کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
بازار میں مختلف فلموں، گانوں اور ڈراموں کی C.D اور DVDدستیاب ہیں۔
بازار میں مختلف فلموں، گانوں اور ڈراموں کی C.D اور DVDدستیاب ہیں۔ آپ کا جب جی چاہے کوئی سی C.D لگا کر من کو شانتی دیجیے۔ بچے مار دھاڑ کی فلمیں پسند کرتے ہیں، بہوئیں ایسی فلمیں اور ڈرامے جن میں ساس کو ظالم دکھایا گیا ہو، کلاسیکی ذہن رکھنے والے نوشاد علی، رشید عطرے، خورشید انور، خلیل احمد، مدن موہن،کھیم چندر پرکاش، سہیل چوہدری ، لتا جی، آشا بھونسلے، نور جہاں، روشن آرا بیگم، اقبال بانو، گلشن آرا سید اور ٹینا ثانی کی گائیکی اور موسیقی کی مدھر تانوں کو پسند کرتے ہیں۔
سطحی ذہن رکھنے والے مزاحیہ فلموں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسکرین پہ بھی مسخرے اپنی اپنی دکانیں سجائے بہ انداز دیگر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ یہی آج کے دور کے جانے مانے ''دانش ور'' ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دکانوں پہ دستیاب ہر طرح کی C.Dاور DVDباآسانی دستیاب ہے۔ آپ جب چاہیں جو چاہیں فوری طور پر حاصل کرکے دل کو بہلا سکتے ہیں۔ یہ کوئی تھیٹر کا زمانہ تو ہے نہیں کہ ''لائیو پرفارمنس'' دینے کے لیے اداکاروں کو مکالمے یاد کرنے پڑتے ہوں اور تماشائیوں کو انھیں جیتا جاگتا دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑے۔ یہ تو ہرمال ''ریڈی میڈ'' کا زمانہ ہے۔ حکمرانوں کے ریڈی میڈ بیانات بھی دستیاب ہیں۔
لہٰذا ہمارے حکمران طبقے نے بھی مختلف سانحات پر مبنی اپنی اپنی C.D اور DVDتیار کروالی ہیں۔ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ ادھر کوئی سانحہ رونما ہوا اور چند لمحوں میں تمام چینلز اور اخبارات میں ریکارڈ بجنے لگے۔ کوئی ایک ہفتے میں مجرموں کو پکڑنے کا دعویٰ خدائی کر رہا ہے۔ کوئی مگرمچھ کے آنسو بہا کر لاشوں کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ وہ بھی قومی خزانے سے ۔ کوئی آہنی ہاتھوں سے مجرموں سے نمٹنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ لیکن وہ آہنی ہاتھ جن کا شورگزشتہ چالیس سال سے سنا جا رہا ہے۔
کہیں نظر نہیں آتے۔ کوئی ایسے سانحات پر دشمنیاں نکالنے کی ویڈیو جاری کر رہا ہے۔ اور جب کچھ نہ رہا تو اپنی اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کبھی کسی مذہبی و سیاسی جماعت پہ ذمے داری ڈال دی تو کبھی پڑوسی ممالک کو ذمے دار ٹھہرادیا گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ بس ہم دودھ کے دھلے ہیں۔ ہماری توکوئی غلطی ہے ہی نہیں کہ وزیر اعلیٰ نااہل نہیں ہے۔ وہ تو بڑی ذمے داری سے اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے۔ رہ گئے آرمی چیف! جن کی طرف پوری قوم کی نگاہیں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، وہ اکیلے بھاگ دوڑ کررہیہیں۔
آپ اخبارات کا پچھلا ریکارڈ نکال کر صرف سرخیوں اور شہ سرخیوں پر نظر ڈالیے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ایک جیسے گھسے پٹے بیانات ان لاتعداد بازار میں دستیاب ویڈیوز اور آڈیوز کی طرح نہیں ہے جو مختلف موضوعات اور سانحات پر تیار بک رہی ہیں۔
صفورا گوٹھ پہ اسمٰعیلی کمیونٹی کے معصوم اور محنت کش لوگوں کی بہیمانہ موت پر بھی'' پھرتیلے اور متحرک'' وزیر اعلیٰ جب نیند سے جاگے اور انھیں اس بہیمانہ واردات کی اطلاع ملی تو موصوف 50 گاڑیوں کا قافلہ لے کر مکمل پروٹوکول کے ساتھ جائے وقوعہ اور اسپتال پہنچے تو زخمیوں سے ملے بغیر بیان دے کر واپس آگئے۔ کیا اسے اچھی کارکردگی کہا جاتا ہے؟ تو کیا وزیراعلیٰ سندھ وہاں صرف خبر بنوانے اور فوٹو سیشن کروانے گئے تھے؟ اس سے قبل بھی جب تھر اور مٹھی میں بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے تھے، سندھ حکومت کا رویہ ایسا ہی تھا۔
