نواز شریف خدشات اور حقائق

2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ 14 سال بعد تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے


Zahida Hina May 17, 2015
[email protected]

سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں اترنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ بڑے سے بڑا صاف ستھرا اور درست رویے رکھنے والا شخص بھی دشنام اور اتہام سے بچ جائے۔ ہمارے یہاں ابتدا سے آج کے سیاست دانوں تک یہی ریت اور روایت رہی ہے۔ اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو نواز شریف کئی دہائی سے تنقید کا نشانہ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے ان چند اہم ترین سیاست دانوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ان کے سیاسی مخالفین اور زیادہ تر تجزیہ نگاروں کے اندازے عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں۔

لوگ ان کے بارے میں وثوق سے پیش گوئی کرتے ہیں لیکن عملاً ان کے اقدامات ہر پیش گوئی کی نفی کر دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ پاکستان کے مقتدر ترین طبقے کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ 68 سالہ تاریخ میں جب 60-55 برس تک فوج نے براہ راست یا بالواسطہ حکومت کی ہو، وہاں کوئی بھی سیاسی رہنما فوجی اشرافیہ کی آشیرواد کے بغیر اقتدار میں بھلا کس طرح آ سکتا تھا اور جاری سیاسی عمل کا حصہ کیوں کر بن سکتا تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محمد نواز شریف اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان کی مکمل حمایت حاصل تھی، حد تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب، جنرل ایوب کو اپنا ''ڈیڈی'' کہتے تھے، لیکن وہ وقت بھی آیا جب بھٹو نے آمرانہ قوتوں سے تعلق توڑ کر عوام سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ دو لخت ملک کو سنبھالا اور اُسے پہلا متفقہ آئین دیا، لیکن ایک ڈکٹیٹر کے حلقہ اثر سے نکل جانے کا ان کا گناہ معاف نہ کیا جا سکا اور جنرل ضیا الحق نے ان کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر انھیں شہید کر دیا۔

نواز شریف پر جنرل ضیا الحق کا دست شفقت تھا جس کی بنا پر وہ سیاسی عمل کا حصہ بنے لیکن بہت جلد وہ سمجھ گئے کہ آمرانہ طاقتوں سے ڈکٹیشن لے کر عوام کے لیے کچھ کرنا ممکن نہیں۔ انھوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان ٹی وی پر آ کر کیا۔ جس کے بعد وہ مسلسل عتاب میں رہے یہاں تک کہ 1999ء میں ایک فوجی جنرل نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ ان پر کڑا وقت آیا جس سے وہ بہ آسانی بچ سکتے تھے لیکن انھوں نے عوام سے اپنا رشتہ استوار رکھا، لوٹ کر پاکستان آئے اور اس کی سیاست کا حصہ بن گئے۔

2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ 14 سال بعد تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، اس دوران دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے ہو چکا تھا کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو فروغ دیا جائے گا اور آئینی حکومتوں کو غیر قانونی طور پر ہٹانے کے کسی بھی عمل کی عالمی برادری حمایت نہیں کرے گی۔ یہ واحد نکتہ تھا جو میاں صاحب کے لیے سازگار تھا، اس کے علاوہ ایک نہیں درجنوں عوامل ان کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ ان کی جمہوری حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک پر ریاست کی گرفت عملاً نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہر جانب دہشت گردی کا راج تھا۔ اعلیٰ فوجی حکام سے لے کر قومی رہنماؤں سمیت ہر شہری انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے نشانے پر تھا۔

ملک کی معیشت خستہ حال تھی۔ پاکستان کے عنقریب دیوالیہ ہونے کے تجزیے ہو رہے تھے، امریکا، یورپ اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے تھے۔ مہنگائی اور غربت سے عوام کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ امید کی کوئی کرن دور تک نظر نہیں آتی تھی۔ ایسے حالات میں مخالفین اگر ان کے بارے میں منفی تجزیے کر رہے تھے تو اس میں حیرت کی بات نہیں تھی لیکن یہ بات ضرور حیران کن تھی کہ ان کے مخالفین خواہش کو خبر بنا رہے تھے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ہیں تو منتخب لیکن ان کا مزاج شاہانہ ہے۔

وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مخالفین کو کچل کر رکھ دیں گے اور پارلیمنٹ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ یہ اندازے بہت جلد غلط ثابت ہوئے۔ بلوچستان میں پی ایم ایل این واحد سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن وزیر اعظم نے حکومت سازی کے لیے بی این پی کو دعوت دی اور ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ بنے۔ مالک صاحب متوسط طبقے کے ایک سیاسی کارکن ہیں جن کی ساری زندگی جمہوری جدوجہد سے عبارت ہے۔ بی این پی ایک لبرل، روشن خیال اور جمہوریت پسند جماعت ہے جب کہ نواز شریف کے مخالفین انھیں دائیں بازو کا قدامت پسند رہنما قرار دیتے ہیں۔

