تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان پہلا حصہ
اردو زبان کا سفر بڑا طویل اور کٹھن تھا اس لیے کہ کوئی بھی بولی زبان کا تاریخی روپ چند دنوں میں ہرگز نہیں دھارتی ہے
121 ویں شام اردو اس حوالے سے بے حد اہمیت کی حامل ہے کہ اس روز نئی کابینہ کے ارکان سے تحریک نفاذ اردو وصوبائی زبان کے روح رواں اور سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر مبین اختر (ماہر نفسیات) نے حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب بے حد پر وقار طریقے سے ظہور پذیر ہوئی، حسب معمول کلام پاک کی تلاوت اور نعت مقبول ﷺ نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ پیش کی گئی۔
تحریک کے عہدیداران نے ایک نئے عزم اور جوش و جذبے کے ساتھ کام کرنے کا عہد نہایت خلوص و سچائی کے ساتھ کیا۔ اس بار صدر جناب نسیم شاہ ایڈووکیٹ اور نائب صدر ڈاکٹر حسیب احمد، راقم السطور اور سید سیدالحسن کا انتخاب عمل میں آیا، معتمد عمومی کی ذمے داری نجیب عمر کے سپرد کی گئی، شریک معتمد عمومی فرح اختر اور عطیہ موہانی نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ کابینہ کے 9 عہدیداروں کے علاوہ مجلس میں چھ اراکین شامل ہیں، تمام نئے منتخب ارکان نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور دفاتر و دوسرے اداروں میں اپنی قومی زبان اردو کے استعمال کو لازمی بنانا بھی ان کا اہم فریضہ ہوگا۔
اردو زبان کا سفر بڑا طویل اور کٹھن تھا اس لیے کہ کوئی بھی بولی زبان کا تاریخی روپ چند دنوں میں ہرگز نہیں دھارتی ہے اس کے لیے صدیوں کا ثقافتی عمل اور عوامی رجحان درکار ہوتا ہے، اردو بھی صدیوں تک صوت و آہنگ کے مشکل ترین مرحلے سے گزری، صوفیائے کرام کی خانقاہوں میں اس نے ڈیرہ ڈالا، بزرگان دین کی تبلیغ نے اس کی عزت و شہرت کو چار چاند لگادیے اور یہ ترقی کے زینے طے کرتی چلی گئی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ محلوں در محلوں اور درویشوں و ولیوں کے سینوں میں جگہ بنانے والی اردو کی قدر وقیمت کم سے کم تر ایک سازش کے تحت کی جارہی ہے۔
آپ کسی بھی ٹی وی چینل کے پروگرام دیکھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ اردو کا کس قدر استحصال کیا جارہاہے، یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے، ہماری قومی زبان ہے، ہماری غیرت اور آن ہے، ہماری تہذیبی زبان ہے، علم و ادب کے خزانوں سے مزین ہے، آفرین ہے ڈاکٹر مبین اختر اور ان کے دیرینہ ساتھیوں پر کہ وہ اس پر آشوب دور میں اردو کو اس کا مرتبہ دینے اور شان بڑھانے کے لیے گزشتہ دس سال سے نفاذ اردو پر کام کررہے ہیں، سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی چل رہا ہے، جج صاحب نے حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے کہ اردو کو اتنے سال گزر جانے کے بعد اس کو سرکاری و دفتری زبان کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا ہے؟
در اصل اردو کا مسئلہ دینی، قومی، ملکی و معاشرتی مسئلہ ہے، دینی مسئلہ اس لیے ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اردو میں ہی ہے اور ہماری نئی نسلیں اردو سے دور ہوتی جارہی ہے، ان حالات میں وہ ان علوم سے کس طرح فائدہ کرسکتی ہیں۔ ماہرین لسانیات کی رائے یہ ہے کہ اگر اردو زبان پر توجہ نہ دی گئی تو اردو کا وجود بمشکل بیس پچیس سال سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتا ہے یعنی اردو بول چال کی زبان رہ جائے گی لکھنے پڑھنے کی نہیں اور یہ یقینا قومی و معاشرتی المیہ ہوگا کہ اپنی زبان کو بھلا کر دوسروں کی زبان اور تہذیب و ثقافت کو اپنا لیا جائے۔
الحمدﷲ ہم ہر معاملے میں خود کفیل ہیں خواہ زبان ہو، مختلف علوم، صنعتیں و درسگاہیں ہوں، رسم و رواج اور معدنیات یا پھر سمندر، دریا، جنگل اور پہاڑ، کھیت کھلیان، اﷲ نے پاکستان پر خصوصی رحمتیں نازل کی ہیں لیکن بد نصیب لوگ ہیں کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلارہے ہیں اور کشکول لیے گھوم رہے ہیں۔ اسی وجہ اور رویے کی بدولت پاکستان کو شکست و ریخت، بد حالی و غربت اور جہالت کی دلدل میں دھکا دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اپنے اعمال بد کی وجہ سے بھی برے دن دیکھنا نصیب ہوئے ہیں۔
