بڑا شہر بڑی باتیں
اپنی ذاتی سوچ ، نظریہ یا خیال کی بنیاد پر کسی تصنیف کو فوری طور پر رد نہ کیا جائے
ISLAMABAD:
پہلی بات تو یہ ہے کہ بقول Painted bird جیسا شاندارناول لکھنے والے پولش رائٹر جیرزی کوزنسکی ہم جیسے لوگ نظریے کی دکان نہیں کھولتے اور نہ ہی نظریہ بیچتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی تصنیف دنیا کو نہیں بدل سکتی، البتہ افراد کی سوچ اور خیال میں تبدیلی ضرور لاتی ہے۔ اپنی ذاتی سوچ ، نظریہ یا خیال کی بنیاد پر کسی تصنیف کو فوری طور پر رد نہ کیا جائے ۔لہذا میں بھی اس مضمون میں کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اسرائیل کے ٹیلوں پر آباد ایک چھوٹے سے گاؤں آراد میں رہنے والے رائٹر اموس اوز، جن کی کئی تصانیف 32 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں، نے محققوں کے بارے میں ایک زبردست بات لکھی ہے کہ اکثر محقق کوئی بھی تحقیقی کام کانتیجہ پہلے اخذ کر لیتے ہیں اور پھر ان کا پورا زور تحقیق کے ذریعے اس بات کو سچ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ایسے محقق Clicheکا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن میرے زیر نظر کتابMaximum City پڑھ کر لگا کہ اس رائٹر سوکیتو مہتا نے واقعی تحقیق کے نئے رنگ اس میں بھرے ہیں۔ گجراتی نسل کے کلکتہ میں جنم لینے والے اس صحافی نے مختلف ایوارڈزحاصل کیے ہیں، نیو یارکر، ٹائم میگزین،گرانتا ،ہارپر وغیرہ جیسے اخبارات اور رسائل میں تحقیقی مضامین لکھے ہیں، بالی ووڈ کی فلم مشن کشمیر کے کو اسکرپٹ رائٹر بھی ہیں ۔
سوکیتو مہتا نے اس کتاب کی شروع میں ممبئی کی تاریخ، اینتھراپالاجی اور ڈیمو گرافی کے متعلق لکھا ہے ۔وہ 150 ع سے لے کر آج تک ممبئی شہر کی تاریخ کا تعاقب کرتا ہے۔ ان کے مطابق اسے پہلے سات جزائرکی سر زمین کہا جاتا تھا کیونکہ ان سات جزائر کے اوپر مٹی ڈال کر یہ شہر تعمیرکیا گیا تھا ، یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اس کے بعد پورچو گیز نے سمندرکے خوبصورت ساحل کی وجہ سے اسے بمبین کہا۔ 1538 ع میں اسے نیا نام بؤدا دیا گیا یعنی زندگی کی شاندار سہولتوں والا شہر کہا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ 14 صدی عیسوی میں اس کے حکمراں سلطان قطب الدین مبارک شاہ نے شہر کے مندروں کو زمین بوس کیا ۔
اس لیے اس شہرکا ممبارا کشش نام پڑا، جب کہ ہندوؤں نے من بائی ،ممبائی ، ممبی،ممبا دیوی ، ممبئی وغیرہ کا نام دیا ، یہ شہر مختلف ادوار میں مختلف قومیتوں کے زیر اثر ہا ہے، جن میں مقامی ماہی گیر، مسلمان بادشاہ، پورچوگیز، انگریز، پارسی، گجراتی بیو پاری، سندھی، پنجابی، مارواڑی سیٹھ اور اصلی باشندے مراٹھی شامل ہیں، وہ شہر جو اب گینگسٹزر اور چنچل حسیناؤں کا شہر کہلاتا ہے۔ممبئی جس کا کلچر صرف کاروبار ہے۔
