے سے قلتِ آب کے مسئلے سے دوچار ہے۔ اب موسم گرما کے عروج اور رمضان کی آمد کے موقع پر یہ مسئلہ انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ جگہ جگہ ہائیڈرنٹس پر پانی کے ٹینکرز اور واٹر فلٹریشن پلانٹس پر دھوپ اور گرمی میں پانی کے لئے بلکتے عوام کی لمبی قطاریں، پانی جیسی بنیادی ضرورت کے سلسلے میں عوام کی شدید مشکلات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پھر ان پانی کے مراکز پر بھی ''آج پانی نہیں'' کے بینرز، عوام کے صبر پر مزید کاری ضرب کے مصداق ہوتے ہیں۔



اخباری اطلاع کے مطابق ناظم آباد میں عید گاہ میدان عوام کے لیے ممنوع قرار دے کر انڈر پاس کے نام پر نجی ہائیڈرینٹ کمپنی کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ علاقے کے مکینوں کے سخت رد عمل کے باوجود انتظامیہ خاموش ہے۔ قانون کے مطابق ادارہ فراہمی آب و نکاسی کی تمام بڑی لائنوں کے قریب کنواں کھودنا، تعمیرات کرنا، نیز بڑی لائن سے براہ راست کنکشن لینا سختی سے منع ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے سے گزرنے والی واٹر بورڈ کی مین لائن سے 500 گز کے اندر کوئی بھی کنکشن لینا بھی قانوناََ ممنوع ہے۔

مگر ہمارے یہاں معاملہ تو یہ ہے کہ وہ قانون ہی کیا جس پر عمل ہوجائے کیونکہ تمام تر پابندیوں کے باوجود ادارے کی انتظامیہ کی غفلت اور ملی بھگت سے شہر کے کئی علاقوں میں ایک طرف کنوئیں کھودے جارہے ہیں تو دوسری جانب واٹر بورڈ کی مین لائنوں کے اوپر بورنگ کی جانے لگی ہے۔ بڑی لائنوں سے غیر قانونی کنکشن بھی حاصل کئے جاتے ہیں اور انہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ناظم آباد عید گاہ میدان میں بھی نجی ہائیڈرینٹ کمپنی کے ذمہ داران کی نگرانی میں 200 فٹ سے زائد گہری بورنگ کا کام جاری ہے۔ منصوبے کے مطابق یہاں کا پانی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی سرکاری پائپ لائن کے ذریعے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی مدد سے کمرشل بنیادوں پر فروخت کیا جائے گا۔




اس سلسلے میں معززینِ علاقہ کے استفسار پر اس کام کے ذمہ داران نے حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے متضاد رویہ کا مظاہرہ کیا۔ کبھی اس کی اجازت کو وزیر بلدیات شرجیل میمن سے تو کبھی کمشنر کراچی اور کبھی ڈی جی رینجرز سے منسوب کرتے ہیں۔

بہرحال یہ کام سرکاری سطح پر ہو یا غیر سرکاری سطح پر، اس کے نتائج عوام کو ہی بھگتنے ہیں۔ علاقے کے عوام جو کہ پہلے ہی فراہمی آب سے بہت حد تک محروم ہیں اکثر گھر بورنگ کے پانی سے ہی اپنی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں، لیکن اس میدان میں بورنگ کے باعث وہ لوگ یقیناً متاثر ہوں گے۔ بورنگ کے باعث زیر زمین سطح آب کم ہوجائے گی اور اطراف میں دیگر بورنگ کا پانی خشک ہونے کا خدشہ ہے۔ نیز بھاری موٹروں کے چلنے سے علاقے میں بجلی کی مزید قلت کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔



تقریباََ 6 ماہ قبل حکومت سندھ، پاکستان رینجرز اور سندھ پولیس نے ایک بھرپور مہم کے ذریعے کراچی بھر میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور زیر زمین پانی کا نظام چلانے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرکے ان پر کسی حد تک قابو پالیا تھا مگر اب پھر جگہ جگہ غیر قانونی بورنگ سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہورہا ہے کہ مذکورہ بالا محکموں کی کاوشوں کو نئے سرے سے فعال ہونے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالی نے ماہِ رمضان المبارک کا اہتمام، ضرورتمندوں کی بھوک و پیاس جیسی بنیادی ضروریات کے احساس کے لیے، سال میں ایک مرتبہ ہی رکھا ہے مگر اہلیانِ کراچی کے لیے، پانی کے اس بحران نے اس احساس کو ہمہ وقت کردیا ہے۔ اصل بات تو جب ہے کہ بنیادی ضروریات کی فراہمی کے وعدے پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے معزز ساستدانوں میں اس کا احساس بیدار ہوجائے بصورتِ دیگر پانی کی عدم دستیابی پر ہائیڈ رینٹس پر پتھراو کی صورت میں ہونے والے عوامی ردِعمل، کیا ہمارے قومی وقار اور سیاستدانوں کے کردار کو متاثر نہیں کر رہے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story