بھلا کون ہے جو اپنی زبان سے محبت نہیں کرتا ہے، پوری دنیا کی مثال لے لیں، کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں دوسرے کی زبان کو اپنی عوام پر مسلط کردیاگیا ہو، کیا چینی باشندے جرمنی زبان بول سکتے ہیں، اس زبان میں علم حاصل کرسکتے ہیں، نہیں بالکل نہیں اس وقت جاپان کا ایک بڑا ہی سبق آموز واقعہ یاد آگیا کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد ''امریکا بہادر'' نے شہنشاہ جاپان سے یہ بات پوچھ کر اپنی بڑائی کا اظہار کیا کہ ''مانگو کیا مانگتے ہو؟'' تو شہنشاہ جاپان نے جواب دیا کہ ''اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم'' اسے کہتے ہیں، دانشوری، دور اندیشی اور اپنے لوگوں اور اپنے ملک سے محبت، یقینی بات ہے کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے گی تو طالب علم کی پچاس سے ستر اور اسی فی صد توانائی تو زبان سیکھنے میں خرچ ہوجائے گی اور بقیہ 20،30 فی صد نفس مضمون پر، تو سوچیے ان حالات میں وہ معاشی و سماجی معاملات کو سمجھ سکے گا؟ ترقی کی راہوں پر چل سکے گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔
پاکستان میں اردو کے نفاذ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں انگریزی بولنے اور سمجھنے والے بمشکل چار فی صد سے زیادہ نہیں، یہ زبان انگریزی نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان کا اقتدار اور برتری قائم ہے اگر اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی تو افسران بالا اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہونے کے خطرات لاحق ہوسکتے تھے اور غریب و متوسط طبقے کے بچے اردو ہماری سرکاری زبان نہ بننے کی وجہ سے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اردو میں سائنسی مضامین کی تعلیم دینا ناممکن ہے تو یہ سراسر غلط ہے اس کا ثبوت جامعہ عثمانیہ اور انجینئرنگ کالج دھڑکی اور دیگر جگہیں ہیں جہاں یہ مضامین ایم بی بی ایس اور بی ای اردو میں پڑھائے جا رہے ہیں۔
انگریزی سے قطع تعلق کرلینا بھی دانشمندی نہیں، چونکہ فی زمانہ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے، اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں کارنامے انجام دینے ہیں تو ضرور انگلش سیکھی جائے، لیکن بات اتنی سی ہے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں ہوسکتی ہے،پاکستان میں اردو کا نفاذ سیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے، پاکستان کے آئین میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ 1973 کے آئین کی دفعہ 251 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔
زبان کی اہمیت و وقعت کے حوالے سے یہ واقعہ درج کرنا بھی ضروری ہے کہ انگلستان کے وزیر تعلیم نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اعلیٰ حضرات نے انگلش میڈیم اسکولوں سے متعارف کرانے کے لیے انھیں مدعو کیا، دورہ کرنے کے بعد جب ان کے تاثرات معلوم کیے تو وزیر تعلیم کا جواب تھا کہ ''اگر میں اپنے ملک میں طلبہ کو غیر ملکی زبان میں پڑھنے پر مجبور کرتا تو یقیناً مجھے یا تو پھانسی گھاٹ لے جایا جاتا یا پھر پاگل خانے۔'' انھوں نے مزید فرمایا کہ ''دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ناپید ہوجاتی ہیں۔''
کاش اس وقت ہی عقل کے ناخن لے لیے جاتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے پاکستان کا ہر شہری سر اٹھاکر چلتا کہ اس کی بھی ایک پہچان ہوتی ہے۔
تحریک کے سربراہ جناب ڈاکٹر مبین اختر نے اس کے نام میں صوبائی زبان کا اضافہ کیا ہے، بے شک یہ قابل تحسین عمل ہے، صوبائی زبانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور یہ آپس میں محبت و خلوص بڑھانے کے لیے پل کا کام انجام دیتی ہیں اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
(جاری ہے)