میں ’’را‘‘ کا انٹیلی جنس افسرتھا

مدعا یہ ہے کہ وطن عزیز سکیورٹی کے مسائل میں گرفتار رہ کر کبھی معاشی و عسکری طاقت نہ بن سکے

بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق ایجنٹ کی چشم کشا آپ بیتی سے سنسنی خیز واقعات کا انتخاب ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
پاکستانی خفیہ اداروں کی تحقیق سے یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی، ''را'' پاکستان میں دہشت گردی کرارہی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وطن عزیز سکیورٹی کے مسائل میں گرفتار رہ کر کبھی معاشی و عسکری طاقت نہ بن سکے۔ بھارتی حکمران طبقے کو پاکستان کی کامیابیاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں اور وہ وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔

پچھلے سال را کے انٹیلی جنس افسر، آر کے یادیو کی آپ بیتی ''مشن را'' (Mission R&AW) شائع ہوئی۔ یہ آشکارا کرتی ہے کہ بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی شروع دن سے پاکستان کے خلاف سازشوں اور خفیہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ لیکن یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اسے منہ توڑ جواب دیتے اور بھارتیوں کی ہر خفیہ کارروائی ناکام بنا دیتے ہیں۔ قول صادق ہے:''دنیا نقصان پہنچانے والے شیطانی انسانوں نہیں ان لوگوں کی وجہ سے تباہ ہوگی جو شیطانوں کو بدی کرتا دیکھتے رہے اور کچھ نہ کرسکے۔''

ذیل میں ''مشن را'' سے چند چشم کشا واقعات کا تذکرہ پیش ہے۔ یہ آشکارا کرتے ہیں کہ ماضی میں را کے ایجنٹ کیونکر پاکستان کے خلاف سرگرم عمل رہے۔
٭٭
1971ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہونے سے کچھ عرصے قبل بھارتی وزیر دفاع جگجیون رام نے را کے سربراہ، آر این کاؤ کو اپنے دفتر بلوایا۔ دفتر میں بھارتی بحریہ کے چیف، ایڈمرل سرداری لعل بھی موجود تھے۔بھارتی وزیر دفاع نے آر این کاؤ کو بتایا:''خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر پاکستان سے جنگ شروع ہوئی تو ہماری بحریہ فوراً کراچی کی بندرگاہ پر حملہ کردے گی۔ مدعا یہ ہوگا کہ دشمن کی بحریہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر بے اثر کردیا جائے۔ یوں پھر بحیرہ عرب میں ہماری حکمرانی ہوگی۔''



جگجیون نے مزید کہا ''سرداری لعل نے ہمیں بتایا ہے کہ دشمن بندرگاہ کے اردگرد جدید ہتھیار نصب کرچکا ہے۔ ہمیں ان ہتھیاروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ ''را'' کے جاسوس کراچی جاکر یہ معلومات لائیں، پاکستانیوں نے بندرگاہ پر کس قسم کے ہتھیار لگارکھے ہیں۔''

آر ین کاؤ نے یہ خفیہ آپریشن انجام دینے کی ہامی بھری اور را کے ہیڈکوارٹر چلا آیا۔ اس نے پھر اپنے نائب، کے سنکرائن نائر کو بلایا اور آپریشن کی نوعیت سے آگاہ کیا۔ سنکرائن نے بتایا کہ وہ آپریشن انجام دینے کی ذمہ داری ایک قابل ایجنٹ کو سونپے گا۔ را کا یہ ایجنٹ بمبئی میں تعینات تھا۔

تین دن بعد اس ایجنٹ نے خفیہ آپریشن کا خاکہ ہیڈکوارٹر بھجوا دیا۔ آپریشن کی تفصیل جاننے کے بعد کاؤ، نائر اور مرتی دہلی سے بمبئی چلے آئے۔ مرتی را کی فوٹو لیبارٹری سے منسلک ایک اسپیشلسٹ تھا۔ایجنٹ نے اپنے افسروں کو بتایا تھا ''میرا ایک جاننے والا پارسی ڈاکٹر بی آئی (برٹش۔ انڈیا سٹیم نیوی گیشن) کمپنی کے بحری جہاز پر ملازم ہے۔ یہ جہاز وقتاً فوقتاً بمبئی سے کویت جاتا اور واپس آتا ہے۔ آتے جاتے کراچی بندرگاہ بھی رکتا ہے۔ وہ پارسی ڈاکٹر ہماری مدد کرنے کو تیار ہے لیکن بدلے میں ایک مقدمے سے چھٹکارا چاہتا ہے۔ جب وہ الیکٹرونکس اشیا اسمگل کررہا تھا، تب پکڑا گیا اور اس پر مقدمہ قائم ہوگیا۔''