ان کی جانب سے بلوچستان میں حکومت سازی کے موقعے سے فائدہ نہ اٹھانا اور بی این پی کو حکومت بنانے میں بھرپور تعاون اور وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرنا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ان کے حوالے سے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے بارے میں تجزیے غلط تھے؟ خبیرپختونخوا کی مثال بھی سامنے ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مل کر حکومت بنانے کے لیے انھیں قائل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن وزیراعظم نے مولانا کو ناراض کرتے ہوئے اس اصول کو اپنایا کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں چونکہ پی ٹی آئی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ارکان رکھتی ہے لہٰذا حکومت سازی کا پہلا حق اسے ملنا چاہیے۔

یہ بات کہنے کی نہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین نواز شریف سے کس قدر ''سیاسی نفرت'' کرتے ہیں۔ دھرنے کے دوران اور اس کے بعد بھی کون سا الزام تھا جو پی ٹی آئی کی طرف سے ان کی ذات اور حکومت پر نہیں لگایا گیا۔ اس کے باوجود انھوں نے خان صاحب کی نئی نویلی صوبائی حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ کوئی غیر جمہوری قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو اس سے ان کے تعلقات خوشگوار ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ کو مرکز یا وزیراعظم سے کوئی بڑی شکایت نہیں ہے۔

وزیراعظم نوازشریف پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ آمرانہ رویہ رکھتے ہیں، کسی سے مشاورت نہیں کرتے اور نہ اپنے فیصلوں کو تبدیل کرتے ہیں۔ 5 جون کو ان کو اقتدار میں آئے ہوئے 2 سال مکمل ہو جائینگے۔

ان دو برسوں کے دوران انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی قوتوں سے فعال رابطے برقرار رکھے۔ سیاسی اختلافات سے قطع نظر تقریباً تمام پارلیمانی اور قومی رہنماؤں سے ان کے تعلقات خوش گوار ہیں اور انھوں نے تمام اہم فیصلے سیاسی قوتوں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر کیے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہو یا 21 ویں ترمیم، قومی ایکشن پلان ہو یا یمن کا تنازعہ، ہر فیصلے کو اتفاق رائے سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ طرز عمل آمرانہ مزاج رکھنے والا وزیراعظم بھلا کس طرح اختیار کر سکتا ہے؟

یہ امر بھی بہت دلچسپ ہے کہ نواز شریف کے نقاد ان کے بارے میں انتہائی متضاد موقف اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ وہ ہر آرمی چیف سے اپنے تعلقات خراب کر لیتے ہیں، جب کہ مخالفین کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں اور اس کا ہر حکم بجا لاتے ہیں بلکہ کچھ دانشور یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ان کے پردے میں دراصل فوج حکمرانی کرتی ہے۔

ایک وزیراعظم کے بارے میں اتنے متضاد انداز ے نہ لگائے جاتے، اگر صرف اس نکتے پر غور کر لیا جاتا کہ اصل تنازعہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جب کبھی آتا ہے تو اس وقت کسی بھی منتخب وزیراعظم کے پاس صرف یہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنائے اور کسی بھی غیر آئینی مہم جوئی کی مزاحمت کرے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ماضی میں زیادہ تر منتخب وزرائے اعظم نے ایسے مواقعے پر مزاحمت کی راہ اختیار کی، نواز شریف نے بھی یہ راستہ اختیار کیا تو بالکل درست کیا۔

اب آئیں اس اعتراض کی جانب کہ وزیراعظم نواز شریف فوج کے کہنے پر عمل کرتے ہیں۔ یہ موقف اس لیے زیادہ وزن نہیں رکھتا کہ آج کی دنیا اور آج کا ہمارا ملک، ماضی کے مقابلے میں خاصا بدل چکا ہے۔ فوجی آمریتوں کو خوش آمدید کہنے کا زمانہ گزر گیا۔ ہمارے خطے میں امن اور ترقی، دنیا کی ضرورت ہے۔ چین کی جانب سے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس امر کا نمایاں مظہر ہے۔ پاکستان میں سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک کو بچانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا غالباً یہ آخری موقع ہے۔ لہٰذا سوچ اور رویوں میں تبدیلی عیاں ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے ہیں۔ عسکری قیادت آج آئین اور پارلیمنٹ کی پشت پر کھڑی ہے اور اس کے شواہد بھی نظر آ رہے ہیں۔

کاکول ملٹری اکیڈمی کی 132 ویں سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں افغانستان کی فوج کے سربراہ کا خصوصی مہمان ہونا اور انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا جانا ایک غیر معمولی تبدیلی کا مظہر ہے۔ کیا دو برس پہلے اس منظر کا تصور ممکن تھا؟ اسی طرح کراچی میں ہونے والے بہیمانہ سانحے کے فوراً بعد میاں صاحب کا جنرل راحیل شریف کے ساتھ کراچی پہنچنا اور سابق صدر زردار ی کے ساتھ سرجوڑ کر مشورہ کرنا کیا اس بات کی علامت نہیں کہ وہ ہر سطح پر باہم مشورے کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں حقائق، خدشات سے بالکل مختلف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں