نیپال کا زلزلہ اور مغرور بھارتی میڈیا
اس وقت نیپال ایک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے،گزشتہ دنوں آنے والے زلزلے نے پورے ملک کو تہس نہس کر ڈالا ہے۔
لاہور:
بعض اقوام اور ان کے حکمرانوں کو خود کو اعلیٰ وبرتر سمجھنے اور دوسری قوموں کو تضحیک کرنے میں بہت لطف آتا ہے مگر یہ خطرناک رجحان ہی نہیں بلکہ لا علاج بیماری ہے جس کا انجام یقینی تباہی وبربادی ہے۔ ایک وقت تھا جب جرمن قوم اور اس کے حکمران خود کو دنیا کی سب سے اعلیٰ نسل سب سے زیادہ ترقی یافتہ اورحربی لحاظ سے مضبوط ترین قوم ہونے کے احساس برتری میں مبتلا تھے اور اسی خناس کی وجہ سے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں برپا ہوئیں جو پوری دنیا کے لیے تباہی کا باعث تو بنی ہی مگر ساتھ ہی جرمن قوم کا غرور و تکبر خاک میں ملاگئیں۔
اس وقت بھی دنیا میں ایک ملک ایسا ہے جو بالکل جرمنی کے نقش قدم پر چلتا دکھائی دیتا ہے اسے کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں وہ ہمارے پڑوس میں ہی ہے ۔اس کے نہ صرف رہنماؤں کو بلکہ پوری قوم کو اپنے ملک کے بڑے رقبے اور ترقی اور فوجی طاقت پر بہت غرور ہے وہ اپنے کسی پڑوسی کو خاطر میں نہیں لاتے ان کے نزدیک سارے پڑوسی بونے ملک ہیں۔
انھیں بھارت کا احترام ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے اشاروں پر چلنا چاہیے کیونکہ بھارت ایک عظیم ملک ہے جس کے ہر درخت کی شاخوں پر سونے کی چڑیاں بسیرا کرتی ہیں؟ اس کی ترقی عروج پر ہے اور فوجی طاقت کا کوئی حساب نہیں ہے؟ اسی احساس برتری کے نشے میں بھارتی حکمران اپنے کسی بھی پڑوسی کو خاطر میں نہیں لاتے،ہر ایک کی زمین کو اپنی ہی زمین سمجھتے ہیں۔
ادھر کشمیر کو وہ اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہوچکا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے اس متنازعہ خطے کو اپنا اٹوٹ انگ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کی ہوس ملک گیری سے تو سری لنکا بھی نہیں بچ سکا ہے وہ تامل ٹائیگرز کے ذریعے سری لنکا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ نیپال پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کررہاتھا مگر نیپالی قوم نے بھی بھارتی حکمرانوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیاتھا۔
اس وقت نیپال ایک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے،گزشتہ دنوں آنے والے زلزلے نے پورے ملک کو تہس نہس کر ڈالا ہے۔ مگر اس تمام کچھ کے باوجود نیپالیوں کے حوصلے بلند ہیں، وہ اس بڑی تباہی کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اس تباہی سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک ان کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں۔ پاکستان بھی ان کی دل کھول کر مدد کررہاہے اس نے وہاں ضروریات زندگی کی اشیا سے لے کر اپنی میڈیکل ٹیمیں بھی بھیجی ہیں جو وہاں زخمیوں کا علاج کرنے کے علاوہ بے خانما ماؤں کی زچگی کے لیے بھی انتظامات کررہی ہیں۔ پاکستانی میڈیکل کیمپوں میں کئی زچگیاں ہوچکی ہیں۔ نیپالی عوام جو پاکستانیوں کے جذبہ خدمت سے بے حد خوش ہیں نے پاکستانی میڈیکل کیمپوں میں پیدا ہونے والے دو بچوں کو لاہور اور پاکستان کے نام دیے ہیں۔
یہ دراصل نیپالی قوم کا پاکستانیوں کی بے لوث اور پر خلوص خدمت کا واضح اعتراف ہے۔ دوسری جانب اگرچہ بھارت بھی وہاں امدادی اشیاء لے کر پہنچا ہے مگر اس کے حکمران نیپالیوں کی دل جوئی کرنے کے بجائے اپنا احسان جتاکر ان کی غیرت کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ پھر ان کے میڈیا نے تو حد ہی کردی تھی، وہ تو نیپال کو سچ مچ ہی اپنا ایک حصہ سمجھ کر وہاں بے دو ٹوک ہر جگہ گھوم پھر رہے تھے اور لوگوں کے دکھ درد کو بانٹنے کی بجائے اپنے بھارتی ہونے کا رعب جھاڑ رہے تھے.