آراین کاؤ نے اسی وقت کلکٹر کسٹمز کو فون کیا۔ کاؤ کی ایما پر پارسی ڈاکٹر کا مقدمہ بھاری جرمانہ لے کر ختم کردیا گیا۔ یہ جرمانہ را کے خفیہ فنڈز سے ادا ہوا۔ یہ مرحلہ طے ہوچکا، تو سنکرائن نائر ایک فرضی شخصیت،بھارتی بحریہ کے افسر کمانڈر مینن کے روپ میں پارسی ڈاکٹر سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بحری جہاز دو روز بعد کراچی بندرگاہ جانے والا ہے۔ چناں چہ طے پایا کہ را کے دو ایجنٹ، کاوا اور مرتی بہروپ بدل کر اس میں سفر کریں گے۔ان کے دو فرضی نام بالترتیب راڈ اور موریائی رکھے گئے۔دونوں کے کیبنوں میں دور و نزدیک والی جگہوں کی تصاویر کھینچنے کے لیے جدید ترین کیمرے چھپے تھے۔وقت مقررہ بحری جہاز روانہ ہوا۔ جب وہ کراچی کے نزدیک پہنچا، تو را کے دونوں جاسوس چوری چھپے عسکری تنصیبات کی تصاویر لینے لگے۔ یہ کارروائی بندرگاہ میں داخل ہونے اور جاتے وقت، دونوں بار دہرائی گئی۔

جب برطانوی کمپنی کا بحری جہاز کراچی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا، تو پارسی ڈاکٹر دونوں بھارتی جاسوسوں کو مریضوں کے کمرے میں بھجوا چکا تھا۔ مدعا انہیں پاکستانی انٹیلی جنس سے محفوظ رکھنا تھا۔جلد ہی پاکستانی سی ڈی آئی کے ایجنٹ جہاز پر آپہنچے۔ حسب معمول انہوں نے حکم دیا کہ جہاز کے تمام مسافر مع عملہ عرشے میں جمع ہوجائیں۔ جب پاسپورٹوں کی پڑتال ہوئی، تو منکشف ہوا کہ دو مسافر غیر حاضر ہیں۔

پاکستانی سی آئی ڈی افسر نے ان کے متعلق پوچھا تو جہاز کا کپتان بولا ''وہ بیمار اور شفاخانے میں ہیں۔'' پاکستانی افسر ان سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ مگر پارسی ڈاکٹر نے اسے مطلع کیا کہ انہیں چیچک نکلی ہوئی ہے۔ اس پر پاکستانی افسر کو مجبوراً رکنا پڑا۔ یوں چال چل کر اس نے را کے دونوں ایجنٹوں کو بچالیا۔



جب جہاز اگلی منزل کی طرف روانہ ہوا، تو دونوں بھارتی جاسوسوں نے کراچی بندرگاہ کی مزید تصاویر اتاریں، یوں بھارتیوں کو معلوم ہوگیا کہ کہاں کہاں طیارہ شکن توپیں نصب ہیں، غیر عسکری تنصیبات خصوصاً تیل ڈپو کس جگہ واقع ہیں اور جنگی جہاز کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔

بحیرہ عرب میں سفر کرتا جہاز کویت شہر پہنچ کر رکا۔ وہاں را کے ایجنٹ اتر ے۔ کرشماتی طور پر ان کی چیچک جاتی رہی۔ایک ہوٹل میں کمرا کرائے پر لیا۔ وہاں کیمروں سے فلمیں نکالیں اور انہیں چمڑے کی تھیلی میں سیل بند کردیا۔اگلے دن وہ بھارتی سفارتخانے پہنچے۔ وہاں ملٹری اتاشی سے ملے جو درحقیقت را کا خفیہ ایجنٹ تھا۔ اسے پہلے ہی خبر تھی کہ ''راڈ'' اور ''موریائی'' آنے والے ہیں۔ انہوں نے اسے فلموں والی تھیلی دی اور باہر آگئے۔ اسی دن سفارتی تھیلے میں بند فلمیں بھارت بھجوادی گئیں۔ را کے دو ایجنٹ بھی اگلی پرواز سے نئی دہلی پہنچ گئے۔

را کے ہیڈکوارٹر میں واقع فوٹو لیب میں ان فلموں کو ماہرین نے ڈویلپ کیا۔ جب تصاویر تیار ہوئیں تو آر این کاؤ نے وزیر دفاع، چیف بھارتی بحریہ اور دیگر فوجی افسروں کو پروجیکشن روم میں بلوا لیا۔ وہاں پروجیکٹر کے ذریعے انہیں کراچی میں پاک افواج کی عسکری و غیر عسکری تنصیبات کی تصاویر دکھائی گئیں۔وزیر دفاع اور بھارتی بحریہ کے چیف نے تصاویر دیکھ کر تعجب اور خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے آر این کاؤ کو کہا کہ را نے اپنا کام بخوبی انجام دیا ۔ بعدازاں را کے چیف نے مشن میں شریک نائبین کو شاباش سے نوازا۔



چند ماہ بعد 3 دسمبر 1971ء کو پاک بھارت جنگ چھڑگئی۔ اب بھارتی بحریہ نے کراچی کی ان تصاویر سے بہت فائدہ اٹھایا جو را کے افسروں نے کھینچی تھیں۔ چار دسمبر کی رات بھارتی بحریہ کے تین میزائل بردار اور دو آبدوز شکن جہازوں نے کراچی پر حملہ کردیا۔ بھارتیوں نے تصاویر کی معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی عسکری تنصیبات پر میزائل مارے۔

اس بھارتی حملے میں پاک بحریہ کا سرنگیں صاف کرنے والا جہاز ''محافظ'' ،تباہ کن جہاز ''خیبر'' اور ٹرانسپورٹ جہاز ''وینس چیلنجر'' ڈوب گئے۔ تباہ کن جہاز ''شاہ جہاں'' کو شدید نقصان پہنچا اور وہ قابل استعمال نہ رہا۔ بھارتیوں نے کئی تیل ڈپو بھی تباہ کیے۔ یہ حملہ ''آپریشن ٹرائیڈینٹ'' کے نام سے مشہور ہوا۔ (بھارت کا دعویٰ ہے کہ حملے میں 100 سے زائد پاکستانی فوجی شہید ہوئے)۔

بعدازاں بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بھی کراچی میں تیل ڈپوؤں اور اسلحے کے ذخائر پر بم باری کی۔ بھارتیوں کو را کے ایجنٹوں کی کھینچی تصاویر کے ذریعے ہی ان پاکستانی تنصیبات کا علم ہوا۔ یوں ایک چھوٹے سے خفیہ بھارتی آپریشن نے پاکستان کو مالی و جانی نقصان پہنچادیا۔ بھارتی بحریہ نے 8 دسمبر کی رات کو بھی کراچی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں بھی پاک بحریہ کو ایک جنگی بحری جہاز اور ٹینکر سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اُدھر را کو پارسی ڈاکٹر کی وجہ سے کچھ خفت اٹھانا پڑی۔ ہوا یوں کہ جب کراچی بندرگاہ پر حملوں سے بھارتیوں کو زبردست کامیابی ملی، تو یہ دیکھ کر ڈاکٹر پھیل گیا۔ اس میں پھر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ تصاویر اتارنے کے مشن میں ساتھ دینے پر اسے کوئی قومی ایوارڈ ملنا چاہیے۔چناں چہ وہ یہ تمنا دل میں لیے بمبئی سے دہلی پہنچا ۔ وہ پہلے ''کمانڈر مینن'' سے ملنے اس کے گھر پہنچا مگر وہاں تو وہ کوئی اور(نائر) مقیم تھا۔ اس نے کسی طرح ڈاکٹر کو ٹرخا دیا۔ مگر وہ تو قومی ایوارڈ لینے پر تلا بیٹھا تھا۔ چناں چہ سیدھا اپنے ہم مذہب، جنرل مانک شا سے ملنے جاپہنچا۔ مانک تب بھارتی بری فوج کا کمانڈر تھا۔جنرل شا نے آر این کاؤ کو فون کرکے کہا ''ارے بھئی، یہ کیا مصیبت میرے پیچھے بھیج دی۔ اسے کچھ دے دلا کر فارغ کرو۔'' چناں چہ را نے انعام اور کچھ دھونس دے کر پارسی ڈاکٹر سے پیچھا چھڑالیا۔

مقبوضہ کشمیر میں ''را''
1990ء کے بعد ریاست جموں و کشمیر میں بغاوت (تحریک آزادی) شروع ہوئی، تو را نے مجاہدین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی خاطر وہاں کئی ایجنٹ تعینات کیے۔ یہ ایجنٹ کشمیری عوام میں گھل مل کر رہنے لگے تاکہ مجاہدین کے متعلق اہم معلومات حاصل کرسکیں۔


1997ء میں کپواڑہ میں متعین را کے ایجنٹ کو دو اہم کامیابیاں ملیں۔ اس وقت کپواڑہ کا علاقہ ''باغیوں'' کا گڑھ تھا۔ وہاں سے سیکڑوں کشمیری نوجوان فرار ہو کر پاکستان چلے جاتے۔ پاکستانی پھر اپنے تربیتی کیمپوں میں انہیں گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت دیتے۔ہوا یہ کہ ایجنٹ نے ایک کشمیری استانی کو اپنے فریبی جال میں پھنسایا اور اسے شادی کے لارے دینے لگا۔ وہ استانی لڑکیوں کے ہائی سکول میں پڑھاتی تھی اور اپنی شاگردوں میں بہت مقبول تھی۔



پاکستان میں تربیت پاتے کشمیری نوجوان پیغام بروں کے ذریعے اپنے گھر' بہنوں' منگیتروں یا محبوباؤں کو خط بھیجتے تھے۔ استانی کی اکثر شاگردوں کو بھی ایسے خطوط موصول ہوتے۔ وہ انہیں اپنی چہیتی استانی کو ضرور دکھاتیں۔

بیشتر مجاہد پیغامبروں کے ہاتھ تصاویر بھی بھیجتے جن میں وہ دوران تربیت مختلف ہتھیاروں کو تھامے نظر آتے۔ اسی طرح جب انہیں مقبوضہ کشمیر واپس آنا ہوتا' تو وہ خط میں اطلاع دیتے کہ فلاں دن وہ فلاں مقام سے سرحد پار کریں گے۔ استانی را ایجنٹ کے دام فریب میں بری طرح پھنس چکی تھی۔ لہٰذا کسی نہ کسی طریقے سے وہ ایجنٹ کشمیری مجاہدین کے خط دیکھ لیتا۔

را کے ایجنٹ کو دوسری کامیابی یہ ملی کی وہ مقامی ڈاکیے کا دوست بن گیا۔ یہ ڈاکیا مجاہدین کے اہل خانہ کو ان کے خط پڑھ کر سناتا تھا۔(کشمیری دیہات میں بیشتر لوگ ناخواندہ ہوتے ہیں) ایجنٹ چال بازی سے وہ خط بھی پڑھ لیتا۔یوں وہ چالاک جاسوس کشمیری مجاہدین کی خفیہ سرگرمیوں سے آگاہ ہونے لگا۔ وہ تمام معلومات ذہن نشین کر کے بعدازاں انہیں قلم بند کرتا پھر اپنے مقامی دفتر کو بھجوا دیتا۔ را کے علاقائی چیف نے اسے علاقے میں بھارتی فوج کے کمانڈنگ افسر سے ملنے کی اجازت دے دی۔

اس زمانے میں بھارتی فوج کا 28 انفنٹری ڈویژن کپواڑہ میں تعینات تھا۔ میجر جنرل (بعدازاں لیفٹیننٹ جنرل) وی جی پٹانکر ڈویژن کا سربراہ تھا۔ را ایجنٹ اسے بھی مجاہدین کی آمدورفت کے متعلق معلومات دینے لگا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ملٹری خفیہ ایجنسی اور پولیس مجاہدین پر نظر رکھنے لگی۔ انہوں نے ایک سال میں چالیس سے زائد کشمیری مجاہدین شہید کر ڈالے جو سرحد پار کرنے میں مصروف تھے۔ ان کی شہادت را ایجنٹ کی فراہم کردہ معلومات کے ذریعے ہی ہوئی۔ تاہم بدلے میں اس بدبخت را ایجنٹ کو غم' افسوس اور غصے کے سوا کچھ نہیں ملا۔

میجر جنرل پٹانکر نے وفاقی حکومت کو یہ سرٹیفکیٹ بھجوایا کہ تمام ''دہشت گرد'' را ایجنٹ کی مدد ہی سے مارے گئے ہیں۔ سری نگر میں اس کے انچارج نے را کے حکام بالا کو یہ سفارش بجھوائی کہ اسے 20 ہزار روپے نقد انعام دیا جائے۔ نیز بطور حوصلہ افزائی اسے بیرون ملک تعینات کیا جائے۔لیکن تب را کا چیف' اروند ڈیو اس ایجنٹ سے ذاتی پر خاش رکھتا تھا۔ دراصل وہ ایجنٹ ایمان دار تھا اور کرپٹ افسروں کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتا ۔ ایک بار اروند ڈیو بھی تنقید کی زد میں آیا' تو اس نے بہت بُرا منایا ۔ لہٰذا ایجنٹ کو نہ بیس ہزار روپے ملے اور نہ ہی اسے بیرون ملک بھجوایا گیا۔



