گدلے پانیوں کی ایجنسیاں
اس تنظیم نے اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے ہر ملک سے اچھی صحت کے حامل افراد کو اپنی تربیتی ٹیم میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔
ISLAMABAD:
ورجینیا اور نارتھ کیرولینا کے بارڈر پر ایک سرسبز علاقہ ہے،سات ہزار ایکڑ پر مشتمل امریکی سر زمین کا یہ ایک ایسا و یران دلدلی علاقہ ہے جہاں ہری گھاس سارا دن پانی میں کھڑے رہنے کے باعث گل سڑ چکی ہے ۔ پانی کی زیادتی اور گلی سڑی گھاس کے اس رنگ کے باعث اس علاقے کو بلیک واٹر یا کالا پانی کہا جاتا ہے۔
اس زمین کو 1990 ء میں ایرک پرنس نامی ایک شخص نے خریدا اس کے گرد لوہے کی باڑ لگائی اور آبادی کو اس جگہ سے دور کردیا گیا،سات سال اس علاقے کے بارے میں دنیا کو گمراہ کیا جاتا رہا،کبھی بھوت پریت،کبھی کوئی خلائی مشن اور کبھی کوئی نئی ایٹمی کھوج کا بہانہ بنا کر عوام کو اس علاقے کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیا گیا،1997ء میں یہاں ایک تنظیم قائم کی گئی،جس کا نام بلیک واٹر ورلڈ وائڈز تھا،یہاں ایک ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا اور چالیس ہزار افراد کو ٹریننگ دی گئی۔یہ جدید اسلحہ اور جاسوسی آلات سے لیس اپنی طرز کا اچھوتا ٹریننگ سینٹر تھا،ان کے اپنے طیارے،گن شپ ہیلی کاپٹر تھے۔
چونکہ یہ تنظیم نجی سطح پر قائم کی گئی تھی اور سکیورٹی کے نام پر نائن الیون جیسے واقعات کے بعد ،امریکا کو ایسی ایجنسیوں کی اشد ضرورت تھی،چنانچہ اس ایجنسی کو بغیر روک ٹوک کے اپنا کام جاری رکھنے دیا گیا،یہ ایجنسی اسٹیٹ کے اندر ایک ایسی اسٹیٹ تھی،جو اپنے طور پر اسٹیٹ کے باسیوں کی سکیورٹی کے لیے کام کر رہی تھی اور اپنے تربیت یافتہ افراد حکومت کے حوالے کر کے حکومت سے معاوضہ لے رہی تھی۔ اس تنظیم نے اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے ہر ملک سے اچھی صحت کے حامل افراد کو اپنی تربیتی ٹیم میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔
یوں ان کے لیے مطلوبہ ممالک میں جاسوسی کا سلسلہ بھی اپنے عروج کو پہنچنے لگا، دنیا ورجینیا اور نارتھ کیرولینا کے گدلے پانیوں کی طرح ، اس تنظیم کے نام سے بھی ناواقف تھی ،مگر پھر دریائے فرات کے کنارے چند سرکٹی لاشوں نے پوری دنیا کی توجہ اس تنظیم کی طرف دلوا دی۔امریکی فوج ،اس تنظیم کے تربیت یافتہ جاسوس جنگ زدہ علاقوں میں بھیجتی،ان کے ذریعے خوراک تقسیم کی جاتی اور بدلے میں ان سے انتہائی اہم معلومات حاصل کی جاتیں۔یہ ایک ایسا پیچیدہ نیٹ ورک تھا کہ جس نے دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے تھے۔
یہاں دنیا کی ٹاپ ٹین آفیشل ایجنسیوں کا ذکر ضروری ہے،ہمارے دشمن ملک اسرائیل کی ایجنسی موساد ،دنیا بھر میں صہیونیت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اور دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں اس کا دسواں نمبر ہے، نویں نمبر پر ہمارے دوست ملک چین کی انٹیلی جنس ایجنسی ' منسٹری آف اسٹیٹ سکیورٹی'MSS آتی ہے،یہ 1937ء میں قائم کی گئی تھی اور موجودہ چین کی ترقی میں اس ایجنسی کا بہت کردار مانا جاتا ہے۔