کراچی ایئرپورٹ پہ دہشت گردوں کے حملوں میں آٹھ آدمی زندہ جل گئے تھے۔ کراچی مہران بیس، لاہور اور اسلام آباد میں حساس اداروں پہ حملوں، پشاور میں آرمی اسکول پہ حملوں سمیت بے شمار مساجد، چرچ، مندر اور دیگر مقامات پر وارداتوں کے بعد ایسے ہی کا ٹیپ چلتا رہتا ہے۔ جیساکہ الاظہر گارڈن کی بس پہ دہشت گردوں کے حملوں کے وقت مختلف بیانات کی C.Dہر چینل پہ دکھائی اور سنائی جا رہی تھی۔
ہمیں کہنے دیجیے کہ اصل مجرم وہ ہیں جنھوں نے اس پرامن قوم کو مذہب اور فرقوں میں تقیسم کیا ہے۔ اور اصل ذمے دار ایسے سانحات کے وہ ہیں جو آنکھیں بند کیے ہیروں جڑے عینک کے فریم استعمال کرتے رہے ہیں۔ جو مہنگی ترینگھڑیاں کلائیوں پہ باندھتے اور بات غریبوں کی کرتے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا پہ جلوہ آرائی کے شوق میں بیان بازی کرکے کرپٹ ارکان اسمبلی، ٹیکس نادہندگان، بجلی چور، بینکوں کے اربوں کے قرضے ہضم کرجانے والوں کے خلاف چند جملے بول کر عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اور ''خطاب'' ختم کر کے ان ہی چوروں کو گلے لگا کر ''سب ٹھیک ہے یارا!'' کا پارس پتھر لگا دیتے ہیں۔
کسی کی موت پر کچھ کھانا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میت دفنانے کے بعد موت والے گھر میں ایک ایک لقمہ اس لیے لیا جاتا ہے کہ اس بہانے گھر والوں کے منہ میں کچھ نوالے زبردستی ڈال دیے جائیں۔ لیکن صفورا گوٹھ پہ اسمٰعیلی فرقے کے 47 افراد کے ظالمانہ قتل پر اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹی کانفرنس میں جو رویہ دیکھنے میں آیا وہ کوئی نیا تو نہیں، لیکن اس بار اس کی شدت زیادہ محسوس کی گئی، خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے بریفنگ کے دوران بجائے کارروائی روک کر کراچی کے المناک واقعے کی مذمت کرتے، انھوں نے شرکا سے کہا کہ ''بریفنگ کے دوران کھانا بھی کھاتے جائیں۔''
سوال یہ ہے کہ وہ شرکا جنھوں نے پر تکلف کھانا کھایا، کیا انھیں اس سانحہ کا غم نہیں ہے؟ تو معذرت کے ساتھ ہم یہ کہیں گے کہ حکومت کے بیانات صرف کسی نئے سانحے تک بھلا دیے جائیں گے۔ اور پھر جب کوئی نیا حادثہ وجود میں آئے گا۔ تو پرانے ریکارڈ پھر بجنے لگیں گے۔
سطحی ذہن رکھنے والے مزاحیہ فلموں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسکرین پہ بھی مسخرے اپنی اپنی دکانیں سجائے بہ انداز دیگر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ یہی آج کے دور کے جانے مانے ''دانش ور'' ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دکانوں پہ دستیاب ہر طرح کی C.Dاور DVDباآسانی دستیاب ہے۔ آپ جب چاہیں جو چاہیں فوری طور پر حاصل کرکے دل کو بہلا سکتے ہیں۔ یہ کوئی تھیٹر کا زمانہ تو ہے نہیں کہ ''لائیو پرفارمنس'' دینے کے لیے اداکاروں کو مکالمے یاد کرنے پڑتے ہوں اور تماشائیوں کو انھیں جیتا جاگتا دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑے۔ یہ تو ہرمال ''ریڈی میڈ'' کا زمانہ ہے۔ حکمرانوں کے ریڈی میڈ بیانات بھی دستیاب ہیں۔
لہٰذا ہمارے حکمران طبقے نے بھی مختلف سانحات پر مبنی اپنی اپنی C.D اور DVDتیار کروالی ہیں۔ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ ادھر کوئی سانحہ رونما ہوا اور چند لمحوں میں تمام چینلز اور اخبارات میں ریکارڈ بجنے لگے۔ کوئی ایک ہفتے میں مجرموں کو پکڑنے کا دعویٰ خدائی کر رہا ہے۔ کوئی مگرمچھ کے آنسو بہا کر لاشوں کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ وہ بھی قومی خزانے سے ۔ کوئی آہنی ہاتھوں سے مجرموں سے نمٹنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ لیکن وہ آہنی ہاتھ جن کا شورگزشتہ چالیس سال سے سنا جا رہا ہے۔