را کے ایجنٹ کو ترقی و انعام کی امید تھی ' مگر ارونڈ ڈیو کے سلوک نے اسے بہت تلخ بنا دیا ۔ وہ پھر اٹھتے بیٹھتے را کے افسروں کو گالیاں دینے لگا اور ایک ناراض وغصیلے انسان کی حیثیت سے ریٹائر ہوا۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ را کے بعض افسر قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف را کو نقصان پہنچتا ہے' بلکہ ماتحت افسر بھی بدگما ن و رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ پھر اپنی صلاحیتیں کسی اچھے مقصد نہیں لڑنے جھگڑنے اور را کو بدنام کرنے پر صرف کرتے ہیں۔

بجھن لعل کا انوکھا کردار
یہ 1985ء کی بات ہے کہ بھارتی ریاست' ہریانہ کا وزیراعلیٰ بجھن لعل اپنی آنکھ کا آپریشن کرانے نیویارک ' امریکا گیا۔ اس زمانے میں راجیو گاندھی وزیراعظم تھے۔را کو یہ اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ سکھ دہشت گرد نیویارک میں بجھن لعل پر قاتلانہ حملہ کر سکتے ہیں۔ سکھ اس سیاست دان کے جانی دشمن تھے۔یہ بجھن لعل بھی ہندوستانی سیاست کا عجیب کردار گزرا ہے۔

یہ 1930ء میں ریاست بہاولپور کے گاؤں، قرن والی میں پیدا ہوا۔ تقسیم ہند کے وقت والدین کے ہمراہ بھارت پہنچا۔ شروع میں اس نے بہت تکالیف برداشت کیں ،اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کی خاطر سائیکل پر گلی گلی پھر کر برتن بیچتا رہا۔اسے سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ اسی شوق کی بدولت سیاست میں داخل ہوا۔ پہلے گاؤں کا سرپنچ (مکھیا) بنا۔ پھر جنتا دل پارٹی میں شامل ہو کر تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ حتیٰ کہ جون 1979ء میں ہریانہ کا وزیراعلیٰ بن گیا۔

جنوری 1980ء کے عام انتخابات میں جنتا دل کو شکست ہوئی اور کانگریسی لیڈر' اندرا گاندھی دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔ ہریانوی وزیراعلیٰ نے ہوا کا رخ بدلتا دیکھا' تو اسے اپنا اقتدار بچانے کی فکر پڑ گئی۔ اس نے پھر ایسا کھیل کھیلا جو عالمی سیاسی تاریخ میں اعجوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔

ہریانہ کی اسمبلی کے 90 ارکان میں سے75 جنتا دل اور صرف 3 کانگریس کے تھے۔ بھجن لعل جنتا دل کے 37 ارکان سمیت کانگریس سے جا ملا۔ یوں کانگریسی ارکان کی تعدد 41 ہو گئی۔ اور بجھن لعل بدستور وزیراعلیٰ رہا۔ ''لوٹوں '' کی اتنی بڑی تعداد کا پارٹی بدلنا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اسی لیے لوٹا بازی کے اس تاریخی مظاہرے کے بعد بھارت میں یہ ضرب المثال بہت مشہور ہوئی:

''آیا رام گیا رام'' ۔
یہ مثل اب اس بھارتی سیاست داں پر منطبق ہوتی ہے جو پارٹیاں بدلنے میں طاق ہو۔ اب آئیے اصل قصے کی طرف۔یہ بھجن لعل سکھوں کا دشمن تھا۔ نومبر1982ء کے ایشیائی گیمز نئی دہلی میں منعقد ہوئے۔ تب اس نے حکم دیا کہ ہریانہ سے جو بھی سکھ دہلی جائیں' پولیس ان کی جامہ تلاشی لے۔ مقصد یہ تھا کہ سکھ دہشت گردوں کو دہلی جانے سے روکا جائے۔ اس جامہ تلاشی سے کئی سکھ معززین مثلاً سردار سورن سنگھ (سابق وفاقی وزیر) جنرل (ر) جگجیت سنگھ اروڑہ اور ایئرچیف مارشل (ر) ارجن سنگھ بھی نہ بچ سکے۔