انڈینز لوگوں کے لیے باہر جانے کاگیٹ وے ہے، جو سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہاں کے ہر باسی کی زبان پر صرف No ہے، اس No سے گزرنے کے بعد آپ ممبئی کا حقیقی مزا بھی لے سکتے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے لگزری اپارٹمنٹس ہیں تو سب سے بڑی جھونپڑ پٹیاں بھی ۔یہاں کے روڈوں پر فی ایٹ ایمبیسٹر ڈوپولی سے لے کر بی ایم ڈبلیو کاریں بھی دوڑتی ہیں۔ جہاں امیر ڈالر کی تلاش اور غریب روپیہ کے پیچھے ہوتے ہیں۔
اس کتاب میں 1992 /93 کے ہند و مسلم کے فسادات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ شیو سینا کی طرف سے بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ نتیجے میں ہندو مسلم نفرتیں بڑھیں ۔ممبئی شہر میں شیوسینا کی سرگرمیوں، انڈر ورلڈ کے گینگز اور پولیس کے درمیان مقابلوں، شہرکی تباہی و بربادی، نوگو ایریاز بننے کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ بقول فرینچ ادیب وکٹر ہیوگو عظیم شہر شیزوفرونک ہوتے ہیں، ممبئی بھی ایک ایسا ہی شہر ہے وہاں کی اکثریتی زبان مراٹھی ہے کو کسی زمانے میں نوکروں کی زبان کہتے تھے، اب وہ شہر پر حاوی ہے ۔
بقول مصنف، شیوسینا اس شہر میں متبادل حکومت کے طور پر کام کرتی ہے، جس کے نیچے مقامی حکومتوں سے لے کر تجارتی یونینزشامل ہیں، جن کے آٹھ لاکھ سے زیادہ ممبران ہیں۔ شاگردوں اور عورتوں کے ونگز، روزگار دینے کا نیٹ ورک، بزرگ لوگوں کے لیے آشیانہ اسکیم، کو آپریٹو بینک اور ایک اخبار شامل ہیں۔ بقول شیوسینا کے ایک کارکن کے وزیر بھی ہمارے ،پولیس بھی ہماری ،کاروبار بھی ہمارا، ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بال ٹھاکرے مراٹھیوں کو جرمن نازیوں کی طرح سرکش قوم سمجھتے ہیں جو ٹائیگر کے نام سے پورے مہاراشٹر میں مشہور ہیں۔وزیر، بیوپاری، فنکار بھی اس کے در کے سوالی ہیں، جن میں مائیکل جیکسن سے لے کر سنجے دت تک ان سے ملنے آتے تھے۔
1995 میں مہاراشٹر میں شیو سینا کی حکومت آنے کے بعد ان کے کارکنوں نے مسلمان آرٹسٹوں کے خلاف مہم جوئی شروع کردی، ان کے اخبار سامناکے مراٹھی اور ہندی ایڈیشنز نے ایف ایم حسین کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔ پھر انھوں نے بائیں بازوں کی مزدور یونینز کے خلاف کام کرنا شروع کیا اور اپنی یونینز بنانا شروع کیں۔ یوں بڑے بڑے بزنس مینوں سے انھیں بھتہ ملنے لگا۔ اس لیے بال ٹھاکرے کی مخالفت صرف دیہی علاقوں کے کچھ مڈل کلاس لوگوں اور مراٹھی رائٹر نے کی، ورنہ کسی کی طاقت نہیں کہ وہ اس کے خلاف بولیں ،چاہے اعلیٰ عدلیہ کے ججزکیوں نہ ہو۔
مہتا نے 1998 کے الیکشن کا بھی ذکر کیا ہے، جس میں پہلی مرتبہ ایک دلت کے آر نارائن صدر بنے، جسے برہمن وزراء بھی جھک کر ملتے۔
ممبئی شہر کی مالکی پر کئی سالوں تک گجراتیوں اور مراٹھیوں کے درمیان تصادم چلتا رہا، 1960ء میں مراٹھیوں نے میدان مار لیا۔ حالانکہ شیوسینا تحریک کا مرکز مراٹھی قوم پرستی تھا لیکن بعد میں ان کا دائرہ غیر مراٹھیوں تک بڑھایا گیا ۔بال ٹھاکرے انڈیا نام سے نفرت کرتا تھا کیوںکہ ان کے بقول انڈیا، انڈس رور سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے سندھو،جب کہ سندھ، پاکستان کا صوبہ ہے،اس لیے ہندوستان نام اسے پسند تھا۔ اس شہر کی پولیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جو ہمیشہ سیاستدانوں اور انڈر ورلڈ مافیاؤں سے ٹکراؤ میں رہتے ہیں جن کے متعلق کئی حقیقتیں اس کتاب میں شامل ہیں۔
