پانی پر فسادات کا خطرہ
نارتھ کراچی کی رہائشی فاطمہ کے بھائی انتقال کر گئے۔ ان کے گھر میں پانی نہیں تھا۔
نارتھ کراچی کی رہائشی فاطمہ کے بھائی انتقال کر گئے۔ ان کے گھر میں پانی نہیں تھا۔ فاطمہ اپنے بھائی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ لے کر نارتھ کراچی کے ہائیڈرنٹ اسٹیشن پہنچی، جہاں ایک طویل قطار ان کی منتظر تھی۔
کراچی میں پانی نایاب ہو گیا۔ لائنوں میں پانی کے ساتھ سرخ رنگ کے کیڑے آنے لگے جن کی لچکداری تعجب خیز ہے۔ کراچی کے شہری دہشت گردی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے پہلے ہی پریشان تھے کہ اب پانی کی قلت بھی پیدا ہو گئی۔ کراچی میں غریب بستیوں کے علاوہ امراء کی سوسائیٹیوں میں بھی پانی میسر نہیں ہے۔
بہرحال امراء کے علاقوں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس، گلشنِ اقبال اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ کے مکین تو مہنگے داموں ٹینکر خرید کر گزارا کر رہے ہیں مگر غریبوں کی بستیوں کے مکین نہ تو مہنگے داموں ٹینکر خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ٹینکر والے وہاں پانی فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کے ادارے واٹر بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ شہر کو ایک ہزار ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے مگر صرف پانچ سو پچاس ملین گیلن پانی دستیاب ہے، یوں چار سو پچاس ملین گیلن پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حب ڈیم سے پانی کی فراہمی تقریباً معطل ہو گئی ہے اور دھابیجی میں قائم پمپنگ اسٹیشن اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے 'کے الیکٹرک' کی لوڈشیڈنگ کی پالیسی اور خاص طور پر ہائیڈرینٹس اور پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی مختلف وجوہات کی بناء پر معطل ہونے سے پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ 'کراچی الیکٹرک' کے حکام واٹر بورڈ کے بجلی کے بل نہ ادا کرنے اور واٹر بورڈ کے فرسودہ نظام کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ واٹر بورڈ والے کہتے ہیں کہ بعض سرکاری و نجی ادارے باقاعدہ بل ادا نہیں کرتے، یوں واٹر بورڈ مالیاتی بحران کا شکار ہے۔
کراچی کی ترقی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے پانی کے نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم فراہم نہیں کی، یوں رقم کی کمی کی بناء پر دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی کی نئی اسکیم اور حب ڈیم سے پانی کی فراہمی کی ترقیاتی اسکیم پر کام نہیں ہو سکا۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کی بناء پر بھی صورتحال خراب ہو گئی۔
شہری ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانی کی فروخت ایک قیمتی کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے۔ واٹر بورڈ کے ملازمین، اور مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل مافیاز غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلانے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ یہ مافیاز شہر بھر میں پانی فروخت کرتی ہیں۔ اس کاروبار سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔
ہر سال غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف مہم کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ کچھ ہائیڈرنٹس کو مسمار کرنے کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں، پھر یہ معاملات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور عدالتیں حکمِ امتناعی جاری کر دیتی ہیں اور پھر سے یہ ہائیڈرنٹس قائم ہو جاتے ہیں اور پانی کی فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانی کے بحران کی براہِ راست ذمے داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔ واٹر بورڈ وزارتِ بلدیات کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ واٹر بورڈ کا چیئرمین پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی کو مقرر کیا گیا ہے جب کہ ہر مہینے دو مہینے بعد واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات کہیں واضح نہیں ہوئی کہ سندھ حکومت میں فیصلہ کرنے والی اتھارٹی نے افسروں کے تقرر اور تبادلوں کے لیے کون سا معیار مقرر کیا ہوا ہے۔
