کراچی کیا تھا کیا ہوگیا

ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں یہ آمنا سامنا بھی عجب تھا۔

FAISALABAD:
یہ معمول کا ایک دن تھا۔ روزمرہ کے کام کاج کے لیے بس میں سوار مردوزن کریم آباد کے لیے روانہ ہوئے، لیکن صفورا چورنگی کے نزدیک ان کا موت سے آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں یہ آمنا سامنا بھی عجب تھا۔ ایک گاڑی نے چلتی بس کو آگے آکر روکا۔ ساتھ ہی موٹر سائیکل سوار گاڑی میں داخل ہوگئے۔

گاڑی کے شیشوں سے باہر اچھلتے خون، گولیوں کی آوازوں اور چیخوں سے باہر کی دنیا کو خبر ملی کہ ''سانحہ صفورا'' ہوگیا۔ چند منٹ میں قیامت برپا کرنے کے بعد قاتل یہ جا وہ جا۔ ڈیڑھ دو کروڑ کے بھرے پُرے شہر میں پولیس کو اکلوتا عینی شاہد ملا۔ جان والے جان سے گئے، اب ڈیڑھ کروڑ کیا اٹھارہ کروڑ منہ ہیں اور اٹھارہ کروڑ زبانیں۔ درجنوں ٹاک شوز ہیں اور سیکڑوں تجزیے۔ ''یہ'' تھا، ''وہ'' تھا۔

بعد از قیامت صغریٰ بھی عالم دیکھا بھالا تھا... دہشتگردوں کو سخت جواب دینے کا وقت آگیا۔ ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ دہشتگردوں کی فنڈنگ پر نظر رکھی جائے گی۔ سیاسی و مذہبی اعتبار کے بغیر گرفتاریوں کا فیصلہ، دہشتگردی میں را ملوث ہے، کچھ اندرونی و بیرونی قوتوں کو اقتصادی راہداری منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا۔

ہمیں کراچی میں زندگی کے کئی خوبصورت سال گزارنے کا موقع ملا۔ جب معمول کو ایسے غیر معمول کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ہم نے اسّی کی دہائی کے شروع میں اپنا کیریئر کراچی سے شروع کیا۔ نووارد کے طور پر شہر میں پہنچے تو جان نہ پہچان، ایک دوست کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے ہاں چند ہفتے قیام کیا۔ متبادل انتظام ہوتے ہوتے یہ ہفتے کئی ماہ تک پھیل گئے۔ رات گئے تک کراچی کی خنک ہوا میں مٹرگشت کرتے، دنیا جہان کی باتیں کرتے اور اپنے خواب بنتے ہم ہاسٹل کے نزدیک چھپر ہوٹل میں دن کا اختتام کرتے، جس کا نام یونیورسٹی کے مرکزی کیفے، کیفے ڈی یونین کے نام پر کسی من چلے نے کیفے ڈی فرانس رکھ چھوڑا تھا۔ دال گھوٹالہ وہاں کی محبوب ڈش تھی۔

بعدازاں، حالیہ سوک سینٹر کے نزدیک اپارٹمنٹس میں اٹھ آئے۔ کیلنڈر کے دو ایڈیشن بدلے تو ہم گلشن اقبال میں رہائش پذیر ہوئے۔ عین مین روڈ پر گھر واقع تھا۔ رات دن منی بسوں کا شور، محلے داری خوب بارونق، ان دنوں موبائل فون نہ تھے بلکہ لینڈ لائن کی عیاشی بھی کمیاب تھی۔ ہماری اہلیہ ایک نوزائیدہ بچے کے ساتھ دن بھر گھر میں اکیلی ہوتیں۔ شام گئے ہم لوٹتے تو اس دوران انھیں پریشانی نہ ہوتی نہ ہمیں ان کی طرف سے فکر دامن گیر اور ہاں... ایسی ہی ایک بس میں ہم صبح آئی آئی چندریگر روڈ اپنے دفتر جاتے۔ صبح اور شام گئے ایسی بسوں کا اژدہام ہوا کرتا تھا۔

ملازمت بدلی تو ذمے داریوں میں یہ بھی شامل تھا کہ غیر ملکی مہمانوں کو ایئرپورٹ سے لینا، ہوٹل پہنچانا اور لاہور کے لیے اگلے روز روانہ کرنا۔ ان دنوں لاہور سے انٹرنیشنل فلائٹس نہیں ہوتی تھیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر انٹرنیشنل فلائٹس کا عمومی وقت رات کو ہوتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ اکثر ایسی ڈیوٹی کے بعد ہماری واپسی آدھی رات کے بعد ہوتی۔ شہر میں معمول کو غیر معمول کا سامنا کرنے کا زمانہ ابھی نہ آیا تھا۔