اس شہر میں قانونی معیشت کے ساتھ متوازی معیشت بھی چلتی ہے، جس میں کھوکھے کا دھندا چلتا ہے، جو کئی پڑھوں لکھوں کے لیے روز گار کا ذریعہ ہے۔ جنھیں ممبئی کا چھوٹا ڈان بلیک کالر ورکررز کہتا ہے، جو شارپ شوٹر بھی ہیں۔ اس شہر میں ایک طرف بڑے بڑے سیٹھ رات کو بڑے بڑے ہوٹلز میں کھانا کھاتے ہیں تو دوسری طرف غریب روٹی کے ٹکڑے کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔
یہاں کی حسین راتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں زندگی کی چہل پہل تیز نظر آتی ہے، جہاں بڑی بڑی دعوتوں میں بزنس مین، فلم اسٹارز سیاستدان اور انڈر ورلڈ مافیا کے لوگوں کی دن کی تھکن اتارنے کے لیے پیار محبت اور ناچ گانے اور کاروباری بات چیت ہوتی ہے، دن کو آدم بوآدم بو کرنے والے مافیاؤں کے لوگ اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان پتھر دل لوگوں کے کومل جذبے پھوٹ نکلتے ہیں۔
انڈر ورلڈ مافیا کے ان لوگوں کو زندگی کی ہر سہولتیں، ان کے بچوں اور خاندان کے مستقبل بھی محفوظ رکھنے کی ضمانت دی جاتی ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں ان کی مالی مدد برقرار رکھی جا سکے ۔یہ مافیائیں کارپوریشنز کا روپ دھار کر پورے ملک سے آئے ہوئے بے روزگاروں کو روزگاردیتے ہیں۔ ویسے بھی ممبئی شہر میں اپنا گزارا کرنے کے لیے آپ کو شیو سینا یا کسی انڈر ورلڈ مافیا سے تعلق جوڑنا پڑتا ہے، تب ہی آپ ممبئی میں اپنے وجود کی جنگ جیت سکتے ہیں۔
اس شہرکے کلبوں کے خوبصورت ڈانسرز کی اپنی کہانیاں ہیں، جو دکھ، خوشی، پشتاؤ اور چمک کے امتزاج والی زندگی بسر کرتی ہیں جن کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان کی زلفوں کے اسیر صرف مقامی سیٹھ نہیں ہوتے لیکن عرب لوگوں کے بھی میلے لگے ہوتے ہیں ۔ایسی ہی ڈانسر کی زبان سے نکلا ہوا یہ شاہکار جملہ پڑھیں، معصوم لڑکی اجگر شہر میں کھوگئی ۔
اس کتاب میں بالی ووڈ فلم انڈسٹری اور ٹی وی چینلز کی ثقافتی جارحیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے، فلم، موسیقی، ناچ گانے ،ڈرامے کے میدانوں میں انڈیا مغرب پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ مہتا نے ممبئی شہر میں ہونے والے مشاعروں اور گلیوں کی دھول چاٹنے والے نوجوان شاعروں کا بھی ذکر کیا ہے۔
سوکیتو مہتا ممبئی میں گزری ہوئی بچپن کی یادوں کو ان شاعرانہ سطروں میں یاد کرتے ہیں۔
ٓٓA thousand suns will stream on thee,
A thousand moons will quiveer,
But not by thee, my steps shall be,
For ever and for ever.
یہ شہر سب کے لیے سونے کی چڑیا ہے، جو بھی یہاں پڑاؤ ڈالتا ہے، یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ جہاں ناجائز کو جائز کرنے کے لیے بھی ایڈجسٹ کا رواج ہے ۔
542 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ممبئی کے کئی جہانوں کو جدید تحقیق کے اصولوں کے تحت ایکسپلورکیا گیا ہے۔