آٹھویں نمبر پر آسٹریلوی ASIS موجود ہے،جو یقینا ایک ابھرتی سپر پاور کی مضبوط ترین ایجنسی ہے،ساتویں نمبر پر فرانس کی DGSE ، چھٹے نمبر پر ہماری ملکی سلامتی کی سب سے بڑی دشمن ایجنسی بھارت کی ' را' ، پانچویں پر ہٹلر کے دیس جرمنی کی BND، چوتھے نمبر پر ، روس کی FSB، تیسرے نمبر پر برطانیہ کی MI6، دوسرے نمبر پر دنیا کی سپر پاور اور بلیک واٹر جیسی ایجنسیوں کا سہارا لینے والی امریکی سی آئی اے ، اور پہلے نمبر پر 1948ء میں قائم کی گئی ،دنیا کی سب سے طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی ، پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ISI موجود ہے۔یہ رینکنگ کئی بار امریکن کرائم نیوز سمیت ، دیگر جریدے شائع کر چکے ہیں۔ عراق میں فلوجہ کے مقام پر جب اس تنظیم بلیک واٹر کے نیٹ ورک کے بارے میں ٹھوس شواہد ملے،تو امریکا نے بہت چالاکی سے ،اس نجی ادارے کو حکومتی سطح پر ماننے سے انکار کردیا ۔
پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کیس اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کے بعد اس ایجنسی کے افراد کی ملک میں موجودگی پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ دنیا بھر میں پولیو جیسے مرض میں مبتلا آخری تین ممالک میں سے سر ِ فہرست ہمارے ملک کو بلیک واٹر جیسی کارروائیوں کے لیے مزید مشکوک بنا دیا گیا ہے۔اب جاسوسی کے نام پر جہاں شورش زدہ علاقوں میں اس مرض کے خاتمے کے لیے کسی قسم کی کوئی غیر ملکی کمپین چلانا ممکن نہیں رہا ،وہیں آبادی کے امڈتے سیلاب کو روکنے کے لیے پرامن پاکستان میں بھی،کسی بھی قسم کی بین الاقوامی ہیلتھ سروسز مشکوک ہوگئی ہیں۔
یوں گدلے پانیوں سے اٹھی اس تنظیم نے ہمیں دہرا نقصان پہنچایا ہے۔ ' را' ، 'موساد' اور ' سی آئی اے' سمیت ہر دشمن ملک ایجنسی اپنی اپنی مشکوک سرگرمیوں میں اب اسی قسم کی نجی ایجنسیوں کا سہارا لینے لگی ہے۔گدلے پانیوں سے اٹھی،یہ ناپاک ایجنسیاں ، ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں پیش پیش ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم ہٹلر کی ناکامی نہیں،بہت بڑی کامیابی تھی، مگر جب 1942ء میں ہٹلر کامیابی کے نشے میں چور ہوکر اسٹالن کی غیر جنگی چالوں سے آنکھیں بند کر بیٹھا ،تو ہٹلر کے کئی وفادار جنرل ،ان شاطرانہ چالوں کا شکار ہوکر ،افرادی قوت اور اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود پسپا ہونے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی واحد ،اسلامی ایٹمی قوت ہیں،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارا دفاع ،فولادی ہاتھوں میں ہے، مگر ہمیں دشمن کے دوہرے حملوں سے خود کو محفوظ کرنا ہے ، جہاں ایک طرف عوام کا بین الاقوامی صحت کے منصوبوں اور ان کے تحت چلنے والے پروگراموں پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے،وہیں ہمیں ورجینیا کے گدلے پانیوں سے اٹھی ،ایسی نان اسٹیٹ،دشمن ایجنسیوں سے بھی خود کو بچانا ہے،اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔
ورجینیا اور نارتھ کیرولینا کے بارڈر پر ایک سرسبز علاقہ ہے،سات ہزار ایکڑ پر مشتمل امریکی سر زمین کا یہ ایک ایسا و یران دلدلی علاقہ ہے جہاں ہری گھاس سارا دن پانی میں کھڑے رہنے کے باعث گل سڑ چکی ہے ۔ پانی کی زیادتی اور گلی سڑی گھاس کے اس رنگ کے باعث اس علاقے کو بلیک واٹر یا کالا پانی کہا جاتا ہے۔
اس زمین کو 1990 ء میں ایرک پرنس نامی ایک شخص نے خریدا اس کے گرد لوہے کی باڑ لگائی اور آبادی کو اس جگہ سے دور کردیا گیا،سات سال اس علاقے کے بارے میں دنیا کو گمراہ کیا جاتا رہا،کبھی بھوت پریت،کبھی کوئی خلائی مشن اور کبھی کوئی نئی ایٹمی کھوج کا بہانہ بنا کر عوام کو اس علاقے کے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیا گیا،1997ء میں یہاں ایک تنظیم قائم کی گئی،جس کا نام بلیک واٹر ورلڈ وائڈز تھا،یہاں ایک ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا اور چالیس ہزار افراد کو ٹریننگ دی گئی۔یہ جدید اسلحہ اور جاسوسی آلات سے لیس اپنی طرز کا اچھوتا ٹریننگ سینٹر تھا،ان کے اپنے طیارے،گن شپ ہیلی کاپٹر تھے۔
چونکہ یہ تنظیم نجی سطح پر قائم کی گئی تھی اور سکیورٹی کے نام پر نائن الیون جیسے واقعات کے بعد ،امریکا کو ایسی ایجنسیوں کی اشد ضرورت تھی،چنانچہ اس ایجنسی کو بغیر روک ٹوک کے اپنا کام جاری رکھنے دیا گیا،یہ ایجنسی اسٹیٹ کے اندر ایک ایسی اسٹیٹ تھی،جو اپنے طور پر اسٹیٹ کے باسیوں کی سکیورٹی کے لیے کام کر رہی تھی اور اپنے تربیت یافتہ افراد حکومت کے حوالے کر کے حکومت سے معاوضہ لے رہی تھی۔ اس تنظیم نے اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے ہر ملک سے اچھی صحت کے حامل افراد کو اپنی تربیتی ٹیم میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔
یوں ان کے لیے مطلوبہ ممالک میں جاسوسی کا سلسلہ بھی اپنے عروج کو پہنچنے لگا، دنیا ورجینیا اور نارتھ کیرولینا کے گدلے پانیوں کی طرح ، اس تنظیم کے نام سے بھی ناواقف تھی ،مگر پھر دریائے فرات کے کنارے چند سرکٹی لاشوں نے پوری دنیا کی توجہ اس تنظیم کی طرف دلوا دی۔امریکی فوج ،اس تنظیم کے تربیت یافتہ جاسوس جنگ زدہ علاقوں میں بھیجتی،ان کے ذریعے خوراک تقسیم کی جاتی اور بدلے میں ان سے انتہائی اہم معلومات حاصل کی جاتیں۔یہ ایک ایسا پیچیدہ نیٹ ورک تھا کہ جس نے دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے تھے۔
یہاں دنیا کی ٹاپ ٹین آفیشل ایجنسیوں کا ذکر ضروری ہے،ہمارے دشمن ملک اسرائیل کی ایجنسی موساد ،دنیا بھر میں صہیونیت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اور دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں اس کا دسواں نمبر ہے، نویں نمبر پر ہمارے دوست ملک چین کی انٹیلی جنس ایجنسی ' منسٹری آف اسٹیٹ سکیورٹی'MSS آتی ہے،یہ 1937ء میں قائم کی گئی تھی اور موجودہ چین کی ترقی میں اس ایجنسی کا بہت کردار مانا جاتا ہے۔