1981ء کے بعد بجھن لعل نے جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے کئی نوجوان سکھ مار ڈالے۔1984ء میں سکھ گارڈوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی ماری گئیں۔ تب بجھن لعل کی ایما پر ہندوؤں نے گردواروں پر حملے کیے اور انہیں نقصان پہنچایا۔ ان وجوہ کی بنا پر سکھ ہریانوی وزیراعلیٰ سے نفرت کرتے اور اس کی جان کے درپے تھے۔

اسی لیے وہ 1985ء میں نیویارک پہنچا،تو وہاں پانچ سکھ نوجوانوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔تاہم بھارتی سفارت خانے سے منسلک را ایجنٹ،مرچندنی نے انھیں تاڑ لیا۔راجیو حکومت نے اس کی یہ ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ ہریانوی وزیراعلی کی حفاظت کرے۔چناں چہ مرچندنی کی اطلاع پہ امریکی پولیس نے پانچوں سکھوں کو گرفتار کر لیا۔ان کے قبضے سے پستولیں،بھجن لعل کی تصاویر اور دیگر مواد برآمد ہوا۔

اس واقع کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد مرچندنی امریکا میں اپنی تعیناتی کی مدت پوری کر کے بھارت واپس آگیا۔چند ماہ بعد اس امریکی عدالت نے بطور گواہ اسے طلب کیا جہاں سکھ نوجوانوں پہ مقدمہ چل رہا تھا۔مرچندنی نے جانے سے انکار کر دیا۔اسے خوف تھا کہ نیویارک میں گرفتار سکھوں کے رشتے دار اسے قتل کر دیں گے۔مگر را کے حکام ِبالا اس پہ زور دیتے رہے کہ وہ امریکا ضرور جائے۔جب ان کا دباؤ بڑھا،تو مرچندنی نے تنگ آ کر استعفا دے دیا۔

گویا را کے افسر اپنے ماتحتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنا مشن انجام دیتے ہوئے جان پہ کھیل جائیں گے۔لیکن جب وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوں،تو مکار لومڑی کی طرح دم دُبا کر بھاگ جاتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرتے۔یہ بزدلی را کے اعلی افسروں کا خاصہ بن چکی ہے۔

جنگ کارگل میں ناکامی

یہ اکتوبر 1998ء کی بات ہے، سری نگر میں را کے خفیہ ایجنٹ نے ہیڈکوارٹر میں ایک اہم رپورٹ بھجوائی۔ اس میں درج تھا ''کارگل سے میرے آدمی نے اطلاع بھجوائی ہے کہ پاکستان سے آنے والے تقریباً 100 لوگ اس علاقے میں دیکھے گئے ہیں۔ ابھی کچھ معلوم نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کا مشن سری نگر۔ لیہہ شاہراہ پر قبضہ کرنا ہو۔تب لداخ بھارت سے کٹ جائے گا۔''

ہیڈکوارٹر میں درمیانے درجے کے افسر نے رپورٹ پڑھی اور غیر اہم قرار دے کر ایک طرف ڈال دیا۔ یوں کارگل میں جنم لینے والی ایک اہم پیش رفت سے بھارتی حکمران طبقہ ناواقف رہا۔چند ماہ بعد کارگل ہی میں ریموٹ کنٹرول کی مدد سے اڑنے والے چھوٹے ہوائی جہاز دیکھے گئے۔ انٹیلی جنس ذرائع کو معلوم ہوا کہ یہ جہاز پاکستان کی طرف سے آئے ہیں۔ لیکن اس عجیب کارروائی پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔

یہ عیاں ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکی کہ پاکستان میں مقیم کشمیری مجاہدین جنگی تیاری میں مصروف ہیں۔ یہ بھارتیوں کی کوتاہیاں اور سستی ہی ہے جس کے باعث مجاہدین کو کارگل میں داخل ہونے کا سنہرا موقع مل گیا۔مئی 1999ء میں آخر مقامی گڈریوں نے بھارتی حکومت کو اطلاع دی کہ کارگل میں مجاہدین آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ تب بھارتی انٹیلی جنس ہوش میں آئی اور ''دراندازوں'' کی سن گن لینے لگی۔ تاہم اگلے 74 دن کی جنگ میں کئی نوجوان بھارتی فوجی مارے گئے۔ نیز بھارتی معیشت کو پندرہ ارب روپے کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔n
Load Next Story