رات گئے روشنیاں جگمگاتیں اور زندگی رواں دواں رہتی۔یہ تھا ہمارا کراچی!!!کراچی سے ہمارا ایک حوالہ بچپن کی سنی کئی کہانیاں بھی ہیں۔ ہمارے والد مرحوم نے 1950ء کے لگ بھگ ملیر کراچی، گھارو، کیٹی بندر میں چند سال سلسلۂ ملازمت گزارے۔ پاکستان بننے کے بعد اس شہر کا دامن کس قدر وسیع تھا، بھائی چارے کا کیا عالم تھا، بار بار والد مرحوم سے سنا، خود اس شہر میں وارد ہوئے تو اس وسیع دامن کے خوشہ چیں ٹھہرے۔ آج تک بہترین دوستوں میں چند اسی شہر سے متعلق ہیں۔ شعرو ادب اور فنون لطیفہ سے تھوڑی بہت رمز آشنائی میں ہمارے اس زمانے کے دوستوں کا اصل ہاتھ ہے۔

ایک صاحب ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ایک بلا کے ذہین کمرشل فلم پروڈیوسر تھے، ایک بلا کے مقرر تھے اور ایک معروف دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک خود تو شاعر نہ تھے مگر والد صاحب دیوان شاعر تھے لیکن ان کے اپنے حافظے کا یہ عالم تھا کہ لمبی لمبی غزلیں اور نظمیں انھیں ازبر تھیں۔ ان احباب کی صحبت نے ہمیں زبان و بیان کی اصل شیرینی سے روشناس کروایا۔ زندگی کے چند یادگار سال یوں گزرے کہ یادوں میں بس گئے۔ آج تک ایک منی کراچی ہمارے دل و دماغ میں رہتا ہے۔

لیکن ہوا پھر یوں کہ معمول کا ایک روز غیرمعمول سے آمنا سامنا ہو گیا۔ غالباً دسمبر 1986ء کا زمانہ تھا۔ کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی نارتھ ناظم آباد میں ایک منی بس کے حادثے کا شکار ہو گئی۔ احتجاج شروع ہوا تو پھیلتے پھیلتے پٹھان مہاجر فسادات میں بدل گیا۔ آناً فاناً شہر میں تشدد کا راج آ دھمکا۔ ہمیں پہلی بار دفتر سے گھر جاتے خوف کا سامنا رہا... اس کے بعد تشدد اور خوف کا راج دھیرے دھیرے بڑھتا چلا گیا۔ انتظامی اور سیاسی معاملات نے تو اپنا اپنا راستہ نکال لیا لیکن ''اس کراچی'' کو راستہ نہ ملا۔ ہم چند سال قبل گلشن اقبال میں اپنی پرانی رہائش گاہ دیکھنے گئے۔ ہر منظر بدلا ہوا تھا۔ ہر گلی میں اب ایک حفاظتی گیٹ تھا۔ گھروں کی دیواروں پر حفاظتی جنگلے اگ آئے تھے۔ طبیعت اس قدر مکدر ہوئی کہ الٹے قدم واپس آ گئے۔

بوجھل دل اور اس میں بسے ''اس کراچی'' کو دیر تک سنبھالنے اور بہلانے کی کوشش کرتے رہے بلکہ اب تک کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں پنجابی کے ایک طرح دار شاعر اکرم شیخ کا مجموعہ ''پتھراں وچ اکھ'' پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی ایک غزل نے کئی روز دل و دماغ کو گرفت میں لیے رکھا۔ حسن اتفاق کہ ایک محفل میں یہی غزل ان کی زبانی سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ یہ غزل ضیا دور کے سیاسی حبس کے موسم میں لکھی گئی لیکن ملک میں جاری خوف و دہشت کی فضا اور بالخصوص کراچی کے معاملات پر یوں منطبق ہے جیسے آج ہی لکھی گئی اور وہ بھی کراچی کے لیے۔ ''اُس کراچی'' اور آج کے کراچی کے حالات کی چبھن کا دل فگار نوحہ۔


سورج ونڈے قہر نی مائے
چھا گئی شکر دوپہر نی مائے

سورج کی دھوپ قہر بانٹ رہی ہے۔اے ماں شدید دھوپ کی کڑی دوپہر چھائی ہوئی ہے۔

سنجیاں ہوئیاں اکھ دیاں گلیاں
اجڑ گئے نے شہر نی مائے

میری آنکھوں کی گلیاں ویران ہو گئیں، بھرے پرے شہر اجڑ گئے ہیں ماں!۔

پچھلی راتیں خواباں اندر
دسے لہو دی نہر نی مائے

مائے، مجھے رات کے پچھلے پہر خوابوں میں لہو کی نہر دکھائی دیتی ہے۔

پنچھی پنجرے اندر بولے
ہویا پچھلا پہر نی مائے

پنجرے میں قید پرندہ پھڑپھڑا رہا ہے۔ پچھلا پہر آن لگا اور وہ قید میں ہے ماں!
Load Next Story