کبھی سنا نہ تھا ایسا…

برائی کو بروں سمیت ڈبو دیا گیا اور ملک اس کے بعد خوشحالی کی راہ پر چل پڑا۔


Shirin Hyder May 17, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: بہت پرانے زمانے کی کہانی ہے، کسی ملک میں ایک لالچی ایسا ٹولہ حکومت میں آ گیا جنہوں نے کرپشن سے اس ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا، بادشاہ سے لے کر اس کے وزراء اور ادنی سے ادنی خادموں نے بھی عوام الناس کی زندگیو ں کو اجیرن کر رکھا تھا،لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ تھا نہ سروں پر چھت، غربت اور افلاس کی سطح ملک میں اس قدر بڑھ گئی کہ آسمان کو چھونے لگی۔

حکمرانوں سے امیدیں دم توڑ گئیں تو لوگوں کے پاس اللہ تعالی سے مدد مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اللہ کے دربار میں ان کی شنوائی ہوئی اور ان کی دعاؤں کو قبولیت حاصل ہوئی۔ ایک متحد اور منظم بغاوت سے تختہ الٹ دیا گیا، بادشاہ اور اس کے ساتھ شریک اس کی پوری کابینہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، فوج کے سربراہ نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا، عوام کے ٹیکسوں اور ان پر جرمانوں سے وصول کی گئی رقوم اور ملکی خزانے سے لوٹا ہوا مال واپس لیا گیا اور اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانے لگا تو لوگوں کی زندگیاں آسان ہو گئیں۔

اگلا مسئلہ ان لٹیروں کا تھا جو کہ جیلوں میں پڑے تھے، کافی سوچ بچار کی گئی کہ ان گرفتار لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے،ان پر بددیانتی کے مقدمات چلتے تو غالباً برسوں بیت جاتے اور کوئی فیصلہ نہ ہو پاتا اور کوئی دن آتا کہ وہ بددیانت لوگ چھوٹ جاتے۔ ملک کے نئے سربراہ نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دینے والے اس جتھے کا حل سوچا۔ان تمام گرفتار لوگوں کو بیڑیاں باندھ کر ایک بڑے سے بحری جہاز میں سوار کروایا، سمندر کے عین بیچ میں جا کر اس جہاز کے پیندے میں سوراخ کر دیا گیا۔

برائی کو بروں سمیت ڈبو دیا گیا اور ملک اس کے بعد خوشحالی کی راہ پر چل پڑا۔ یہ تو خیر کسی ایسے لکھاری کی کہانی ہے جس کی ہماری طرح بے تکمیل خواہشات ہوں گی کہ جو حکومت عوام کی مجبوریوں کو نہ سمجھ سکے اس کا علاج یہی ہونا چاہیے۔کبھی کبھار ایسی کوئی خبر پڑھیں تو ایسا لگتا ہے نا کہ کوئی لطیفہ پڑھ لیا ہو جیسے؟

یا وہ خبر اس دنیا کی نہیں بلکہ کسی تصوراتی دنیا کی ہو! ہم جیسے لوگ بالخصوص جو ایک الگ ہی ملک میں رہتے ہیں، ہمیں ایسی خبریں جھوٹ کا پلندہ لگتی ہیں، مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ دل ہی دل میں ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسا ہو! شمالی کوریا کے حوالے سے یہ خبر چند لوگوں نے ضرور پڑھی ہو گی کہ وہاں کے وزیر دفاع اور انٹیلی جنس چیف کو سزا کے طور پر، اینٹی ائیر کرافٹ گن سے اڑا دیا گیا۔ اس اینٹی ائیرکرافٹ گن کی تباہی کی حد چھبیس ہزار فٹ تک ہے لیکن انٹیلی جنس چیف کو فقط سو فٹ کے فاصلے سے اڑایا گیا، ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ان کے جسم کے کیسے پرخچے اڑے ہوں گے!

ایسی خبر پڑھ کر عام آدمی سوچتا ہے کہ ضرور ایسا ان کے ساتھ کسی انتہائی سنگین جرم کے ارتکاب پر کیا گیا ہوگا، مگر حیرت کی بات ہے کہ کم از کم ہمارے حساب اور ہماری کتابوں کے مطابق ان کا جرم ایسا سنگین نہ تھا۔ Kim Jong Un نے اپنے وزیر دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ Hyon Yong Chol کو ( جن کی عمر لگ بھگ 66 برس تھی اور وہ 2012 سے اس عہدے پر فائز تھے) شمالی کوریا کے دارالخلافہ میں، ایک فوجی تقریب کے دوران اونگھ جانے کے باعث، اس سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔ اس تقریب میں سیکڑوں لوگ موجود تھے جنہوں نے یہ بھیانک اور عبرت ناک نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔

مجھے یہ خبر پڑھ کر دکھ ہو، اس بات پر نہیں کہ ایسا کیوں ہوا... اس لیے کہ ایسا کبھی ہمارے ہاں کیوں نہیں ہوا!!! ہمارے ملک میں بھی 1947 سے لے کر اب تک کئی بار حکومتیں بدلیں، کئی نظام آزمائے گئے، کئی چہرے آئے اور گئے، کئی چہرے بار بار آئے۔ کئی بار ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے گئے اور ان ہی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بارہا دھوکہ کھایا، مگر ہم کریں بھی تو کیا ... ہمارے ملک کا سیاسی نظام ایسا ہے کہ اس میں چھانٹی نہیں ہوتی، ہم ووٹ اس لیے نہیں ڈالتے کہ ہم کسی اچھے شخص کو منتخب کر سکیں بلکہ ہمیں بروں میں سے کم برے کو چننا ہوتا ہے۔

ہم پر وہ لوگ ووٹوں کے ذریعے یا ملکی حالات کے پیش نظر لوگ مسلط ہو جاتے ہیں جن کے ذاتی مفادات ، ملکی مفادات سے اہم ہوتے ہیں، جن کی ترجیحات، ملک نہیں بلکہ اپنا خاندان اور اپنا کاروبار ہوتے ہیں، ملک کا کیا ہے، رہے نہ رہے ( خدا نخواستہ) ان کے لیے اور ملک کافی!