کراچی واٹر بورڈ اور کراچی سٹی گورنمنٹ کے ایڈمنسٹریٹر بہت جلدی تبدیل ہوتے ہیں۔ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ مجاز اتھارٹی اچھی طرزِ حکومت اور میرٹ کو افسران کے تقرر میں اہمیت نہیں دیتی۔واٹر بورڈ کی ناقص کارکردگی کی ایک اور اہم وجہ ہزاروں گھوسٹ ملازمین ہیں۔ یہ ملازمین سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہیں اور اپنی سرکاری ڈیوٹی کے بجائے سیاسی جماعت کی ڈیوٹی کو اہمیت دیتے ہیں اور تنخواہیں سرکاری اداروں سے وصول کرتے ہیں۔ غیر حاضر ملازمین کی بناء پر بورڈ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جب کہ پانی کی تقسیم کا نظام فرسودہ اور ناقص ہے۔
مختلف علاقوں میں پانی فراہم کرنے والی پائپ لائنوں کی معیاد ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں خاصا پانی ضایع ہو جاتا ہے۔ شہر میں قائم پمپنگ اسٹیشنوں پر بجلی معطل ہونے کے بعد توانائی کی فراہمی کا متبادل نظام نہیں ہے۔ اگر کہیں جنریٹر موجود ہیں تو ان کے لیے ڈیزل نہ ہونے اور مختلف نوعیت کی خرابیوں کی بناء پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران دیگر ذریعوں سے بجلی فراہم نہیں کر سکتے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں واٹر بورڈ کے مختلف محکموں اور اداروں پر واجب الادا بل کی ادائیگی کے لیے اقدامات نہیں کر سکیں۔ کراچی الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے جھگڑے کو کئی سال بیت گئے مگر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کے حقیقی حل کے لیے کوشش نہیں کی۔
جب 80ء کی دھائی میں کراچی واٹر بورڈ قائم ہوا تو بورڈ کو خودمختار حیثیت دی گئی۔ اس بورڈ کے قیام کا مقصد اس خودمختار ادارے میں اپنی پالیسی بنانا اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے تا کہ آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضرورت کے پیشِ نظر پانی کے وسائل میں اضافہ کیا جائے مگر بورڈ کو کبھی آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں پانی کے صرف ایک ذریعے پر انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر ذرایع بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ دریا کے پانی کے ساتھ ساتھ سمندر کے پانی کو بھی قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ پینے کے پانی اور دیگر ضروریات کے لیے پانی کی فراہمی کی علیحدہ علیحدہ لائنیں ہوتی ہیں۔
بارش اور سیلاب کا پانی بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر واٹر بورڈ نے کبھی اس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران بے تحاشا تعمیری منصوبے شروع ہوئے، دیگر شہروں سے آنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی مگر پانی کے وسائل کی ترقی کے لیے کچھ نہیں ہوا اور اب اس بات کا خطرہ ہے کہ شہر میں مستقبل میں پانی کی بناء پر فسادات برپا نہ ہو جائیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف کا نچلی سطح تک اختیارات کا نظام قائم ہوا اور ناظمِ اعلیٰ کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوئے تو ناظمِ اعلیٰ واٹر بورڈ کے سربراہ بن گئے، عوامی نمایندوں کی بالادستی سے بورڈ کی کارکردگی بہتر ہوئی۔
اس بورڈ کے ڈائریکٹرز میں عوامی نمایندوں کے علاوہ پروفیشنلز کو بھی شامل ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا اور بلدیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی بورڈ کی انفرادیت بھی ختم ہو گئی۔ سندھ سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے احکامات نے میرٹ کو پامال کیا اور نئی منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔ اصولی طور پر تو نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا جانا چاہیے تھا اور واٹر بورڈ کی خودمختاری برقرار رہنی چاہیے تھی۔
اب نچلی سطح تک اختیارات پر مبنی بلدیاتی نظام ہی اس شہر کے مسائل کا حقیقی حل ہے۔ کراچی کے منتخب نمایندوں کو واٹر بورڈ کا نظام چلانا چاہیے اور منتخب قیادت کو غریبوں اور امیروں کو پانی کی فراہمی کے لیے میرٹ کی بنیاد پر پالیسی بنانی ہو گی، یوں ہر شخص کو پانی مل سکے گا۔ دوسری صورت میں پانی کے مسئلے پر فسادات کا انتظار کرنا چاہیے۔
کراچی میں پانی نایاب ہو گیا۔ لائنوں میں پانی کے ساتھ سرخ رنگ کے کیڑے آنے لگے جن کی لچکداری تعجب خیز ہے۔ کراچی کے شہری دہشت گردی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے پہلے ہی پریشان تھے کہ اب پانی کی قلت بھی پیدا ہو گئی۔ کراچی میں غریب بستیوں کے علاوہ امراء کی سوسائیٹیوں میں بھی پانی میسر نہیں ہے۔
بہرحال امراء کے علاقوں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس، گلشنِ اقبال اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ کے مکین تو مہنگے داموں ٹینکر خرید کر گزارا کر رہے ہیں مگر غریبوں کی بستیوں کے مکین نہ تو مہنگے داموں ٹینکر خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ٹینکر والے وہاں پانی فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کے ادارے واٹر بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ شہر کو ایک ہزار ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے مگر صرف پانچ سو پچاس ملین گیلن پانی دستیاب ہے، یوں چار سو پچاس ملین گیلن پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حب ڈیم سے پانی کی فراہمی تقریباً معطل ہو گئی ہے اور دھابیجی میں قائم پمپنگ اسٹیشن اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ کراچی میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے 'کے الیکٹرک' کی لوڈشیڈنگ کی پالیسی اور خاص طور پر ہائیڈرینٹس اور پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی مختلف وجوہات کی بناء پر معطل ہونے سے پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ 'کراچی الیکٹرک' کے حکام واٹر بورڈ کے بجلی کے بل نہ ادا کرنے اور واٹر بورڈ کے فرسودہ نظام کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ واٹر بورڈ والے کہتے ہیں کہ بعض سرکاری و نجی ادارے باقاعدہ بل ادا نہیں کرتے، یوں واٹر بورڈ مالیاتی بحران کا شکار ہے۔
کراچی کی ترقی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے پانی کے نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم فراہم نہیں کی، یوں رقم کی کمی کی بناء پر دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی کی نئی اسکیم اور حب ڈیم سے پانی کی فراہمی کی ترقیاتی اسکیم پر کام نہیں ہو سکا۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کی بناء پر بھی صورتحال خراب ہو گئی۔
شہری ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانی کی فروخت ایک قیمتی کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے۔ واٹر بورڈ کے ملازمین، اور مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل مافیاز غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلانے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ یہ مافیاز شہر بھر میں پانی فروخت کرتی ہیں۔ اس کاروبار سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔
ہر سال غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف مہم کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ کچھ ہائیڈرنٹس کو مسمار کرنے کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں، پھر یہ معاملات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور عدالتیں حکمِ امتناعی جاری کر دیتی ہیں اور پھر سے یہ ہائیڈرنٹس قائم ہو جاتے ہیں اور پانی کی فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانی کے بحران کی براہِ راست ذمے داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔ واٹر بورڈ وزارتِ بلدیات کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ واٹر بورڈ کا چیئرمین پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی کو مقرر کیا گیا ہے جب کہ ہر مہینے دو مہینے بعد واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات کہیں واضح نہیں ہوئی کہ سندھ حکومت میں فیصلہ کرنے والی اتھارٹی نے افسروں کے تقرر اور تبادلوں کے لیے کون سا معیار مقرر کیا ہوا ہے۔