آٹھویں نمبر پر آسٹریلوی ASIS موجود ہے،جو یقینا ایک ابھرتی سپر پاور کی مضبوط ترین ایجنسی ہے،ساتویں نمبر پر فرانس کی DGSE ، چھٹے نمبر پر ہماری ملکی سلامتی کی سب سے بڑی دشمن ایجنسی بھارت کی ' را' ، پانچویں پر ہٹلر کے دیس جرمنی کی BND، چوتھے نمبر پر ، روس کی FSB، تیسرے نمبر پر برطانیہ کی MI6، دوسرے نمبر پر دنیا کی سپر پاور اور بلیک واٹر جیسی ایجنسیوں کا سہارا لینے والی امریکی سی آئی اے ، اور پہلے نمبر پر 1948ء میں قائم کی گئی ،دنیا کی سب سے طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی ، پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ISI موجود ہے۔یہ رینکنگ کئی بار امریکن کرائم نیوز سمیت ، دیگر جریدے شائع کر چکے ہیں۔ عراق میں فلوجہ کے مقام پر جب اس تنظیم بلیک واٹر کے نیٹ ورک کے بارے میں ٹھوس شواہد ملے،تو امریکا نے بہت چالاکی سے ،اس نجی ادارے کو حکومتی سطح پر ماننے سے انکار کردیا ۔
پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کیس اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کے بعد اس ایجنسی کے افراد کی ملک میں موجودگی پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ دنیا بھر میں پولیو جیسے مرض میں مبتلا آخری تین ممالک میں سے سر ِ فہرست ہمارے ملک کو بلیک واٹر جیسی کارروائیوں کے لیے مزید مشکوک بنا دیا گیا ہے۔اب جاسوسی کے نام پر جہاں شورش زدہ علاقوں میں اس مرض کے خاتمے کے لیے کسی قسم کی کوئی غیر ملکی کمپین چلانا ممکن نہیں رہا ،وہیں آبادی کے امڈتے سیلاب کو روکنے کے لیے پرامن پاکستان میں بھی،کسی بھی قسم کی بین الاقوامی ہیلتھ سروسز مشکوک ہوگئی ہیں۔
یوں گدلے پانیوں سے اٹھی اس تنظیم نے ہمیں دہرا نقصان پہنچایا ہے۔ ' را' ، 'موساد' اور ' سی آئی اے' سمیت ہر دشمن ملک ایجنسی اپنی اپنی مشکوک سرگرمیوں میں اب اسی قسم کی نجی ایجنسیوں کا سہارا لینے لگی ہے۔گدلے پانیوں سے اٹھی،یہ ناپاک ایجنسیاں ، ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں پیش پیش ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم ہٹلر کی ناکامی نہیں،بہت بڑی کامیابی تھی، مگر جب 1942ء میں ہٹلر کامیابی کے نشے میں چور ہوکر اسٹالن کی غیر جنگی چالوں سے آنکھیں بند کر بیٹھا ،تو ہٹلر کے کئی وفادار جنرل ،ان شاطرانہ چالوں کا شکار ہوکر ،افرادی قوت اور اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود پسپا ہونے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی واحد ،اسلامی ایٹمی قوت ہیں،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارا دفاع ،فولادی ہاتھوں میں ہے، مگر ہمیں دشمن کے دوہرے حملوں سے خود کو محفوظ کرنا ہے ، جہاں ایک طرف عوام کا بین الاقوامی صحت کے منصوبوں اور ان کے تحت چلنے والے پروگراموں پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے،وہیں ہمیں ورجینیا کے گدلے پانیوں سے اٹھی ،ایسی نان اسٹیٹ،دشمن ایجنسیوں سے بھی خود کو بچانا ہے،اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