کہیں نظر نہیں آتے۔ کوئی ایسے سانحات پر دشمنیاں نکالنے کی ویڈیو جاری کر رہا ہے۔ اور جب کچھ نہ رہا تو اپنی اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کبھی کسی مذہبی و سیاسی جماعت پہ ذمے داری ڈال دی تو کبھی پڑوسی ممالک کو ذمے دار ٹھہرادیا گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ بس ہم دودھ کے دھلے ہیں۔ ہماری توکوئی غلطی ہے ہی نہیں کہ وزیر اعلیٰ نااہل نہیں ہے۔ وہ تو بڑی ذمے داری سے اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے۔ رہ گئے آرمی چیف! جن کی طرف پوری قوم کی نگاہیں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، وہ اکیلے بھاگ دوڑ کررہیہیں۔
آپ اخبارات کا پچھلا ریکارڈ نکال کر صرف سرخیوں اور شہ سرخیوں پر نظر ڈالیے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ایک جیسے گھسے پٹے بیانات ان لاتعداد بازار میں دستیاب ویڈیوز اور آڈیوز کی طرح نہیں ہے جو مختلف موضوعات اور سانحات پر تیار بک رہی ہیں۔
صفورا گوٹھ پہ اسمٰعیلی کمیونٹی کے معصوم اور محنت کش لوگوں کی بہیمانہ موت پر بھی'' پھرتیلے اور متحرک'' وزیر اعلیٰ جب نیند سے جاگے اور انھیں اس بہیمانہ واردات کی اطلاع ملی تو موصوف 50 گاڑیوں کا قافلہ لے کر مکمل پروٹوکول کے ساتھ جائے وقوعہ اور اسپتال پہنچے تو زخمیوں سے ملے بغیر بیان دے کر واپس آگئے۔ کیا اسے اچھی کارکردگی کہا جاتا ہے؟ تو کیا وزیراعلیٰ سندھ وہاں صرف خبر بنوانے اور فوٹو سیشن کروانے گئے تھے؟ اس سے قبل بھی جب تھر اور مٹھی میں بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے تھے، سندھ حکومت کا رویہ ایسا ہی تھا۔
کراچی ایئرپورٹ پہ دہشت گردوں کے حملوں میں آٹھ آدمی زندہ جل گئے تھے۔ کراچی مہران بیس، لاہور اور اسلام آباد میں حساس اداروں پہ حملوں، پشاور میں آرمی اسکول پہ حملوں سمیت بے شمار مساجد، چرچ، مندر اور دیگر مقامات پر وارداتوں کے بعد ایسے ہی کا ٹیپ چلتا رہتا ہے۔ جیساکہ الاظہر گارڈن کی بس پہ دہشت گردوں کے حملوں کے وقت مختلف بیانات کی C.Dہر چینل پہ دکھائی اور سنائی جا رہی تھی۔
ہمیں کہنے دیجیے کہ اصل مجرم وہ ہیں جنھوں نے اس پرامن قوم کو مذہب اور فرقوں میں تقیسم کیا ہے۔ اور اصل ذمے دار ایسے سانحات کے وہ ہیں جو آنکھیں بند کیے ہیروں جڑے عینک کے فریم استعمال کرتے رہے ہیں۔ جو مہنگی ترینگھڑیاں کلائیوں پہ باندھتے اور بات غریبوں کی کرتے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا پہ جلوہ آرائی کے شوق میں بیان بازی کرکے کرپٹ ارکان اسمبلی، ٹیکس نادہندگان، بجلی چور، بینکوں کے اربوں کے قرضے ہضم کرجانے والوں کے خلاف چند جملے بول کر عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اور ''خطاب'' ختم کر کے ان ہی چوروں کو گلے لگا کر ''سب ٹھیک ہے یارا!'' کا پارس پتھر لگا دیتے ہیں۔
کسی کی موت پر کچھ کھانا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میت دفنانے کے بعد موت والے گھر میں ایک ایک لقمہ اس لیے لیا جاتا ہے کہ اس بہانے گھر والوں کے منہ میں کچھ نوالے زبردستی ڈال دیے جائیں۔ لیکن صفورا گوٹھ پہ اسمٰعیلی فرقے کے 47 افراد کے ظالمانہ قتل پر اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹی کانفرنس میں جو رویہ دیکھنے میں آیا وہ کوئی نیا تو نہیں، لیکن اس بار اس کی شدت زیادہ محسوس کی گئی، خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے بریفنگ کے دوران بجائے کارروائی روک کر کراچی کے المناک واقعے کی مذمت کرتے، انھوں نے شرکا سے کہا کہ ''بریفنگ کے دوران کھانا بھی کھاتے جائیں۔''
سوال یہ ہے کہ وہ شرکا جنھوں نے پر تکلف کھانا کھایا، کیا انھیں اس سانحہ کا غم نہیں ہے؟ تو معذرت کے ساتھ ہم یہ کہیں گے کہ حکومت کے بیانات صرف کسی نئے سانحے تک بھلا دیے جائیں گے۔ اور پھر جب کوئی نیا حادثہ وجود میں آئے گا۔ تو پرانے ریکارڈ پھر بجنے لگیں گے۔