کراچی واٹر بورڈ اور کراچی سٹی گورنمنٹ کے ایڈمنسٹریٹر بہت جلدی تبدیل ہوتے ہیں۔ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ مجاز اتھارٹی اچھی طرزِ حکومت اور میرٹ کو افسران کے تقرر میں اہمیت نہیں دیتی۔واٹر بورڈ کی ناقص کارکردگی کی ایک اور اہم وجہ ہزاروں گھوسٹ ملازمین ہیں۔ یہ ملازمین سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہیں اور اپنی سرکاری ڈیوٹی کے بجائے سیاسی جماعت کی ڈیوٹی کو اہمیت دیتے ہیں اور تنخواہیں سرکاری اداروں سے وصول کرتے ہیں۔ غیر حاضر ملازمین کی بناء پر بورڈ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جب کہ پانی کی تقسیم کا نظام فرسودہ اور ناقص ہے۔
مختلف علاقوں میں پانی فراہم کرنے والی پائپ لائنوں کی معیاد ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں خاصا پانی ضایع ہو جاتا ہے۔ شہر میں قائم پمپنگ اسٹیشنوں پر بجلی معطل ہونے کے بعد توانائی کی فراہمی کا متبادل نظام نہیں ہے۔ اگر کہیں جنریٹر موجود ہیں تو ان کے لیے ڈیزل نہ ہونے اور مختلف نوعیت کی خرابیوں کی بناء پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران دیگر ذریعوں سے بجلی فراہم نہیں کر سکتے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں واٹر بورڈ کے مختلف محکموں اور اداروں پر واجب الادا بل کی ادائیگی کے لیے اقدامات نہیں کر سکیں۔ کراچی الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے جھگڑے کو کئی سال بیت گئے مگر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کے حقیقی حل کے لیے کوشش نہیں کی۔
جب 80ء کی دھائی میں کراچی واٹر بورڈ قائم ہوا تو بورڈ کو خودمختار حیثیت دی گئی۔ اس بورڈ کے قیام کا مقصد اس خودمختار ادارے میں اپنی پالیسی بنانا اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے تا کہ آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضرورت کے پیشِ نظر پانی کے وسائل میں اضافہ کیا جائے مگر بورڈ کو کبھی آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں پانی کے صرف ایک ذریعے پر انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ دیگر ذرایع بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ دریا کے پانی کے ساتھ ساتھ سمندر کے پانی کو بھی قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ پینے کے پانی اور دیگر ضروریات کے لیے پانی کی فراہمی کی علیحدہ علیحدہ لائنیں ہوتی ہیں۔
بارش اور سیلاب کا پانی بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر واٹر بورڈ نے کبھی اس طرح کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران بے تحاشا تعمیری منصوبے شروع ہوئے، دیگر شہروں سے آنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی مگر پانی کے وسائل کی ترقی کے لیے کچھ نہیں ہوا اور اب اس بات کا خطرہ ہے کہ شہر میں مستقبل میں پانی کی بناء پر فسادات برپا نہ ہو جائیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف کا نچلی سطح تک اختیارات کا نظام قائم ہوا اور ناظمِ اعلیٰ کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوئے تو ناظمِ اعلیٰ واٹر بورڈ کے سربراہ بن گئے، عوامی نمایندوں کی بالادستی سے بورڈ کی کارکردگی بہتر ہوئی۔
اس بورڈ کے ڈائریکٹرز میں عوامی نمایندوں کے علاوہ پروفیشنلز کو بھی شامل ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا اور بلدیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی بورڈ کی انفرادیت بھی ختم ہو گئی۔ سندھ سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے احکامات نے میرٹ کو پامال کیا اور نئی منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔ اصولی طور پر تو نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا جانا چاہیے تھا اور واٹر بورڈ کی خودمختاری برقرار رہنی چاہیے تھی۔
اب نچلی سطح تک اختیارات پر مبنی بلدیاتی نظام ہی اس شہر کے مسائل کا حقیقی حل ہے۔ کراچی کے منتخب نمایندوں کو واٹر بورڈ کا نظام چلانا چاہیے اور منتخب قیادت کو غریبوں اور امیروں کو پانی کی فراہمی کے لیے میرٹ کی بنیاد پر پالیسی بنانی ہو گی، یوں ہر شخص کو پانی مل سکے گا۔ دوسری صورت میں پانی کے مسئلے پر فسادات کا انتظار کرنا چاہیے۔