وہ نیپال کو ایک ننھا منا سا ملک کہہ کر پکار رہے تھے ساتھ ہی نیپال کو اپنے سے کم تر اور ایک نہایت پسماندہ ملک کا طعنہ دے رہے تھے وہ یہ بھی فخر سے کہہ رہے تھے کہ ان کے وزیراعظم نریندر مودی کا احسان نیپالیوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے، نریندر مودی نے ان کے لیے بہت بڑی امداد بھیجی ہے جس کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کرسکتا وہ جہاں بھی جاتے لوگوں سے انٹرویو لیتے اور الٹے سیدھے سوالات کرتے۔ کبھی ان کی آمدنی پوچھتے تو کبھی ان کے لیڈروں کا ان کے ساتھ رویے کے بارے میں پوچھتے کیا اس مصیبت کے وقت میں یہ سوالات پوچھنے چاہیے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے وہاں فخر و غرور کا وہ مظاہرہ کیا کہ وہاں کے لوگ ان کی امداد کا احسان مند ہونے کے بجائے ان سے ایسے ناراض ہوئے کہ وہ ان کی امداد کو ذرا خاطر میں نہ لائے۔
بی بی سی ہندی سروس نے اپنی ویب سائٹ پر بھارتی میڈیا کے اس تکبرانہ رویے کی خوب تصویر کشی کی ہے ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا نیپال میں اپنی کرتوت کی وجہ سے بدنامی کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ نیپال میں زلزلے کی تکبرانہ رپورٹنگ پر نیپالی عوام ان سے سخت ناراض ہیں۔ بھارت نے اپنی امداد کا اپنے میڈیا کے ذریعے خوب احسان جتایا انھوں نے نیپالی عوام کو حقیر جانا اور اپنے وزیراعظم کے نام کی ایسی مالا جپی کہ نیپالی نہ صرف نریندر مودی سے بلکہ بھارت سے ہی ناراض ہوگئے.
بی بی سی نے نیپال کے مشہور صحافی سی کے لال اور یوراج گھیمرے کے علاوہ کھٹمنڈو میں اپنے نمائندے مہیش اچاریہ سے اس موضوع پر بات کی ہے سی کے لال نے کہاکہ زلزلے کی رپورٹنگ کے وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے بھارتی میڈیا کسی فلم کی شوٹنگ کی رپورٹنگ کرنے یہاں آیا تھا یا پھر کسی ٹی وی سیریل کی شوٹنگ کی رپورٹنگ کررہاتھا، بھارتی میڈیا کے لوگوں کو نہ تو نیپال کے جغرافیے کا کچھ پتہ تھا نہ تاریخ کا اور نہ ہی نیپالی ثقافت کا، وہ بغیر سوچے سمجھے بات کررہے تھے۔ گویا کہ اپنی بے وقوفیاں دکھارہے تھے جس پر نیپالی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
یوراج گھیمرے نے کہاکہ بھارتی میڈیا نیپال میں اپنے قیام کے تمام دن یہ تاثر دیتا رہا کہ وہ ایک بڑے دیش سے آئے ہیں اور وہ بلا اجازت کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نیپال میں کبھی مقبولیت حاصل نہ کرسکا جس کی ایک بڑی وجہ اس کے سفیروں کی نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے وہ نیپالی حکومت کو بھارت کے اشاروں پر چلنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں اور ہمیشہ چین و پاکستان سے دور رہنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی امداد کے بارے میں انھوں نے کہاکہ ان کا کام قاعدے کے مطابق تھا انھوں نے کسی بھی مرحلے پر حد سے تجاوز نہیں کیا جب کہ بھارت نے جتنا یہاں کام نہیں کیا اس سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹا۔ انھوں نے پاکستان سے آئے گوشت پر بھی سیاست کی اور اسے گائے کا بتایا جب کہ پاکستانی جانتے ہیں کہ نیپالی ہندو ہیں اور وہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے، بھارتی میڈیا نے نیپال کے اس مشکل وقت کو بھی خوب استعمال کیا اور پاکستان و چین مخالف پروپیگنڈے کی بھرمار کرتے رہے وہ اکثر واقعات کو توڑ مروڑ کر بھی پیش کرتے رہے، بھارتی میڈیا کے اس بے رحمانہ اور تکبرانہ رویے پر نیپالیوں نے ہی نہیں بلکہ بھارت کے بعض غیر متعصب لوگوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور بعض نے ٹوئیٹر پر انھیں مشورہ دیا کہ انھوں نے نیپال میں وہ گندگی کی ہے کہ اب انھیں بھارت واپس آنے کے بجائے نیپال کی کسی جھیل میں ہی ڈوب کر مرنا چاہیے۔