ہمارے ہاں کے ٹیلی وژن کے مزاحیہ پروگراموں میں اور حتی کہ ملکی خبروں میں بھی بسا اوقات ایسی خبریں انتہائی مزاحیہ انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ قومی اسمبلیوں کے اجلاس ہوں یا سینیٹ کے، ملکی اور غیر ملکی اہمیت کی یا سرکاری تقریبات میں بھی ہمارے ہاں وزراء اور مشیروں کو اونگھتے ،سوتے اور باقاعدہ خراٹے لیتے ہوئے بھی دکھایا جاتا ہے۔ کس جگہ اور کس موقع پر وہ موجود ہیں، کس نوعیت اور کس اہمیت کے فیصلوں کا حصہ وہ بن رہے ہوتے ہیں، اس سے قطعی لا علم وہ اہم اجلاسوں میں بھی سوئے ہوئے ، رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں، مگر ہم سب اسے ہنس کر دیکھتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں، کاش اس ملک میں بھی ایسا کوئی جی دار حکمران ہوتا جو اپنے وزراء اور مشیروں کو ایسی ' واردات ' پر ہلکی سی سرزنش بھی کرتا کجا یہ کہ انھیں سخت سزا دی جائے!

ہمارے تو سارے وزراء ہر طرح گہری نیند سوئے ہوئے ہیں، ان کے ضمیر سوئے ہوئے ہیں، ان کے دماغ سوئے ہوئے ہیں ، دل احساس سے عاری ہیں۔ کئی ممالک میں ہم سنتے ہیں کہ وزراء اپنے محکموں کی ہر طرح کی گڑ بڑ کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنی نااہلی کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جاتے ہیں یا بر طرف کر دیے جاتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، ہر روز سیکڑوں لاشیں گرتی ہیں،ہر ٹارگٹ کلنگ کا ذمے دار کبھی کسی گروہ کو ٹھہرایا جاتا ہے کبھی کسی کو، لواحقین فریادیں کرتے، اونچے اونچے ایوانوں کے دروازوں کے باہر بلکتے رہتے ہیں، ان کی شنوائی ہوتی ہے نہ ان کے آنسو پونچھے جاتے ہیں۔

حکمرانوں کی اجارہ داری کا یہ عالم ہے کہ جانے کتنے ہی محکمے ہیں جن کی سرپرستی خود وزیر اعظم کر رہے ہیں، انھیں شاید یہ یقین ہے کہ ان سے بہتر نظام کوئی نہیں چلا سکتا، مسائل ہمارے پاس بھی لاینحل پڑے رہتے ہیں مگر ہم کسی اور کو ذمے داری تفویض نہیں کرنا چاہتے ۔

سانحہ کراچی ہو یا کوئی اور دہشت گردی کا واقعہ، اس پر پرچم سرنگوں رکھنا، بیانات جاری کرنا کہ واقعے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی، کافی نہیں۔ ملک کے چپے چپے میں خون بہہ رہا ہے مگر باقی نظام اسی طرح چل رہا ہے۔ میں اور آپ اسی لا تعلقی سے جئے جا رہے ہیں۔ کیا آج تک کسی واقعے کا کوئی ذمے دار ٹھہرا؟ کیا کسی محکمے کی بد اعمالی یا نا اہلی پر کسی نے استعفی دیا؟ کیا کسی وزیر یا مشیر کو اس قدر طویل سونے پر سزا دی گئی ہے؟ امید ہے کہ ' طویل سونے ' کا مطلب واضح ہے، ہمارے ہاں وزیر سو رہے ہیں، غرض ہر ہر محکمے کے وزیر دیکھ لیں ، کون ہے جو خواب غفلت میں نہیں ہے؟

کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ واقعات کے لیے جواب دہ صوبائی اور وفاقی وزراء غالباً نیند کی گولیاں پھانک کر سو رہے ہیں، ایسے تواتر سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد کیا وہ سزا کے مستحق نہیں؟ اس وقت ملکی حالات اور ہمارے سربراہان کے انداز آپس میں قطعی میل نہیں کھاتے، ہمیں بیرونی مسائل پر اپنے ملکی مسائل سے بڑھ کر پریشانی ہے۔ شمالی کوریا سے دی گئی حالیہ مثال تو حد سے تجاوز کرتی ہوئی ایک مثال ہے مگر کم از کم اس سے کم درجے کی سزاؤں کے تو ہمارے وہ منتخب نمائندے مستحق ہیں جنھیں ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی منتخب نمائندہ اپنے فرائض سے غفلت کے ارتکاب پر اپنے انجام کو پہنچے تو باقیوں کو خود ہی عبرت حاصل ہو جائے گی ورنہ ہم ٹیلی وژن پر واقعی اور ملکی مسائل پر علامتی طور پر غفلت کی نیند سونے والوں کو دیکھ دیکھ کر ہنستے رہیں گے، ان کاکچھ تو علاج اے چارہ گر!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں